حضرت مریم کا حمل

ویکی شیعہ سے
(مریمؑ کا حمل سے رجوع مکرر)

حضرت مریم کا حمل ایک ایسا الہی معجزہ ہے جس میں مریم بنت عمران کسی مرد سے ہمبستری کے بغیر حاملہ ہوئیں اور اس کے نتیجے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ مریمؑ کے حمل کا واقعہ قرآن اور انجیل دونوں میں مذکور ہے، مریمؑ کنواری ہونے میں دونوں میں مماثلت اور کچھ تفصیلات میں فرق پایا جاتا ہے۔

قرآن مجید کے مطابق حضرت مریم عبادت کی غرض سے لوگوں سے کنارہ کش ہوئی تھی اس اثناء اللہ کا فرشتہ آیا اور اسے بچے کی بشارت دی۔ قرآن نے مریم کے حمل کا ذکر صرف اس اظہار کے ساتھ کیا ہے "ہم نے اپنی روح سے اس میں پھونک ماری ہے"۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ جاننا انسانی علم کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے کہ حضرت مریمؑ حاملہ کیسے ہوئیں۔

سورہ مریم کی آیات کے مطابق حمل کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد دردِ زہ کی وجہ سے آپ کھجور کے درخت کی طرف چلی گئی؛ جبکہ مریم موت کی خواہش کر رہی تھی۔ مفسرین کا کہنا ہے کہ مریم نے موت کی تمنا، لوگوں کی باتوں سے ڈر کر کی ہے۔ قرآن کے مطابق مریم کو اللہ کی طرف سے کہا گیا کہ مت ڈریں اور ان کے رنج و الم دور کرنے کے لئے ان کے پاوں تلے سے پانی کی ایک نہر جاری ہوئی اور تازہ خرما ان کو ملے۔ نیز مریم سے کہا گیا کہ وہ اپنے نو مولود کو دیکھ کر خوش ہوجائیں۔

قرآنی آیات کے مطابق مریم لوگوں کا سامنا کرنے سے ڈرتی تھیں، اس لئے انہیں سکوت کا روزہ رکھنے کا حکم ہوا اور اپنے شیرخوار کے ساتھ اپنی قوم کے پاس واپس آگئیں۔ سورہ نساء کی آیت 156 کے مطابق حضرت مریم پر ان کے حامل اور بچے کی پیدائش کی وجہ سے بہت بڑا الزام لگایا گیا۔ مریم نے جواب دینے کے لئے اپنے بچے کی طرف اشارہ کیا اور بچے نے معجزانہ طور پر اپنی زبان کھولی اور کہا:«میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے (آسمانی) کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔» بعض مفسروں کے مطابق اس معجزے سے حضرت عیسیؑ نے اپنی ماں کی طہارت ثابت کردی۔

مریم کے حمل کا معجزہ

سورہ مریم، آیہ 20

میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کسی بشر نے مجھے چھوا تک نہیں ہے اور نہ ہی میں بدکردار ہوں۔

انجیل لوقا، باب1، آیہ 34

یہ کیسے ممکن ہے؟ مجھ تک کسی مرد کا ہاتھ نہیں پہنچا ہے۔

مریم حاملہ ہونے کا واقعہ قرآن اور انجیل دونوں میں مختصر فرق کے ساتھ بیان ہوا ہے۔[1] مفسروں نے کسی مرد کے چھوے بغیر حضرت مریم کا حاملہ ہونے کو بہت بڑا معجزہ، خارق العادہ کام[2] اور عجیب داستان[3] قرار دیا ہے۔ شیعہ مفسر سید محمد حسین فضل اللہ (متوفی: 1389ش) نے اس واقعے کو معجزہ اس لئے سمجھا ہے کہ انسان کی پیدائش میں طبیعی قانون کے برخلاف ایک بچہ ایسی ماں سے پیدا ہوا ہے جسے کسی مرد نے چھوا تک نہیں[4] اللہ تعالی قرآن مجید میں حضرت مریمؑ اور ان کے بیٹے حضرت عیسیؑ کو دنیا والوں کے لئے ایک نشانی قرار دیا ہے[5] اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک باکرہ عورت کا کسی مرد سے شادی یا کسی مرد کا اسے چھوے بغیر بچہ ہونا یہ ایک بہت بڑا معجزہ اور لوگوں کے لئے نشانی ہے۔[6]

