ولی کی اجازت
ولی کی اجازت یا اذنِ ولی، کا مطلب ایسے شخص کی اجازت ہے جو بعض امور میں دوسروں پر ولایت رکھتا ہے۔ شیعہ فقہا کے نزدیک، ولی کی اجازت بعض مواقع پر ضروری ہے؛ مثال کے طورپر؛ بچے کا اپنے مال میں تصرف (باپ یا دادا یا ان کے وصی کی اجازت سے)، دیوانہ اور کم عقل کا اپنے یا دوسروں کے مال میں تصرف، کنواری لڑکی کا نکاح (باپ یا دادا کی اجازت سے)، میت کی تجہیز و تکفین (ورثہ کی اجازت سے)، قاتل کا قصاص (ورثہ کی اجازت سے) اور لوگوں کے درمیان فیصلہ یا انفال میں تصرف (ولی فقیہ کی اجازت سے)۔
تعریف اور اہمیت
فقہ میں ولی اُس شخص کو کہا جاتا ہے جسے کسی دوسرے کے مال یا امور پر اختیار حاصل ہو؛[1] جیسے باب یا دادا نابالغ بچے، دیوانے یا سفیہ پر ولایت رکھتے ہیں۔[2] ولی کی اجازت ان اصطلاحات میں سے ہے جو مختلف فقہی ابواب میں استعمال ہوتی ہے؛ جیسے عاریت،[یادداشت 1][3] زکات،[4] نکاح،[5] حجر،[6] میت کی تجہیز و تکفین،[7] نماز جمعہ[8] اور وقف۔[9]
فقہ میں استعمال
شیعہ فقہ میں ولی کی اجازت کا درج ذیل موارد میں استعمال ہے:
باپ اور دادا کی اجازت
درج ذیل مواقع پر باپ یا دادا کی اجازت کو لازمی قرار دیا جاتا ہے:
- نابالغ بچے کو اپنے مال میں تصرف کے لئے؛[10] جیسے مال کو عاریت پر دینا[11] یا مال کی زکوٰۃ ادا کرنا؛[12]
- دیوانہ کو اپنے یا دوسروں کے مال میں تصرف کے لئے؛ جیسے خرید و فروخت؛[13]
- نابالغ بچوں (لڑکے یا لڑکی) کے نکاح کے لیے؛[14]
- کنواری عاقل اور بالغ لڑکی کے نکاح کے لئے؛ رشیدہ[یادداشت 2] بالغ اور عاقل لڑکی کے نکاح میں شیعہ فقہا کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[15]
باپ اور دادا کے وصی کی اجازت
شیخ طوسی اور علامہ حلی کے مطابق، باپ یا دادا، بچے کے مالی امور کے لیے وصی مقرر کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں ان کی وفات کے بعد وصی کی اجازت سے معاملات انجام پائیں گے۔[16] البتہ باپ یا دادا میں سے کسی کے وصی کی اجازت صرف اس صورت میں قابل عمل ہے جب دوسرا زندہ نہ ہو کیونکہ اگر باپ اور دادا میں سے کوئی ایک زندہ ہو تو وہ خود بچے کا ولی ہے وصی کی نوبت ہی نہیں آتی۔[17]
نابالغ بچے کی نکاح میں وصی کی اجازت کے مسئلے پر فقہا کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[18] سید موسی شبیری زنجانی کے مطابق، اس بارے میں دو مشہور نظریے ہیں؛ ایک گروہ وصی کو نکاح کی اجازت دینے کا اہل سمجھتے ہیں؛ جن میں شیخ طوسی اپنی کتاب خلاف، علاّمہ حلی اپنی کتاب مختلف، شہید اول اپنی کتاب غایة المراد، فاضل مقداد اپنی کتاب تنقیح، محقق کرکی اپنی کتاب جامع المقاصد، شہید ثانی اپنی تین کتابوں (روضہ، مسالک اور حاشیہ ارشاد)، حرّ عاملی اپنی کتاب وسائل الشیعہ اور محمدحسن نجفی اپنی کتاب جواہر میں اسی نظریے کے قائل ہیں۔
