خان الامین

ویکی شیعہ سے

خانَ الاَمین یا "امین نے خیانت کی"، ایک ایسا عقیدہ ہے جسے بعض اہل سنت علماء شیعوں کی طرف نسبت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ جبرئیل نے وحی پہنچانے میں خیانت کر کے امام علیؑ کی جگہ حضرت محمدؐ تک وحی پہنچائی ہے اسی بنا پر شیعہ نماز کے آخر میں "خان الامین" کہتے ہیں۔

شیعہ امام علیؑ کی نبوت کا قائل نہ ہونے کے ساتھ جبرئیل کو معصوم سمجھتے ہیں جس سے کسی قسم کی غلطی سرزد نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ شیعہ نماز کے آخر میں تین مرتبہ تکبیر کہتے ہیں "خان الامین" نہیں کہتے۔

شیعہ علماء کے مطابق یہ دعوا شیعوں پر تہمت اور مذہب تشیع کو یہودیت کی طرح قرار دینے کی سازش ہے کیونکہ یہودی اس بات کے معتقد تھے کہ جبرئیل اصل میں قوم یہود کے کسی فرد تک وحی پہنچانے پر مأمور تھے لیکن انہوں نے خیانت کر کے کسی اور تک پہنچائی ہے۔

شیعوں کی طرف نسبت

خان الامین، یعنی «امین نے خیانت کی»، ایک ایسا عقیدہ ہے جسے بعض اہل سنت[1] اور وہابی علماء[2] شیعوں کی طرف نسبت دیتے ہیں؛ البتہ ان میں سے بعض اس عقیدے کی نسبت شیعوں میں سے صرف غالیوں کی طرف دیتے ہیں۔[3] ان کے مطابق شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ جبرئیل اصل میں حضرت علیؑ تک وحی پہنچانے پر مأمور تھے لیکن انہوں نے خیانت کر کے اسے پیغمبر اکرمؑ تک پہنچائی ہے۔[4]

وہابی مفتی عبداللہ بن جِبْرین (متوفی 1430ھ) الریاض النديۃ علی شرح العقیدۃ الطحاویۃ پر لکھے گئے حاشیے میں کہتے ہیں کہ بعض شیعہ نماز میں سلام سے پہلے اپنے ہاتھوں کو ران پر مارتے ہوئے "خان الامین" کی تکرار کرتے ہیں۔[5] جبکہ شیعہ نماز میں "خان الامین" نہیں کہتے؛ بلکہ نماز میں سلام کے بعد تین مرتبہ ہاتھوں کو بلند کرتے ہوئے تکبیر یعنی "اللہ اکبر" کہتے ہیں؛[6] کیونکہ شیعہ فقہاء کے فتوے کے مطابق نماز میں سلام کے بعد تین مرتبہ تکبیر کہنا مستحب ہے۔[7]

ابن حماد کے شعر سے استناد

بعض اہل سنت علماء چوتھی صدی ہجری کے شیعہ شاعر علی بن حَمّاد بصری سے منسوب ایک شعر کو اس بات پر گواہ قرار دیتے ہیں کہ بعض شیعہ جبرئیل کی خیانت کے معتقد ہیں۔[8] وہ شعر یہ درج ذیل ہے:

ضَلَّ الأمینُ و صَدَّہا عَنْ حَیدرتَاللّہِ ما کانَ الأمینُ أمینا[9]
جبرئیل امین نے گمراہ ہو کر اسے حیدر تک نہیں پہنچایا؛ خدا کی قسم امین امانتدار نہیں تھا۔

شیعہ علماء قاضی نوراللہ شوشتری اور ابوعلی حائری کے مطابق اس شعر میں "امین" سے مراد ابوعبیدہ جراح ہے جسے اہل‌ سنت "امین امت" سمجھتے ہیں جنہوں نے ابوبکر بن ابی‌قحافہ کو خلافت تک پہنچانے اور امام علیؑ کو خلافت سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔[10] اہل سنت کے معتبر حدیثی کتاب صحیح بخاری میں منقول ایک حدیث میں ابوعبیدہ جراح کی "امین امت اسلام" کے طور پر معرفی کی گئی ہے۔[11]

