الاحتجاج علی اہل اللجاج (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | ابو منصور احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی |
موضوع | علم کلام، مناظرے |
زبان | عربی |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | دار النعمان |
سنہ اشاعت | 1386 ھ |
الإحْتِجاجُ عَلی أہْلِ اللّجاج نامی کتاب چھٹی صدی ہجری کے مشہور شیعہ امامیہ عالم ابو نصر احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی کی عربی زبان کی کلام کے موضوع پر لکھی گئی تالیف ہے۔ یہ کتاب اختصار کے ساتھ الاحتجاج یا احتجاج طبرسی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کتاب میں رسول اللہ و آئمہ طاہرین کے مناظرے اور استدلالات کی جمع آوری کی گئی ہے۔ اسی طرح ان کے بعض پیروکاروں کے مخالفین مذہب سے مناظرے مذکور ہیں۔ بعض شیعہ علما اس کتاب کو غلطی سے فضل بن حسن طبرسی صاحب تفسیر مجمع البیان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس کتاب کے متعدد ترجمے اور شرحیں موجود ہیں۔
اصلی نام
کتاب کے شروع میں موجود مقدمے کی بناء پر کتاب کا نام الاحتجاج ہے۔ اس میں الإحتجاجُ عَلی أہلِ اللّجاج کی جانب کوئی اشارہ مذکور نہیں ہے۔ اگرچہ دیگر حضرات نے اس کتاب کا نام الإحتجاجُ عَلی أہلِ اللّجاج ہی ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب احتجاج طبرسی کے نام سے بھی مشہور ہے۔
موضوع
یہ کتاب آئمہ معصومین اور دیگر بزرگان دین کے مخالفین سے مختلف موضوعات کے مناظروں پر مشتمل ہے۔[1]
تاریخچۂ مناظرہ
تاریخ اسلام کے اوائل سے ہی دینی بزرگان نے حق کے اثبات اور باطل کے ابطال کیلئے مناظرے کے موضوع اور عنوان سے کئی تالیفات لکھیں یا اپنی تالیفات کی بعض فصول اس عنوان سے مخصوص کی ہیں۔ 20 کے قریب الاحتجاج کے نام سے شیعہ علما نے کتابیں تصنیف کی ہیں۔ احتجاج کے نام سے پہلی کتاب ساتویں امام کے صحابی محمد بن ابى عمير کی لکھی ہوئی تھی۔[2]
نسبت کتاب
صاحب کتاب لؤلؤة البحرین نے لکھا ہے: ہمارے بعض متاخر علما نے اس کتاب کو غلطی سے أبو علی طبرسی مؤلّف تفسیر مجمع البیان کی طرف نسبت دی ہے۔ جیسا کہ محدّث امین استر آبادی، اس سے پہلے صاحب رسالہ مشایخ الشیعہ، اس سے پہلے محمّد بن أبی جمہور أحسائی اپنی کتاب عوالی اللئالی میں اس اشتباہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ نیز قاضی نور الله شوشتری نے مجالس المؤمنین میں اسے صاحب مجمع البیان کی طرف منسوب کیا ہے۔[3]
سبب تالیف
طبرسی الاحتجاج کے مقدمے میں لکھتا ہے: اس کتاب کی تالیف کا سبب یہ بنا کہ امامیہ کے ایک طائفہ نے مخالفین کے سامنے استدلال و بحث کرنے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کام ہمارے لئے روا نہیں ہے کیونکہ رسول اور آئمہ نے کبھی کسی سے جدال نہیں کیا نیز وہ شیعوں کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ اس بنا پر میں نے ارادہ کیا کہ اصول اور فروع دین میں بزرگان دین کے مختلف موضوعات پر مخالفین سے کئے گئے مناظروں کی جمع آوری کروں۔ طبرسی مزید کہا: حق کے اظہار اور باطل کے رد کیلئے قوی اور توانا اشخاص کی نسبت مجادلے سے منع کا حکم نہیں آیا ہے بلکہ عقائد میں ضعیف افراد کی نسبت مجادلے سے منع کیا گیا ہے ۔[4]
اعتبار کتاب
کتاب احتجاج ان معتبر کتابوں سے ہے جس پر علما اعتماد کرتے ہیں اور کسی پس و پیش کے بغیر اس کی روایات نقل کرتے ہیں۔ اس کتاب کی روایات کی نسبت صرف ایک اعتراض متوجہ ہے کہ اسکی اکثر روایات مرسلہ ہیں اور انکی اسناد کسی کتاب میں مذکور نہیں ہیں ۔
مصنف نے کتاب کے مقدمے میں لکھا: میں نے تفسیر امام عسکری (ع) کی روایات کے علاوہ دیگر روایات کو سند کے بغیر ذکر کیا ہے کیونکہ یا تو ان روایات پر اجماع قائم ہے یا وہ موافق عقائد ہیں یا وہ مخالف و موافق کی کتب میں مشہور ہیں۔ امام عسکری (ع) سے منسوب تفسیر کی روایات دیگر کتب کی روایات کی مانند مشہور نہیں ہیں اس لئے ان کی اسناد کی ہیں۔ طبرسی کے اس بیان کی بنا پر علما اس کتاب کی سند کے بغیر روایات کو طبرسی کے اس بیان پر اعتماد کرتے ہوئے قبول کرتے ہیں۔[5]
اقوال علما میں کتاب کا مقام
بہت سے شیعہ علما جیسے شیخ حر عاملی امل الآمل[6] میں ، خوانساری روضات الجنات[7] میں ،خوئی معجم رجال الحدیث[8] میں اور دیگر علما اسے ایک نفیس اور فوائد پر مشتمل کتاب شمار کرتے ہیں۔
ترتیب مطالب
- کتاب کا مقدمہ ان ابحاث پر مشتمل ہے: جدل و مناظره سے ممنوعیت اور اسکی توبیخ کی روایات، سبب تالیف کتاب۔
- پیغمبر اکرم (ص) اور دیگر ائمہ معصومین کے اصول اور فروع دین کے بارے میں ماثور (مروی) استدلالات اور احتجاجات.
