مندرجات کا رخ کریں

ہائنز ہالم

ویکی شیعہ سے
ہائنز ہالم
جرمن اسلام شناس اور شیعہ شناس
کوائف
نامHeinz Halm
تاریخ پیدائشسنہ 1942ء
جائے پیدائششہر آندرناخ (Andernach) جرمنی
علمی معلومات
مادر علمییونیورسٹی آف ٹوبنگن اور یونیورسٹی آف بون پیرس
اساتذہاین میری شمل
آثار«تشیع»؛ «فاطمیون اور ان کی تعلیمات»؛ «افراطی شیعہ اور علوی»
دیگر معلومات
تخصصاسلام شناس اور شیعہ شناس
فعالیتشیعیت سے متعلق کتاب اور مقالات کی تدوین اور نشر و اشاعت
منصباسلام شناسی کے استاد


ہائنز ہالم (Heinz Halm) ایک جرمن اسلام شناس اور شیعہ شناس مستشرق ہیں۔ ان کے تحقیق محور شیعہ تاریخ، ان کے عقائد کی تشکیل اور ایران کے اسلامی انقلاب تک اس مذہب کے تاریخی نشیب و فراز ہیں۔ اسی طرح تصوف اور باطنی گری خاص کر اسماعیلیہ کی تاریخ بھی ان کے دائرہ تحقیق میں شامل رہی ہے۔ ہالم ان مستشرقین میں سے ہیں جنہوں نے مہدویت سے متعلق سیاسی مباحث پر خاص طور پر تحقیق کی ہے۔

ہالم کی متعدد کتابیں فارسی اور عربی زبان میں ترجمہ ہو چکی ہیں جو محققین کی توجہ کا مرکز بنی ہیں اور ان کے بعض آرا پر مختلف محققین نے نقد بھی کی ہیں۔ ان کی نمایاں تصانیف میں "تشیع"، "فاطمیان اور ان کی تعلیمی سنتیں" اور "افراطی شیعہ اور علویان" جیسے کتابیں شامل ہیں۔ ہالم کی کتاب "شیعہ" جس کا فارسی ترجمہ "تشیع" کے عنوان سے شائع ہوا ہے، شیعہ عقائد اور تاریخ کے بنیادی مباحث اور ایران کی تاریخی تحولات میں ان کی سیاسی اہمیت کے بارے میں لکھی گئی ہے۔

ہالم کے ایک شیعہ شناسانہ نظریہ کے مطابق مہدویت اور غیبت جیسے مباحث کی بنیاد کیسانیہ یا واقفیہ جیسے فرقوں نے رکھی۔ ان کا خیال ہے کہ بارہویں امام اور ان کی غیبت کا عقیدہ بتدریج چوتھی صدی ہجری سے دیگر شیعہ تعلیمات پر غالب آ گیا اور اس وقت سے مذہب امامیہ شیعہ اثنا عشریہ کی شکل میں سامنے آیا۔ تاہم بعض محققین نے شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں مہدویت اور امام مہدی کی غیبت کے بارے میں پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومینؑ کی احادیث کی کثیر تعداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے نظریہ کو رد کیا ہے۔

بعض شیعہ محققین کے مطابق ہینز ہالم کی شیعہ پژوہی درحقیقت بیسویں صدی کے آخری دہائیوں میں اسلامی دنیا کی سیاسی تحولات، خاص طور پر ایران کی اسلامی انقلاب کی کامیابی اور دینی حکمرانی پر مبنی حکومت کے عنوان سے اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام، کے علمی رد عمل کا ایک نمونہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں شیعہ مصادر پر نسبتاً اچھی دسترس حاصل تھی اور انہوں نے اپنی تحقیقات میں ان سے استفادہ کیا ہے۔