جبکہ ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ وصی کو نکاح کی اجازت کا اہل نہیں مانتے۔ جیسے شیخ طوسی اپنی کتاب مبسوط، محقق حلی اپنی کتاب شرایع، علامہ حلی اپنی چھ کتابوں (قواعد، تحریر، تذکرہ، تبصرہ، ارشاد و تلخیص المرام)، شہید اوّل اپنی کتاب لمعہ، فاضل سبزواری اپنی کتاب کفایہ، سید علی طباطبائی اپنی کتاب ریاض، و ملا احمد نراقی اپنی کتاب مستند میں اس نظریے کے قائل ہیں۔[19]
میت کی تجہیز و تدفین کی اجازت
میت کو غسل، کفن، نمازِ جنازہ اور دفن کے لیے میت کے ولی سے اجازت لینا ضروری ہے۔[20] ان امور میں میت کا ولی وہ افراد ہیں جو ارث کے درجات میں میت کے وارث بنتے ہیں۔[21] امام خمینی کے فتوے کے مطابق، اگر میت عورت ہو تو شوہر اس کا ولی ہوگا، اور اس کے بعد مرد ورثا، عورتوں پر مقدم ہوں گے، اسی طرح ارث کا پہلا طبقہ بعد والے طبقے پر مقدم ہوگا۔[22]
قصاص میں ولی کی اجازت
شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ خوئی(متوفی 1371ش) کے مطابق، اگر کوئی مسلمان قتل ہو جائے تو قصاص کا حق صرف مقتول کے ولی دم[یادداشت 3] کو حاصل ہے۔ اگر کوئی دوسرا شخص ولی کی اجازت کے بغیر قاتل سے قصاص لے کر اسے قتل کرے تو اس سے خود قصاص لیا جائے گا۔[23]
شیعہ مرجع تقلید اور مفسر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کے مطابق، اگر ورثا کے درمیان قصاص یا دیت پر اختلاف ہو تو جو دیت کے حق میں ہوں، انہیں دیت دی جائے گی، اور باقی قصاص کر سکتے ہیں بشرطیکہ دیت کا حصہ قاتل کو ادا کریں، یہی حکم اس مورد میں بھی ہے جہاں ورثا کے درمیان قاتل کو معاف کرنے اور نہ کرنے میں اختلاف ہو۔[24]
ولی فقیہ کی اجازت
موسوعۃ الفقہ الاسلامی کے مطابق، شیعہ فقہا کے درمیان مشہور ہے کہ امام مہدیؑ کی غیبت کے زمانے میں معاشرتی عدل، احکام کا نفاذ، جھگڑوں کا فیصلہ اور عوامی مفادات کی حفاظت کے لیے فقیہ عادل کو ولایت حاصل ہے۔[25] ان کی اجازت درج ذیل امور میں ضروری ہے:
- کفار، باغیوں یا بعض مسلمانوں کے خلاف جہاد؛[26]
- لوگوں کے اختلافی معاملات کا حل و فصل اور حدود و قصاص کا نفاذ؛[27]
- انفال میں تصرف؛[28]
- نماز جمعہ کا قیام: محقق کرکی کے مطابق، نماز جمعہ کے واجب ہونے کے لئے امام معصوم یا اس کا نائب (جیسے ولی فقیہ) کی موجودگی شرط ہے؛[29]
- مستحقین تک زکات پہنچانا؛[30]
- لاوارث مال کی بطور صدقہ ادائیگی کے لئے؛[31]
- وقف شدہ مال کی فروخت اگر وہ بربادی کے قریب ہو؛[32]
- میت کی تجہیز اگر ولی ناتوان یا غائب ہو؛[33]
- وقف عام میں تبدیلی، جیسے مسجد میں نئی تعمیرات۔[34]
حوالہ جات
- ↑ طباطبایی، العروة الوثقی، 1423ھ، ج6، ص413۔
- ↑ علامہ حلّی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج2، ص21-20۔
