"جعدہ بنت اشعث" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>E.musavi |
imported>E.musavi |
||
سطر 14: | سطر 14: | ||
== امام حسن (ع) کا قتل == | == امام حسن (ع) کا قتل == | ||
تاریخی روایات کے مطابق جعدہ نے امام حسن مجتبی کو زہر دیا اور اسی زہر کی وجہ سے آپ کی [[شہادت]] ہوئی۔ شیخ مفید کے بقول [[معاویہ]] نے جب اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد بنانے کا فیصلہ کیا تو اس نے جعدہ کو ایک لاکھ درھم بھیجا اور اس سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اپن شوہر کو زہر دے دے تو وہ اس کی شادی یزید سے کر دے گا۔<ref>الارشاد، ج ۲، ص۱۶.</ref> [[ابن عبدالبر]] سے [[سخاوی]] نقل کرتا ہے: جعده نے اپنے سینے میں امام حسن کے خلاف موجود کینے کی وجہ سے امام حسن کو مسموم کیا۔<ref>التحفہ اللطیفہ، ج ۱، ص۲۸۳</ref> حالانکہ مادلونگ (ولادت 1309 ش) جرمن نژاد اسلام شناس کا ماننا ہے کہ یزید کو ولی عہد بنانے کی معاویہ کی سعی اور معاویہ کے بہکاوے میں آ کر جعدہ کا امام حسن کو زہر دینا، روایات سے ثابت ہوتا ہے۔ | |||
[[قطب راوندی]] نے روایت نقل کی ہے کہ زہر آلود شربت پینے کے بعد امام حسن نے جعدہ پر لعن و نفرین کیا۔<ref>راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص۲۴۲.</ref> [[کلینی]] نقل کرتے ہیں کہ [[امام صادق]] فرمایا: [[اشعث بن قیس]] [[امیرالمؤمنین]] (ع) کے قتل میں شریک ہے اور اسکی بیٹی جعدہ امام حسن کو مسموم کیا اشعث کا بیٹا [[امام حسین بن علی]] کے قتل میں شریک ہے۔<ref>کافی، ج ۸، ص۱۶۷</ref> | |||
[[قطب راوندی]] نے روایت نقل کی ہے کہ زہر آلود شربت پینے کے بعد امام حسن نے جعدہ پر لعن و نفرین کیا۔<ref>راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص۲۴۲.</ref> | |||
[[کلینی]] نقل کرتے ہیں کہ [[امام صادق]] فرمایا: [[اشعث بن قیس]] [[امیرالمؤمنین]] (ع) کے قتل میں شریک ہے اور اسکی بیٹی جعدہ امام حسن کو مسموم کیا اشعث کا بیٹا [[امام حسین بن علی]] کے قتل میں شریک ہے۔<ref>کافی، ج ۸، ص۱۶۷</ref> | |||
== امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد== | == امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد== |
نسخہ بمطابق 10:43، 9 اگست 2019ء
جَعده یا جُعده بنت اشعث بن قیس کندی، حضرت امام حسن علیہ السلام کی زوجہ تھی۔ اس نے معاویہ کے اکسانے پر امام حسن کو زہر دے کر شہید کیا۔ اس سے امام حسن کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
منابع کے مطابق جعدہ اپنے باپ کے نیرنگ کی وجہ سے امام کی زوجیت میں آئی۔ اس نے معاویہ کی طرف سے ملنے والے مالی ہدیہ و یزید سے شادی کے وعدہ کے لالچ میں امام حسن (ع) کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ لیکن معاویہ نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور اس نے امام کی شہادت کے بعد یعقوب بن طلحہ بن عبید اللہ سے شادی کر لی۔
نام و نسب