تعارف اور مقام

ہینز ہالم (Heinz Halm) ایک جرمن اسلام شناس اور شیعہ شناس مستشرق ہیں۔[1] ان کی تحقیق کا محور مشرق وسطیٰ میں اسلام کی تاریخ، خاص طور پر مصر، شمالی افریقہ، اسماعیلیہ، امامیہ اور ابتدائی شیعہ تاریخ بتائی جاتی ہے۔[2] بعض محققین انہیں بیسویں صدی میں جرمن مستشرقین کی مطالعاتی روایت، یعنی ایران شناسی، مصر شناسی اور شیعہ مطالعات کا وارث سمجھتے ہیں۔[3]

ہالم نے مکتب تشیع، اس کے عقائد کی تشکیل اور ایران کے اسلامی انقلاب تک اس کے تاریخی تحولات کے بارے میں قابل ذکر تحقیقات انجام دی ہیں۔[4] کہا جاتا ہے کہ وہ تصوف اور باطنی گری خاص طور پر تاریخ اسماعیلیہ کے ممتاز محققین میں سے ہیں۔[5]

وہ ژورف الیاش، ولفرڈ میڈلنگ، ایتن کولبرگ اور کولن ٹرنر جیسے معروف مستشرقین کے ہمراہ ان شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے خاص طور پر مہدویت سے متعلق سیاسی موضوعات پر تحقیق کی ہے۔[6] شیعہ مصادر پر نسبتاً اچھی دسترسی اور انہیں اپنی تحقیقات میں بروئے کار لانا ان کی نمایاں خصوصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔[7] شیعیت کے بارے میں ان کے موقف کو یولیوس ولہاؤزن سے متاثر سمجھا جاتا ہے۔[8]

شیعہ شناسی میں ہالم کے محرکات

بعض محققین کے مطابق ہالم کی شیعہ شناسی دراصل بیسویں صدی کے آخری عشروں میں اسلامی دنیا خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں رونما ہونے والے کے سیاسی واقعات کا علمی ردِ عمل تھا۔[9] کہا جاتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوریہ کے قیام نے ایک نئے طرز حکمرانی کو متعارف کرایا جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دینی حاکمیت کے محور پر دنیا کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے ایک نمونہ پیش کرتی تھی۔ یہی امر باعث بنا کہ ہالم جیسے مستشرقین مختلف محرکات کے تحت اس حکومت کے بنیادی ارکان جیسے امامت، مہدویت اور ولایتِ فقیہ،[10] نیز شیعہ علما کے فرائض میں آنے والی تبدیلیوں اور سیاسی و سماجی میدان میں ان کی شمولیت پر خاص توجہ دیں،[11] تاکہ اس تناظر میں اسلامی جمہوری نظام کی مشروعیت کو علمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنا سکیں۔[12]

تصانیف

اسلام اور تشیع کے موضوع پر ہالم نے متعدد کتابیں تحریر کی ہیں۔[13] شیعیت کے موضوع پر ان کی بعض کتابیں مختلف زبانوں اور متنوع طباعتوں کے ساتھ شائع ہوئی ہیں۔ ان کی چند نمایاں تصنیفات درج ذیل ہیں:

