قاعدہ لاتعاد
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
قاعدہ لَاتُعَاد نماز سے متعلق ایک فقہی قاعدہ ہے جس کے مطابق نماز میں کسی جزء یا شرط کی کمی بیشی سے نماز باطل نہیں ہوتی، مگر یہ کہ وہ کمی یا بیشی درج ذیل چیزوں سے متعلق ہو: طہارت، وقت نماز، قبلہ، رکوع اور سجدہ۔
اس قاعدے کی بنیاد پر ان پانچ مذکورہ چیزوں میں کسی قسم کا بھی خلل نماز کو باطل کردیتا ہے وہ خلل چاہے غلطی سے ہو یا بھول کر، چاہے نادانستہ ہو یا جان بوجھ کر، چاہے دانستہ طور پر ہو یا کسی اور وجہ سے۔ لیکن نماز کے کسی غیر رکن جزء یا شرط مثلا ذکر رکوع یا سجدہ وغیرہ میں اگر غلطی سے یا بھول کر کمی بیشی واقع ہوجائے تو اس صورت میں نماز باطل نہیں ہوگی اور اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ مجتہدین کے مشہور نظریے کے مطابق قاعدہ لا تعاد انجان اور لاعلم شخص کے بارے میں جاری نہیں ہوگا، انجان یا لاعلم شخص کی طرف سے نماز کے غیر رکن کسی جزء یا شرط مثلا قرائت نماز وغیرہ میں خلل واقع ہوجانے کی صورت میں اس کی نماز باطل ہے لہذا اس کو دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی۔
قاعدہ لاتعاد کا مدرک حدیث لاتعاد ہے۔ اس حدیث کو زرارہ بن اعین نے حضرت امام محمد باقرؑ اور حضرت امام جعفر صادقؑ سے نقل کیا ہے۔ اس حدیث کی سند صحیح اور اشکال سے خالی ہے۔
قاعدہ لاتعاد اور حدیث لاتعاد سے نماز کے مذکوہ اجزاء اور شرائط کے رکن ہونے کو بھی ثابت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ قاعدہ نماز کے دیگر کچھ ارکان کو بھی شامل ہوتا ہے جیسے نیت اور تکبیرۃ الاحرام وغیرہ۔
تعریف اور اہمیت
قاعدہ لاتُعاد نماز سے متعلق ایک فقہی قاعدہ ہے[1] کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ قاعدہ نماز کے تمام اجزاء، شرائط اور موانع میں جاری ہوتا ہے اس لیے یہ ایک فقہی قاعدے کے طور پر جانا جاتا ہے۔[2] چونکہ اس قاعدے کو حدیث لاتعاد سے استناد کیا گیا ہے اس لیے اسے قاعدہ لاتعاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔[3] قاعدہ لاتعاد تمام واجب اور مستحب نمازوں میں جاری ہوتا ہے۔[4]
’’قاعدہ لاتعاد‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ نماز کے بعض اجزاء یا شرائط میں کوئی کمی بیشی ہو تونامز باطل نہیں ہوگی جب تک کہ وہ ان پانچ چیزوں میں سے کسی ایک میں نہ ہو: طہارت، نماز، وقت نماز، قبلہ، رکوع اور سجدہ۔ ان پانچ چیزوں میں سے کسی ایک میں بھی خواہ غلطی سے یا لاعلمی کوئی خلل واقع ہوجائے تو نماز باطل ہوگی اوراسے اعادہ یا قضا کرنا ہوگا۔[5]
جس حدیث سے قاعدہ لاتعاد کا استناد کیا جاتا ہے، اس کے مطابق اس قاعدے کے دو حصے[6] یا درحقیقت دو قاعد ے ہیں۔[7] پہلا حصہ یا قاعدہ لا تعاد ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ بعض صورتوں میں نماز کا اعادہ نہیں کیا جائے گا؛ اور دوسرا حصہ یا قاعدہ قاعدہ تعاد ہے جس کے معنی ہیں بعض صورتوں میں نماز کا اعادہ لازم ہے۔ یہ حصہ حدیث کے لفظ "الا" استثناء سے سمجھ میں آتا ہے۔[8]
استعمال اور احکام
قاعدہ لاتعاد یا حدیث لاتعاد کے مطابق طہارت، وقت نماز، قبلہ، رکوع یا سجدے میں کوئی خلل واقع ہو،[9] یہ خلل چاہے غلطی سے ہو، یا بھول کر، دانستہ طور پر ہو یا غیر دانستہ طور پر،[10] نماز باطل ہونے کا سبب بنتا ہے۔ نیز مجتہدین کےمشہور قول کے مطابق،[11] اگر نماز کے مذکورہ اجزاء کے علاوہ کسی اور جزء یا شرط میں بھی جان بوجھ کر اورعلم و آگاہی کے ساتھ کوئی خلل ڈالے تو نماز باطل ہوگی۔ لیکن اگر نادانستہ یا غلطی سے خلل واقع ہو تو نماز باطل نہیں ہوگی اور اعادہ یا قضا کرنا واجب نہیں۔[12] خلاصہ کلام یہ کہ اگر نماز کے غیر رکنی اجزاء یا شرائط میں سے کسی ایک میں غلطی سے کوئی خلل واقع ہو تو نماز باطل نہیں ہوگی جیسے ذکر رکوع یا سجدہ وغیرہ۔[13] کہا جاتا ہے کہ فقہاء کا مشہور نظریہ یہ ہے کہ قاعدہ لاتعاد جاہل اور غیر متوجہ شخص کے بارے میں جاری نہیں ہوگا۔ یعنی نماز کے اجزاء و شرائط سے متعلق لاعلم انسان اگر کسی غیر رکنی جزء یا شرط، مثلا قرائت نماز وغیرہ میں خلل ڈالے تواس کی نماز باطل ہوگی اور بعد میں اعادہ کرنا لازم ہے۔[14]
