علی بن حسن طبرسی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | علی بن حسن بن فضل بن حسن طَبرِسی |
لقب/کنیت | طبرسی |
تاریخ وفات | تقریبا 600ھ |
نامور اقرباء | فضل بن حسن طبرسی، حسن بن فضل طبرسی |
علمی معلومات | |
اساتذہ | سید جلال الدین موسوی |
تالیفات | مشکاۃ الأنوار |
خدمات |
عَلی بنِ حَسَن طَبرِسی چھٹی صدی ہجری کے شیعہ امامیہ علماء و محدثین میں سے ہیں۔ وہ کتاب مکارم الأخلاق کے مؤلف حسن بن فضل طبرسی کے فرزند اور تفسیر مجمع البیان کے مصنف امین الاسلام، فضل بن حسن طبرسی کے پوتے ہیں۔ کتاب مشکاۃ الأنوار جو عبادت و بندگی اور فردی و سماجی اخلاقی آداب پر مشتمل ہے، آپ کی تآلیف ہے۔ آپ کی تاریخ ولادت و تاریخ وفات سے متعلق دقیق معلومات میسر نہیں ہیں۔
زندگی نامہ
آپ کی تاریخ ولادت و وفات سے متعلق دقیق معلومات میسر نہیں ہیں۔[1] لیکن اس کے باوجود عزیز اللہ عطاردی، مترجم کتاب مشکاۃ الانوار معتقد ہیں کہ چونکہ آپ کے جد یعنی امین الاسلام طبرسی نے سنہ 548 ہجری میں وفات پائی ہے اور احتمال قوی ہے کہ آپ نے اپنے جد امجد کو درک کیا تھا اس بنا پر آپ کی وفات کی تاریخ کو 600 ھ کے لگ بھک قرار دی جا سکتی ہے۔ البتہ آقا بزرگ تہرانی آپ کو ساتویں صدی ہجری کے علماء میں شمار کرتے ہیں۔[2]
علی بن حسن طبرسی کو بہت ساری رجالی اور تاریخی کتابوں میں فضل بن حسن طبرسی کے پوتے کے طور پر جانا گیا ہے؛[3] لیکن کتاب ریاض العلماء کے مصنف میرزا عبداللہ افندی اسی طرح طبقات أعلام الشیعۃ کے مصنف آقا بزرگ تہرانی نے آپ کو فضل بن حسن طبرسی کا نواسہ قرار دیا ہے۔[4]
اساتید
علی بن حسن طبرسی کے مشایخ اور اساتید میں صرف سید جلال الدین بن حمزۃ الموسوی کا نام حدیثی اور رجالی کتابوں میں آبا ہے اور کتاب مشکاۃ الأنوار میں انہوں نے ان سے احادیث نقل کی ہیں۔[5]
تألیفات
علی بن حسن طبرسی نے کتاب مشکاۃ الأنوار تحریر فرمائی جو عبادت و بندگی نیز فردی اور سماجی اخلاقی آداب سے متعلق احادیث پر مشتمل ہے۔[6] کتاب مذکور واحد کتاب ہے جسے علی بن حسن طبرسی کی طرف نسبت دینے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔[7] اس کتاب کے مقدمے کے مطابق آپ نے اس کتاب کو اپنے والد کی کتاب مکارم الأخلاق کا تکملہ قرار دیا ہے۔[8] لیکن صالح الجعفری نے اس کتاب پر لکھے گئے مقدمے میں تصریح کی ہے کہ ان کی مذکورہ کتاب اور ان کے والد کی کتاب مکارم الاخلاق کا وجہ اشتراک صرف موضوع کی حد تک ہے دوسری طرف سے ان کے والد کی کتاب ناقص بھی نہیں جو تکمیل کا محتاج ہو۔[9] علی بن حسن طبرسی نے اپنی کتاب مشکاۃ الأنوار میں محاسن برقی اور شیخ صدوق، شیخ مفید اور اپنے جد امجد امین الاسلام طبرسی کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔[10]
حوالہ جات
- ↑ اللجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الإمام الصادق، طبقات الفقہاء، ۱۴۱۹ق، ج۷، ص۱۶۴-۱۶۵۔
- ↑ طبرسی، مشکاۃ الانوار، ۱۳۷۴ش، ترجمہ عطاردی، ص۵۔
- ↑ طبرسی، مشکاۃ الانوار، ترجمہ عطاردی، ۱۳۷۴ش، ص۵۔
- ↑ افندی، ریاض العلماء، ۱۴۰۱ق، ج۵، ص۴۸۰-۴۸۱؛ طبرسی، مشکاۃ الانوار، ترجمہ عطاردی، ۱۳۷۴ش، ص۵۔
- ↑ طبرسی، مشکاۃ الأنوار، ۱۳۸۵ق، ص۴۳؛ آقا بزرگ تہرانی، طبقات أعلام الشیعۃ، ۱۴۳۰ق، ج۳، ص۵۔
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۲۸۰۔
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۲۷۹-۲۸۰۔
- ↑ محدث نوری، خاتمۃ مستدرک الوسائل، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۳۲۷-۳۲۸؛ افندی، ریاض العلماء، ۱۴۰۱ق، ج۵، ص۴۸۰-۴۸۱۔
- ↑ اللجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الإمام الصادق، طبقات الفقہاء، ۱۴۱۹ق، ج۷، ص۱۶۴۔
- ↑ احمد پور، کتاب شناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۲۸۰۔
مآخذ
- احمد پور، مہدی و دیگران، کتاب شناخت اخلاق اسلامی: گزارش تحیلی میراث مکاتب اخلاق اسلامی، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، ۱۳۸۵ش۔
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، طبقات أعلام الشیعۃ، ج۳، بیروت، دار إحیاء التراث العربي، ۱۴۳۰ق/۲۰۰۹ء
- افندی الاصبہانی، میرزا عبداللہ، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۵، بہ اہتمام سید محمود مرعشی و تحقیق سید احمد حسینی، قم، مکتبۃ آیت اللہ الرعشی العامۃ، ۱۴۰۱ق۔
- طبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الأنوار فی غرر الأخبار، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، ۱۳۸۵ق۔
- طبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الأنوار فی غرر الأخبار، ترجمہ عزیز اللہ عطاردی، تہران، عطارد، ۱۳۷۴ش۔
- اللجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الإمام الصادق، طبقات الفقہاء، با اشراف جعفر سبحانی، قم، مؤسسۃ الإمام الصادق، ۱۴۱۹ق۔
- محدث نوری، حسین بن محمد تقی، خاتمۃ مستدرک الوسائل، ج۱، تحقیق مؤسسہ آل البیت لإحیاء التراث، بیروت، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۲۹ق/۲۰۰۸ء