  • احادیث قیام علی بن محمد صاحبِ زنج؛ ایک تنقیدی جائزہ (تألیف: 1967ء)
  • صوفیہ مکتب فکر کا فروغ آغاز سے آٹھویں صدی ہجری تک (تألیف: 1974ء)
  • مذہب اسماعیلیہ کی ابتداء میں کیہان‌شناسی اور نجات کا عقیدہ؛ اسلامی گنوسٹیسزم کا مطالعہ (تألیف: 1978ء)
  • مصر مملوکی دور کے اسناد و مدارک میں
  • وادی نیل (ڈیلٹاے مصر) (تألیف: 1982ء)
  • قاہرہ کے خلفا: مصر میں فاطمیان (973ء تا 1074ء) (تألیف: 2003ء)
  • اسلام؛ ماضی اور حال (تألیف: 2000ء)
  • اعراب؛ قبل از اسلام سے آج تک (تألیف: 2004ء)
  • حشّاشین؛ ایک خفیہ جماعت کی تاریخ (تألیف: 2017ء)
  • خلفا اور حشّاشین؛ مصر اور مشرقِ وسطیٰ پہلی صلیبی جنگوں کے زمانے میں (تألیف: 2018ء)[14]
  • اسماعیلیوں کی جہان‌ بینی
  • اسلام کی شناخت
  • حکومتِ مہدی اور فاطمیوں کا عروج
  • شیعی اسلام؛ دین سے انقلاب تک
  • عرب دنیا کی تاریخ
  • اسلامی تصوف اور ایران میں شیعہ درویشانہ سلسلے
  • فاطمیوں اور ان کی تعلیمی روایات (تألیف: 1997ء) — یہ کتاب 1999ء میں سیف‌ الدین القصیر نے عربی میں الفاطمیون و تقالیدہم فی التعلیم کے عنوان سے ترجمہ کیا۔[15]
  • شیعہ غالی اور علویان — اس کتاب کا عربی ترجمہ الغنوصیّۃ فی الاسلام[16] اور فارسی ترجمہ غنوصیان در اسلام: شیعیان غالی و علویان کے عنوان سے ہوا۔[17]
  • انسائیکلوپیڈیا لیدن میں مقالہ "نصیریہ"[18]
  • شیعہ
کتاب تشیع، مصنف: ہائنز ہالم، ترجمہ: محمد تقی اکبری

کتاب تشیع

ہالم کی کتاب تشیع ایران کی تاریخی تحولات میں شیعوں کی سیاسی اہمیت سے متعلق ہے۔[19] کہا گیا ہے کہ ہالم کا مقصد اس کتاب کی تصنیف کے ذریعے شیعہ فرقوں میں موجود عقائد کے وسیع تنوع کو پیش کرنا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے قارئین کو شیعہ عقائد اور تاریخ کے مبانی اور اصولوں سے آگاہ کرنے[20] اور ایران کی سیاسی تحولات میں شیعہ علما کے کردار واضح کرنے کی کوشش کی۔[21]

اس کتاب کا محمد تقی اکبری نے تشیع کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ کیا اور سنہ 2006ء میں نشر ادیان نے اس کا فارسی ترجمہ شائع کیا۔[22] کتاب تشیع پانچ حصوں پر مشتمل ہے: شیعیت کی ابتداء اور منشاء، امامیہ یا شیعہ دوازدہ امامی، غالی شیعہ، اسماعیلیہ یا ہفت امامی شیعہ اور زیدیہ۔[23]

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کتاب اور اس جیسی دیگر تصنیفات اگرچہ تحقیقی اور علمی اہداف کو مد نظر رکھ کر تألیف کی گئی ہیں، لیکن غیر معتبر مصادر پر انحصار کی وجہ سے زیادہ تر غیر حقیقی نتائج تک منتج ہوئی ہیں اور ان پر سنجیدہ تنقید وارد ہوتی ہے۔[24] تاہم بعض محققین کا ماننا ہے کہ ہالم نے معتبر منابع اور مصادر جن میں شیعہ مصادر بھی شامل ہیں، سے بھی استفادہ کیا ہے۔[25]

نظریات اور ان پر تنقید

ہالم کی بعض تصنیفات فارسی اور عربی میں ترجمہ ہونے کے بعد محققین اور خاص کر شیعہ شناسوں کی توجہ کا مرکز بنیں اور ان کی بعض آرا اور تصانیف مورد نقد و نظر واقع ہوئی ہیں۔[26] مثلا اس سلسلے میں تحریر کی گئی ایک کتاب "نقد و ارزیابی کتاب تشیع اثر ہاینس ہالم از سہ منظر اعتقادی، تاریخی، سیاسی و اجتماعی" ہے، جو ان کی کتاب تشیع پر تنقید کے مقصد سے لکھی گئی ہے۔[27] اسی طرح اس کتاب کے بعض موضوعات پر بھی تنقیدی و تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں۔[28] مزید برآں، انسائیکلوپیڈیا لیدن میں ہالم کے تحریر کردہ مقالہ "نصیریہ" کو بھی سید قاسم رزاقی موسوی نے اپنی تحقیق "بررسی انتقادی دیدگاہ ہاینس ہالم دربارہ نصیریہ و ماہیت عرفانی آموزہ‌ہا (معطوف بہ مدخل دایرۃالمعارف لیدن)" میں تنقیدی نظر سے جائزہ لیا ہے۔[29]

