پارا چنار

ویکی شیعہ سے
(پارہ چنار سے رجوع مکرر)
پاراچنار
عمومی معلومات
ملکپاکستان
صوبہخیبر پختون خوا
نامپاراچنار
زبانپشتو
قومیتطوری، بنگش
ادیاناسلام
مذہبشیعہ، اہل سنت
مسلم آبادیسو فیصد
اماکن
حوزہ علمیہمدرسہ جعفریہ
مساجدجامع مسجد پاراچنار
امام بارگاہیںمرکزی امام بارگاہ
مشاہیر
مذہبیشیخ رجب علی


پَاراچِنار پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے ضلع کرم کامرکزی شہر ہے۔ یہاں پشتو بولی جاتی ہے۔پاراچنار افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے ۔اس شہر کی بیشتر آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے ۔قدیمی تاریخ کے اعتبار سے آریائی لوگوں نے اس گذرگاہ کو اپنے لیے استعمال کیا ۔ 1890ء میں افغانوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر طوری قبیلہ نے ہندوستان کی متحدہ حکومت کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کی۔ 1893ء میں باڈر کی نشاندہی ہوئی ۔1948ء میں قائد اعظم کے اصرار پر دیگر ایجنسیوں کی طرح کرم ایجنسی نے پاکستان کیساتھ الحاق کیا۔ پارا چنار میں سنی شیعہ مذہبی فسادات ہوتے رہے جس میں اب تک بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔2007ء میں سنی شیعہ جنگ کے نتیجے میں 5000 افراد مارے جانے کی اطلاع ہے۔

جغرافیائی حدود

پاراچنار پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواکے کوہاٹ ڈویژن میں واقع ضلع کُرم کا مرکزی شہر ہے جو اسلام آباد سے مغرب کی طرف 580 کلومیٹر [1] اور پشاور سے 258 کلومیٹر کے فاصلے پر[2] کوہ سفید کے دامن میں واقع ہے۔[3]33.54 درجے عرض بلد(شمالی) اور 70.6 طول بلد(شرقی)پر افغانستان کی سرحد کے پاس درۂ کرم پر واقع ہے۔[4] درۂ کرم بالائی اور زیریں دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔پارا چنار اس کے بالائی حصے پر واقع ایک مرکزی شہر ہے ۔اس کے اطراف کے بلند و بالا پہاڑ سبزے سے ڈھکے ہوئے ہیں۔سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے گرمیوں میں اس کا درجۂ حرارت 37سنٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرتا ہے ۔

بارڈر کی نشاندہی

  • 1890 ء میں افغانستان کے متعصب حکمرانوں بچہ سقا اور امان الله خان کے مسلسل ظلم ستم سے تنگ آکر طوری قبیلے نے طویل جدوجہد کے بعد انگریزوں کیساتھ مل کر کرم ایجنسی کو متحده ہندوستان میں شامل کرلیا تھا اور ڈیورنڈ لائن کے اُس پار انگریزوں نے طوری قبیلے کے حفاظت کیلئے 1893ء میں طوری میلشیا کے نام سے قبائلی ملیشیا بنایا جو بعد میں کرم ملیشیا بن گیا اور 1948ء میں قائد اعظم کے اصرار پر دیگر ایجنسیوں کی طرح کرم ایجنسی بھی پاکستان کیساتھ ملحق ہو گئی ۔[5]
  • 1893ء میں افغانستان کے امیر آصف رحمان خان بنگش کے دور حکومت میں انڈین برطانوی حکومت اور افغانستان کے درمیان بارڈر کی نشاندہی رائل کمیشن کے ذریعے انجام پائی۔پاراچنار موجودہ فاٹا پاکستان کا حصہ اور اس کے نزدیک خوست کا علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا۔برطانیہ کی جانب سے سر مورتائیمر ڈیورنڈ اور پولیٹیکل ایجنٹ صاحبزادہ عبد القیوم موجود تھے۔ [6]
فائل:چنار کا قدیمی درخت.jpg
چنار کا وہ قدیمی درخت جو وجہ تسمیہ بتایا جاتا ہے