- ↑ علامہ حلّی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج2، ص194۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج15، ص26۔
- ↑ ایروانی، دروس تمہیدیة فی الفقہ الاستدلالی، 1434ھ، ص23۔
- ↑ علامہ حلّی، تحرير الأحكام الشرعية، 1420ھ، ج2، ص541۔
- ↑ احکام کلّی مربوط بہ تجہیز میّت، سایت رسمی دفتر آیتاللہ سیستانی۔
- ↑ عاملی کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج2، ص371۔
- ↑ امام خمینی، کتاب البیع، 1421ھ، ج3، ص131۔
- ↑ علامہ حلّی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج2، ص20۔
- ↑ علامہ حلّی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج2، ص194۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج15، ص26۔
- ↑ حلّی، الجامع للشرایع، 1405ھ، ص360۔
- ↑ ایروانی، دروس تمہیدیة فی الفقہ الاستدلالی، 1434ھ، ص23۔
- ↑ شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج4، ص162؛ جمعی از پژوہشگران، موسوعة الفقہ الإسلامی، 1423ھ، ج8، ص293۔
- ↑ شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج2، ص200؛ علامہ حلّی، تحرير الأحكام الشرعية، 1420ھ، ج2، ص541۔
- ↑ علامہ حلّی، تحرير الأحكام الشرعية، 1420ھ، ج2، ص541؛ «ولایت وصی بر نکاح صغار از دیدگاہ امام خمینی»، سایت پورتال امام خمینی(رہ)۔
- ↑ «بررسی حق وصیّ در تزویج مجنون و صغیر و صغیرہ»، سایت مدرسہ فقاہت۔
- ↑ «بررسی حق وصیّ در تزویج مجنون و صغیر و صغیرہ»، سایت مدرسہ فقاہت۔
- ↑ «احکام کلّی مربوط بہ تجہیز میّت»، سایت رسمی دفتر آیتاللہ سیستانی۔
- ↑ «احکام درگذشتگان»، سایت حفظ و نشر آثار حضرت آیتاللہ العظمی خامنہای۔
- ↑ احکام غسل و کفن و نماز و دفن میت، پرتال امام خمینی(رہ)۔
- ↑ خویی، مبانی تکملة المنہاج، 1369ھ، ج2، ص69۔
- ↑ «اختلاف اولیا دم در عفو و دیہ و قصاص»، سایت پایگاہ اطلاعرسانی دفتر حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی۔
- ↑ جمعی از پژوہشگران، موسوعة الفقہ الإسلامی، 1423ھ، ج8، ص295۔
- ↑ جمعی از پژوہشگران، موسوعة الفقہ الإسلامی، 1423ھ، ج8، ص296-295۔
- ↑ جمعی از پژوہشگران، موسوعة الفقہ الإسلامی، 1423ھ، ج8، ص296۔
- ↑ جمعی از پژوہشگران، موسوعة الفقہ الإسلامی، 1423ھ، ج8، ص297۔
- ↑ عاملی کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج2، ص371۔
- ↑ عاملی کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج15، ص425۔
- ↑ طباطبایی، منہاج الصالحين (المحشّى)، 1410ھ، ج2، ص166۔
- ↑ امام خمینی، کتاب البیع، تہران، 1421ھ، ج3، ص131۔
- ↑ امام خمینی، تحریر الوسیلة، قم، بیتا، ج1، ص67۔
- ↑ شہيد اول، الدروس، 1417ھ، ج3، ص343۔
نوٹ
- ↑ عاریت یعنی کسی مال کو بغیر کسی اجرت کے دوسروں کے استعمال میں دے دینا۔ رجوع کریں: امام خمینی، تحریر الوسیلة، مؤسسہ مطبوعات دار العلم، ج1، ص591.
