حمیم

ویکی شیعہ سے

حَمیم شدید حرارت کے معنی میں قرآن میں اس کھولتے ہوئے پانی کی طرف اشارہ ہے جسے جہنمیوں کو پلایا جائے گا اسی طرح یہ لفظ انسان کے قریبی افراد کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ 20 مرتبہ قرآن میں آیا ہے۔[1]

مفسرین اور قرآنی محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن میں حمیم دو معانی میں استعمال ہوا ہے:

  • کھولتا ہوا پانی[2] جو اہل جہنم کو پلایا جائے گا۔[3] سورہ ص کی آیت نمبر 57: (هَذَا فَلْیذُوقُوهُ حَمِیمٌ وَ غَساقٌ)[4] اور سورہ یونس کی آیت نمبر 4: (وَ الَّذِینَ کفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِیمٍ وَ عَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا کانُوا یکفُرُونَ)[5] میں لفظ حمیم اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ فخر رازی اپنی کتاب مفاتیح‌ الغیب میں لکھتے ہیں کہ مذکورہ آیات میں حمیم سے مراد پگلا ہوا تانبا ہے۔[6]
  • انسان کے قریبی اشخاص کو بھی حمیم کہا جاتا ہے۔ سورہ شعراء کی آیت نمبر 110 (وَ لَا صَدِیقٍ حَمِیمٍ)[7] سورہ معارج کی آیت نمبر 10 (وَ لَا یسْأَلُ حَمِیمٌ حَمِیمًا)[8] میں حمیم اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مفسرین ان آیات میں حمیم سے مراد ایسا قریبی انسان[9] لیا ہے جو دلسوز اور مہربان ہو،[10] اور انسان کے مسائل و مشکلات میں انسان کا ساتھ دیتا ہو[11] اور اس کی حمایت‌ کرتا ہو۔[12]

حسن مصطفوی (متوفی ۱۳۸۴شمسی)، کتاب التحقیق فی کلمات القرآن الکریم کے مصنف اس بات کے معتقد ہیں کہ حمیم کے کئی معانی ہیں: شدید حرارت، سیاہ اور کالا ہونا، نزدیک اور حضور اور ایک قسم کی آواز، یہ تمام معانی حقیقت میں شدید حرارت کی طرف لوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر چشموں کو حمیم کہا جاتا ہے تو ان میں موجود گرم پانی کی وجہ سے ہے اسی طرح انسان کے قریبی شخص کو اس کی محبت اور دوستی کی شدّت کی وجہ سے حمیم کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئلہ کو حمیم کہا جاتا ہے تو اس کہ وجہ یہ ہے کہ لکڑی آگ کی حررت کی شدت کی وجہ سے جل کر کوئلہ بن گیا ہے۔[13] پس حمیم اصل میں شدید گرم چیز کو کہا جاتا ہے؛ چاہے مادی حرارت ہو جیسےکھولتا ہوا پانی چاہے معنوی حرارت ہو جیسے انسان کی قریبی افراد کی دوستی اور محبت کی حرارت۔[14]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۸۴۔
  2. راغب اصفهانی، المفردات، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۶۴۳، ج۴، ص۴۹۲؛ شیخ طوسی، التبیان، بی‌تا، ج۱۰، ص۲۴۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۳۰، ص۹؛ مراغی، تفسیر المراغی، بی‌تا، ج۳۰، ص۱۳؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۵۰.
  3. جرجانی، جلاء الاذهان، ۱۳۷۷ش، ج۸، ص۱۵۴.
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۳۲۰۔
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۸، ص۲۲۱۔
  6. رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۳۱، ص۱۷۔
  7. ابن‌جوزی، زاد المسیر، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۳۴۳۔
  8. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۹، ص۴۶.
  9. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۹، ص۵۶؛ ابن‌ہائم، التبیان، ۱۴۲۳ق، ص۳۲۲؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۱۰، ص۳۷؛ شبّر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۲ق، ص۵۳۲۔
  10. راغب اصفهانی، المفردات، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۵؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۵۳۱؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۹۱؛ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۲، ص۳۱۳۔
  11. اندلسی، المحرّر الوجیز، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۲۳۶؛ اندلسی، البحر المحیط، ۱۴۲۰ق، ج۸، ص۱۳۸؛ طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۷ش، ج۳، ص۱۶۳۔
  12. شیخ طوسی، التبیان، بی‌تا، ج۸، ص۳۷ و ج۱۰، ص۱۱۷؛ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۲، ص۳۱۳۔
  13. مصطفوی، التحقیق، ۱۳۶۰ش، ج۲، ص۲۸۷۔
  14. مصطفوی، التحقیق، ۱۳۶۰ش، ج۲، ص۲۸۸۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۴۱۵ھ۔
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، زاد المسیر فی علم التفسیر، بیروت، دار الکتب العربی، ۱۴۲۲ھ۔
  • ابن‌منظور، لسان العرب، بیروت، دار الفکر-دار صادر، ۱۴۱۴ھ۔
  • ابن‌هائم، احمد بن محمد، التبیان فی تفسیر غریب القرآن، بیروت، دار الغرب الاسلامی، ۱۴۲۳ھ۔
  • اندلسی، ابوحیان، البحر المحیط، بیروت، دار الفکر، ۱۴۲۰ھ۔
  • اندلسی، ابن‌عطیة، المحرّر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۴۲۲ھ۔
  • جرجانی، حسین بن حسن، جلاء الاذهان و جلاء الاحزان، تهران،دانشگاه تهران، ۱۳۷۷ش.
  • رازی، فخرالدین، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ھ۔
  • راغب اصفهانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، دمشق، دار العلم، ۱۴۱۲ھ۔
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتب العربی، ۱۴۰۷ھ۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الدر المنثور، قم، مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • شبّر، سید عبدالله، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار البلاغة، ۱۴۱۲ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، جوامع الجامع، تهران، دانشگاه تهران و مرکز مدیریت حوزه علمیه قم، ۱۳۷۷شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفة، ۱۴۱۲ھ۔
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تهران، مرتضوی، ۱۳۷۵ش.
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • قرشی، سید علی‌ٔاکبر، قاموس قرآن، تهران، دار الکتب الاسلامیه، ۱۳۷۱شمسی۔
  • مراغی، احمد بن مصطفی، تفسیر المراغی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • مصطفوی، حسن، التحقيق في كلمات القرآن الكريم، تهران، بنگاه ترجمه و نشر کتاب، ۱۳۶۰شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب الاسلامیة، ۱۳۷۴شمسی۔