سدیر صیرفی

ویکی شیعہ سے
(سدیر بن حکیم الصیرفی سے رجوع مکرر)
سَدیر الصیرفی
ذاتی کوائف
کنیت:ابو الفضل
لقب:الصیرفی
نسب:سدیر بن حکیم بن الصہیب
محل زندگی:کوفہ
مذہب:شیعہ
حدیثی معلومات
ان کے راوی:عبدالله بن مُسکان، حنان بن سدیر، حسین بن نعیم صحاف، اسحاق بن جریر، جمیل بن صالح
وثاقت:ثقہ


سَدِیر الصَیرفی شیعہ راوی ہے نیز امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ سدیر کے والد اور بیٹے بھی حدیث کے شیعہ راویوں میں سے تھے۔ تقریباً 90 احادیث سدیر سے نقل کی گئی ہیں۔

سدیر کی وثاقت میں اختلاف رائے کے باوجود، بعض شیعہ محققین سدیر الصیرفی کی وثاقت کے قائل ہیں۔ ان محققین میں سید ابوالقاسم خوئی، علامہ حلی اور عبد اللہ مامقانی شامل ہیں۔ بعض اہل سنت علمائے رجال جیسے ذہبی وغیرہ بھی سدیر کو روایت حدیث کے سلسلے میں ثقہ سمجھتے ہیں اور ان کی وثاقت کے سلسلے میں چند روایتیں بھی نقل کی ہیں۔ بہت سے راویوں جیسے عبد اللہ بن مُسکان جو اصحاب اجماع میں سے ہیں، نے سدیر سے حدیث روایت کی ہے۔

تعارف اور مقام و مرتبہ

سَدیر بن حُکَیم بن صُہَیب[1] کا لقب الصیرفی[2] اور کنیت ابو الفضل ہے[3] اور امام محمد باقرؑ[4] اور امام جعفر صادقؑ[5] کے اصحاب میں سے ہیں۔ سدیر کے والد حکیم بن صہیب امام زین العابدینؑ اور امام محمد باقرؑ سے نقل روایت کرتے تھے۔[6] سدیر کے ایک بیٹے کا نام حنان بن سدیربن حکیم تھا جو امام صادقؑ[7] اور امام موسی کاظمؑ[8] سے نقل روایت کرتے تھے جبکہ دوسرے بیٹے کا نام خالد بن سدیر بن حکیم صہیب الصیرفی تھا جو امام جعفر صادقؑ کے راویوں میں سے تھے۔[9] تنقیح المقال کے مصنف عبد اللہ مامقانی نے ایک روایت سے استفادہ کرتے ہوئے سدیر کے والد، دادا اور اس کے ایک چچا کو خواص شیعہ اور اہل بیتؑ سے مقرب افراد میں سے قرار دیا ہے۔[10] علم رجال کے ماہر کشی کا عقیدہ ہے کہ سدیر کا بیٹا حنان نے واقفیہ مذہب اختیار کیا ہے۔[11] جن احادیث کے سلسلہ سند میں سدیر کا نام ذکر ہوا ہے ان کی مجموعی تعداد 68 ہے جبکہ جن احادیث کے سلسلہ سند میں لفظ سدیر الصیرفی ذکر ہوا ہے ان کی مجموعی تعداد 21 ہے۔[12] البتہ رجالی اور تاریخی مآخذ میں سدیر کی شخصیت کے بارے میں زیادی تفصیلنہیں ملتی ہے۔[13]

سدیر کی وثاقت

علم رجال کے قدیمی اور متاخر مآخذ میں علمائے رجال نے سدیر کی وثاقت کا حکم دیا ہے۔ علامہ حلی نے اپنی کتاب الخلاصہ میں امام جعفر صادقؑ کی جانب سے سدیر کے حکومت وقت کے قید خانے سے رہائی کے لیے گریہ و زاری کو اس کے اعلیٰ مرتبے کی نشانی قرار دیا ہے۔[14] آیت اللہ خوئی اپنی کتاب معجم رجال الحدیث میں فرماتے ہیں: وہ تمام راوی جو تفسیر علی بن ابراہیم اور کامل الزیارات کے سلسلہ سند میں موجود ہیں وہ سب کے سب ثقہ ہیں[15] اور سدیر ان راویوں میں سے ایک ہیں جس کا نام ان دونوں کتابوں میں موجود ہے۔[16] علم رجال کے شیعہ محقق عبد اللہ مامقانی نے تنقیح المقال میں لکھا ہے کہ چند احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سدیر شیعہ بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے بہت سی روایات نقل کی ہیں اور اصحاب اجماع میں سے عبد اللہ بن مُسکان جیسے بعض بزرگ راویوں نے ان سے احادیث نقل کی ہیں۔[17]

