یونس بن عبد الرحمن

ویکی شیعہ سے
(یونس بن عبدالرحمان سے رجوع مکرر)
یونس بن عبد الرحمن
کوائف
مکمل نامیونس بن عبد الرحمن
لقبمولی آل یقطین
محل زندگیمدینہ
وفات۲۰۸ھ، مدینہ
دینی معلومات
وجہ شہرتامام کاظمؑ، امام رضاؑ کے صحابی، اصحاب اجماع


یونس بن عبد الرحمن (متوفی ۲۰۸ ق) اصحاب اجماع میں سے ہیں۔ انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملاقات کی ہے اور امام موسی کاظم علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام سے روایات نقل کی ہیں۔ نیز وہ امام رضا (ع) کے وکیل بھی تھے۔

ایک روایت کے مطابق امام رضا (ع) نے انہیں تین بار جنت کی ضمانت دی ہے۔ انہوں نے ۵۴ بار حج کیا ہے جس میں سے آخری بار امام رضا (ع) کی نیابت میں انجام دیا تھا۔ انہوں نے اپنے بعد بہت سی تالیفات چھوڑی ہیں۔

نسب و کنیت

اصحاب اجماع

اصحاب امام باقرؑ
1. زُرارَۃ بن اَعین
2. مَعروفِ بنِ خَرَّبوذ
3. بُرَید بن معاویہ
4. ابوبصیر اَسَدی یا (ابوبصیر مرادی)
5. فُضَیل بن یسار
6. محمد بن مُسلِم

اصحاب امام صادقؑ
1. جَمیل بن دَرّاج
2. عبداللہ بن مُسکان
3. عبداللہ بن بُکَیر
4. حَمّاد بن عثمان
5. حماد بن عیسی
6. اَبان بن عثمان

اصحاب امام کاظمؑ و امام رضاؑ
1. یونس بن عبد الرحمن
2. صَفوان بن یحیی
3. اِبن اَبی عُمَیر
4. عبداللہ بن مُغَیرِہ
5. حسن بن محبوب یا (حسن بن علی بن فَضّال، فَضالَۃ بن ایوب و عثمان بن عیسی)
6. احمد بن ابی نصر بزنطی


یونس بن عبد الرحمن، چونکہ علی بن یقطین بن موسی کے آزاد کردہ تھے اس لئے آزاد کردہ آل یقطین مشہور تھے۔[1] ان کی کنیت ابو محمد[2] اور بعض تاریخی منابع کے شواہد کے مطابق ان کی نسبت قمی ہے۔[3]

ان کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں کوئی دقیق اطلاع موجود نہیں ہے البتہ بعض علمائ رجال نے ان کی تاریخ ولادت کو ہشام بن عبد الملک کی حکومت کے زمانہ میں ذکر کیا ہے۔[4] اس اعتبار سے ان کی ولادت سن ۱۰۵ سے ۱۲۵ ق کے درمیان میں کہی جا سکتی ہے۔

مقام علمی

تاریخی شواہد کے مطابق امام رضا (ع)ایسے شیعوں کو جو ان سے دور کے علاقوں میں رہتے تھے اور ان تک رسائی نہیں رکھتے تھے انہیں یونس بن عبد الرحمن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتے تھے[5] اور انہیں شیعوں کے دینی امور اور علمی سوالات کے سلسلہ میں اپنے معتمد اور ثقہ کے طور پر متعارف کراتے تھے۔[6]

ابو ہاشم جعفری نقل کرتے ہیں: میں یونس بن عبد الرحمن کی کتاب یوم و لیلہ کو امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں لے گیا۔ امام نے نہایت دقت کے ساتھ پوری کتاب کا جائزہ لیا اور آخری صفحہ پلٹنے کے بعد فرمایا: جو کچھ اس کتاب میں بیان ہوا ہے وہ میرے اور میرے جد کے دین کے مطابق ہے۔ یہ مکمل کتاب حق و حقیقت پر مشتمل ہے۔ خداوند عالم انہیں اس کتاب کے ہر لفظ کے بدلہ قیامت میں ایک نور عطا کرے۔ اسی طرح سے ان کے بارے میں کہا گیا ہے: شیعہ اماموں کا علم چار افراد تک منتہی ہوتا ہے اور ان میں سے ایک یونس بن عبد الرحمن ہیں۔[7][8]

ائمہ (ع) کی نگاہ میں

یونس ائمہ (ع) خاص طور پر امام رضا (ع) کی نظر میں ایک خاص منزلت رکھتے تھے اور بارہا انہیں عبد صالح اور بندہ نیک خدا سے تعبیر کیا گیا ہے۔[9] وہ امام رضا (ع) کے وکیل تھے۔[10] منابع علم رجال کے مطابق امام رضا (ع) نے تین بار انہیں اپنی اور اپنے اجداد کی طرف سے جنت کی ضمانت دی[11] اور فرمایا: یونس بن عبد الرحمن کی اپنے زمانہ میں وہی حیثیت ہے جو سلمان فارسی کی ان کی زمانہ میں تھی۔[12]