حضرت مریمؑ کی طہارت اور پاکدامنی کا تذکرہ قرآن میں سورہ انبیاء[7] اور سورہ تحریم[8] آیا ہے۔ قرآن میں مریم کی طہارت کی تاکید، ان پر یہودیوں کی طرف سے لگائے جانے والے الزام کا جواب سمجھا گیا ہے۔[9] بعض شیعہ تفسیری روایات کے مطابق مریم کا حمل فرشتے کی طرف سے پھونکنے کی وجہ سے تھا۔[10] قرآن میں حضرت عیسیؑ کی خلقت کو حضرت آدمؑ کی خلقت کی مانند قرار دیا گیا ہے۔[11]شیعہ مفسر سید محمدحسین طباطبایی (متوفی: 1360ش) کے مطابق مماثلت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جضرت عیسیؑ، حضرت آدمؑ کی طرج بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔[12]

خود زائی: ایک علمی جواز

شیعہ مفسر قرآن ناصر مکارم شیرازی مریم کے حاملہ ہونے پر یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مریم کا حاملہ ہونا صرف ایک معجزہ تھا یا علمی طور پر یہ ممکن ہے کہ بغیر باپ کے بھی بچے کی ولادت ہوجائے۔[13] مکارم شیرازی کے مطابق پیشرفتہ دور میں علمی ترقی کے ساتھ اس موضوع کی باکرہ زائی یا خود زائی (Parthenogenesis) کے عنوان سے تصدیق ہوئی ہے۔[14] باکرہ زائی ایک ایسا عمل ہے جس میں تخم کی بار آوری کے بغیر انڈے کی نشو و نما ہوتی ہے۔ اور نر جنس کی اس تولید مثل میں کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔[15] کہا گیا ہے کہ باکرہ زائی کی طبیعی اور مصنوعی دو قسمیں ہیں اور طبیعی قسم بعض حشرات میں دیکھی گئی ہے۔[16] اس کے علاوہ اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ لیبارٹری میں بعض چیزوں میں مصنوعی حمل ٹھہرایا گیا ہے۔[17]بتایا گیا ہے کہ ممالیہ جانوروں میں اس عمل کو انجام دینے کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن ابتدائی کامیابیوں کے باوجود[18] انسانی استعمال کے لیے ضروری سائنسی منظوری نہیں مل سکی ہے۔[19]

مریم کا حمل اور اس کی کیفیت

قرآنی آیات کے مطابق، حضرت مریم نے عبادت کے لئے[20] مسجد اقصیٰ کے مشرقی حصے[21] میں لوگوں سے دور ایک الگ تھلگ جگہ انتخاب کیا تھا۔[22] وہاں پر ایک فرشتہ ظاہر ہوا جسے سورہ آل عمران میں فرشتہ[23] اور سورہ مریم میں روح[24] کہا گیا ہے۔ مفسرین نے اسے جبرائیل سمجھا ہے۔[25] سورہ مریم میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ فرشتہ حضرت مریمؑ کو انسانی شکل میں ظاہر ہوا۔[26] مفسرین کے مطابق اس واقعہ نے حضرت مریمؑ کو خوف میں مبتلا کر دیا۔[27] مفسرین کے مطابق جناب مریمؑ نے اس شخص (فرشتہ) کے شر سے خدا کی پناہ لی۔[28] سورہ آل عمران اور سورہ مریم کی آیات اور قرآن کی بعض تفاسیر کے مطابق فرشتے نے اپنے آپ کو خدا کا بھیجا ہوا کہا[29] اور مریم کو خدا کی طرف سے خوشخبری دی[30] کہ ان کے ہاں بچے کی ولادت ہونے والی ہے۔[31]

سورہ آل عمران کی آیت میں اس بچے کو مسیح، عیسیٰ ابن مریمؑ کہا گیا ہے اور خدا کے مقرب لوگوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔[32] قرآن کے مطابق، مریمؑ نے اس بشارت کے جواب میں پوچھا کہ میرے ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے، جب کہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں ہے[33] اور میں بدکار عورت بھی نہیں تھی۔[34] سورہ مریم کی آیت کے مطابق فرشتے نے بغیر باپ کے بچے کی پیدائش کو خدا کے لیے آسان کام سمجھا۔[35]