شیعوں کی طرف نسبت دینے کی وجوہات

شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ جعفر سبحانی کے مطابق وحی پہنچانے میں جبرئیل کی خیانت کا عقیدہ یہودیوں کا تھا لیکن ہمارے دشمنوں نے اسے شیعوں کی طرف نسبت دی ہیں۔[12] اہل سنت مفسر فخر رازی (متوفی 606ھسورہ بقرہ کی آیت نمبر 97 کے ذیل میں کہتے ہیں کہ یہودی جبرئیل کے دشمن تھے اور اس بات کے معتقد تھے کہ جبرئیل اصل میں نبوت اور وحی کو قوم یہود کے کسی فرد تک پہنچانے پر مأمور تھے لیکن انہوں نے خیانت کر کے اسے کسی اور تک پہنچا دیا تھا۔[13]

اہل سنت عالم دین اِبن عَبْد رَبِّہ (متوفی 328ھ) اپنی کتاب عِقْدُ الفَرید میں جبرئیل کی نسبت یہودیوں کی دشمنی اور اعتقادات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ رافضی بھی اسی طرح کے اعتقادات کے حامل ہیں؛ کیونکہ ان کی نظر میں جبرئیل نے وحی پہنچانے میں خیانت کرتے ہوئے اسے حضرت علیؑ کی بجائے حضرت محمدؐ تک پہنچایا ہے۔[14] حنبلی مذہب کے فقیہ ابن جوزی (متوفی 597ھ) [15] اور سلفی مذہب کے نظریہ پرداز ابن تیمیہ حرانی(متوفی 728ھ)[16] نے بھی مذہب تشیع اور یہودیت کے مشترکات بیان کرتے ہوئے اس مطلب کی طرف اشارہ کی ہیں۔

شیعہ اعتقادات سے ناسازگاری

شیعہ علماء کے مطابق جبرئیل کی طرف خیانت کی نسبت کا عقیدہ شیعوں پر تہمت اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔[17] شیعہ علماء کے مطابق نہ کوئی شیعہ جبرئیل کی خیانت کا قائل ہے اور نہ ہی نماز یا کسی اور جگہ مذکورہ عبارت "خان الامین" کہتے ہیں۔[6] اس کے علاوہ جبرئیل کی خیانت کا عقیدہ شیعوں کے دیگر اعتقادات کے ساتھ سازگار بھی نہیں ہے مثلا:

  • فرشتوں کی عصمت: جبرئیل کی خیانت کا عقیدہ فرشتوں کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں۔[18]کیونکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ فرشتے من جملہ جبرئیل مقام عصمت کے حامل ہیں اور جو کچھ خدا نے انہیں حکم دیا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے۔[19] اسی طرح شیعہ مفسر علامہ طباطبایی کے مطابق جبرئیل نہ عمدا، نہ سہوا، اور نہ نسیانا وحی میں تبدیلی لاتے ہیں۔[20]
  • حضرت علیؑ کو نبی نہیں مانتے: شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت علیؑ پیغمبر اکرمؐ کا جانشین اور امام ہیں نبی یا رسول نہیں ہیں۔[21] امام علیؑ کے نبی نہ ہونے کی دلیل حدیث منزلت ہے جس سے شیعہ حضرت علیؑ کی امامت کے اثبات کے لئے استناد کرتے ہیں[22]
شیعہ مفسر آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق پیغمبر اسلامؐ سے زیادہ کوئی شخص کمال کے درجے پر نہ فائز تھے اور نہ ہو گا کیونکہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو نبوت کے سلسلہ کی انتہاء ان پر نہ ہوتی۔[23]