تاریخ میں اس کی ولادت کے متعلق کچھ ذکر نہیں ہے البتہ اس کے نسب میں اس کے باپ کا نام اشعث بن قیس کِندی مذکور ہے جو اسلام کے ابتدائی سالوں میں ایک جانا پہچانا چہرہ تھا اور اس کی ماں کا نام ام فروة آیا ہے جو ابوبکر کی بہن تھی۔[1] امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوا ہے کہ اشعث بن قیس امام امیر المومنین (ع) کے قتل میں شریک تھا۔ اس کی بیٹی جعدہ نے امام حسن زہر دیا اور اس کا بیٹا محمد بن اشعث امام حسین (ع) کی شہادت میں شریک تھا۔[2]
منابع میں اس کی ولادت کے بارے میں کوئی بات ذکر نہیں ہے۔ ابوالفرج اصفہانی کے مطابق سکینہ، شعثاء و عائشہ بھی اس کے نام ذکر ہوئے ہیں۔ لیکن اس کا اصلی نام جُعده تھا۔[3]
امام حسن سے شادی
جعدہ شیعوں کے دوسرے امام، امام حسن کی زوجہ تھی۔ دوسری صدی ہجری کے مورخ احمد بن یحیی بلاذری کے مطابق، وہ اپنے باپ اشعث کے نیرنگ کی وجہ سے امام حسن کی زوجیت میں آئی۔ امام علی نے امام حسن کیلئے سعید بن قیس کی بیٹی ام عمران کا رشتہ طلب کیا تو سعید نے اپنے بھائی اشعث بن قیس سے مشورہ کیا۔ اشعث نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سعید سے کہا: بہتر نہیں کہ تم ام عمران کو میرے بیٹے محمد سے بیاہ دو؟ اشعث بن قیس نے پھر حضرت علی کو امام حسن کیلئے اپنی بیٹی جعدہ کی تجویز دی۔[4] تاریخی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسن کی جعده کی شادی کوفہ میں امام علی (ع) کی حکومت (سنہ 36۔40 ہجری) کے دوران انجام پائی۔ کیونکہ بعض روایات کے مطابق اشعث حضرت علی کو امیر المومنین کہہ کر خطاب کرتا ہے۔[5]
مزید یہ کہ اشعث عثمان کے دور خلافت میں آذربایجان کا حاکم تھا اور جنگ جمل کے بعد اسے معزول کیا گیا اور وہ کوفہ میں آ گیا۔ تاریخ میں حضرت امام حسن کی کسی ایسی اولاد کا ذکر نہیں ہوا جن کی ماں جعدہ ہو۔ شیخ مفید نے حضرت امام کے 8 بیٹے اور 7 بیٹیوں کے نام ذکر کئے ہیں جن میں کسی ایک کی ماں کا نام جعدہ نہیں ہے۔[6]
امام حسن (ع) کا قتل
تاریخی روایات کے مطابق جعدہ نے امام حسن مجتبی کو زہر دیا اور اسی زہر کی وجہ سے آپ کی شہادت ہوئی۔ شیخ مفید کے بقول معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد بنانے کا فیصلہ کیا تو اس نے جعدہ کو ایک لاکھ درھم بھیجا اور اس سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اپن شوہر کو زہر دے دے تو وہ اس کی شادی یزید سے کر دے گا۔[7] ابن عبدالبر سے سخاوی نقل کرتا ہے: جعده نے اپنے سینے میں امام حسن کے خلاف موجود کینے کی وجہ سے امام حسن کو مسموم کیا۔[8] حالانکہ مادلونگ (ولادت 1309 ش) جرمن نژاد اسلام شناس کا ماننا ہے کہ یزید کو ولی عہد بنانے کی معاویہ کی سعی اور معاویہ کے بہکاوے میں آ کر جعدہ کا امام حسن کو زہر دینا، روایات سے ثابت ہوتا ہے۔
قطب راوندی نے روایت نقل کی ہے کہ زہر آلود شربت پینے کے بعد امام حسن نے جعدہ پر لعن و نفرین کیا۔[9] کلینی نقل کرتے ہیں کہ امام صادق فرمایا: اشعث بن قیس امیرالمؤمنین (ع) کے قتل میں شریک ہے اور اسکی بیٹی جعدہ امام حسن کو مسموم کیا اشعث کا بیٹا امام حسین بن علی کے قتل میں شریک ہے۔[10]
امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد
ابو الفرج لکھتا ہے: معاویہ نے مال دینے کے وعدے پر عمل کرتے ہوئے ایک لاکھ درہم اسے بھجوائے لیکن یزید بن معاویہ سے اسکی شادی کرنے پر راضی نہ ہوا۔[11] معاویہ اسکے متعلق کہتا: جس نے فرزند رسول کو زہر دینے سے دریغ نہیں کیا اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ یزید کیلئے بھی یہی کام نہ کرے۔[12]
حضرت امام حسن کی شہادت کے بعد جعدہ کی زندگی کے متعلق مذکور ہوا ہے کہ اس نے دو دفعہ شادی کی۔ پہلی شادی یعقوب بن طلحہ بن عبیدالله سے کی۔[13] اس سے اسماعیل، اسحاق اور ابوبکر نام کے بیٹے تھے جن میں سے اسماعیل اور اسحاق اپنے باپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے۔[14] 63 ھ میں یعقوب بن طلحہ کے واقعہ حرہ[15] میں قتل ہونے کے بعد عبد اللہ بن عباس کے بڑے بیٹے عباس بن عبدالله بن عباس سے شادی کی اور اس سے محمد اور قریبہ نام کی بیٹی کی ماں بنی۔ ان دونوں سے اس کی نسل ہوئی لیکن وہ بھی باقی نہ رہی۔[16]
نجاشی کے اشعار
شیعہ شاعر قیس بن عمرو بن مالک معروف نجاشی نے جعدہ کی مذمت میں قصیدہ کہا جس کی طرف تاریخی کتب میں اشارہ ملتا ہے۔[17]
کتابیات
- ↑ کتاب الفتوح، ج ۱، ص۶۸.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۸، ص۱۶۷.
- ↑ مقاتل الطالببین، ص۳۲.
- ↑ بلاذری ،انساب الاشراف، ج ۳، ص۱۴ و ۱۵
- ↑ ر.ک: ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج ۹، ص۱۳۸-۱۳۹.
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، ج ۲، ص۲۰.
- ↑ الارشاد، ج ۲، ص۱۶.
- ↑ التحفہ اللطیفہ، ج ۱، ص۲۸۳
- ↑ راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص۲۴۲.
- ↑ کافی، ج ۸، ص۱۶۷
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۴۸.
- ↑ شرح نہج البلاغہ، ج ۱۶، ص۱۱.
- ↑ انساب الاشراف، ج ۳، ص۱۵.
- ↑ طبقات کبری، ج ۵، ص۱۶۵.
- ↑ زرکلی ،الاعلام، ج ۸، ص۱۹۹. الثقات، ج ۵، ص۵۵۳.
- ↑ ابن سعد،طبقات کبری، ج ۵، ص۳۱۵.
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص۲۸۴. تہذیب الکمال، ج۶، ص۲۵۳
مصادر
- ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ ھ
- ابن اعثم، احمد، کتاب الفتوح، دار الاضواء، ۱۴۱۱ ھ
- ابن حبان، محمد، الثقات، حیدر آباد ہند، مجلس دائرة المعارف العثمانیہ، ۱۳۹۳ ھ
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، بیتا.
- ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ ھ
- اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، نجف، مکتبہ الحیدریہ، ۱۳۸۵ ھ
- راوندی، قطب الدین، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسہ الامام المہدی، ۱۴۰۹ ھ
- زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت، دار العلم للملایین، ۱۹۸۰ء
- سخاوی، محمد بن عبدالرحمن، التحفہ اللطیفہ فی تاریخ المدینہ الشریفہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، بیتا.
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، نجف، دار النعمان، ۱۳۸۶ ھ
- کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۳ ش.
- مزی، یوسف، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۰۶ ھ
- مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفہ حجج الله علی العباد، بیروت، دار المفید، ۱۴۱۴ ھ