مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن زبیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 43: سطر 43:
==قیام اور خلافت==
==قیام اور خلافت==


[[معاویہ]] کے مرنے کے بعد عبدالله بن زبیر نے [[یزید]] کی بیعت نہیں کی اور امویوں کے خلاف قیام کے راستے کو اپنایا۔تاریخی منابع میں اس قیام کے متعلق  مختلف نظریے بیان ہوئے ہیں ؛ان میں سے ایک [[خلافت]] کا حصول تھا۔ بعض روایات کے مطابق ابن زبیر [[امام حسین(ع)]] کے وجود کو اپنی آرزو کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتا تھا کیونکہ جب تک امام حسین(ع) جیسی شخصیت حجاز میں موجود ہو گی لوگ اسکی رہبری قبول نہیں کریں گے ،جب اسے امام حسین کے کوفہ جانے کے ارادے کا پتہ چلا تو وہ انہیں کوفہ جانے کی ترغیب دیتا رہا ۔<ref> فرزندان آل ابی طالب/ترجمہ،ج۱،ص:۱۶۴.</ref>
[[معاویہ]] کے مرنے کے بعد عبدالله بن زبیر نے [[یزید]] کی بیعت نہیں کی اور امویوں کے خلاف قیام کے راستے کو اپنایا۔ تاریخی منابع میں اس قیام کے متعلق  مختلف نظریے بیان ہوئے ہیں؛ ان میں سے ایک [[خلافت]] کا حصول تھا۔ بعض روایات کے مطابق ابن زبیر [[امام حسین (ع)]] کے وجود کو اپنی آرزو کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتا تھا کیونکہ جب تک امام حسین (ع) جیسی شخصیت حجاز میں موجود ہوگی لوگ اسکی رہبری قبول نہیں کریں گے، جب اسے امام حسین کے کوفہ جانے کے ارادے کا پتہ چلا تو وہ انہیں کوفہ جانے کی ترغیب دیتا رہا۔<ref> فرزندان آل ابی طالب/ترجمہ،ج۱،ص:۱۶۴.</ref>
ابن‌ زبیر  پیامبر(ص) اور ان کی دو زوجات [[حضرت خدیجہ کبری سلام الله علیہا|خدیجہ]] اور حضرت [[عائشہ]] سے نزدیکی رشتہ رکھتا تھا ۔اسکا باپ [[صحابہ]] کی نسبت رسول خدا سے زیادہ نزدیک تھا اور اسے اپنے باپ کے [[چھ رکنی شوریٰ]] میں ایک ممبر ہونے کی خصوصیت بھی حاصل تھی ۔ <ref>درباره شورا نک: تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰؛ الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۴۲.</ref> مزید یہ کہ وہ مدعی تھا کہ عثمان نے اسے خلافت دینے کا عہد کیا تھا ۔ان تمام عوامل کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو بنی امیہ کی نسبت خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتا تھا ۔
ابن‌ زبیر  پیامبر (ص) اور ان کی دو زوجات [[حضرت خدیجہ کبری سلام الله علیہا|خدیجہ]] اور حضرت [[عائشہ]] سے نزدیکی رشتہ رکھتا تھا۔ اسکا باپ [[صحابہ]] کی نسبت رسول خدا سے زیادہ نزدیک تھا اور اسے اپنے باپ کے [[چھ رکنی شوریٰ]] میں ایک ممبر ہونے کی خصوصیت بھی حاصل تھی۔<ref>درباره شورا نک: تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰؛ الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۴۲.</ref> مزید یہ کہ وہ مدعی تھا کہ عثمان نے اسے خلافت دینے کا عہد کیا تھا۔ ان تمام عوامل کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو بنی امیہ کی نسبت خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتا تھا۔