حوالہ جات

  1. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، 1404ھ، ج2، ص250؛ ابن جوزی، الموضوعات، 1388ھ، ج1، ص339؛ ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج1، ص27 و32۔
  2. ابن عثیمین، القول المفید، 1424ھ، ج1، ص321؛ عدوی، سلسلۃ التفسیر لمصطفی العدوی، بی‌تا، ج23، ص15۔
  3. مراجعہ کریں: سمعانی، الأنساب، 1382قھ، ج10، ص23؛ تہاونی، موسوعۃ كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم، 1996ء، ج2، ص1249۔
  4. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، 1404ھ، ج2، ص250؛ ابن جوزی، الموضوعات، 1388ق، ج1، ص339۔
  5. ابن ابی‌العز، الریاض الندیۃ علی شرح العقیدۃ الطحاویہ، 1431ھ، ج4، ص568۔
  6. 6.0 6.1 مثال کے لئے دیکھئے: صافی، صوت الحق ،‌ دار التعارف للمطبوعات، ص45؛ سبحانی، راہنمای حقیقت، 1387ہجری شمسی، ص363۔
  7. مثلا مراجعہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج10، ص408؛ مفید، المقنعہ، 1410ھ، ص114۔
  8. نمونہ کے لئے دیکھیے: دوانی، الحجج الباہرۃ، 1420ھ، ص359؛ دہلوی، مختصر التحفۃ الاثنی عشریۃ، 1373ھ، ج1، ص13۔
  9. شوشتری، مجالس المؤمنین، 1377ہجری شمسی، ج2، ص566۔
  10. شوشتری، مجالس المؤمنین، 1377ہجری شمسی، ج2، ص566؛ حائری، منتہی المقال، 1416ھ، ج4، ص406؛ محدث ارموی، تعلیقات نقض، 1358ہجری شمسی، ج2، ص1085۔
  11. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج9، ص88۔
  12. سبحانی، راہنمای حقیقت، 1387ہجری شمسی، ص363۔
  13. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج3، ص611۔
  14. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، 1404ھ، ج2، ص250۔
  15. ابن جوزی، الموضوعات، 1388ق، ج1، ص339۔
  16. ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج1، ص27 و32۔
  17. مثال کے لئے دیکھئے: امینی، الغدیر، 1416ھ، ج3، ص127؛ سبحانی، ظاہرۃ الافتراء علی الشیعۃ عبر التاریخ، مشعر، ص59؛ صافی، صوت الحق،‌ دار التعارف للمطبوعات، ص45۔
  18. سروش، «شبہہ خان الامین»، ص148۔
  19. مثال کے لئے رجوع کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، 1413ھ، ص96؛ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص71۔
  20. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج15، ص316۔
  21. مثال کے لئے رجوع کریں: سید مرتضی، الشافی فی الإمامۃ، 1410ھ، ج3، ص5۔
  22. مثال کے لئے رجوع کریں: سید مرتضی، الشافی فی الإمامۃ، 1410ھ، ج3، ص5، برقی، المحاسن، 1371ہجری شمسی، ج1، ص159؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص26۔
  23. جوادی آملی، تفسیر موضوعی قرآن کریم، 1379ہجری شمسی، ج8، ص24۔