ایک دوسرے قول کے مطابق جس وقت یونس نے اپنے سلسلہ میں لوگوں کی بدگوئیوں پر امام رضا (ع) کے حضور میں غم کا اظہار کیا تو امام (ع) نے ان کی دلجوئی کی اور ان سے اپنی مکمل رضایت کا اعلان کیا اور فرمایا ان بدگوئیوں سے ان کے نزدیک ان کے مرتبہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔[13]

امام (ع) کی نیابت میں حج

یونس بن عبد الرحمن نے 54 مرتبہ حج تمتع اور 45 بار عمرہ انجام دیا ہے۔[14] ان کا آخری حج امام رضا (ع) کی نیابت میں تھا۔[15]

علمائ شیعہ کی نظر میں

علمائ رجال نے یونس بن عبد الرحمن کا شمار اصحاب اجماع میں کیا ہے اور تقریبا تمام سوانح نگاروں نے ان کا ذکر تعریف و توثیق کے ساتھ کیا ہے۔ فضل بن شاذان نے ان کے سلسلہ میں کہا ہے: لوگوں میں سلمان فارسی سے بڑا فقیہ نہیں ہوا ہے اور سلمان کے بعد یونس بن عبد الرحمن سے بڑا فقیہ پیدا نہیں ہوا ہے۔[16]

ابن ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں جہاں برجستہ شیعہ علمائ اور فقہائ کا ذکر کیا ہے، یونس کو ان میں سے ایک شمار کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: وہ علامہ دہر تھے۔[17]

شیخ طوسی نے ان کا نام ایک امام موسی کاظم (ع) کے اصحاب میں سے کیا ہے تو ایک بار امام علی رضا (ع) کے اصحاب میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میری نظر میں وہ ایک قابل اعتبار محدث تھے۔[18]

نجاشی نے انہیں برجستہ ترین اور معروف ترین شیعہ علمائ اور بلند مرتبہ و عالی مقام افراد سے میں شمار کیا ہے۔[19]

علامہ حلی فرماتے ہیں: وہ بزرگ انسان ہیں اور ان کا شمار مکتب تشیع کے سابقین میں ہوتا ہے۔[20]

البتہ بعض روایات ان کی مذمت میں بھی نقل ہوئی ہیں جنہیں علم رجال کے محققین نے سند اور دلالت کے لحاظ سے ضعیف ہونے کی وجہ سے رد کر دیا ہے۔[21][22]

یونس اور واقفیہ مذہب

جس وقت یونس کو امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کی خبر ملی۔ انہوں نے مجمع عام میں اعلان کیا کہ آج سے امام علی رضا علیہ السلام میرے امام ہیں۔[23] البتہ بعض لوگوں نے اپنے ذاتی منافع کی وجہ سے امام موسی کاظم (ع) کے بعد سلسلہ امامت کے توقف کا اعلان کیا اور وہ لوگ واقفیہ مشہور ہو گئے۔ ان لوگوں نے یونس جیسے افراد کو بھی خریدنے کی کوشش کی۔ اس بارے میں یونس سے روایت بھی نقل ہوئی ہے۔[24] حتی امام رضا (ع) کی امامت کے سلسلہ میں انہوں نے علی بن اسماعیل میثمی کے ہمراہ واقفیوں سے مناظرہ بھی کیا۔[25]

مشایخ و روات

یونس بن عبد الرحمن کا نام 263 سے زیادہ سلسلہ احادیث کی سند میں ذکر ہوا ہے۔ انہوں نے امام موسی کاظم (ع) اور امام علی رضا (ع) سے بلا واسطہ روایات نقل کی ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے بہت سے دوسرے افراد سے بھی روایات نقل کی ہیں، جن میں سے بعض کے اسمائ ذیل الذکر ہیں:

• ابی ایوب خزاز

• ابی بکر حزرمی

• عبدالله بن سنان

عبدالله بن مسکان

• هشام بن سالم

• هشام بن حکم

• حارث بن مغیره

• علا بن رزین

محمد بن مسلم

حمّاد بن عیسی

بہت سے راویوں نے یونس سے روایات نقل کی ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

• شاذان بن خلیل نیشابوری

• صالح بن ابی حماد

• عبدالله بن صلت

• عباس بن معروف

• محمد بن عیسی بن عبید یقطینی

• عبد العزیز مهتدی قمی

• عباس بن معروف قمی

محمد بن خالد برقی قمی

احمد بن محمد بن خالد برقی[26]

تالیفات

شیخ طوسی نے یونس بن عبد الرحمن کی 30 سے زائد کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور انہوں نے ابو جعفر بن بابویہ سے نقل کیا ہے کہ یونس کی تمام کتابیں اور ان میں موجود تمام روایات صحیح اور قابل اعتبار ہیں سوائے ان روایات کے جو محمد بن عیسی بن عبید نے ان سے نقل کی ہیں[27] اور ان کے علاوہ کسی اور نے ان کو نقل نہیں کیا ہے۔ ان کی بعض تالیفات کے نام ذیل میں ذکر کئے جا رہے ہیں:

• کتاب السهو

• الادب والدلالة علی الخیر

• کتاب الزکاة

• جوامع الاثار

• الشرائع

• کتاب الصلاة

• العلل الکبیر

• اختلاف الحج

• احتجاج فی الطلاق

• علل الحدیث

• الفرائض

• فرائض الصغیر

• جامع الکبیر فی الفقه

• کتاب التجارات

• کتاب تفسیر القران

• کتاب الحدود

•الاداب

• کتاب المثالب

• علل النکاح وتحلیل المتعة

• البداء

• نوادر البیوع

• الرد علی الغلاة

• ثواب الحج

• کتاب النکاح

• کتاب المتعة

• کتاب الطلاق

• کتاب المکاسب

• کتاب الوضوء

• البیوع والمزارعات

یوم ولیلة

• اللؤلؤ فی الزهد

• الامامة

• فضل القرآن[28]

وفات

یونس بن عبد الرحمن نے سن 208 ق میں مدینہ میں وفات پائی[29] اور روضہ رسول اکرم (ص) کے جوار میں دفن ہوئے۔ امام رضا (ع) نے ان کی وفات کے سلسلہ میں فرمایا: یونس کے آخری وقت پر غور کریں کہ پروردگار عالم نے ان کی روح رسول اکرم (ع) کے جوار میں قبض کی۔[30]

حوالہ جات

  1. نجاشی، رجال، ص۴۴۶.
  2. طوسی، اختیار معرفه الرجال، ج۲، ص۷۷۹.
  3. سمعانی، الانساب، ج۵، ص۶۲۹.
  4. نجاشی، رجال، ص۴۴۶.
  5. طوسی، اختیار معرفه الرجال، ج۲، ص۷۷۹.
  6. مجلسی، بحارالانوار، ج۲، ص۲۵۱.
  7. طوسی، اختیار معرفه الرجال، ج۲، ص۷۸۰.
  8. نجاشی، رجال، ص۴۴۷.
  9. طوسی، اختیار معرفه الرجال، ج۲، ص۷۸۲ و ۷۸۳ و ۷۸۴.
  10. خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۱ُ، ص۲۰۹
  11. طوسی، اختیار معرفه الرجال، ج۲، ص۷۷۹.
  12. طوسی، اختیار معرفه الرجال، ج۲، ص۷۸۱.
  13. مجلسی، بحارالانوار، ج۲، ص۶۶.
  14. خویی، معجم رجال الحدیث، ج۲۰، ص۲۰۲.
  15. اختیار معرفه الرجال، ج۲، ص۷۸۲.
  16. مامقانی، تنقیح المقال، ج۳، ص۳۳۹.
  17. مامقانی، تنقیح المقال، ج۳، ص۳۳۹.
  18. طوسی، رجال، ص۳۶۸-۳۴۶.
  19. نجاشی، رجال، ص۴۴۷.
  20. علامه حلی، خلاصه الاقوال فی معرفه الرجال، ص۲۹۶.
  21. مامقانی، تنقیح المقال، ج۳، ص ۳۴۳-۳۴۱.
  22. خویی، معجم رجال الحدیث، ج۲۰، ص ۲۱۷-۲۰۹.
  23. طوسی، اختیار معرفه الرجال، ج۲، ص۷۷۹.
  24. مجلسی، بحارالانوار، ج۴۸، ص۲۵
  25. اشعری سعد بن‌ عبدالله،المقالات و الفرق،۱۳۶۰ش، ص‌۹۲
  26. خویی، معجم‌الرجال الحدیث، ج۲۰، ص۲۱۸ – ۲۱۹.
  27. طوسی، الفهرست، ص۲۶۶.
  28. نجاشی، رجال، ص۴۴۷.
  29. مامقانی، تنقیح المقال، ج۳، ص۳۳۹.
  30. اختیار معرفه الرجال، ج۲، ص۷۸۱.

مآخذ

  • اشعرى قمى سعد بن‌ عبد الله، ‏ المقالات و الفرق، تعداد جلد: ۱، نوبت چاپ: دوم، ناشر: مركز انتشارات علمى و فرهنگى‏، سال نشر: ۱۳۶۰ش‏.
  • حلی (علامه)، حسن بن یوسف، خلاصه الاقوال فی معرفه الرجال، نشرالفقاهه، ۱۴۱۷ق.
  • خویی، سید ابو القاسم، معجم الرجال، دار الزهرا، بیروت، ۱۴۰۹ق.
  • سمعانی، عبد الکریم بن محمد، الانساب، دارالکتب العلمیه، بیروت، ۱۴۱۹ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفه الرجال (رجال کشی)، مؤسسه آل البیت لاحیاء التراث.
  • طوسی، محمد بن حسن، الفهرست، نشرالفقاهه، ۱۴۱۷ق.
  • مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، مطبعه المرتضویه، نجف اشرف، ۱۳۵۲ق، افست انتشارات جهان، تهران.
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحارالانوار، مؤسسة الوفاء، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال‌ النجاشی، مؤسسه نشر اسلامی، ۱۴۲۴ق.