- غدیر خم کے واقعے کا ذکر، فدک کا ماجرا اور حضرت علی (ع)، فاطمہ زہرا(س)، دیگر صحابہ اور اہل بیت کے استدلالات.
- حضرت علی کے اہل شام، معاویہ، خوارج اور اپنی بیعت کے توڑنے والوں کے متعلق احتجاجات۔
- کتاب کے آخری حصے میں حضرت صاحب الزمان (عج) کی غیبت صغری کے زمانے میں نواب اربعہ سے مکاتبات اور احتجاجات نیز زمان غیبت کبری کی توقیعات مذکور ہیں۔[9]
تراجم اور شروحات
فارسی تراجم
- ترجمۂ مولی نظام الدین احمد غفاری مازندرانی۔
- ترجمۂ جعفری۔
- مفسر اور محقق کرکی کے شاگرد ابو الحسن، علی بن حسن زواری کا ترجمہ بنام کشف الاحتجاج۔
- عمادالدین قاری استرآبادی کا ترجمہ.
- ترجمہ بنام كشف الاحتجاج اثر ملا فتح الله کاشانی (م 988 ھ) کہ جو شرح کے ہمراہ ہے۔
اردو تراجم
- ترجمہ احتجاج طبرسی: مترجم مولانا اشفاق حسین۔
شروحات
- شرح ملا فتح اللہ کاشانی۔
- شرح مرزا ابو الحسن بحرانی (م 1193 ھ) (زندیہ کے زمانے کے شیراز کے عالم)۔
- شرح سید احمد بن محمد حسینی مختاری۔[10]
مخطوطات
- خطّی نسخہ کتب خانہ آستان قدس رضوی
- خطّی نسخہ کتب خانہ ملک
- کرم علی بن محمّد باقر کرمانی پاریزی سیرجانی مشہدی کا سنہ 1318 ھ میں خطّ نسخ میں لکھا ہوا نسخہ جو خط نستعلق کے حواشی کے ساتھ کتب خانۂ ملک میں موجود ہے۔
- کتب خانۂ ملک کا ایک اور خطی نسخہ جسکے خطاط کا نام محمّد بن محمّد علی خاوری ہے جو سنہ 1069 ھ سے مربوط ہے۔[11]
چاپ
- سنہ 1278 ہجری کو ایران میں چھپی۔
- 1300 ہجری کو ایران میں طبع ہوئی۔
- 1354 ہجری کو نجف اشرف سے چھپی۔
- 1403 ہجری میں مطبوعہ ایران۔ اس کی تصویر برداری مؤسسۂ الجواد (بیروت) سے متعلق ہے۔ اس کی چھپائی نہایت زیبا ہے اور اس کا مقدمہ علامہ سید محمد بحر العلوم نے لکھا ہے۔
- اس کی تحقیق کا کام سید محمد باقر موسوی خرسان نے انجام دیا۔ اس نے آیات کے ایڈریس اور مشکل کلمات کی توضیح کے علاوہ بہت سے تحقیقی مطالب کا اضافہ کیا ہے۔ جس میں کتاب کے متن میں آنے والی بہت سی شخصیات کے حالات زندگی اور بہت سی روایات کی توضیحات تعلیقے میں ذکر کی ہیں نیز کتاب کے آخر میں کتاب اور کتاب کے حواشی کی فہرست بھی مذکور ہے۔
حوالہ جات
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ۱۳۸۶ ق، ج۱، ص۵. (مقدمۂ کتاب).
- ↑ کتابخانۂ دیجیتال نور.
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ترجمہ جعفری، ۱۳۸۱ ش، ص ۸.
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ۱۳۸۶ ق، ج۱، ص۴.
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ۱۳۸۶ ق، ج۱، ص۴.
- ↑ حر عاملی، امل الآمل، ج۲، ص۱۷.
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ج۱، ص۱۹.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ ق، ج۲، ص۱۶۵.
- ↑ کتابخانہ دیجیتال نور.
- ↑ کتابخانہ دیجیتال نور.
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ترجمۂ جعفری، ۱۳۸۱ ش، ص۹.
منابع
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، نجف، دار النعمان، ۱۳۸۶ ق.
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ترجمہ جعفری، تہران، اسلامیہ، ۱۳۸۱ ش.
- حر عاملی، محمد بن حسن، بغداد، مکتبۃ الأندلس.
- خوئی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ ق.
- خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان.
- کتاب شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات رایانہ ای علوم اسلامی نور.