علم رجال کے شیعہ محقق محمد جواد شبیری سدیر کی وثاقت کے سلسلے میں لکھتے ہیں: اہل سنت علما شیعہ راویوں کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ وہ معمولی سی چیزوں کے ذریعے بھی شیعہ راویوں کی تضعیف کردیتے ہیں؛ تاہم، اس حقیقت کے باوجود کہ سدیرکا تعلق شیعہ مذہب ہے، اہل سنت کے بزرگوں جیسے عقیلی اور ابن عُدی نے سدیر کی وثاقت کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ، امام محمد باقرؑ نے کنایہ کے ذریعے سدیر کا تذکرہ کیا ہے، یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کے زمانے میں سدیر ایک معروف شخصیت کے مالک تھے۔[18] البتہ بعض احادیث میں سدیر کی مذمت کی گئی ہے[19] جس کی وجہ سے شیعہ علمائے رجال کے مابین سدیر کی وثاقت میں اختلاف پیدا ہوا ہے۔ سدیر کی مذمت کے نظریہ کو رد کرتے ہوئے آیت اللہ خوئی فرماتے ہیں: سدیر کے بارے میں موجود احادیث سے بعض لوگوں کی جانب سے نادرست مفہوم لینے کے بموجب انہوں نے سدیر کی مذمت کو پہلو نکالا ہے جبکہ یہی روایات نہ صرف سدیر کی مذمت پر دلالت نہیں کرتیں بلکہ سدیر کی تعریف پر دلالت کرتی ہیں۔[20] اس پر مستزاد یہ کہ وہ روایات جو سدیر کی مذمت پر دلالت کرتی ہیں وہ علم رجال کے معیارات کے مطابق ضعیف روایات میں شمار ہوتی ہیں۔[21] علم رجال کے سنی عالم دین ذہبی نے اپنی کتاب "میزان الاعتدال" میں سدیر کے ثقہ ہونے کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے۔[22]

سدیر سے نقل کرنے والے راوی

جن راویوں نے سدیر سے نقل روایت کی ہے ان کے نام یہ ہیں: عبد الله بن مُسکان جن کا شمار اصحاب اجماع میں ہوتا ہے،[23] حسین بن نُعیم صَحّاف،[24] حکم بن زبیر،[25] خطاب بن مُصعَب،[26] ابی الوفاء المرادی،[27] اسحاق بن جریر،[28] بَکر بن محمد الاَزدی،[29] جمیل بن صالح،[30] حَنان بن سدیر،[31] رُزَیق بن الزبیر،[32] سَعدان بن مسلم[33] ہاشم بن المُثَنّی،[34] یونس بن یعقوب[35] اورسلیمان الدَیمُلی۔[36]