معاویہ امام علی کی [[شہادت]] کے بعد ابن زبیر کو دھمکانے اور لالچ کے ذریعے اپنی بیعت <ref>البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۶۰.</ref> اور قسطنتنیہ پر حملے میں اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہا <ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۶؛ تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۱۲.</ref> لیکن ساتھ ہی  اپنے مرنے کے بعد اپنے جانشین یزید کی بیعت نہ کرنے پر اسے تہدید بھی کی ۔<ref>نساب الاشراف، ج۵، ص۱۴۵؛ الاخبار الطوال، ص۲۲۶.</ref> معاویہ کی وفات کے بعد اسکی نصیحت کے مطابق یزید نے ابن زبیر سے بیعت کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا اور اسے جان سے مار دینے کی دھمکی لہذا ابن زبیر نے اس خوف سے مکہ میں خانۂ خدا میں پناہ لی ۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۴؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۳۳۹.</ref> وہ اپنے آپ کو '''عائذ البیت''' (خانۂ خدا میں پناہ لینے والا) لے لقب سے یاد کرتا ۔<ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref> گویا ایک روایت کی طرف اشارہ ہے کہ جسکی بنا پر ایک شخص ستمکاروں کے ستم کی وجہ سے کعبہ کو پناہ قرار دے گا اور ستمکار نابود ہو جائیں گے ۔ <ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref>
معاویہ امام علی کی [[شہادت]] کے بعد ابن زبیر کو دھمکانے اور لالچ کے ذریعے اپنی بیعت <ref>البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۶۰.</ref> اور قسطنتنیہ پر حملے میں اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہا <ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۶؛ تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۱۲.</ref> لیکن ساتھ ہی  اپنے مرنے کے بعد اپنے جانشین یزید کی بیعت نہ کرنے پر اسے تہدید بھی کی۔<ref>نساب الاشراف، ج۵، ص۱۴۵؛ الاخبار الطوال، ص۲۲۶.</ref> معاویہ کی وفات کے بعد اسکی نصیحت کے مطابق یزید نے ابن زبیر سے بیعت کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا اور اسے جان سے مار دینے کی دھمکی لہذا ابن زبیر نے اس خوف سے مکہ میں خانۂ خدا میں پناہ لی۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۴؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۳۳۹.</ref> وہ اپنے آپ کو عائذ البیت (خانۂ خدا میں پناہ لینے والا) لے لقب سے یاد کرتا۔<ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref> گویا ایک روایت کی طرف اشارہ ہے کہ جسکی بنا پر ایک شخص ستمکاروں کے ستم کی وجہ سے کعبہ کو پناہ قرار دے گا اور ستمکار نابود ہو جائیں گے۔<ref>المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.</ref>


ابن زبیر نے شروع میں ظاہر کیا کہ وہ یزید کی  بیعت کرے گا اور کچھ مدت اسی طرح گزر گئی ۔ مکہ میں واقعہ کربلا پہنچنے کے بعد ایک نہایت جوشیلا خطبہ دیا، گریہ کیا اور کنایتی انداز میں خلافت کیلئے یزید کے غیر موزوں اور نالائق کہا۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹؛ المنتظم، ج۵، ص۳۴۷.</ref> بالآخر یزید نے اسے انی بیعت کرنے کا حکم دیا اور چاندی سے بنی ہوئی زنجیریں اس کے لیے بھیجیں اور چاہا کہ وہ بیعت کے ذریعے اسکی فرمانبرداری کا اظہار کرے اور اسکے پاس آئے لیکن ابن زبیر نے قبول نہیں کیا ۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۲۷-۳۲۸؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۴۷۵.</ref>
ابن زبیر نے شروع میں ظاہر کیا کہ وہ یزید کی  بیعت کرے گا اور کچھ مدت اسی طرح گزر گئی۔ مکہ میں واقعہ کربلا پہنچنے کے بعد ایک نہایت جوشیلا خطبہ دیا، گریہ کیا اور کنایتی انداز میں خلافت کیلئے یزید کے غیر موزوں اور نالائق کہا۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹؛ المنتظم، ج۵، ص۳۴۷.</ref> بالآخر یزید نے اسے انی بیعت کرنے کا حکم دیا اور چاندی سے بنی ہوئی زنجیریں اس کے لیے بھیجیں اور چاہا کہ وہ بیعت کے ذریعے اسکی فرمانبرداری کا اظہار کرے اور اسکے پاس آئے لیکن ابن زبیر نے قبول نہیں کیا۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۲۷-۳۲۸؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۴۷۵.</ref>


