تفسیر علی بن ابراہیم قمی (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(التفسیر القمی سے رجوع مکرر)
تفسیر قمی
مشخصات
مصنفعلی بن ابراہیم قمی
موضوعتفسیر قرآن
زبانعربی
تعداد جلد2 جلد
طباعت اور اشاعت
ناشردار الکتاب
سنہ اشاعت1363 ہجری شمسی


تفسیر علی بن ابراہیم قمی، شیعہ تفاسیر میں سے ایک قدیمی اور روائی تفسیر گنی جاتی ہے۔ یہ تفسیر قمی کے نام سے معروف ہے۔ علی بن ابراہیم قمی (متوفی 307 ھ) اس کے مؤلف ہیں جو اپنے زمانے کے شیعہ فقیہ، محدث، امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ محمد بن یعقوب کلینی کے مشائخ اور اساتذہ میں سے ہیں۔ شیعہ تفاسیری ماخذ اور روش کے لحاظ سے ایک روائی تفسیر ہے۔ بعض علما اس کے انتساب میں مشکوک ہیں اور اسے علی بن ابراہیم قمی کی تفسیر قبول نہیں کرتے ہیں۔

اسلوب تحریر اور خصوصیات

اسلوب تحریر:

تفسیر قمی شیعہ تفاسیر میں معروف ترین اور اہم تفسیری مآخذ میں سے گنی جاتی ہے۔ کوئی شیعہ تفسیر ایسی نہیں ہے جس میں اس تفسیر سے احادیث نقل نہ کی گئی ہوں۔ مصنف کا اسلوب تحریری یہی رہا ہے کہ وہ آئمہ طاہرین سے روایات نقل کرتے ہیں اور اس مطلب کو انہوں نے اپنی کتاب کے مقدمے میں بیان کیا ہے۔

خصوصیات:

  1. یہ روائی تفسیر ہے۔ روایات کے ذکر کرنے کی وجہ سے مؤلف کیلئے ظواہر قرآن سے چشم پوشی نہایت آسان ہے۔
  2. یہ کتاب تاویلی تفسیر گنی جاتی ہے چونکہ اس میں تأویل‌ بہت زیادہ قابل مشاہدہ ہے۔[1]؛ اس لحاظ سے فضائل اہل بیت(ع) یا انکے دشمنوں کے رذائل کی بہت سی آیات تفسیر باطنی میں سے شمار ہوتی ہیں۔
  3. محدود تعداد میں اسباب نزول، قصص قرآنی، غزوات اور آیات احکام بیان ہوئی ہیں۔
  4. ابحاث اعقتادی، فرقۂ باطل کے نظریات کا رد، آیات قرآنی کی مدد سے مختلف غیر اسلامی مذاہب مانند بت‌ پرستوں، زنادقہ، دہریہ[2] نیز بعض فرق اسلامی مانند معتزلہ، قدَریہ جو اسکی نگاہ میں مجبرہ ہیں اور اپنے عقیدے کے مطابق نادرست نظریات بیان کرتے ہیں۔[3]
  5. علوم قرآنی سے متعلق ابحاث جیسےنسخ، حروف مقطعہ، محکم و متشابہ اور آیات قرآن کا توقیفی نہ ہونے کا بیان۔
  6. مکتب امامت و ولایت سے دفاع، فضائل اہل بیت (ع) و مثالب دشمنان کو آیات کے ذیل میں بیان کرنا۔
  7. تفسیر کا پہلی سورت سے آغاز اور آخری سورت پر اختتام ۔
  8. یہ تفسیر اکثر روایات پر مشتمل ہے جنہیں اس نے اپنے والد، ابن ابی عمیر اور اپنے مشائخ سے نقل کیا ہے۔ باقی حصہ ابو الجارود اور احادیث متفرقہ پر مشتمل ہے[4]

علی بن ابراہیم سے منسوب ہونا

اکثر بزرگ شیعہ علما اس تفسیر کی توثیق کے قائل ہیں لیکن اسکے باوجود اس کتاب کے علی بن ابراہیم سے منسوب ہونے میں بہت زیادہ ابحاث کی گئی ہیں۔ بعض علما کچھ قرائن کی بنا پر قائل ہیں کہ یہ علی بن ابراہیم کی تفسیر نہیں ہے بلکہ مذکورہ تفسیر کے ساتھ دیگر روایات کا مجموعہ ہے۔

قائلین

نجاشی[5] اور شیخ طوسی[6] اس کتاب کو علی بن ابراہیم سے منسوب کرتے ہیں اور علی بن ابراہیم کی صاحب تفسیر کے ساتھ تعریف کرتے ہیں. قدما میں سے طوسی کی تہذیب الاحکام[7]، علامہ حلی کی سعد السعود[8] ، شیخ طبرسی کی اعلام الوری[9]، ابن شہر آشوب کی المناقب[10] میں اس سے مطالب منقول ہیں اور دوسرے منابع جیسے کتب اربعہ، مجمع البیان، تفسیر صافی، وسائل الشیعہ، بحارالانوار و ... کے بعد اسے شمار کرتے ہیں بلکہ اکثر قدما نے اس پر اعتماد کیا ہے۔