مکارم شیرازی کے مطابق قرآن نے مریم کے حمل کی مدت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔[36] مفسرین نے اس مدت کے بارے میں مختلف آراء دی ہیں:[37] جو چند گھنٹوں[38] سے لے کر 9 ماہ[39] تک بتایا گیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ روایات میں حمل کی مدت مختلف بیان کی گئی ہے۔[40] اہل سنت کے مفسر ابن کثیر نے مشہور قول کو 9 ماہ قرار دیا ہے۔[41]

حاملہ ہونے کی کیفیت

مکارم شیرازی کے مطابق، قرآن اس بارے میں کوئی صریح وضاحت نہیں کرتا کہ مریمؑ حاملہ کیسے ہوئیں اور اس کا تذکرہ صرف "ہم نے اپنی روح سے ان میں پھونکا"[42] کے ساتھ کیا ہے۔[43] شیعہ تفسیری روایات میں آیا ہے کہ حمل صرف فرشتے کے پھونکنے سے ہوا۔[44] مکارم شیرازی نے حاملہ ہونے کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء بیان کی ہیں۔[45] بعض مفسرین نے مریم کے حمل کو جبرائیل کا مریم کے کپڑوں کے گریباں میں پھونکنے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔[46]

کہا گیا ہے کہ یہ تعبیر کنایہ ہے اور اس سے مراد رَحِم کا لباس ہے۔[47] شیعہ مفسر شیخ طوسی (متوفی: 460ھ) ایک شیعہ مفسر نے اس قول کو ضعیف سمجھا ہے۔[48] علامہ طباطبائی نے مریمؑ میں روح پھونکنے کے معنی کو حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش غیر معمولی ہونے کی طرف اشارہ سمجھا ہے، جو دوسرے انسانوں کے برعکس، فطری راستہ طے کئے بغیر حضرت آدمؑ کی طرح اللہ کے ارادے سے پیدا ہوئے ہیں۔[49] شیعہ مفسر محمد جواد مغنیہ (متوفی: 1400ھ) حضرت مریمؑ کے حمل اور حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کو ان چیزوں میں سے ایک مانتے ہیں جن کا مکمل علم ممکن نہیں ہے اور اس کے بارے میں صرف خدا ہی جانتا ہے۔[50]

موت کی تمنا سے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش تک

«تولد مسیح» حسین بہزاد کا ہنر؛ سنہ 1958ء میں نیویورک مقابلے میں منتخب اثر۔[51]

قرآن کے مطابق حضرت مریمؑ لوگوں سے دور رہنے کے لئے کسی دور افتادہ مقام پر گئیں[52] بعض مفسرین نے اس دور دراز مقام کو آج کے فلسطین کا شہر ناصرہ سمجھا ہے۔[53] سورہ مریم کی آیت کے مطابق دردِ زہ کی تکلیف نے حضرت مریمؑ کو کھجور کے خشک تنے[54] کی طرف کھینچ لیا۔[55] اس وقت مریم نے مرنے کی خواہش ظاہر کی: "کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور بالکل نسیاً منسیاً (بھول بسری) ہوگئی ہوتی۔"[56] مریمؑ کی اس خواہش کی وجہ، لوگوں کی طرف سے شرمندگی،[57] ان کے الزام کا خوف[58] اور بے عزتی کا خوف[59] سمجھا گیا ہے۔

شیعہ مفسر سید محمد تقی مدراسی نے حضرت مریمؑ کی ان باتوں کی تفسیر میں کہا ہے کہ مریمؑ ایک نوجوان لڑکی تھیں جس نے دنیا کو ترک کیا تھا اور ان کی ذاتی اور سماجی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ اب ایسی عورت دردِ زہ میں مبتلا ہے اور نہیں جانتی ہیں کہ کیا کرے۔ وہ ایسے واقعے کے سنگین سماجی نتائج کو سمجھتی ہیں اور اس سے بچنے کے لیے موت کی تمنا کرتی ہیں۔[60] مکارم شیرازی کے مطابق مریمؑ کی طرف سے موت کی تمنا کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ عفت اور پاکدامنی کو اپنی جان سے زیادہ چاہتی تھی۔.[61]