مدینے اور مکے کے حاکم عمرو بن سعید نے یزید کے فرمان پر ایک مختصر فوجی دستہ بیعت لینے کیلئے ابن زبیر کی طرف روانہ کیا لیکن انہوں نے   ابن زبیر کی سپاہ سے شکست کھائی ۔ <ref>الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۰.</ref> اس دستے کا سربراہ ابن زبیر کا سوتیلا بھائی تھا <ref>نک: الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۱۹۸.</ref> وہ اس جنگ میں اسیر ہو کر زندان میں قتل ہوا۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۱.</ref> اس وقت عملی طور پر مکہ ابن زبیر کے ہاتھ میں تھا <ref>حوالے کی ضرورت ہے ۔</ref>۔ مدینہ بھی واقعۂ کربلا اور یزید کی نالائقی کی بنا پر ابن زبیر کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا ۔ مدینے کے جوان حاکم عثمان بن محمد بن ابی ­سفیان نے حج کے بعد مدینے کے نمایا شخصیات کا ایک وفد شام روانہ کیا کہ شاید انعام و اکرام یزید کے ذریعے ان کی دلجوئی شاید حالات مدینہ پر سکون ہو جائیں اور مدینے کی بے چینی کا خاتمہ ہو۔<ref>مسکویہ، ج۲، ص۸۵.</ref> لیکن اسکی وجہ سے یزید کی خلافت کیلئے نالائقی اور عیان ہو گئی ۔ اس وفد کے سامنے یزید کی غیر اسلامی رفتار نے اس وفد کو مزید ناراض اور ناراحت کیا  ۔اس وفد نے مدینہ واپسی پر اسکی خلافت کی نسبت ناشائستگی کو کھل کر لوگوں کے سامنے بیان کیا اور اسے برا بھلا کہا ۔ اسکے جواب میں یزید نے ایک بہت سخت لہجے میں مدینہ کے لوگوں کو خط لکھا ۔ <ref>تجارب الأمم، ایضا، ج ۲، ص۸۵ و تاریخ الطبری، ج ۵، ص۴۸۰.</ref>
مدینے اور مکے کے حاکم عمرو بن سعید نے یزید کے فرمان پر ایک مختصر فوجی دستہ بیعت لینے کیلئے ابن زبیر کی طرف روانہ کیا لیکن انہوں نے ابن زبیر کی سپاہ سے شکست کھائی۔<ref>الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۰.</ref> اس دستے کا سربراہ ابن زبیر کا سوتیلا بھائی تھا <ref>نک: الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۱۹۸.</ref> وہ اس جنگ میں اسیر ہو کر زندان میں قتل ہوا۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۱.</ref> اس وقت عملی طور پر مکہ ابن زبیر کے ہاتھ میں تھا <ref>حوالے کی ضرورت ہے۔</ref>۔ مدینہ بھی واقعۂ کربلا اور یزید کی نالائقی کی بنا پر ابن زبیر کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا۔ مدینے کے جوان حاکم عثمان بن محمد بن ابی ­سفیان نے حج کے بعد مدینے کے نمایا شخصیات کا ایک وفد شام روانہ کیا کہ شاید انعام و اکرام یزید کے ذریعے ان کی دلجوئی شاید حالات مدینہ پر سکون ہو جائیں اور مدینے کی بے چینی کا خاتمہ ہو۔<ref>مسکویہ، ج۲، ص۸۵.</ref> لیکن اسکی وجہ سے یزید کی خلافت کیلئے نالائقی اور عیان ہو گئی۔ اس وفد کے سامنے یزید کی غیر اسلامی رفتار نے اس وفد کو مزید ناراض اور ناراحت کیا۔ اس وفد نے مدینہ واپسی پر اسکی خلافت کی نسبت ناشائستگی کو کھل کر لوگوں کے سامنے بیان کیا اور اسے برا بھلا کہا۔ اسکے جواب میں یزید نے ایک بہت سخت لہجے میں مدینہ کے لوگوں کو خط لکھا۔<ref>تجارب الأمم، ایضا، ج ۲، ص۸۵ و تاریخ الطبری، ج ۵، ص۴۸۰.</ref>