حدیث لاتعاد کے ذریعے سے رکوع،[15] سجدہ (دونوں ملا کر ایک سجدہ شمار ہوگا)[16] اور طہارت، وقت و قبلہ[17] کا رکن ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ نیز نماز کے کسی رکنی جزء یا شرط میں خلل واقع ہونے کی صورت میں نماز کے باطل ہونے کو بھی اسی قاعدے سے استفادہ کیا جاتا ہے۔[18] آیت اللہ سبحانی کہنا ہے کہ نیت اور تکبیرۃ الاحرام جو کہ نماز کے ارکان میں سے شمار ہوتے ہیں؛ سب کے پاس ان کی رکننیت واضحو روشن ہونے کی وجہ سے اس حدیث میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔[19] آیت اللہ مشکینی کا کہنا ہے کہ نماز کی نیت اور تکبیرۃ الاحرام جیسے اجزاء کی رکنیت دوسرے دلائل سے ثابت ہوتی ہے اور قاعدہ لاتعاد ان کے رکن ثابت کرنے والی دلیل سے تخصیص پاتا ہے؛ بعبارت دیگر نیت اور تکبیرۃ الاحرام جیسے ارکان میں بھی اگر کوئی خلل واقع ہو تو اس صورت میں بھی نماز باطل ہوگی اور اعادہ کرنا ہوگا۔[20] بعض فقہاء کہتے ہیں کہ قاعدہ لا تعاد تمام ارکان نماز[یادداشت 1] کو شامل ہے۔[21]
کہا جاتاہے کہ حدیث لاتعاد یا قاعدہ لاتعاد میں مذکور طہارت سے مراد طہارت عن حَدَث[یادداشت 2] ہے لہذا طہارت عن خَبَث (نجاست) کو شامل نہیں۔[22] قبلہ میں خلل سے مراد یہ ہے کہ پیٹھ، دائیں یا بائیں رخ قبلہ کی طرف ہو؛وقت میں خلل ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ وقت ہونے سے پہلے نماز پڑھ لی جائے۔[23] رکوع اور سجدے میں خلل سے مراد یہ ہے کہ انہیں بھول کر انجام نہ دیا جائے[24] یا ان میں کمی بیشی کی جائے۔[25]
نماز کو اعادہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اسے دوبارہ پورے اجزاء و شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے۔[26]
قاعدہ کا مدرک: حدیث لاتعاد
فقہاء کے نزدیک قاعدہ لاتعاد کا مدرک حدیث لاتعاد ہے۔[27] حدیث لاتعاد کو زرارہ بن اعین نے امام محمد باقرؑ[28] اور امام جعفر صادقؑ[29] سے نقل کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: «لَا تُعَادُ الصَّلَاةُ إِلَّا مِنْ خَمْسَةٍ الطَّهُورِ وَ الْوَقْتِ وَ الْقِبْلَةِ وَ الرُّكُوعِ وَ السُّجُود؛ نماز کا اعادہ اعر تکرار نہیں ہوگا مگر ان پانچ چیزوں میں: طہارت، وقت، قبلہ، رکوع اور سجدہ»۔[30]
علما اسے صحیح السند حدیث سمجھتے ہیں۔[31] شیعہ فقیہ آیت اللہ سبحانی الخصال شیخ صدوق میں منقول امام جعفر صادقؑ کی حدیث کو سو فیصد صحیح اور شیخ طوسی کی کتاب التہذیب میں منقول حدیث کو بھی اشکال سے خالی سمجھتے ہیں۔[32] کہتے ہیں کہ اس حدیث کے صحیح السند ہونے کے علاوہ فقہا نے اس پر عمل بھی کیا ہے۔[33] حدیث لاتعاد کو دلالت کے لحاظ سے بھی اشکال سے خالی سمجھاجاتا ہے۔[34]
بعض فقہاء کی نظر میں قاعدہ لاتعاد کا تنہا مدرک حدیث لاتعاد ہے؛[35] لیکن کچھ دیگر روایات بھی اس کے مدرک کے طور بیان کی جاتی ہیں؛[36] منجملہ یہ روایت: «إِنِّی صَلَّیْتُ الْمَکْتُوبَةَ فَنَسِیتُ أَنْ أَقْرَأَ فِی صَلَاتِی کُلِّهَا فَقَالَ أَ لَیْسَ قَدْ أَتْمَمْتَ الرُّکُوعَ وَ السُّجُودَ قُلْتُ بَلَی قَالَ قَدْ تَمَّتْ صَلَاتُکَ إِذَا کَانَ نِسْیَاناً؛ منصور بن حازم نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں عرض کیا: واجب نماز میں میں حمد و سورہ پڑھنا بھول گیا۔ (اس کا شرعی حکم کیا ہے؟) امامؑ نے فرمایا: کیا تو نے رکوع اور سجدے کو مکمل طور پر پڑھ لیا ہے؟ راوی نے کہا: جی ایسا کیا ہے۔امامؑ نے فرمایا: اگر بھول کر حمد و سورہ کو نہ پڑھایا جائے تو تمہاری نماز صحیح ہے۔(اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں)۔»[37] اس حدیث کے مطابق اگر رکوع اور سجدہ مکمل ہو تو نماز کے دوسرے اجزاء و شرائط میں خلل نماز کو باطل نہیں کرتا۔[38]