شیعیت کی پیدائش کے بارے میں ہالم کا نظریہ

ہالم نے تشیع کو ایک "سیاسی جماعت" (حزب) کے طور پر متعارف کرایا ہے اور ابتدائی شیعوں کو ایسی جماعت قرار دیا ہے جو خلافت عثمان کے مقابلے میں حضرت امام علیؑ کی حکومت کی حمایت کرتی تھی۔[30] اس کے بقول "شیعۂ علی" کی اصطلاح عثمان کے قتل اور خلیفہ کے انتخاب کے مسئلے کے بعد وجود میں آئی اور یوں شیعہ سیاسی اقتدار کے حصول کی جدوجہد میں ایک جماعت کی شکل میں ابھر کر سامنے آئے۔[31]

تاہم بعض محققین کے مطابق ہالم بھی دیگر مستشرقین کی طرح شیعہ اور اس کے آغاز سے متعلق چند اہم نکتوں کو نظرانداز کر گیا ہے؛ مثلا لفظ "شیعہ" اور "تشیع" کے مفہوم میں فرق اور "شیعہ" کے اصطلاحی اور مصداقی تنوع کے امتیاز سے غافل رہا ہے۔ شیعہ مصداق اور نوعیت دونوں اعتبار سے مختلف ہے، مصداق کے اعتبار سے شیعہ کا اطلاق فرد، جماعت اور امت تینوں پر ہوتا ہے، اور نوعیت کے اعتبار سے "اعتقادی شیعہ" اور "سیاسی شیعہ" میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔[32]

ناقدین کا کہنا ہے کہ ہالم نے شیعہ جماعت اور تشیع تعلمیات کے درمیان فرق قائم نہیں کیا ہے اور شیعیت کو صرف "سیاسی شیعہ" میں منحصر قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے وہ شیعہ کے معنوی اور فکری پہلوؤں سے غافل رہ گیا ہے؛ حالانکہ شیعہ تعالیمات کے مطابق "اعتقادی تشیع" خود اسلام ہی کی پیدائش کے ساتھ وجود میں آیا اور "شیعہ" کی اصطلاحی صورت اپنی فکری بنیادوں کے اعتبار سے عہدِ رسول اکرمؐ تک جا پہنچتی ہے۔ اس لحاظ سے ہالم اور ان جیسے دیگر محققین کے نظریات دراصل صرف شیعیت کی "تاریخی تحولات" اور "سیاسی شیعہ" کے آغاز کی وضاحت کرتے ہیں، نہ کہ حقیقی "اعتقادی تشیع" کی۔[33]

مہدویت کے بارے میں ہالم کا نظریہ

ہالم نے اپنی کتاب "تشیع" میں کیسانیہ کو مہدویت، غیبت اور رجعت جیسے عقائد اور مفاہیم کا بانی قرار دیا ہے، جنہیں بعد میں تشیع کی بنیادی اعتقادات کا حصہ سمجھا گیا اور دیگر شیعہ فرقوں نے انہیں قبول کرکے فروغ دیا۔[34] تاہم کتاب کے کسی اور حصے میں وہ یہ بیان کرتا ہے کہ اثنا عشری تشیع نے عقیدۂ مہدویت کو واقفیہ سے اقتباس کیا[35] اور اثنا عشری شیعوں کی تحریر کردہ رسائل غیبت دراصل واقفیہ کے نمونوں سے ماخوذ ہیں۔[36] ان کے نزدیک بارہویں امام جو سنہ 260ھ میں غیبت کے پردے میں چلے گئے ہیں، کی امامت پر عقیدہ تدریجی طور پر چوتھی صدی ہجری سے دیگر شیعہ تعالیمات پر غالب آیا اور اسی زمانے سے امامیہ بارہ امامی یا شیعہ اثنا عشری کی صورت میں ظاہر ہونے لگے۔[37]