ابن زبیر نے اپنے خطبے میں یزید کو آڑے ہاتھوں لیا اور مسلمانوں کو یزید کے خلاف اس بات  پر ابھارا کہ وہ اسے خلافت سے برطرف کر دیں ۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹، ۳۷۲؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۸.</ref> پھر مدینے کو لوگوں کو خط لکھا اور انہیں اپنے مسلمانوں کے خلیفے کے عنوان سے بیعت کی دعوت دی ۔لوگوں نے عبدالله بن مُطیع عَدوی کے ہاتھ ہر ابن زبیر کیلئے بیعت کی۔ <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۷.</ref> اس بیعت کے نتیجے میں مدینے کو لوگوں نے حاکم مدینہ عثمان بن محمد اور بنو امیہ کے ایک گروہ کو مدینے سے باہر نکال دیا ۔ <ref>مروج الذہب، ج۳، ص۶۹.</ref>
ابن زبیر نے اپنے خطبے میں یزید کو آڑے ہاتھوں لیا اور مسلمانوں کو یزید کے خلاف اس بات  پر ابھارا کہ وہ اسے خلافت سے برطرف کر دیں۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹، ۳۷۲؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۸.</ref> پھر مدینے کو لوگوں کو خط لکھا اور انہیں اپنے مسلمانوں کے خلیفے کے عنوان سے بیعت کی دعوت دی۔ لوگوں نے عبدالله بن مُطیع عَدوی کے ہاتھ ہر ابن زبیر کیلئے بیعت کی۔<ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۷.</ref> اس بیعت کے نتیجے میں مدینے کو لوگوں نے حاکم مدینہ عثمان بن محمد اور بنی امیہ کے ایک گروہ کو مدینے سے باہر نکال دیا۔<ref>مروج الذہب، ج۳، ص۶۹.</ref>


اس کے جواب میں ابن زبیر اور اسکے ہواخواہوں کی سرکوبی کیلئے یزید نے حجاز پر لشکر کشی کی اور ابن زبیر کو ڈرایا دھمکایا ۔ <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۰؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۳-۱۴.</ref> یزید کے لشکر نے پہلے  مدینے کا محاصرہ کیا اور مدینے کے لوگوں سے یزید کی پیروی کا مطالبہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ ابن زبیر کی شورش کچلنے کیلئے اسکا ساتھ دیں ۔لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا ۔<ref> البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۶۲؛ تاریخ ابن خلدون، ج۲، ص۳۵۳.</ref> بالآخر ۲۸ [[ذی‌ الحجہ]] ۶۳ق میں سپاہ مدینہ اور سپاہ شام آمنے سامنے صف آرا ہوگئے ۔ <ref>المنتظم، ج۶، ص۱۶.</ref>
اس کے جواب میں ابن زبیر اور اسکے ہواخواہوں کی سرکوبی کیلئے یزید نے حجاز پر لشکر کشی کی اور ابن زبیر کو ڈرایا دھمکایا۔ <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۰؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۳-۱۴.</ref> یزید کے لشکر نے پہلے  مدینے کا محاصرہ کیا اور مدینے کے لوگوں سے یزید کی پیروی کا مطالبہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ ابن زبیر کی شورش کچلنے کیلئے اسکا ساتھ دیں۔ لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔<ref> البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۶۲؛ تاریخ ابن خلدون، ج۲، ص۳۵۳.</ref> بالآخر [[28 ذی‌ الحجہ]] 63 ھ میں سپاہ مدینہ اور سپاہ شام آمنے سامنے صف آرا ہوگئے۔<ref>المنتظم، ج۶، ص۱۶.</ref>
===ابن زبیر اور محاصرۂ مکہ===
===ابن زبیر اور محاصرۂ مکہ===
مدینے کی سپاہ سپاہ شام کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی اور یزید کے فرمان پر لشکر یزید کیلئے مدینے کے لوگوں کی جان ومال کو مباح قرار دیا ۔ <ref> تاریخ الاسلام، ج۵، ص۲۵.</ref> اس کے نتیجے میں لشکر نے  صحابہ اور لوگوں کا قتل عام کیا اور خواتین کی ناموسوں کا پائمال کیا ۔یہ واقعہ تاریخ میں [[واقعہ حره|فاجعہ حَرّه]] کے نام سے رقم ہوا ۔سپاہ شام اس کے بعد ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے مکہ روانہ ہوا۔<ref>الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۲۳۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۲۰.</ref>
مدینے کی سپاہ سپاہ شام کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی اور یزید کے فرمان پر لشکر یزید کیلئے مدینے کے لوگوں کی جان ومال کو مباح قرار دیا۔<ref> تاریخ الاسلام، ج۵، ص۲۵.</ref> اس کے نتیجے میں لشکر نے  صحابہ اور لوگوں کا قتل عام کیا اور خواتین کی ناموسوں کا پائمال کیا۔ یہ واقعہ تاریخ میں [[واقعہ حره|فاجعہ حَرّه]] کے نام سے رقم ہوا۔ سپاہ شام اس کے بعد ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے مکہ روانہ ہوا۔<ref>الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۲۳۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۲۰.</ref>