- ↑ رشیدہ یعنی ایسی لڑکی جو اپنی شادی بیاہ کے سلسلے میں عقلائی روش اپناتی جاتی ہو اور شادی کے معاملات جیسے مناسب رشتے کے انتخاب، مہریہ کی مقدار اور نوعیت نیز عقد کے ضمنی شرائط میں اپنی مصلحت کی تشخیص دے سکتی ہے۔ مراجعہ کریں: «ولایت بر دختر بالغۀ رشیدۀ باکرہ»، سایت دفتر آیتاللہ سیستانی.
- ↑ ولیّ دم ان اشخاص کو کہا جاتا ہے جو ارث کے طبقات کی ترتیب سے مقتول سے ارث پاتے ہیں، سوائے میاں بیوی کے جو ایک دوسرے کے قصاص کا حق نہیں رکھتے، لیکن دیت میں یہ دونوں بھی دوسروں کے ساتھ شریک ہیں۔ مراجعہ کریں: «حق قصاص برای تمام طبقات ارث»، سایت جامعالمسائل.
مآخذ
- «احکام درگذشتگان»، سایت حفظ و نشر آثار حضرت آیتاللہ العظمی خامنہای، تاریخ درج مطلب: 2 مہر 1393ش، تاریخ مشاہدہ: 21 تیر 1404ہجری شمسی۔
- «احکام غسل و کفن و نماز و دفن میت»، سایت پرتال امام خمینی، تاریخ مشاہدہ: 21 تیر 1404ہجری شمسی۔
- «احکام کلّی مربوط بہ تجہیز میّت»، سایت رسمی دفتر آیتاللہ سیستانی، تاریخ مشاہدہ: 05 شہریور، 1402ہجری شمسی۔
- «اختلاف اولیا دم در عفو و دیہ و قصاص»، سایت پایگاہ اطلاعرسانی دفتر حضرت آیتاللہ العظمی مکارم شیرازی، تاریخ مشاہدہ: 05 شہریور، 1402ہجری شمسی۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، تحریر الوسیلة، قم، مؤسسہ مطبوعات دار العلم، بیتا.
- امام خمینی، سید روحاللہ، کتاب البیع، تہران، مؤسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى(رہ)، 1421ھ۔
- ایروانی، محمدباقر، دروس تمہیدیة فی الفقہ الاستدلالی، قم، المصطفی، 1434ھ۔
- «بررسی حق وصیّ در تزویج مجنون و صغیر و صغیرہ»، سایت مدرسہ فقاہت، تاریخ مشاہدہ: 27 خرداد 1402ہجری شمسی۔
- جمعی از پژوہشگران، موسوعة الفقہ الإسلامی طبقا لمذہب أہل البیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بيت(ع)، 1423ھ۔
- حلّی، یحیی بن سعید، الجامع للشّرایع، قم، موسسہ علمی سیدالشہدا، 1405ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، مبانی تکملة المنہاج، قم، علمیہ، 1369ھ۔
- شہيد اول، محمد بن مكىعاملى، الدروس، قم، انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط، تہران، مرتضوی، 1387ھ۔
- طباطبایی، سید محسن، منہاج الصالحين (المحشّى)، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1410ھ۔
- طباطبایی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی، قم، انتشارات اسلامی، 1423ھ۔
- عاملی کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم، آل البیت، 1414ھ۔
- علامہ حلّی، حسن بن یوسف بن مطہّر، تحرير الاحكام الشرعية على مذہب الإمامية، قم، امام صادق(ع)، 1420ھ۔
- علامہ حلّی،حسن بن یوسف بن مطہّر، قواعد الاحکام، قم، انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
- «قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران»، سایت مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی، تاریخ مشاہدہ: 05 شہریور، 1402ہجری شمسی۔
- «قانون مدنی»، سایت مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی، تاریخ مشاہدہ: 05 شہریور، 1402ہجری شمسی۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار احياء التراث العربی، 1404ھ۔
- «ولایت وصی بر نکاح صغار از دیدگاہ امام خمینی (س)»، سایت پرتال امام خمینی، تاریخ مشاہدہ: 21 تیر 1404ہجری شمسی۔