وجہ تسمیہ

اس شہر کو پارا چنار یا پاڑا چنار کا نام دینے کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں:

  1. شہر میں چِنار کا ایک تناور درخت تھا جس کے نیچے پارا چمکانی نام کا قبیلہ اپنے قبائلی مسائل کے حل کیلئے اجلاس بلاتا تھا اور وہ درخت آج بھی موجود ہے ۔[7]مال کرتے ہیں۔[8]
  • اس شہر میں چنار کے درختوں کی کثرت کی وجہ سے اسے پارا چنار کہا جاتا ہے۔
  • اس شہر میں پارا نام کا قبیلہ آباد تھا اس مناسبت سے پارا چنار کہلاتا ہے۔[9]

تاریخچہ

قدیم ایام سے ہی درۂ کرم ایک آسانترین گذرگاہ شمار ہوتی تھی۔4000-2000 قبل از میلاد مسیح، آریائی قوم نے برصغیر پاک و ہند آنے کیلئے اسی آسان گذرگاہ کو اپنے لئے استعمال کیا ۔5ویں اور7ویں صدی کے چینی بودائی راہبانوں نے اس علاقے کے لوگوں کو دیکھا اور کہا کہ اس علاقے کے لوگ بودائی آئین کے پروکار تھے۔[10]

اسلامی تاریخچہ

فائل:پارا چنار مرکزی امام بارگاہ.jpg
مرکزی جامع مسجد اور امام بارگاہ

اس علاقے کی اسلامی تاریخ کے مطابق شروع میں غزنویوں پھرغوریوں کے زیر تسلط رہا ۔مغلوں کے ساتھ ملحق رہا اور اس دور میں ایک نہایت اہم فوجی چھاؤنی سمجھا جاتا تھا۔مغلوں کی حکومت کے کمزور ہو جانے کے بعد افغان حکام کے تابع فرمان رہا۔1151 ھ ق /1738 میلادی میں نادر شاہ نے ہندوستان پر قبضے کے دوران اس پر قبضہ کیا۔

1272ھ / 1856ء کو انگریزی فوجیں وہاں داخل ہوئیں اور اس پر قابض تو ہو گئیں لیکن افغان قبائل سے انکی جھڑپیں جارہیں یہانتک کہ 1309ھ میں اس علاقے کے ساکنین طوری قبیلے کے شیعہ لوگوں کی درخواست پر انگریزوں کی حاکمیت میں آگئے۔بالآخر 1310ھ/1892ء میں یہ شہر بھی برطانیہ کی انگریز حکومت کا حصہ قرار پایا۔[11] 1947م پاکستان کی آزادی کے موقع پر پارا چنار پاکستان میں منضم ہو گیا ۔[12]

روس کی افغانستان میں فوجی مداخلت کے موقع پر بہت سے افغان مہاجرین نے اس شہر کا رخ کیا جس کی وجہ سے یہاں کے حالات خراب رہنے لگے یہانتک کہ سنی شیعہ فسادات میں طرفین کے لوگ مارے جاتے رہے ۔فوجی حاکم صدر ضیاء الحق کی حاکمیت کے سن 1985 میں حکومتی پشت پناہی، وہان کے مقامی سنی اور افغان مہاجرین کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے پارا چنار میں سنی شیعہ فسادات جاری ہوئے آگ لگی رہی ۔اخیرا افغانستان میں القاعدہ کی حکومت کی سرنگونی کے بعد طالبان اور القاعدہ کے افراد کی یہ مضبوط پناہ گاہ رہا ۔2002 ء میں امریکی اور پاکستانی افواج نے طالبان اور القاعدہ کی تحریک کچلنے کیلئے پارا چنار پر چڑھائی کی ۔[13]