قرآنی آیات کے مطابق جب حضرت مریمؑ نے موت کی تمنا کی تو ان کے قدموں کے نیچے سے ایک آواز آتی ہے[62] تاکہ ان سے پریشانی دور ہوجائے۔[63] آواز دینے والے کو بعض نے حضرت عیسیٰؑ اور بعض نے جبرائیل سمجھا ہے۔[64] قرآن کے مطابق، خدا نے مریمؑ کے قدموں کے نیچے ایک چھوٹی سی نہر جاری کی[65] اور ان کے لیے کھجور کے درخت سے تازہ خرما بھیجا۔[66] مفسرین نے قرآنی آیات کے مطابق کہا ہے کہ اس کے بعد مریمؑ سے کہا گیا کہ وہ کھانا کھائے، پانی پئے اور بچے کی وجہ سے خوش ہوجائے۔[67]

مریم کی اپنی قوم میں واپسی

قرآن کے مطابق، ولادت کے بعد، مریمؑ اپنے بچے کے ساتھ اپنی قوم کے پاس واپس آئیں۔[68] قرآن کی تفاسیر کے مطابق، اس وقت، مریمؑ کو حکم دیا گیا کہ وہ کسی سے بات نہ کرے اور خاموشی کا روزہ رکھے۔[69] قرآن کے مطابق مریمؑ کی قوم نے ان سے کہا کہ تم نے ایک ناگوار کام کیا ہے[70] اور طعنہ دینے کے لیے[71] ان سے کہا: اے ہارون کی بہن، [یادداشت 1] آپ کا باپ برا آدمی نہیں تھا اور آپ کی والدہ بھی بدکار نہیں تھیں۔[72] قرآن نے ان الفاظ کو الزام اور عظیم تہمت شمار کیا ہے۔[73]

فیض کاشانی کے مطابق، مریمؑ نے اپنی قوم کے طعنوں کا جواب دینے کے لیے اپنے بچے کی طرف اشارہ کیا۔[74] سورہ مریم کے مطابق انہوں نے کہا کہ جھولے میں پڑے بچے سے کیسے بات کی جائے۔[75] کہا جاتا ہے کہ اس وقت حضرت عیسیٰ نے خدائی معجزے سے بات کی[76] اور کہا: "میں خدا کا بندہ ہوں۔" اس نے مجھے ایک (آسمانی) کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔[77] بعض مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اس معجزے سے اپنی والدہ حضرت مریمؑ کی عفت کو ثابت کیا۔ [78]

مریم کے حمل کے بارے میں قرآن اور انجیل میں فرق

بعض محققین قرآن اور انجیل میں حضرت مریمؑ کے بارے میں تحقیق کے بعد یوں نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن میں حضرت مریم کی اپنی منزلت ہے جبکہ انجیل میں مریم کا تذکرہ اس وقت پیش آتا ہے جب حضرت عیسی کی ولادت کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ انجیل میں حضرت مریم کی اہمیت حضرت عیسی کی ماں ہونے کی وجہ سے ہے لیکن قرآن میں مریم کی اپنی اہمیت اور ان کا اپنا مقام ہے۔[79] قرآن میں مریمؑ کے حمل کی کہانی انجیل کی نسبت زیادہ مفصل ہے؛[80] قرآن اور انجیل دونوں، مریمؑ کنواری ہونے کے بارے میں متفق ہیں، لیکن انجیل میں حضرت مریم کے بارے میں حمل سے پہلے کی بعض تفصیلات ہیں جو قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہیں؛ ان میں سے ایک یہ کہ مریمؑ کسی یوسف نامی شخص کے عقد میں تھیں لیکن ان سے شادی سے پہلے وہ حاملہ ہوگئیں۔[81]

حضرت مریمؑ حاملہ ہونے کے بعد کی تفصیلات کے بارے میں قرآن اور انجیل کے درمیان بعض فرق پائے جاتے ہیں: قرآن کے مطابق وضع حمل کے دوران مریم شہر سے باہر کھجور کے کسی خشک درخت کے نیچے تنہا تھیں۔ لیکن انجیل کے مطابق مریمؑ یوسف کے گھر یا شہر میں کسی سرائے میں تھیں؛[82]

قرآن میں حضرت عیسی کی گہوارے میں بات کرنے کو اپنی والدہ کی پاکیزگی ثابت کرنا قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ انجیل میں اس کا تذکرہ نہیں ہے؛[83] قرآن کے مطابق، حضرت عیسیٰ گہوارے میں اپنی نبوت کی گواہی دیتے ہیں، لیکن انجیل کے مطابق دوسرے لوگ، جیسے چرواہے اور ماہرین فلکیات، بچے کی خصوصیت کو محسوس کرتے ہیں۔[84]

