الحجۃ علی الذاہب الی تکفیر ابی طالب (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | سید فخار بن معد موسوی(متوفی: 630ھ) |
موضوع | اثبات ایمان ابوطالب |
زبان | عربی |
صفحات | 140 |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | المطبعۃ العلویۃ |
مقام اشاعت | نجف |
سنہ اشاعت | 1351ھ |
اَلْحُجّةُ عَلَی الذّاهب إلی تَکْفیر ابیطالب یا ایمانُ ابیطالب نامی کتاب ایک کلامی کتاب ہے جسے ساتویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین فخار بن معد موسوی (متوفی: 630ھ) نے عربی زبان میں تحریر کی ہے۔ تصنیفِ کتاب کا بنیادی مقصد حضرت علی ؑ کے پدر بزرگوار حضرت ابو طالب کے ایمان کو ثابت کرنا ہے۔ ایمانِ ابو طالب کے اثبات کے سلسلے میں ان کے اپنے اشعار، تاریخی روایات و واقعات، احادیث، اہل بیتؑ اور علمائے شیعہ کا ان کے ایمان پر اجماع اور اتفاق نظر جیسے دلائل سے استدلال کیا گیا ہے۔ علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں اسی کتاب کا حوالہ دیا ہے اور بعض مطالب کو اسی سے اقتباس بھی کیا ہے۔ ابن ابی الحدید معتزلی (متوفیٰ:656ھ)، سید محمد صادق بحر العلوم (متوفیٰ: 1399ھ) اور عبد الفتاح عبد المقصود(متوفیٰ: 1413ھ) نے اس کتاب پر تقریظ لکھی ہے۔ کتاب کے مصنف نے شیخ مفید کی کتاب "رسالہ ایمان ابی طالب" سے استفادہ کیا ہے۔ اس کتاب کو مختلف پبلیشرز نے شائع کیا ہے اور اس کے مختلف نسخے موجود ہیں۔ سید محمد مہدی بحر العلوم کے تحقیق کردہ 441صفحات پر مشتمل نسخے کو سید الشہداء پبلیشرز قم نے سنہ1410ھ میں طبع کیا ہے۔
مؤلف کا تعارف
سید فِخار بن مَعدّ موسوی (متوفیٰ: 630) شیعہ فقیہ، شاعر اور ماہرِ علم نسب تھے۔ آپ کا شجرہ نسب امام کاظمؑ کے پوتے ابراہیم مجاب سے جاملتا ہے۔[1] سید فخار موسوی محقق حلی کے استاد اور ابن ادریس کے شاگرد تھے اور یہ دونوں شیعہ قد آور علمی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔[2]
تالیفِ کتاب کا محرک اور اس کے مختلف نام
کتاب کے مصنف سید فخار موسوی نے اپنی تصنیف کا نام «الحُجّةُ علی الذّاهِب اِلیٰ تَکفیرِ اَبیطالب» (ابو طالب کی تکفیر کرنے والے کے برخلاف مضبوط دلیل) رکھا ہے۔[3] آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعة میں «حجة الذاهب اِلی إیمان ابیطالب» (ابو طالب کو مومن سمجھنے والے کی دلیل) اور «اَلرّدُّ عَلَی الذّاهب إلی کُفْر ابیطالب»(ابو طالب کو کافر سمجھنے والے کی تردید) جیسے ناموں سے اس کتاب کو یاد کی ہے۔[4] ان چند ناموں کے باوجود کتاب پر تحقیق کرنے والے محقق، سید محمد بحر العلوم نے اس کے لیے یہ نام «ایمانُ ابیطالب» انتخاب کیا ہے۔ ان کے بقول یہ نام مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ قاری کے لیے جلب توجہ کا سبب بھی بنے گا۔ [5]
سید فخار موسوی نے اس کتاب کو حضرت علیؑ کے پدر بزرگوار ابو طالب کے دفاع اور ان کو مومن ثابت کرنے کے غرض سے تالیف کی ہے۔ بعض لوگوں نے حضرت علیؑ کی دشمنی میں ابو طالب کے ایمان کا انکار کرتے ہوئے انہیں کافر و مشرک قرار دینے کوشش کی ہے؛ حالانکہ خود ابو طالب کے اشعار نیز تاریخی واقعات و روایات اور بہت سی احادیث سے ان کے ایمان کا مکمل اثبات ہوتا ہے۔ [6]
اہمیت
کتاب «الحجة علی الذاهب الی تکفیر ابیطالب» ایمانِ ابو طالب کے اثبات میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے ایک بہترین کتاب شمار ہوتی ہے۔ [7] طول تاریخ میں اس کتاب پر شیعہ علماء کی توجہ مرکوز رہی ہے۔ مِن جملہ علامہ امینی (متوفیٰ: 1390ھ) نے اپنی کتاب الغدیر میں اس کتاب سے استناد کیا ہے۔[8] اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر بعض شیعہ اور سنی علماء نے اس پر تقریظ [9] لکھی ہے۔ ان میں سے اہل سنت متکلم ابن ابی الحدید (متوفیٰ:656ھ)، کے علاوہ سید محمدصادق بحر العلوم (متوفیٰ: 1390ھ) اور عبد الفتاح عبدالمقصود(متوفیٰ: 1413ھ)کی تقریظ مشہور ہیں۔