حوالہ جات

  1. نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص146؛ طوسی، رجال الطوسی، 1373شمسی، ص114۔
  2. طوسی، رجال الطوسی، 1373شمسی، ص114۔
  3. طوسی، رجال الطوسی، 1373شمسی، ص114؛ کشی، إختیار معرفة الرجال، 1409ھ، ص210؛ برقی، رجال البرقی، 1342شمسی، ص18؛ نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص146۔
  4. طوسی، رجال الطوسی، 1373شمسی، ص137؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص192؛ صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ج1، ص105۔
  5. برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص158؛ کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص427؛ مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، مؤسسه آل البیت(ع)، ج3، ص155۔
  6. طوسی، رجال الطوسی، 1373 شمسی، ص113۔
  7. طوسی، رجال الطوسی، 1373شمسی، ص193۔
  8. طوسی، رجال الطوسی، 1373ش، ص334۔
  9. ابن داود، الرجال، 1342شمسی، ص138۔
  10. مامقانی، تنقیح المقال، مؤسسه آل البیت(ع)، ج30، ص164۔
  11. کشی، إختیار معرفة الرجال، 1409ھ، ص555۔
  12. خوئی، معجم رجال الحدیث، مؤسسة الخوئی الإسلامیة، ج 9، ص39۔
  13. طوسی، رجال طوسی، 1373شمسی، ص114؛ خویی، معجم الرجال، مؤسسة الخوئی الإسلامیة، ج9، ص39۔
  14. علامه حلی، الخلاصة للحلی، 1402ھ، ص85۔
  15. خوئی، معجم رجال الحدیث، مؤسسة الخوئی الإسلامیة، ج1، ص49–50۔
  16. ابن قولویه، کامل الزیارات، 1356شمسی، ص78 و قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص188۔
  17. مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، مؤسسه آل البیت(ع)، ج 30 ص163۔
  18. «درس خارج فقه استاد سید محمدجواد شبیری»، مدرسه فقاهت
  19. کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، ص331؛ کشی، إختیار معرفة الرجال، 1409ق، ص210۔
  20. خوئی، معجم رجال الحدیث، مؤسسة الخوئی الإسلامیة، ج 9 ص38۔
  21. خوئی، معجم رجال الحدیث، مؤسسة الخوئی الإسلامیة، ج 9 ص39۔
  22. ذهبی، میزان الاعتدال، 1382شمسی، ج2، ص116۔
  23. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص189۔
  24. طوسی، تهذیب الأحکام، 1407ھ، ج6، ص323۔
  25. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص569۔
  26. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص366۔
  27. طوسی، تهذیب الأحکام، 1407ھ، ج1، ص311۔
  28. ابن بابویه، من لا یحضره الفقیه، 1413ھ، ج4، ص47۔
  29. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص264۔
  30. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص274۔
  31. حمیری، قرب الإسناد، 1413 ھ، ص96۔
  32. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص507۔
  33. برقی، المحاسن، 1371 ھ، ج2، ص487۔
  34. طوسی، تهذیب الأحکام، 1407ھ، ج7، ص416۔
  35. برقی، المحاسن، 1371 ھ، ج2، ص487۔
  36. صفار، بصائر الدرجات، 1404 ھ، ج1، ص230۔

مآخذ

  • ابن‌ داود، حسن بن علی بن داود، الرجال، تهران، بی‌نا، چاپ اول، 1342ہجری شمسی۔
  • ابن‌ قولویه، جعفر بن محمد، کامل الزیارات - نجف اشرف، بی‌نا، چاپ اول، 1356ہجری شمسی۔
  • برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، قم، بی‌نا، چاپ دوم، 1371ھ۔
  • برقی، احمد بن محمد بن خالد، رجال البرقی الطبقات، تهران، بی‌نا، چاپ اول، 1342ہجری شمسی۔
  • حمیری، عبدالله بن جعفر، قرب الإسناد (ط - الحدیثة)، قم، بی‌نا، چاپ اول، 1413ھ۔
  • خویی، سید أبو القاسم، معجم رجال الحدیث، بی‌جا، مؤسسة الخوئی الإسلامیة، بی‌تا۔
  • ذهبی، شمس‌الدین، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، تحقیق: علی‌محمد البجاوی، بیروت،‌ دار المعرفة، الطبعة الأولی، 1382ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، قم، بی‌جا، بی‌نا، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن الحسن، تهذیب الأحکام، تحقیق حسن خرسان، تهران، بی‌نا، چاپ چهارم، 1407ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن الحسن، رجال الطوسی، قم، بی‌نا، چاپ سوم، 1373ہجری شمسی۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلّی الله علیهم، ایران، قم، بی‌نا، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • علامه حلی، حسن بن یوسف، رجال العلامة الحلی، تحقیق بحر العلوم، محمد صادق، قم، الشریف الرضی، 1402ھ۔
  • قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، قم، بی‌نا، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، مشهد، بی‌نا، چاپ اول، 1409ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، الإسلامیة، چاپ چهارم، 1407ھ۔
  • کوفی، فرات بن ابراهیم، تفسیر فرات الکوفی، تهران، بی‌نا، چاپ اول، 1410ھ۔
  • مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال فی علم الرجال، قم، موسسة آل البیت(ع) لإحیاء التراث، بی‌تا۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، بی‌نا، چاپ ششم، 1365ہجری شمسی۔