ابن زبیر اور اسکے ہواداران ۱۳ صفر سال ۶۴ق. سے لے کر ۴۰ دن تک محاصرے میں رہا اور یہ محاصرہ یزید کی موت کے بعد ۱۴ ربیع الاول ۶۴ ق تک سپاہ شام کے محاصرے میں رہا ۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹؛ تاریخ دمشق، ج۱۴، ص۳۸۷.</ref>
ابن زبیر اور اسکے ہواداران [[13 صفر]] سال 64 ھ سے لے کر 40 دن تک محاصرے میں رہا اور یہ محاصرہ یزید کی موت کے بعد [[13 ربیع الاول]] 64 ھ تک سپاہ شام کے محاصرے میں رہا۔<ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹؛ تاریخ دمشق، ج۱۴، ص۳۸۷.</ref>


ابن‌ زبیر مسجدالحرام میں مستقر ہوا شامیوں نے پہاڑوں اور مسجد الحرام سے بلند مقامات  پر منجنیق نصب کیں <ref>اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۲۰۳؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹.</ref> اور انہوں نے پتھروں اور آگ برسانی شروع کی جس کے نتیجے میں زبیر اور اسکے افراد کو آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ منجینقوں کے پتھر کعبہ کو بھی لگے ، رکن یمانی اور حجرالاسود کے درمیان پردوں اور کعبہ پر موجود لکڑی کے جالی دار چوکھٹے کو آگ لگ گئ ۔<ref> اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۱۹۸، ص۲۰۳؛ اخبار الکرام، ص۱۳۳.</ref>یعقوبی(م.۲۹۲ق.) نے ذکر کیا ہے کہ ابن زبیر نے آگ کو خاموش نہیں کیا تا کہ مکہ کے لوگوں کو لشکر شام کے خلاف مزید مصمم کرے ۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۲.</ref> مختلف گروہ اور دستے ابن زبیر کے ہمراہ مسجدالحرام سے دفاع کی خاطر لڑتے رہے ان میں  ۲۰۰ حبشیوں کا وہ گروہ بھی شامل ہے جسے حبشہ کے بادشاہ نے کعبہ کے دفاع کیلئے بھیجا تھا ۔ <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۶۲، ۳۷۲.</ref>
ابن‌ زبیر [[مسجد الحرام]] میں مستقر ہوا شامیوں نے پہاڑوں اور مسجد الحرام سے بلند مقامات  پر منجنیق نصب کیں<ref>اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۲۰۳؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹.</ref> اور انہوں نے پتھروں اور آگ برسانی شروع کی جس کے نتیجے میں زبیر اور اسکے افراد کو آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ منجینقوں کے پتھر کعبہ کو بھی لگے، رکن یمانی اور حجرالاسود کے درمیان پردوں اور کعبہ پر موجود لکڑی کے جالی دار چوکھٹے کو آگ لگ گئ۔<ref> اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۱۹۸، ص۲۰۳؛ اخبار الکرام، ص۱۳۳.</ref>یعقوبی(م.۲۹۲ق.) نے ذکر کیا ہے کہ ابن زبیر نے آگ کو خاموش نہیں کیا تا کہ مکہ کے لوگوں کو لشکر شام کے خلاف مزید مصمم کرے۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۲.</ref> مختلف گروہ اور دستے ابن زبیر کے ہمراہ مسجدالحرام سے دفاع کی خاطر لڑتے رہے ان میں  ۲۰۰ حبشیوں کا وہ گروہ بھی شامل ہے جسے حبشہ کے بادشاہ نے کعبہ کے دفاع کیلئے بھیجا تھا۔<ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۶۲، ۳۷۲.</ref>
سپاه شام ابن زبیر اور مکہ کے لوگوں کو شکست دینے میں ناکام رہے اور جب یزید مر گیا تو چالیس دن کے بعد اسکی موت کی خبر انہیں ملی تو انہوں نے اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا اور شام واپس ہو گئے ۔
سپاه شام ابن زبیر اور [[مکہ]] کے لوگوں کو شکست دینے میں ناکام رہے اور جب یزید مر گیا تو چالیس دن کے بعد اسکی موت کی خبر انہیں ملی تو انہوں نے اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا اور شام واپس ہو گئے۔


==خلافت==
==خلافت==
گمنام صارف