[10] محمد صادق بحر العلوم نے اپنی تقریظ نظم کی صورت میں بیان کی ہے؛ جس کے ایک حصے کو علامہ امینی نے نثری انداز میں یوں بیان کیا ہے: «اے فخار! اللہ تعالیٰ کی طرف سے روز قیامت تجھے دیے جانے والے اجر و پاداش کی خوشخبری ہو! تیری مضبوط دلیل اور روشن تحریر کی حامل کتاب "الحجۃ" نے بزرگِ مکہ اور شیر خدا کے پدر بزرگوار (ابو طالب) کو بت پرستی کی تہمت سے مبرا کردیا، ساتھ ہی ساتھ کفر کی وہ جھوٹی نسبت بھی کالعدم کردی جسے شر و فساد پھیلانے والوں نے ان کی طرف منسوب کردی تھی۔» [11]
کتاب کے مندرجات
کتاب «الحجة علی الذاهب الی تکفیر ابیطالب» کا موضوع اثباتِ ایمانِ ابو طالب ہے۔[12] مصنف نے ایمانِ ابو طالب کے اثبات کے لیے اہل بیتؑ اور شیعہ علما کے ان کے ایمان پر اتفاق نظر کو کافی و شافی جانا ہے؛ اس بابت دلیل یہ پیش کی ہے کہ اگر اہل بیتؑ اور شیعہ علما کے ہاں ابو طالب کے مسلمانوں اور مومنین جیسے گفتار و کردار کے مشاہدہ کی روایتیں موصول نہ ہوتیں تو ہرگز ان کے ایمان کی گواہی نہ دیتے.[13] مصنف نے کتاب کی تحریر کے سلسلے میں شیخ مفید (متوفیٰ: 413ھ)کی کتاب "رسالہ ایمانِ ابو طالب" سے بھی بھرپور مدد لی ہے۔ [14]
کتاب ایک مقدمہ، دس ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے:
- مقدمه: تالیف کتاب کا محرک اور پیغمبر اکرمؐ کے اجداد اور ابو طالب کا مقام و مرتبہ
- پہلا باب: ایمان کے معنی اور مختلف طریقوں سے ایمانِ ابو طالب کا اثبات
- دوسرا باب: کفرِ ابو طالب کے دلائل اور ان کا جواب
- تیسرا باب:پیغمبر اسلامؐ کی ابو طالب سے محبت کے ذریعے ایمانِ ابوطالب کا اثبات اور کافروں سے محبت کی حرمت
- چوتھا باب:ابو طالب کے اقوال اور اشعار کا بیان جن سے ان کے ایمان کا ثبوت ملتا ہے
- پانچواں باب: پیغمبر خداؐ اور حضرت علیؑ کے مفقود ہونے کا ماجرا اور ابو طالب کا اپنے بیٹے جعفر کو ان کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم
- چھٹا باب:ابو طالب کی وفات اور پیغمبر اسلام ؐ کا ان کے غسل میت اور دفن کا حکم
- ساتواں باب: ابو طالب کا رسول اللہؐ کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے اسلام پر دلالت کرنے والے اشعار
- آٹھواں باب: قصیدہ لامیہ کے چند اشعار سے ایمانِ ابوطالب کا اثبات اور چند تاریخی واقعات
- نواں باب: پیغمبر خدا ؐ کی حمایت کے سلسلے میں ابو طالب کی وصیت اور ایمان ِابو طالب سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے سیاسی محرکات
- دسواں باب: ابو طالب کا اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھنے کی دلیل، ابو طالب کی اصحاب کہف اور مومن آل فرعون سے مشابہت [15]
- خاتمه: مولف، کتاب کے خاتمے میں لکھتے ہیں کہ وہ اس کتاب میں اجدادِ پیغمبر خداؐ (عبد اللہ بن عبد المطلب سے لیکر عدنان تک) میں سے ہر ایک کے سوانح حیات، ایمان اور ان کے فضائل و مناقب کو الگ الگ تحریر کرنے کا قصد رکھتا تھا، اسی طرح ابو طالب کے اشعار کی شرح بھی بیان کرنا چاہتا تھا لیکن طوالت سے پرہیز کرتے ہوئے صرف ایمان ابو طالب کو بیان کیا ہے۔ [16]
اشاعت
اس کتاب کو پہلی بار سنہ1351ہجری کو "المطبعۃ العلویہ" پبلیشرز نے نجف سے شائع کیا۔[17]شیخ محمد سماوی کا ابوطالب کی شان میں کہا ہوا قصیدہ بھی اس کے ساتھ ضمیمہ کیا گیا۔[18] کتاب کی اس طباعت میں اصلِ کتاب 118 صفحات پر مشتمل ہے جبکہ اس کے شروع اور اختتام پر 22 صفحات کا اضافہ کیا گیا ہے۔[19]اس کتاب کے448صفحات پر مشتمل ایک اور نسخے کو سنہ 1408ہجری کو "دار الزهرا" پبلیشرز نے بیروت سے شائع کیا ہے۔[20] اسی طرح سنہ 1410ھ میں سید الشہداء پبلیشرز نے سید محمد بحر العلوم کا تحقیق کردہ نسخہ قم سے شائع کیا۔ کتاب کی اس اشاعت میں آیات و روایات کو قرآن اور روائی کتب میں تحقیق اور مستند کیا گیا ہے۔ اسی طرح کتاب کی فہرست میں اضافہ کیا گیا ہے۔[21] ان میں فہرست مطالب، فوٹ نوٹ میں درج شدہ افراد کے سوانح حیات، شخصیات کی فہرست اور تحقیقی منابع کی فہرست شامل ہیں۔[22]
