عمارۃ بن عبد سلولی

ویکی شیعہ سے
(عمارہ ابن عبد سلول سے رجوع مکرر)
عمارۃ بن عبد سلولی
کوائف
نام:عمارۃ بن عبد سلولی
نسبخاندان سلولی
مشہور اقاربسلیم بن عبد سلولی و رزین بن عبد سلولی (برادران)
مقام سکونتکوفہ
سماجی خدماتامام حسینؑ تک کوفہ والوں کے سب سے پہلے خطوط پہنچانا۔ نقل حدیث


عمارۃ بن عبد سلولی یا عمارۃ بن عبید سلولی کوفہ کے ایک شیعہ ہیں جنہوں نے قیس بن مسہر صیداوی اور عبدالرحمان بن عبد اللہ ارحبی کے ساتھ کوفہ والوں کی طرف سے دوسری بار لکھے جانے والے خطوط مکہ جاکر امام حسینؑ کی خدمت میں پہنچائے اور پھر اپنے ساتھیوں اور مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفے لوٹ آئے۔ عمارہ نے ہانی بن عروہ کو مشورہ دیا تھا کہ ابن زیاد کو اپنے گھر میں قتل کر ڈالے لیکن ہانی نے ان کی بات تسلیم نہیں کی۔

نام اور حیثیت

مشہور مورخ محمد بن جریر طبری (متوفی 310 ھ) نے اپنی کتاب تاریخ طبری میں ان کا نام عمارہ بن عبید سلولی اور اپنی تفسیر میں ان کا نام عمارہ بن عبد سلولی لکھا ہے اور ان سے امام علیؑ کی ایک حدیث نقل کی ہے[1] شیخ مفید کی کتاب الارشاد میں عمارہبکا نام «عمارہ بن عبد سلولی» لکھا ہے۔[2] شیخ طوسی کی کتاب رجال طوسی میں ایک شخص رزین بن عبید سلولی کوفی کو امام سجاد کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے[3] اہل سنت کے مشہور محدث اور ماہر رجال احمد بن عبداللہ عجلی نے کتاب معرفۃ الثقات میں سلیم بن عبد سلولی کے نام کا ذکر کیا ہے اور ان کو رزین بن عبد سلولی اور عمارہ بن عبد سلولی، سلولی کوفی خاندان کے تین بھائیوں میں ایک ثقہ روای کے عنوان سے پیش کیا ہے۔[4] دور حاضر کے محقق محمد ہادی امینی نے اپنی کتاب («اصحاب امیر المومنین(ع) والرواۃ عنہ») میں لکھا ہے کہ عمارہ بن عبد کوفی سلولی تابعین (ایسے افراد جنھوں نے صحابہ کو دیکھا اور ان سے روایت کی) اور راویوں میں سے ہیں اور قابل اعتماد ہیں۔[5]

خدمات

تاریخ طبری کے مطابق عمارہ بن عبید سلولی قیس بن مسہر صیداوی اور عبدالرحمان بن عبداللہ ارحبی کے ساتھ کوفیوں کے دوسری بار کے خطوط کو مکہ میں امام حیسن کی خدمت میں پیش کیا۔[6] اور اپنے ساتھیوں اور مسلم بن عقیل کے ہمراہ کوفہ لوٹ آئے[7] کوفہ میں عمارہ نے جب سنا کہ حاکم شہر عبید اللہ بن زیاد کوفہ کے بزرگ اور مسلم بن عقیل کے حامی، ہانی بن عروہ کی عیادت کرنے ان کے گھر آنا چاہتا ہے تو ہانی کو مشورہ دیا کہ ابن زیاد کو قتل کر دے لیکن ہانی نے کہا کہ ان کو پسند نہیں کہ وہ ان کے گھر قتل ہو۔[8]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. طبری، تفسیر طبری، ۱۴۲۰ھ، ج۱۳، ص۱۴۲.
  2. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۷و۳۸.
  3. طوسی، رجال، ۱۳۷۳ش، ص۱۱۳.
  4. عجلی، معرفۃ الثقات، تحقیق البستوی، ج۲، ص۱۶۲.
  5. امینی، اصحاب امیرالمؤمنین و الرواه عنہ، ۱۴۱۲ھ، ج۲، ص۴۳۵.
  6. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۶۲.
  7. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۶۳.
  8. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۷۰.

مآخذ