مخالفین

بعض شیعہ معاصرین نے علی بن ابراہیم قمی کی طرف اس کتاب کے منسوب ہونے شک کیا ہے۔ آقا بزرگ تہرانی اس ساری کتاب کو علی بن ابراہیم کی کتاب نہیں سمجھتے ہیں[11] محمد ہادی معرفت[12] اور ہاشم معروف الحسنی[13] اس کتاب کی تحلیل و تحقیق میں علی بن ابراہیم کی طرف اس کتاب کی نسبت کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ انکی عمدہ دلیل یہ ہے کہ تفسیر قمی علی بن ابراہیم قمی کی روایات اور ابو الجارود کی روایات کا مجموعہ ہے جسے ابوالفضل العباس ابن محمد نے ترتیب دیا ہے اور یہ علی بن ابراہیم قمی کے شاگردوں میں سے ہے۔

نیز کہتے ہیں کہ اس تفسیر کے مقدمے میں اب علی بن ابراہیم قمی سے نقل کر رہا ہے یا مقدمے میں تحریف قرآن قرآن کی بحث بیان ہوئی ہے جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ علی بن ابراہیم قمی کی تفسیر ہو۔ بلکہ وہ قائل ہیں کہ یہ تفسیر قمی کا مقدمہ تفسیر نعمانی کا مقدمہ ہے۔[14]

ایک اور نکتہ قابل توجہ ہے کہ روایت کی سند میں ابراہیم بن ہاشم (علی بن ابراہیم کے والد) اور بعض اسکے معاصرین جیسے محمد بن یحیی عطار قمی اور سعد بن عبداللہ اشعری قمی سے واسطے کے ذریعے نقل ہوا ۔ یہ اس بات کا بیانگر ہے کہ تمام تفسیر علی بن ابراہیم قمی کی نہیں ہے۔[15]

اشاعت

تفسیر علی بن ابراہیم قمی چند بار طبع ہوئی ہے۔ پہلی مرتبہ سنہ 1313 ھ میں چاپ ہوئی۔ سید طیب جزائری نے اس کی تصحیح کی اور 1386 ھ میں نجف سے شائع کیا۔ 1404 ھ و 1367 ش کو قم میں تصحیح شدہ طبع ہوئی۔

اسی طرح مؤسسہ اعلمی بیروت کی جانب سے سال 1412 ھ میں تصحیح کے ساتھ شائع ہوئی۔

حوالہ جات

  1. ر ک: قمی، تفسیر قمی، ج ۱، ص ۳۵، ۲۰۳
  2. قمی، تفسیر قمی، ج ۱، ص ۲۰۵، ۲۳۶، ج ۲، ص ۷۸.
  3. قمی، تفسیر قمی، ج ۱، ص ۱۷ ۲۵، ۲۱۲، ج ۲، ص ۶۰، ۸۹، ۳۹۸
  4. کاظم قاضی زاده، پژوہشی درباره تفسیر علی بن ابراہیم قمی؛ مدخل تفسیر علی بن ابراہیم قمی در دانشنامہ جہان اسلام.
  5. نجاشی، رجال نجاشی، ص۲۶۰.
  6. طوسی، الفہرست، ص ۱۵۲.
  7. طوسی، تہذیب الاحکام، ج ۴، ص ۴۹ و ۵۰.
  8. حلی، سعد السعود، ص ۸۳ – ۹۰.
  9. طبرسی، اعلام الوری، ج ۱، ص ۲۹۶.
  10. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ج ۳، ص ۳۳ و ۳۱۳.
  11. تہرانی، الذریعہ، ج۴، ص ۳۰۲.
  12. معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، ص ۱۸۷.
  13. بین التصوف و التشیع، ص ۱۹۸.
  14. رضا استادی، آشنائی با تفاسیر و مفسران.
  15. سید احمد موسوی، پژوہشی پیرامون تفسیر قمی.

کتابیات

  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، نجف، المکتبہ الحیدریہ، ۱۳۷۶ق
  • استادی، رضا، آشنایی با تفاسیر و مفسران.
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت،‌ دار الاضواء، ۱۴۰۲ق
  • حسنی، ہاشم معروف، بین التصوف و التشیع، بیروت،‌دار التعارف.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، سعد السعود، قم، رضی، ۱۳۶۳ش.
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، آل البیت، ۱۴۱۷ق
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ق
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران،‌دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۴ش
  • معرفت، محمد ہادی، صیانۃ القرآن من التحریف، قم، انتشارات التمہید، ۱۳۸۶ش
  • نجاشی، احمد بن علی، اسماء مصنفی الشیعہ، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۶ق