مونوگراف
قواعد فقہی کی کتابوں میں قاعدہ لاتعاد[39] پر بحث ہوتی ہے ؛ اس کے علاوہ مستقل بنیادوں پر بھی فارسی اور عربی زبان میں اس موضوع پر کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
- نظرۃ مستوعبۃ فی حدیث لاتعاد: بحث فقہی معمق عن حدیث «لاتعاد الصلاۃ الا من خمس...»، مولف: محمد ہادی معرفت۔ یہ کتاب سنہ 2001ء میں نجف اشرف سے شائع ہوئی ہے۔
- قاعدہ لاتعاد: از قلم: محمد حسن گلی شیردار، دانشگاہ عدالت پبلشرز نے اسے سنہ 2017ء میں شائع کیا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج1، ص79؛ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص477؛ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385شمسی، ج6، ص354۔
- ↑ مکارم شیرازی، القواعد الفقہیہ، 1370شمسی، ج1، ص509۔
- ↑ مکارم شیرازی، القواعد الفقہیہ، 1370شمسی، ج1، ص512۔
- ↑ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص477۔
- ↑ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص477 و 478؛ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385شمسی، ج6، ص354۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379شمسی، ج2، ص335و336؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج1، ص89۔
- ↑ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص477؛ «قاعدہ لاتعاد الا من خمسۃ»، درس خارج آیت اللہ سبحانی (1393/6/26)، مدرسہ فقاہت۔
- ↑ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص477۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: شہید اول، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، 1419ھ، ج3، ص385؛ عاملی، مدارک الاحکام، 14011ھ، ج3، ص401۔
- ↑ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص478۔
- ↑ موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379شمسی، ج2، ص339۔
- ↑ موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379شمسی، ج2، ص343؛ مؤسسہ دایرہالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385شمسی، ج6، ص355؛ «قاعدہ لاتعاد الا من خمسۃ»، درس خارج آیتاللہ سبحانی (1393/6/26)، مدرسہ فقاہت۔
- ↑ شہید اول، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، 1419ھ، ج4، ص35 و 36؛ ملاحظہ کیجیے: عاملی، مدارک الاحکام، 14011ھ، ج4، ص109۔
- ↑ موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379شمسی، ج2، ص339؛ مؤسسہ دایرہ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385شمسی، ج6، ص355۔
- ↑ شہید اول، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، 1419ھ، ج3، ص364۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: عاملی، مدارک الاحکام، 14011ھ، ج3، ص401۔
- ↑ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص479۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: عاملی، مدارک الاحکام، 14011ھ، ج4، ص219۔
- ↑ «قاعدہ لاتعاد الا من خمسۃ»، درس خارج آیتاللہ سبحانی (1393/6/26)، مدرسہ فقاہت۔
- ↑ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص479۔
- ↑ موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379شمسی، ج2، ص335و343۔
- ↑ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص478؛ موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379شمسی، ج2، ص343۔
- ↑ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص478 و 479۔
- ↑ موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379شمسی، ج2، ص350۔
- ↑ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص479۔
- ↑ «قاعدہ لاتعاد الا من خمسۃ»، درس خارج آیتاللہ سبحانی (1393/6/26)، مدرسہ فقاہت۔
