حسبنا کتاب اللہ
حسبنا کتاب اللہ (ہمارے لیے خدا کی کتاب ہی کافی ہے) عمر بن خطاب کا معروف جملہ ہے جو انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کے قلم دوات طلب کرنے پر ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا۔ پیغمبرؐ اپنی عمر کے آخری دنوں میں وصیت لکھنا چاہتے تھے تاکہ ان کے بعد کوئی گمراہ نہ ہو لیکن عمر بن خطاب نے مخالفت کی اور پیغمبرؐ پر ہذیان کی تہمت لگاتے ہوئے کہا: ’’خدا کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے‘‘۔ پیغمبرؐ کے بعض اصحاب نے عمر کے اس بیان کی مخالفت کی۔ محققین اور مفسرین عمر بن خطاب کے بیان کو قرآنی آیات کا مخالف سمجھتے ہیں اور اسی طرح اس بات کے بھی قائل ہیں کہ یہ بیان پیغمبرؐ کی عصمت و سنت کی حیثیت کو ختم کرنے والا ہے۔
ماجرے کی تفصیل
شیعہ مصادر [1] اور اہل سنت کے مآخذ [2] میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبرؐ بیماری (جو کہ آپ کی وفات کا سبب بنی) کی حالت میں تھے، بعض صحابہ ان کی عیادت کے لیے گئے۔ پیغمبرؐ نے فرمایا کہ آیئے آپ کے لیے کچھ لکھوں تاکہ میرے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ۔ عمر بن خطاب نے کہا: رسول اکرمؐ ہذیان کہہ رہے ہیں عِنْدَکمُ الْقُرْآنُ، حَسْبُنَا کتَابُ اللَّه؛ آپ کے پاس قرآن ہے اور خدا کی کتاب ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ عمر بن خطاب کے اس نظریے سے دوسروں میں اختلاف ہو گیا۔ بعض نے کہا پیغمبرؐ کے حکم پر عمل کرنا چاہیئے لیکن کچھ دوسرے افراد نے مخالفت کی۔ جب اختلاف کافی بڑھ گیا تو پیغمبرؐ نے حکم دیا کہ ان کے پاس سے چلے جائیں اور انہیں اکیلا چھوڑیں۔
رد عمل
بعض اہل سنت خلیفہ دوم کی بات کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس کی توجیہ(تاویل) کرتے ہیں [3] لیکن بعض افراد اس صورت میں عمر بن خطاب کے اس بیان پر اعتراض کرتے ہیں کہ پیغمبرؐ کی عیادت میں ہی بعض صحابہ نے اعتراض کیا تھا اور عمر کے بنیان کی مخالفت کی تھی پیغمبرؐ کے جلیل القدر صحابی ابن عباس نے اس واقعہ یعنی پیغمبر کے وصیت لکھنے کی مخالفت کو بڑی مصبیت سمجھا ہے۔ [4] مفسرین کی نظر میں قرآن کو کافی سمجھنے اور پیغمبرؐ کی وصیت کو ضروری نہ سمجھنے کا نظریہ بعض آیات قرآن کے خلاف ہے۔ جیسے سورہ حجرات کی پہلی آیت [5] و آیہ ۵۹ سوره نساء اور سورہ نسا کی ۵۹ ویں آیت۔ [6] اہل تحقیق کا ماننا ہے کہ خلیفہ دوم کی یہ بات، عصمت پیغمبر اکرمؐ سے تضاد رکھتی ہے [7] اور اس کی بنیاد پر سنت پیغمبرؐ کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ [7] کچھ کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’’حسبنا کتاب اللہ‘‘ کا نظریہ کی وجہ سے بہت سے مشکلات بھی پیدا ہوئی ہیں۔[8]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ جوہری، السقیفہ و فدک، تہران، ص۷۳؛ شیخ مفید، الأمالی، ۱۴۱۳ھ، ص۳۶۔
- ↑ بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۲۲ھ، ج۶، ص۹؛ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، ج۳، ص۱۲۵۹۔
- ↑ بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ھ، ج۷، ص۱۸۴۔
- ↑ ابنشہر آشوب، مناقب آل أبی طالب، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۲۳۶؛ بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۲۲ھ، ج۱، ص۳۴۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۲، ص۱۵۰۔
- ↑ «مخالفت علمای اہل سنت با تفکر «حسبنا کتاب الله»، سایت مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولیعصر۔
- ↑ 7.0 7.1 «حقانیت شیعہ»، سایت پرسمان۔
- ↑ کاشانی، تفسیر منہج الصادقین، ۱۳۷۳ھ، ج۳، ص۲۶۹۔
مآخذ
- ابن شہر آشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب علیہم السلام، قم، انتشارات علامہ، چاپ اول، ۱۳۷۹ھ۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع المسند الصحیح (صحیح بخاری)، محقق: محمد زہیر بن ناصر الناصر، بیروت، دارطوق النجاة، چاپ اول، ۱۴۲۲ھ۔
- بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوة، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۰۵ھ۔
- جوہری بصری، احمد بن عبد العزیز، السقیفۃ و فدک، محقق و مصحح: محمد ہادی امینی، تہران، مکتبہ نینوی الحدیثۃ، بے تا۔
- «حقانیت شیعہ»، سایت پرسمان، اندراج کی تاریخ: ۱۳اسفند ۱۳۹۴ش، دیکھے جانے کی تاریخ: ۵ مرداد ۱۳۹۷ش۔
- شیخ مفید، الامالی، محقق و مصحح: حسین استاد ولی، علی اکبر غفاری، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
- کاشانی، ملا فتح الله، خلاصۃ المنہج، تحقیق: ابوالحسن شعرانی، تہران، انتشارات اسلامیۃ، ۱۳۷۳ھ۔
- «مخالفت علمای اہل سنت با تفکر «حسبنا کتاب الله»، مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولی عصر، اندراج کی تاریخ: ۲۰ آذر ۱۳۹۷ش، دیکھے جانے کی تاریخ: ۵ مرداد ۱۳۹۸ش۔
- مسلم بن حجاج، المسند الصحیح (صحیح مسلم)، محقق: محمد فؤاد عبدالباقی، دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، بے تا۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