حوالہ جات

  1. پویا، «تولد مسیح(ع) در قرآن و انجیل»، ص3۔
  2. ‏جعفری، تفسیر کوثر، 1376شمسی، ج2، ص125۔
  3. زحیلی، تفسیر الوسیط، 1422ھ، ج2، ص1468۔
  4. فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج15، ص30۔
  5. سورہ انبیاء، آیہ 91۔
  6. مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج7، ص370۔
  7. سورہ انبیاء، آیہ91۔
  8. سورہ تحریم، آیہ 12۔
  9. طاہری‌نیا، «ساختار نشانہ‌ای شخصیت حضرت مریم در قرآن کریم»، ص51۔
  10. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج6، ص789۔
  11. سورہ آل‌عمران، آیہ 59۔
  12. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج3، ص212۔
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج13، ص58۔
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج13، ص58۔
  15. «بکرزایی انقلابی در دانش تولید مثل»، در تارنمای خبرگزاری جمہوری اسلامی۔
  16. «تحقیق در مورد بکرزایی»، سایت Mag IRANS۔
  17. «تحقیق در مورد بکرزایی»، سایت Mag IRANS۔
  18. «بکرزایی انقلابی در دانش تولید مثل»، خبرگزاری جمہوری اسلامی۔
  19. «بکرزایی انقلابی در دانش تولید مثل»، خبرگزاری جمہوری اسلامی۔
  20. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج14، ص35۔
  21. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج14،ص34۔
  22. سورہ مریم، آیہ17۔
  23. سورہ آل‌عمران، ایہ 45۔
  24. سورہ مریم، آیہ 17۔
  25. ملاحظہ ہو: مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج2، ص63۔
  26. سورہ مریم، آیہ17۔
  27. ملاحظہ ہو: زحیلی، تفسیر الوسیط، 1422ھ، ج2، ص1468۔
  28. ملاحظہ ہو: نجفی خمینی، تفسیر آسان، 1398ھ، ج2، ص315۔
  29. سورہ مریم، آیہ19۔
  30. سورہ آل‌عمران، آیہ 45۔
  31. ملاحظہ ہو: حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج3، ص78۔
  32. سورہ آل‌عمران، ایہ45۔
  33. سورہ آل‌عمران، آیہ 45۔
  34. سورہ مریم، آیہ20۔
  35. سورہ مریم، آیہ21۔
  36. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج13، ص40۔
  37. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1420ھ، ج‏5، ص196۔
  38. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج3، ص277۔
  39. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج13، ص40۔
  40. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج13، ص40۔
  41. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1420ھ، ج‏5، ص196۔
  42. سورہ تحریم، آیہ12۔
  43. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج‏13، ص39۔
  44. ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج6، ص789۔
  45. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج13، ص39۔
  46. ملاحظہ کریں: مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج4، ص380۔
  47. طوسی، التبیان، بیروت، ج10، ص54۔
  48. طوسی، التبیان، بیروت، ج7، ص276۔
  49. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج14، ص316۔
  50. مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج2، ص10۔
  51. «تولد مسیح / موزہ استاد بہزاد»، مجموعہ فرہنگی تاریخی سعدآباد۔
  52. صادقی تہرانی، البلاغ، 1419ھ، ص306۔
  53. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج13، ص40۔
  54. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج14، ص42۔
  55. سورہ مریم، آیہ23۔
  56. سورہ مریم، آیہ23۔
  57. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج14، ص42۔
  58. بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ھ، ج4، ص8۔
  59. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج13، ص44۔
  60. مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج7، ص32۔
  61. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج13، ص44۔
  62. سورہ مریم، آیہ24۔
  63. سورہ مریم، آیہ24۔
  64. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج6، ص790؛ جعفری، تفسیر کوثر، 1376شمسی، ج6، ص510۔
  65. شیبانی، نہج البیان، 1413ھ، ج3، ص309۔
  66. سورہ مریم، آیہ25۔
  67. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج13، ص42۔
  68. سورہ مریم، آیت 27۔
  69. برای نمونہ ن.ک: طیب، أطیب البیان، 1378شمسی، ج8، ص433۔
  70. سورہ مریم، آیت 27۔
  71. حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج10، ص374۔
  72. سورہ مریم، آیہ28۔
  73. سورہ نساء، آیت 156۔
  74. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج3، ص279۔
  75. سورہ مریم، آیت 29۔
  76. جعفری، تفسیر کوثر، 1376شمسی، ج6، ص513۔
  77. سورہ مریم، آیت 30۔
  78. جعفری، تفسیر کوثر، 1376شمسی، جلد 6، صفحہ 513۔
  79. «نگاه قرآن کریم و کتاب مقدس به مریم‌(س) چگونه است؟»، اسلام کوئست.
  80. پویا، «تولد مسیح(ع) در قرآن و انجیل»، ص5۔
  81. پویا، «تولد مسیح(ع) در قرآن و انجیل»، ص6۔
  82. بیابانی اسکویی، «تولد حضرت مسیح در قرآن و عہد جدید»، ص35۔
  83. بیابانی اسکویی، «تولد حضرت مسیح در قرآن و عہد جدید»، ص35۔
  84. بیابانی اسکویی، «تولد حضرت مسیح در قرآن و عہد جدید»، ص35