بعض محققین نے ان کے جواب میں کہا ہے کہ ہالم نے عقیدۂ مہدویت کو نہ صرف اسلام کے بنیادی اصولوں میں شمار نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے اصل ماخذ کی تعیین میں بھی تضاد کا شکار ہوا ہے؛ کبھی اسے کیسانیہ کی طرف منسوب کرتا ہے اور کبھی واقفیہ کی طرف۔ حالانکہ عقیدۂ مہدویت براہِ راست پیغمبر اکرمؐ کی بے شمار احادیث سے ماخوذ ہے جنہیں شیعہ اور اہل سنت دونوں کے قدیمی منابع میں کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔[38]

ان محققین کے مطابق ان احادیث میں بہت ساری احادیث ایسی ہیں جن میں نبی اکرمؐ اور ائمہ طاہرینؑ نے نہ صرف ائمہ کی تعداد بیان کی ہے بلکہ بعض میں تو بارہ ائمہ کے اسماء تک صراحت کے ساتھ مذکور ہیں۔ اسی طرح بے شمار روایات غیبتِ امام مہدیؑ سے متعلق وارد ہوئی ہیں، جو اس عقیدے کو شیعہ اہل سنت دونوں کے درمیان مشترک عقیدہ قرار دیتی ہیں اور اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اس کا سرچشمہ وہی تعلیماتِ نبوی ہیں۔[39]

امام مہدیؑ کی ولادت

ہالم کا ماننا ہے کہ امام حسن عسکریؑ کا کوئی بیٹا نہیں تھا، اور سلسلہ امامت کا منقطع ہونا ایک بڑے بحران کا سبب بنا جسے شیعہ مصنفین نے الحیرۃ (حیرانی) اور سرگردانی جیسے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔[40]

لیکن بعض محققین نے ہالم کے اس نظریے کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقت اور حالات کے تقاضے اور امامؑ کی جان کی تحفظ کی ضرورت نے امام مہدیؑ کی ولادت کو علنی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے باوجود ابتدائی شیعہ مصادر میں احادیث، قرائن اور تاریخی شواہد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو امام مہدیؑ کی ولادت کو ایک تاریخ کی ایک مسلّمہ حقیقت قرار دیتی ہے؛ منجملہ ان میں امام حسن عسکریؑ کی صریح گواہی، امام مہدیؑ کی پھوپھی حکیمہ خاتون کا بیان، قابلہ اور ان افراد کی گواہی جو ولادت کے وقت موجود تھے اور مددگار تھے، احمد بن اسحاق قمی اور محمد بن عثمان عمری جیسے بعض خاص اصحاب کے علاوہ چالیس شیعہ اکابرین کو امام کا تعارف کرانا اور وہ افراد جو بعد میں امامؑ کی زیارت سے مشرف ہوئے شامل ہیں۔[41]

اسی طرح بعض اہل سنت علماء نے بھی امام مہدیؑ کو امام حسن عسکریؑ کی اولاد میں سے قرار دیا گیا ہے اور اس بات کی تصریح کی ہے کہ آخری زمانے میں ظہور کرنے والا مہدی موعود دراصل شیعوں کے بارہویں امام ہیں۔[42]