مآخذ

  • ابن‌تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، ریاض، جامعۃ امام محمد بن سعود الاسلامیۃ، چاپ اول، 1406ھ۔
  • ابن‌ابی‌العز، علی بن علی، الریاض الندیۃ علی شرح العقیدۃ الطحاویۃ، تعلیقہ عبداللہ بن جبرین، مقدمہ طارق بن محمد خویطر، ریاض، دارالصمیعی، 1431ھ۔
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، الموضوعات، با مقدمہ و تحقیق عبدالرحمن محمد عثمان، مدینہ، محمد عبد المحسن صاحب المکتبۃ السلفیۃ بالمدینۃ المنورۃ، 1388ھ۔
  • ابن‌عبد ربہ، شہاب‌الدین احمد بن محمد، العقد الفرید، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، 1404ھ۔
  • ابن‌عثیمین، محمد بن صالح، القول المفید علی کتاب التوحید، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ،‌دار ابن الجوزی، 1424ھ۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الإسلامیۃ، 1416ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت،‌ دار طوق النجاۃ، بہ تحقیق محمد فؤاد عبد الباقی، 1422ھ۔
  • برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، بہ تحقیق و تصحیح جلال‌الدین محدث، قم،‌دار الکتب الإسلامیہ، 1371ھ۔
  • تہاونی، محمد بن علی، موسوعۃ كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم، با مقدمہ و اشراف رفيق العجم، بہ تحقیق علي دحروج، ترجمہ از فارسی بہ عربی توسط عبد اللہ الخالدي، بیروت، مكتبۃ لبنان ناشرون، 1996ء۔
  • حائری، محمد بن اسماعیل، منتہی المقال فی أحوال الرجال، بہ تحقیق مؤسسۃ آل البیت(ع) لاحیاء التراث، قم، موسسۃ آل البیت(ع) لإحیاء التراث، 1416ق/1374ہجری شمسی۔
  • جوادی، عبداللہ، تفسیر موضوعی قرآن کریم سیرہ رسول اکرم(ص) در قرآن، قم، مرکز نشر اسراء، 1379ہجری شمسی۔
  • دہلوی، شاہ عبدالعزیز غلام حکیم، مختصر التحفۃ الاثنی عشریۃ، ترجمہ حافظ غلام محمد بن محیی الدین بن عمر الأسلمی، اختصار و تہذیب محمود شکری الألوسی، بہ تحقیق محب الدین الخطیب، قاہرہ، المطبعۃ السلفیۃ، 1373ھ۔
  • دوانی، جلال‌الدین محمد بن اسعد، الحجج الباہرۃ فی إفحام الطائفۃ الکافرۃ الفاجرۃ، بہ تحقیق عبداللہ حاج علی منیب، مکتبۃ الإمام البخاری، بی‌جا، 1420ق/2000ء۔
  • سبحانی، جعفر، ظاہرۃ الإفتراء علی الشیعۃ عبر التاریخ، تہران، مشعر، بی‌تا۔
  • سبحانی، جعفر، راہنمای حقیقت، تہران، نشر مشعر، 1387ہجری شمسی۔
  • سروش، جمال و شہرزاد دہقان جبارآبادی، «شبہہ خان الامین»، در حکمت اسلامی، شمارہ 3، ص131-158، زمستان 1393ہجری شمسی۔
  • سمعانی، ابوسعد عبدالکریم بن محمد، الانساب،‌‌ بہ تحقیق عبدالرحمن بن يحيى المعلمي اليماني و دیگران، حیدرآباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانيۃ، 1382ق/1962ء۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامۃ، تحقیق سید عبدالزہراء حسینی، تہران، مؤسسہ الصادق، 1410ھ۔
  • شوشتری، نوراللہ بن شریف‌الدین، مجالس المؤمنین، تہران، اسلامیہ، 1377ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، بہ تحقیق علی میرشریفی و عبدالسید عصام، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1371ہجری شمسی/1413ھ۔
  • صافی، لطف‌اللہ، صوت الحق ودعوۃ الصدق، بیروت،‌ دار التعارف للمطبوعات، چاپ سوم، بی‌تا۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1393ھ۔
  • عدوی، مصطفی، سلسلۃ التفسیر لمصطفی العدوی، دروس صوتيۃ قام بتفريغہا موقع الشبكۃ الإسلاميۃ، بی‌تا۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، بہ تصحیح مقدمہ و تحقیق حسن حسن‌زادہ آملی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1413ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، تفسیر کبیر، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بہ تصحیح و تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران،‌دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • محدث ارموی، میر جلال‌الدین، تعلیقات نقض، تہران، انتشارات انجمن آثار ملی، 1358ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقء۔ مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1410ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، بہ تحقیق ابراہیم انصاری، قم، الموتمر العالمی لالفیہ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، با گردآوری و تحقیق عباس قوچانی، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔
  • «نقدی بر کتاب الموضوعات نگارش ابوالفرج معروف بہ ابن الجوزی»، در کلام اسلامی، شمارہ 30، از ص148 تا 160، تابستان 1378ہجری شمسی۔