مذہبی فسادات

  • 1981 و 1982ء میں کرم ایجنسی (موجوده ضلع کرم) کے تمام سنی قبائل نے افغان مہاجرین کے ساتھ مل کر صدہ قصبہ میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول کر دادو حاجی کے سارے خاندان کو شهید کر دیا اور صده قصبے سے شیعہ آبادی کو مکمل طور پر بے دخل کر دیاگیا جو آج تک آباد نہیں ہو سکے۔ اس وقت تک انگریز کا بنایا گیا کرم ملیشیا وادی کرم میں موجود تھا لہذا جنگ صده تک ہی محدود رہی اور ایجنسی کے دیگر علاقوں تک نہیں پھیلنے دی گئی۔ یاد رہے کرم ملیشیا صرف طوری قبیلہ پر مشتمل نہیں تھا بلکہ اس میں مینگل، مقبل، بنگش سمیت ایجنسی کے سارے قبائل کی متناسب نمائندگی موجود تھی جو کہ اپنے اپنے علاقے کے امن قائم رکھنے کے ذمہ دار تھی۔
  • 1987/88 ضیاءالحق کے دور میں شیعہ مسلک کے قائد علامہ عارف حسین الحسینی کو شہید کیا گیا اور علاقے کے سنی قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر مقامی شیعہ آبادی پر حملہ کردیا جو صده قصبے سے ہوتے ہوئے بالش خیل اور ابراہیم زئی جیسے بڑے گاؤں کو روندتے اور جلاتے ہوئے سمیر گاؤں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور بعد میں طوری لشکر نے پسپا کرکے واپس صده کی طرف دھکیل دیا لیکن دسیوں گاؤں جلائے اور لوٹے گئے، امام بارگاہیں اور مساجد مسمار کردی گئیں۔ 17 دن پر محیط لڑائی میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔اس لڑائی میں انتظامیہ نے مداخلت نہیں کی۔
  • 1996ء میں رسول اللہ کے چچا اور حضرت علی کے والد حضرت ابو طالب کی توہین کی گئی اور مقامی شیعہ آبادی کو اشتعال دلا کر خونریز جنگ کا آغاز کیا گیا جو کئی ہفتے تک جاری رہی۔پاراچنار ہائی سکول میں اسکے پرنسپل اسرار حسین کو قتل کیا گیا جسے بعد صدارتی تمغہ دیا گیا، اسکے بعد کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی کو محصور کیا گیا اور انکے لئے پاراچنار تک رسائی کے صرف ایک راستے ٹل پاراچنار روڈ کو بند کر دیا ۔
  • 2001ء میں فرقہ ورانہ فسادات شروع ہوئے اور پیواڑ پر لشکر کشی کی گئ، پیواڑ کے مختلف گاؤں سمیت مرکزی امام بارگاه پر بمباری کئ گئی جس میں درجنوں لوگ قتل کیے گئے۔
  • 2007ء میں طالبان نے انجمن سپاه صحابہ پاراچنار کے سیکریٹری جنرل عید نظر المعروف "یزید نظر" کیساتھ ملکر 12 ربیع الاول کے عید میلاد النبی کے جلوس میں حسین مرده باد اور یزید زنده باد کے اشتعال انگیز نعروں کی وجہ سے فرقہ ورانہ جنگ کا آغاز کیا۔جس میں حکیم الله محسود اور منگل باغ نے جنگ کی کمان سنبھالی اور وزیرستان سے لیکر خیبر تک کے سنی قبائل کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی پر حملہ آور ہوئے۔ سینکڑوں قتل ہوئے اور امام بارگاه سمیت آدھے پاراچنار شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ پانچ ہزار سے زیاده ہلاکتیں ہوئیں۔ صده کے مین بازار میں شیعہ افراد گاڑیوں سے اتار کر قتل کئے گئے ۔یہ لڑائی پانچ سال تک جاری رہی۔ پاراچنار کو پاکستان سے ملانے والی واحد شاہراه کئی سال تک بند رہی۔ تین سال پاراچنار کا محاصره جاری رہا اور طوری بنگش قبائل افغانستان کے راستے تیس گھنٹے کا سفر طے کر کے پارا چنار پہنچتے۔ بچے ادویات اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مرنے لگے اور لوگ فاقے کاٹنے پر مجبور ہوئے۔
  • 2011ء میں شلوزان تنگی اور خیواص میں فسادات ہوئے۔ جس میں خیواص گاؤں پر حملہ کرکے جلایا گیا، ایک سو سے زیاده لوگ قتل کئے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔[14]
  • 4 مئی 2023 کو پاراچنار کے تری مینگل نامی گاوں میں ہائی سکول میں امتحانات کے دوران چار شیعہ اساتذہ کو شہید کیا گیا۔[15]
  • 8 جولائی 2023ء کو پاراچنار کے دو گاؤں میں زمینی تنازعہ ہوا ان کے مابین جھگڑے کے تناظر میں پورا پاراچنار جنگ کی لپیٹ میں آگیا اور متعدد شیعہ شہید اور زخمی ہوئے۔[16]

