الحسین و بطلۃ کربلا (کتاب)

ویکی شیعہ سے

الحُسین و بَطَلَةُ کَربَلاء (امام حسینؑ اور کربلا کی سورما خاتون) عربی زبان میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جس میں امام حسین علیہ السلام اور قیام کربلا اور اس کے بعد کے واقعات اور حضرت زینبؑ کی زندگی کے بارے میں مختلف مطالب بیان ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں لبنان کے شیعہ عالم محمد جواد مغنیہ (متوفی 1400ھ) کے مضامین، تحریریں اور کچھ تقاریر جمع کی گئی ہیں۔

مؤلف

شیخ محمد جواد مُغنیہ ولد شیخ محمود 14ویں صدی ہجری کے شیعہ علماء اور مفسرین میں سے ایک ہیں۔ وہ لبنان میں پیدا ہوئے اور تعلیم کا آغاز اپنے آبائی وطن سے کیا اور پھر نجف چلے گئے۔ لبنان واپس آنے کے بعد آپ نے وہاں قضاوت کا منصب اور عدالت میں چیف جج کا عہدہ سنبھالا۔ شیخ جواد مغنیہ کے مختلف علوم میں بہت سی تالیفات ہیں اور وہ ان مفسرین میں سے ہیں جو دو تفسیر الکاشف اور المبین کے مالک ہیں۔ آپ کی وفات 1400ھ میں ہوئی اور امام علیؑ کے حرم میں دفن ہوئے۔

مضمون

اس مجموعے کو تین عنوانات المَجالسُ الحُسینیه، مَعَ بَطَلَة کَربلا، مقالات فی اهل البیت کے تحت ترتیب دیا گیا ہے اور ان تینوں عنوانات میں سے ہر ایک کے ذیلی مجموعے اور عنوانات ہیں جو ایک دوسرے سے زیادہ مربوط نہیں ہیں۔[1]

اس کتاب کے کل عنوانات قیام حسینی اور امام حسینؑ، یزید، اسرائے کربلا کا راستہ اور حضرت زینبؑ کی زندگی۔ اگرچہ اس کتاب کا موضوع امام حسین علیہ السلام کی زندگی اور عاشورا کی تحریک ہے، لیکن اس میں امام صادقؑ یا جعفر طیار کی زندگی جیسے دیگر موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔[2]

کتاب کا تیسرا حصہ مقالات فی اهل البیت کے عنوان سے اہل بیت کے بارے میں بہت سے لوگوں کی تقاریر ان کے ناموں کے ساتھ درج کی گئی ہیں۔[3] مؤلف نے دیباچہ کے بعد عزاداری کے بارے میں ایک شبہہ اور سوال کا جواب دیا ہے کہ شیعہ امام حسینؑ کی عزاداری کیوں بپا کرتے ہیں اور اس پر تصریح کی ہے کہ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق کوئی بھی شخص پیغمبر اکرمؐ سے افضل نہیں ہے اور ان کے بعد امیر المومنینؑ سب سے افضل ہیں سوائے رسول خداؐ کے، نیز امام حسینؑ کی یاد منانا اور عزاداری قائم کرنا بھی اسی عقیدت کا اظہار اور اس عقیدے پر پابند ہونے کو ظاہر کرنا ہے۔[4] مغنیہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حسینؑ شیعوں کے لئے صرف ایک نام ہی نہیں بلکہ بہادری، انسانیت اور امید کا استعارہ اور دین و شریعت اور حق کی راہ میں قربانی کی علامت ہیں جس طرح سے یزید بدعنوانی، ظلم و ستم، ہتک حرمت، عصمت دری، بے حیائی، فسق و فجور اور خونریزی کی علامت ہے۔[5]

کتاب کا آخری متن مصر کے اس وقت کے وزیر ثقافت پروفیسر فتحی رضوان کا حضرت زینبؑ کے مزار کے بارے میں ایک اقتباس ہے، جنہوں نے اس کا موازنہ ایک ایسے کعبہ سے کیا ہے جس کی طرف ہر طبقہ فکر کے لوگ آتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور حضرت زینب کو اس طرح مخاطب کرتے ہیں: یا أمّ العواجز و یا أمّ هاشم۔[6]

طباعت

یہ کتاب سنہ 1426ھ میں قم میں دار الکتب الاسلامیہ پبلشنگ ہاؤس میں شائع ہوئی۔[7]

حوالہ جات

  1. الحسین و بطلة کربلاء، کتابخانه دیجیتال نور.
  2. الحسین و بطلة کربلاء، کتابخانه دیجیتال نور.
  3. الحسین و بطلة کربلاء، کتابخانه دیجیتال نور.
  4. مغنیه، بطلة کربلاء، ج1، ص20.
  5. مغنیه، بطلة کربلاء، ج1، ص26.
  6. مغنیه، بطلة کربلاء، ج1، ص461.
  7. الحسین و بطلة کربلاء، کتابخانه دیجیتال نور.

مآخذ

  • مغنیہ، محمدجواد، الحسین و بطلة کربلاء، قم،‌دار الکتاب الإسلامی، 1426ھ۔
  • الحسین و بطلة کربلاء، کتابخانہ دیجیتال نور، تاریخ بازدید: 12 اسفند 1398ہجری شمسی۔