خطی نسخہ جات
کتاب "الحجّة علی الذاهب" کے چند خطی نسخہ جات یہ ہیں:
- وہ نسخہ جو سید صادق کَمونه کے پاس تھا، اس نسخے کا تعلق آٹھویں یا نویں صدی ہجری سے ہے۔ اس نسخے میں 79 ورق، 158 صفحات ہیں اور ہر صفحے میں 15 سطریں ہیں۔ [23]
- میرزا محمد تہرانی عسکری کے خط سے لکھا گیا نسخہ جسے کتابخابہ سادات آل عطار بغداد میں موجود نسخے سے نقل کیا گیا ہے۔[24]
- سنہ 1344ہجری سے متعلق ایک نسخہ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ شیخ علی کاشف الغطاء(محمد حسین کاشف الغطاء کے والد) کے خط سے لکھا گیا ہے۔ اس نسخے میں61 ورق اور 122 صفحے ہیں جس کے ہر صفحے پر 18 سطریں ہیں۔ یہ نسخہ محمد حسین کاشف الغطاء کے کتابخانے میں 614 نمبر شمار پر دستیاب ہے۔[25]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، مقدمه بحرالعلوم، ص7.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعة، 1408ھ، ج6، ص261.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، مقدمه بحرالعلوم، ص24-25.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعة، 1408ھ، ج6، ص261.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، مقدمہ بحرالعلوم، ص29.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، ص1-43.
- ↑ انصاری قمی، «کتابشناسی حضرت ابوطالب»، ص90.
- ↑ ملاحظہ کریں: علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص471، 509، 516، 513.
- ↑ تقریظ اس تحریر کو کہا جاتا ہے جس میں کسی کتاب کی تعریف کی گئی ہو۔ (لغتنامه دهخدا، ذیل واژه «تقریظ»).
- ↑ انصاری قمی، «کتابشناسی حضرت ابوطالب (علیهالسلام)»، ص90.
- ↑ ملاحظہ کریں: علامہ امینی، ترجمه الغدیر، ج14، ص368-369؛ علامه امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص541.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعة، 1408ھ، ج6، ص261.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، ص64-65.
- ↑ حسینی جلالی، «درنگی در رساله شیخ مفید درباره ایمان ابوطالب(ع)»، ص35.
- ↑ ملاحظہ کریں: موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، ص373-379.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، ص368-369.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، مقدمه بحرالعلوم، ص28.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعة، 1408ھ، ج6، ص261.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، مقدمه بحرالعلوم، ص28.
- ↑ انصاری قمی، «کتابشناسی حضرت ابوطالب»، ص90.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، مقدمه بحرالعلوم، ص30.
- ↑ ملاحظہ کریں: موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، ص371-441.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، مقدمه بحرالعلوم، ص31.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، مقدمه بحرالعلوم، ص30.
- ↑ موسوی، الحجة علی الذاهب، 1410ھ، مقدمه بحرالعلوم، ص32-33.
مآخذ
- آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، قم و تهران، اسماعیلیان و کتابخانه اسلامیه، 1408ھ.
- انصاری قمی، ناصرالدین، «کتابشناسی حضرت ابوطالب (علیهالسلام)»، آیینه پژوهش، شماره21، مهر و آبان 1372ہجری شمسی.
- جمعی از نویسندگان، ترجمه الغدیر، تهران، بنیاد بعثت، بیتا.
- حسینی جلالی، سید محمدرضا، «نقد و معرفی کتاب: درنگی در رساله شیخ مفید درباره ایمان ابوطالب(ع)»، ترجمه جویا جهانبخش، آینه میراث، ش16، بهار 1381ہجری شمسی.
- علامه امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر، 1416ھ.
- موسوی، فخار بن معد، ایمان ابیطالب (الحجة علی الذاهب إلی کفر ابیطالب)، تحقیق محمد بحرالعلوم، قم، دار سیدالشهداء، 1410ھ.