آبادی اور تعلیم

طوری پارا چنار کےسب سے بڑے قبیلے کا نام ہے جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے ۔اسی وجہ سے پارا چنار ایک شیعہ نشین علاقے کے طور پر جانا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ اس شہر میں آباد قبیلے سید،اورکزئی،مینگل ، پارا تسامکانی ، ملک خیل ، غلزائی ، مُقبل ، ہزاراہ،خوشی مسیحی اور سکھ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔باشندوں کی اکثریت پشتو زبان میں گفتگو کرتی ہے ۔شیعہ نشین علاقہ ہونے کی وجہ سے ملک کی داخلی سیاست اور افغانستان کے مذہبی متشددانہ عوامل اور سیاست کی بنا پر اس علاقے میں کئی مرتبہ شیعوں کا بلا دریغ خون بہایا گیا ہے ۔

قبائلی ایجنسیوں میں سے کرم ایجنسی تعلیمی تناسب کے لحاظ سے سب سے آگے ہے۔کرم ایجنسی میں تعلیم کی شرح 6.25٪ جس میں سے مردوں کی شرح خواندگی 11.4 اور خواتین کی شرح خواندگی 0.85٪ ہے۔ پارا چنار شہر کرم ایجنسی کیلئے ایک تعلیمی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے ۔پارا چنار میں اس وقت تین کالج : پوسٹ گریجویٹ کالج پاراچنار، مینجمنٹ سائنسز پاراچنار کے گورنمنٹ کالج، اور گرلز پاراچنار بینظیر کالج قابل ذکر ہیں۔ [17]

شخصیات

اس علاقے کی معروف شخصیات جن کا پاراچنار میں کلیدی کردار رہا ہے ان میں سے مندرجہ ذیل بعض قابل ذکر ہیں:

  • شہید علامہ سید عارف حسین حسینی

سید عارف حسین حسینی 25 نومبر 1946 عیسوی کو پاکستان کے شمال مغرب میں واقع شہر پاراچنار کے نواحی گاؤں پیواڑ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ امام خمینی سمیت نجف اور قم کے حوزات علمیہ کے مشہور فقہاء کے شاگردوں میں سے تھے۔ 5 اگست سنہ 1988 کو پشاور میں اپنے مدرسے میں صبح کے نماز کے بعد نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگئے۔

  • شیخ رجب علی نجفی۔
  • شیخ علی مدد نجفی۔
  • شہید محمد نواز عرفانی
  • جنرل جمال سید میاں۔
  • پرنسپل اسرار حسین(صدارتی تمغہ)۔

مقامات

پارا چنار کے درج ذیل مقامات قابل ذکر ہیں:

  • پیواڑ
ضلع کُرم اور افغانستان کے یکتا صوبے سے ملانے والے پہاڑی راستے کا نام درۂ پیواڑ ہے۔ یہیں اسی راستے پر پارا چنار سے کچھ مسافت پر موجود سرحدی گاؤں کو پیواڑ کہا جاتا ہے ۔28/29 نومبر1878ء میں سر فیڈرک رابرٹ کی کمان میں برطانوی فوج اور کریمخان کی کمان میں افغان فوج کی جنگ ہوئی جس میں برطانوی فوج کو فتح حاصل ہوئی[18][19]۔یہی گاؤں شہید سید عارف حسین حسینی کا آبائی وطن بھی ہے۔ جہاں آپ پیدا ہوئے ۔1988ء میں سید عارف حسین حسینی کو یہاں دفن کیا گیا۔اب ہر سال ان کی شہادت کی مناسبت سے اس گاؤں میں شیعہ آبادی کا ایک پر رونق اجتماع ہوتا ہے ۔
  • صدہ
پارا چنار سے پہلے ایک قصبے کا نام ہے جو شیعہ آبادی پر مشتمل تھا۔1981/1982 میں تمام سنی قبائل نے مل کر اس قصبے پر حملہ کر دیا اور حاجی قبیلے کے تمام افراد کو قتل کر دیے نیز شیعوں کو اس شہر سے نکال دیا ۔ اس کے بعد سے لے کر ابھی تک شیعہ اپنے قصبے میں آباد نہیں ہو سکے ہیں۔[حوالہ درکار]