- ↑ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج1، ص79؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقہیہ، 1370شمسی، ج1، ص513؛ مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385شمسی، ج6، ص354۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص279، حدیث 857 و ص339، حدیث 992؛ شیخ طوسی، التہذیب، 1407ھ، ج2، ص152، حدیث55۔
- ↑ شیخ صدوق، الخصال،1362شمسی، ج1، ص284 و 285۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص279، حدیث 857 و ص339، حدیث 992؛ شیخ طوسی، التہذیب، 1407ھ، ج2، ص152، حدیث55۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: مجلسی، روضۃ المتقین، 1406ھ، ج2، ص399؛ مشکینی، مصطلاحات الفقہ، 1392شمسی، ص477؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج1، ص79۔
- ↑ «قاعدہ لاتعاد الا من خمسۃ»، درس خارج آیتاللہ سبحانی (1393/6/26)، مدرسہ فقاہت۔
- ↑ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج1، ص79۔
- ↑ مکارم شیرازی، القواعد الفقہیہ، 1370شمسی، ج1، ص513 و514۔
- ↑ مکارم شیرازی، القواعد الفقہیہ، 1370شمسی، ج1، ص513۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: مکارم شیرازی، القواعد الفقہیہ، 1370شمسی، ج1، ص520-522۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص348، حدیث 3۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: مکارم شیرازی، القواعد الفقہیہ، 1370شمسی، ج1، ص520۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج1، ص79-127؛ موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379شمسی، ج2، ص335-370؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقہیہ، 1370شمسی، ج1، ص507-536۔
نوٹ
- ↑ سید محمد موسوی بجنوردی کی نظر میں نماز کے 9 ارکان ہیں: پانچ ارکان کا ذکر قاعدہ لاتعاد میں آیا ہے، اس کے علاوہ نیت، تکبیرۃ الاحرام، تکبیرۃ الاحرام کہنے کے دوران قیام اسی طرح قیام متصل بہ رکوع بھی ارکان نماز میں سے ہیں(موسوی بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1379شمسی، ج2، ص335و343)
- ↑ حَدَث سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے طہارت زائل ہوجاتی ہے اور وضو کا سببب بنتی ہیں؛ پیشاب یا پاخانے کا نکلنا، معدے اور آنتوں کی ہوا کا مقعد سے خارج ہونا، یا غسل کا سبب بنتی ہیں؛ جیسے جنابت اور حیض وغیرہ۔(مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385شمسی، ج3، ص246-249.)
مآخذ
- شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الخصال، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1362ہجری شمسی۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیق و تصحیح حسن موسوی خرسان، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- شہید اول، محمد بن مکی، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، قم، مؤسسہ آلالبیت، چاپ اول، 1419ھ۔
- «قاعدہ لاتعاد الا من خمسۃ»، درس خارج آیتاللہ سبحانی (1393/6/26)، مدرسہ فقاہت، تاریخ بازدید: 10 تیر 1403ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، زیر نظر سیدمحمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح حسین موسوی کرمانی و علیپناہ اشتہاردی، قم، مؤسسہ فرہنگى اسلامى کوشانبور، چاپ دوم، 1406ھ۔
- مشکینی، علیاکبر، مصطلاحات الفقہ، قم، دار الحدیث، 1392ش/1434ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، القواعد الفقہیہ، قم، مدرسۃ امام علی بن ابیطالب(ع)، 1370ہجری شمسی۔
- موسوی بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقہیۃ، قم، نشر الہادی، چاپ اول، 1419ھ۔
- موسوی بجنوردی، سید محمد، قواعد فقہیہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1379ہجری شمسی۔
- موسوی عاملی، سید محمد بن علی، مدارک الاحکام فی شرح عبادات شرائع الإسلام، بیروت، مؤسسہ آلالبیت، چاپ اول، 14011ھ۔