غیبت کے دوران حکومت کی تشکیل سے متعلق ہالم کا نظریہ

شیعوں کے بارہویں امام کی غیبت کے دوران حکومت کی تشکیل سے متعلق ہالم کے نظریات کا معالعہ کرنے کے بعد بعض محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہالم اس بات کے معتقد ہیں کہ امام جعفر صادقؑ کے زمانے سے شیعوں کی سوچ اور سیاست کی سمت بدل گئی تھی۔ اس کے بعد شیعہ سیاسی میدان سے کنارہ کشی اور انجماد کا شکار ہوگئے اور شیعہ حکومت کا قیام امام دوازدہمؑ کے ظہور تک مؤخر کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ شیعہ ائمہ نے بعض شیعہ قیادتوں کے قیام پر تنقید کی اور ان کی حکومت حاصل کرنے کی کوششوں کی مذمت کی۔[43]

محققین نے اس نظریے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیبت کے دوران قیام کرنے سے نہی کرنے والی احادیث کی سند ناقابل اعتماد ہے اور علویوں کو اپنی حکومت کے خلاف قیام سے روکنے کئے لئے بنی امیہ اور بنی عباس کی طرف سے جعل کرنے کا قوی امکان موجود ہے۔[44] ان کے مطابق اگر کچھ احادیث درست بھی ہوں تو ان کی ایسی تاویل کی جا سکتی ہیں جو اصل قیام اور حکومت کی تشکیل میں مانع نہ ہوں، مثلاً:

  • بعض احادیث میں ناکامی کے وجوہات کی بنا پر قیام سے منع کیا گیا ہے؛ یعنی امامؑ نے وقت کے حالات دیکھتے ہوئے حکومت وقت کے خلاف قیام کی ناکامی کو بہانپتے ہوئے شیعوں کو قیام سے منع کر کے ان کی جانوں کی حفاظت کرنے کا ارادہ کیا ہے۔[45]
  • غیبت کے دوران قیام کرنے والوں کی مذمت در اصل ان لوگوں کی ہے جو ائمہؑ کی موجودگی میں محض اپنی خواہشات یا طاغوتی بنیادوں پر حکومت کا دعویٰ کرتے تھے۔[46]
  • بعض روایات مخصوص اشخاص یا خاص گروہوں کے بارے میں ہیں، اور ان کا اطلاق ہر زمانے اور ہر قیام پر کرنا درست نہیں۔[47]
  • شیعہ معارف میں جہاد، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے قطعی اور مسلم اصول موجود ہیں جو قیام سے روکنے والی روایات سے متعارض ہیں۔ اسی طرح بہت سے احکام الہی کا نفاذ اسلامی حکومت کے قیام پر موقوف ہے۔[48]

زندگی اور تعلیم

ہالم سنہ 1942ء میں شہر آندرناخ (Andernach) میں پیدا ہوئے۔ ایف اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے تاریخ اور اسلام شناسی میں اپنی تعلیم جاری رکھا۔[49] سنہ 1969ء میں انہوں نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور چند سال یونیورسٹی آف ٹوبنگن میں مشغول رہنے کے بعدسنہ 1975ء میں اسلام شناسی کے پروفیسر بکے طور پر سوربون یونیورسٹی آف پیرس میں تدریس شروع کی۔[50] وہ بون یونیورسٹی میں این میری شمل کے ممتاز شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔[51]