دینی مدارس

پاراچنار میں تین دینی مدرسے ہیں

  • مدرسہ جعفریہ یہ مدرسہ شیخ رجب علی نے بنایا جو تین منزل پر مشتمل ہے اور شیخ علی مدد نجفی نے اس کی تیسری منزل بنوائی۔
  • مدرسہ آیت اللہ خامنہ ای اس مدرسے کو پاراچنار کے عالم دین سید عابد حسین حسینی نے بنوایا۔
  • مدرسہ دارالزھراع یہ مدرسہ پاراچنار شہر کے مضافات میں نستی کوٹ نامی گاوں میں خواہران کی دینی تعلیم کے غرض سے بنایا گیا ہے۔[حوالہ درکار]


مذہبی مقامات

عید نوروز پر علی زیارت پاراچنار میں علَم کشائی کا منظر

پاراچنار کے مقامات میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • مرقد سید عارف حسین حسینی: یہ مقبرہ پیواڑ نامی گاوں میں واقع ہے جس میں پاکستانی شیعوں کے قائد دفنایا گیا ہے۔
  • مرقد شہید محمد نواز عرفانی: نواز عرفانی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں شہید ہوئے
  • علی زیارت: یہ بارگاہ زیڑان نامی گاوں میں واقع ہے اور امام علیؑ سے منسوب ہے
  • مختلف گاوں میں علمدار عباس سے منسوب زیارتگاہیں اور مختلف پیر و مریدوں کی بارگاہیں پائی جاتی ہیں

مذہبی رسومات

  • پاراچنار میں عید نوروز منایا جاتا ہے جس کا مرکزی اجتماعی زیڑان نامی گاوں میں امام علیؑ سے منسوب علی زیارت پر منعقد ہوتا ہے جس میں علم کشائی کی جاتی ہے۔[20]
  • 13 رجب کو ولادت امام علیؑ کی مناسبت سے دو روزہ جشن کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ہر دن دو سیشن ہوتے ہیں۔[حوالہ درکار]


حوالہ جات

  1. http://urdu.shafaqna.com/UR/37040 اسلام آباد سے فاصلہ]
  2. کرم ایجنسی کی زمینیں دریائے کرم اور اس سے نکلنے والی ذیلی شاخوں کے ذریعے سیراب ہوتی ہیں۔
  3. سید قاسم محمود،پاکستانیکا،ص 330،الفیصل ناشران و تاجران کتب ،لاہور۔
  4. کاظم موسوی بجنوردی،دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی،13/501بحوالہ:britannicca.
  5. دنیا پاکستان
  6. ایضا
  7. سید قاسم محمود ،پاکستانیکا ص330،الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور۔
  8. ایضا۔
  9. کاظم موسوی بجنوردی،دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 13/501بحوالۂ اردو دائرہ معارف اسلامیہ لاہور۔
  10. کاظم موسوی،دائرہ المعارف بزرگ اسلامی،13/501۔
  11. اردو دائرۃ معارف لاہور
  12. کاظم موسوی،دائرہ المعارف بزرگ اسلامی،13/501۔ بحوالۂ britannica
  13. کاظم بجنوردی، دائرہ المعارف بزرگ اسلامی 501
  14. روز نامہ دنیا پاکستان
  15. پارا چنار کے سکول میں فائرنگ سے اساتذہ سمیت سات افراد قتل
  16. کرم میں زمینی تنازع: چار اموات کے بعد فائر بندی
  17. ویکی پیڈیا
  18. پیواڑ
  19. پیواڑ کوتل
  20. «پاکستان میں نوروز "عالم افروز" اور "ایران صغیر" کی کہانی» ایرنا نیوز ایجنسی

مآخذ