نوٹ

  1. مکارم شیرازی نے اس تعبیر کے بارے میں سب سے زیادہ درست قول یہ سمجھا کہ ہارون ایک پاکباز اور نیک آدمی تھا اور بنی اسرائیل میں طہارت کا ایک محاورہ بن چکا تھا اور ہر وہ شخص جسے وہ پاکیزہ بتانا چاہتے تھے تو ان سے کہتے تھے: وہ ہارون کا بھائی یا بہن ہے۔ (مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، جلد 13، ص51)

مآخذ

  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق سامی بن محمد سلامۃ، دار طیبۃ للنشر و التوزیع، 1420ھ۔
  • بیابانی اسکویی، محمد، «تولد حضرت مسیح در قرآن و عہد جدید»، در صحیفہ مبین، شمارہ 8، 1375ہجری شمسی۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التأویل، تحقیق محمد عبدالرحمن المرعشلی‏، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1418ھ۔
  • پویا، اعظم، «تولد مسیح(ع) در قرآن و انجیل»، در فقہ و حقوق خانوادہ، شمارہ 6، تابستان 1376ہجری شمسی۔
  • «بکرزایی انقلابی در دانش تولید مثل»، خبرگزاری جمہوری اسلامی،‌ تاریخ اشاعت: 5 اردیبہشت 1383شمسی،‌ تاریخ مشاہدہ: 14 دی 1402ہجری شمسی۔
  • «تحقیق در مورد بکرزایی»، سایت Mag IRANS، تاریخ مشاہدہ: 14 دی 1402ہجری شمسی۔
  • ‏جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، قم، انتشارات ہجرت، 1376ہجری شمسی۔
  • حسینی ہمدانی، سید محمدحسین، انوار درخشان در تفسیر قرآن، تحقیق محمدباقر بہبودی‏، تہران، کتابفروشی لطفی، 1404ھ۔
  • ‌ زحیلی، وہبۃ بن مصطفی، تفسیر الوسیط، دمشق، دارالفکر، 1422ھ۔
  • شیبانی، محمد بن حسن، نہج البیان عن کشف معانی القرآن، تحقیق حسین درگاہی‏، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، 1413ھ۔
  • صادقی تہرانی، محمد، البلاغ فی تفسیر القرآن بالقرآن، قم، بی‌نا، 1419ھ۔
  • طاہری‌نیا، علی و زہرہ حیدری، «ساختار نشانہ‌ای شخصیت حضرت مریم در قرآن کریم»، در لسان مبین، شمارہ 15، بہار 1393ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمدجواد بلاغی‏، تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد حبیب العاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طیب، سید عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، 1378ہجری شمسی۔
  • فضل‌اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعۃ و النشر، 1419ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ‌مرتضی، تفسیر الصافی، تحقیق حسین اعلمی، تہران، انتشارات الصدر، 1415ھ۔
  • مدرسی، سید محمدتقی، من ہدی القرآن، تہران، دارمحبی الحسین، 1419ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1424ھ۔
  • مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، تحقیق عبداللہ محمود شحاتہ، بیروت، دار إحياء التراث العربی، 1423ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
  • نجفی خمینی، محمدجواد، تفسیر آسان، تہران، انتشارات اسلامیۃ، چاپ اول، 1398ھ۔
  • «نگاه قرآن کریم و کتاب مقدس به مریم‌(س) چگونه است؟»، اسلام کوئست.