حوالہ جات

  1. موسوی و بہشتی‌مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»، ص85۔
  2. موسوی و بہشتی‌مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»، ص85۔
  3. ثنایی و کشیک‌نویس رضوی، «واکاوی رویکرد شیعہ ‌پژوہی ہاینس ہالم»، ص48۔
  4. ثنایی و کشیک‌نویس رضوی، «واکاوی رویکرد شیعہ ‌پژوہی ہاینس ہالم»، ص147۔
  5. ثنایی و کشیک‌نویس رضوی، «واکاوی رویکرد شیعہ ‌پژوہی ہاینس ہالم»، ص176۔
  6. زائری اصفہانی، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»، ص48۔
  7. زائری اصفہانی، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»، ص48۔
  8. ثنایی و کشیک‌نویس رضوی، «واکاوی رویکرد شیعہ ‌پژوہی ہاینس ہالم»، ص176۔
  9. ثنایی و کشیک‌نویس رضوی، «واکاوی رویکرد شیعہ ‌پژوہی ہاینس ہالم»، ص147۔
  10. فروغی ابری و بدیعیان‌فرد، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم و اندرو جی نیومن دربارہ مہدویت و مسائل پیرامونی»، ص6۔
  11. زائری اصفہانی، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»، ص47۔
  12. فروغی ابری و بدیعیان‌فرد، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم و اندرو جی نیومن دربارہ مہدویت و مسائل پیرامونی»، ص6۔
  13. موسوی، و بہشتی‌مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»، ص85۔
  14. ثنایی و کشیک‌نویس رضوی، «واکاوی رویکرد شیعہ ‌پژوہی ہاینس ہالم»، ص148-149۔
  15. http://www.lib.ir/fa/book/88245764/الفاطمیون-و-تقالیدہم-فی-التعلیم/
  16. حسینی، شیعہ پژوہی و شیعہ‌پژوہان انگلیسی زبان، قم، شیعہ شناسی، 1387ش، ص308۔
  17. ہالم، غُنوصیان در اسلام: شیعیان غالی و علویان، 1394ہجری شمسی۔
  18. رزاقی موسوی، «بررسی انتقادی دیدگاہ ہاینس ہالم درباہ نصیریہ و ماہیت عرفانی آموزہ‌ہای(معطوف بہ مدخل دایرہ المعارف لیدن)»۔
  19. موسوی و بہشتی‌مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»، ص85۔
  20. موسوی و بہشتی‌مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»، ص85۔
  21. «مروری برکتاب تشیع اثر ہاینس ہالم»، سایت ہمشہری آنلاین۔
  22. حسینی، شیعہ پژوہی و شیعہ‌پژوہان انگلیسی زبان، 1387ش، ص308۔
  23. ہالم، تشیع، 1389ش، ص7-9۔
  24. موسوی، و بہشتی‌مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»، ص87۔
  25. ثنایی و کشیک‌نویس رضوی، «واکاوی رویکرد شیعہ ‌پژوہی ہاینس ہالم»، ص166۔
  26. ثنایی و کشیک‌نویس رضوی، «واکاوی رویکرد شیعہ ‌پژوہی ہاینس ہالم»، ص147۔
  27. کاوہ‌ئی ہرسینی، نقد و ارزیابی کتاب تشیع اثر ہاینس ہالم از سہ منظر اعتقادی، تاریخی، سیاسی و اجتماعی، 1400ہجری شمسی۔
  28. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: موسوی و بہشتی‌مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»؛ فروغی ابری و بدیعیان‌فرد، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم و اندرو جی نیومن دربارہ مہدویت و مسائل پیرامونی»؛ زائری اصفہانی، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»۔
  29. رزاقی موسوی، «بررسی انتقادی دیدگاہ ہاینس ہالم درباہ نصیریہ و ماہیت عرفانی آموزہ‌ہای(معطوف بہ مدخل دایرۃ المعارف لیدن)»۔
  30. ہالم، تشیع، 1389ش، ص15۔
  31. ہالم، تشیع، 1389ش، ص15۔
  32. موسوی و بہشتی‌مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»، ص83۔
  33. موسوی و بہشتی‌مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»، ص107۔
  34. ہالم، تشیع، 1389ش، ص50۔
  35. ہالم، تشیع، 1389ش، ص70۔
  36. ہالم، تشیع، 1389ش، ص84۔
  37. ہالم، تشیع، 1389ش، ص81۔
  38. روغی ابری و بدیعیان‌فرد، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم و اندرو جی نیومن دربارہ مہدویت و مسائل پیرامونی»، ص8۔
  39. برای اطلاعات بیشتر رجوع کنید بہ: فروغی ابری و بدیعیان‌فرد، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم و اندرو جی نیومن دربارہ مہدویت و مسائل پیرامونی»، ص8۔
  40. ہالم، تشیع، 1389ش، ص73-74۔
  41. برای اطلاعات بیشتر رجوع کنید بہ: فروغی ابری و بدیعیان‌فرد، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم و اندرو جی نیومن دربارہ مہدویت و مسائل پیرامونی»، ص19۔
  42. ابن‌جوزی، تذکرۃ الخواص، 1418ھ، ص325؛ ابن‌طلحہ شافعی، مطالب السؤول، 1419ھ، ص311 بہ بعد۔
  43. زائری اصفہانی، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»، ص51۔
  44. زائری اصفہانی، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»، ص56-57۔
  45. زائری اصفہانی، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»، ص56-57۔
  46. زائری اصفہانی، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»، ص56-57۔
  47. زائری اصفہانی، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»، ص56-57۔
  48. زائری اصفہانی، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»، ص56-57۔
  49. حسینی، شیعہ پژوہی و شیعہ‌پژوہان انگلیسی زبان، 1387ش، ص308۔
  50. حسینی، شیعہ پژوہی و شیعہ‌پژوہان انگلیسی زبان، 1387ش، ص308۔
  51. موسوی و بہشتی‌مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»، ص85۔

مآخذ

  • ابن‌جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، 1418ھ۔
  • ابن‌طلحہ شافعی، محمد، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، بیروت، البلاغ، 1419ھ۔
  • فروغی ابری اصغر و ندا بدیعیان‌فرد، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم و اندرو جی نیومن دربارہ مہدویت و مسائل پیرامونی»، در مجلہ پژوہش‌ہای مہدوی، شمارہ 22، پاییز 1396ہجری شمسی۔
  • ثنایی، حمیدرضا و سیدکمال کشیک‌نویس رضوی، «واکاوی رویکرد شیعہ ‌پژوہی ہاینس ہالم»، در مجلہ شیعہ‌شناسی، شمارہ 78، تیر 1401ہجری شمسی۔
  • حسینی، غلام‌احیاء، شیعہ پژوہی و شیعہ‌پژوہان انگلیسی زبان، قم، شیعہ شناسی، 1387ہجری شمسی۔
  • رزاقی موسوی، سید قاسم، «بررسی انتقادی دیدگاہ ہاینس ہالم درباہ نصیریہ و ماہیت عرفانی آموزہ‌ہای(معطوف بہ مدخل دایرہ المعارف لیدن)»، در مجلہ پژوہش‌ہای اسلامی خاورشناسان، شمارہ 2، بہار و تابستان 1401ہجری شمسی۔
  • زائری اصفہانی، مسعود، «بررسی نظرات کولین ترنر، ہاینس ہالم، و ژوزف الیاش پیرامون مشروعیت تشکیل حکومت در دوران غیبت»، در مجلہ مشرق موعود، شمارہ 69، زمستان 1402ہجری شمسی۔
  • کاوہ‌ئی ہرسینی، نسیم، نقد و ارزیابی کتاب تشیع اثر ہاینس ہالم از سہ منظر اعتقادی، تاریخی، سیاسی و اجتماعی، تہران، حاتون، 1400ہجری شمسی۔
  • «مروری برکتاب تشیع اثر ہاینس ہالم»، سایت ہمشہری آنلاین، تاریخ درج مطلب: 19 فروردین 1386ش، تاریخ اخذ: 20 تیر 1403ہجری شمسی۔
  • موسوی، سیدہ منا و احمد بہشتی مہر، «بررسی و نقد دیدگاہ ہاینس ہالم در خصوص پیدایش شیعہ و تشیع»، در مجلہ شیعہ شناسی، شمارہ 72، زمستان 1399ہجری شمسی۔
  • ہالم، ہاینس، تشیع، ترجمہ محمدتقی اکبری، نشر ادیان، 1389ہجری شمسی۔
  • ہالم، ہاینس، غنوصیان در اسلام: شیعیان غالی و علویان، ترجمہ احسان موسوی خلخالی، تہران، حکمت، 1394ہجری شمسی۔