مسلمان کا غیر مسلم سےنکاح
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
مسلمان کا غیر مسلم سے نکاح ایک فقہی مسئلہ ہے، جس پر شیعہ اور اہل سنت فقہ میں عرصہ قدیم سے بحث ہوتی رہی ہے۔ یہ مسئلہ مختلف ذیلی مسائل میں تقسیم ہوتا ہے۔ تمام شیعہ اور اہل سنت فقہا کے فتوے کے مطابق مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح جائز نہیں ہے، چاہے وہ مرد اہل کتاب ہو یا کافر ذمی اور چاہے نکاح دائمی ہو یا انقطاعی۔ اسی طرح مسلمان مرد کا کسی ایسی غیر مسلم عورت سے نکاح بھی حرام ہے جو خدا پر ایمان نہ رکھتی ہو۔
شیعہ فقہا کے درمیان اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ مسلمان مرد کا اہل کتاب عورت سے نکاح جائز ہے یا نہیں۔ مشہور شیعہ فقہا کے مطابھ، مسلمان مرد کا اہلِ کتاب عورت سے دائمی نکاح جائز نہیں ہے، لیکن عارضی نکاح جائز ہے۔ اہل سنت فقہا مسلمان مرد کا اہل کتاب عورت سے دائمی نکاح جائز سمجھتے ہیں۔
اہمیت
مسلمانوں کا غیر مسلموں سے نکاح ایک ایسا فقہی مسئلہ ہے جس پر شیعہ اور اہلِ سنت دونوں کے فقہ میں بحث ہوئی ہے۔[1] یہ مسئلہ مختلف ذیلی شاخوں میں تقسیم ہوتا ہے، جیسے: 1۔ مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح، 2۔ مسلمان مرد کا غیر مسلم عورت سے دائمی نکاح، 3۔ مسلمان مرد کا غیر مسلم عورت سے عارضی نکاح۔
ایران کے مدنی قانون میں بھی اس مسئلے پر توجہ دی گئی ہے۔[2]
مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح
شیعہ اور اہل سنت فقہ میں اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح جائز نہیں، چاہے وہ مرد اہلِ کتاب ہی کیو نہ ہو۔[3] اس حکم میں کافرِ ذمی، حربی اور مرتد نیز نکاح کے دائمی یا عارضی ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔[4] یہ حکم ایران کے مدنی قانون کی دفعہ 1059 میں ذکر کیا گیا ہے۔[5]
مسلمان مرد کا اہلِ کتاب عورت سے نکاح
تمام اہل سنت مذاہب کے مطابق مسلمان مرد کا اہلِ کتاب عورت سے نکاح جائز ہے۔[6] لیکن شیعہ فقہا مسلمان مرد کا اہلِ کتاب عورت سے نکاح کے مسئلے میں دائمی نکاح اور متعہ میں فرق کے قائل ہیں اور جس کی بنا پر متعہ یا غیر دائمی نکاح کو جائز اور دائمی نکاح کو حرام سمجھتے ہیں[7]۔ محقق حلی اور فیض کاشانی نے اس حکم کو امامیہ فقہا کا مشہور نظریہ قرار دیا ہے۔[8] ابنِ سعید حلی کے مطابق یہ رائے شیعہ فقہا کے درمیان متفق علیہ مسئلہ ہے۔[9]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ قدیم فقہا (محقق حلی سے پہلے کے فقہا) کے درمیان مشہور نظریہ یہ تھا کہ اہلِ کتاب سے نکاح کلی طور پر حرام ہے۔[10] شیخ مفید،[11] شیخ طوسی،[12] سید مرتضی[13] اور طبرسی[14] ان فقہا میں شامل ہیں جو اس رائے کے قائل تھے۔[15] اس کے برعکس کچھ فقہا جیسے شیخ صدوق،[16] شہید ثانی،[17] فیض کاشانی[18] اور صاحب جواہر[19] اہلِ کتاب عورت سے دائمی نکاح کو بھی جائز سمجھتے تھے۔[20]
لبنانی شیعہ عالم دین محمد جواد مغنیہ لکھتے ہیں کہ موجودہ دور (چودہویں صدی ہجری) میں بہت سے امامیہ فقہا اہلِ کتاب عورت سے دائمی نکاح کو جائز سمجھتے ہیں اور لبنان کے مذہب جعفریہ سے وابستہ شرعی عدالتیں ایسے نکاح کو جاری کرتے ہیں۔[21]
مسلمان مرد کا زرتشتی عورت سے نکاح
مسلمان مرد کا زرتشتی عورت سے نکاح کے بارے میں اختلاف ہے۔[22] کہا گیا ہے کہ کچھ فقہا زرتشتی عورت سے عارضی نکاح کو جائز سمجھتے ہیں۔[23] شیخ صدوق نے ان سے نکاح کو حرام قرار دیا ہے[24]، جبکہ محقق حلی نے انہیں اہلِ کتاب کے مشابہ قرار دیتے ہوئے عارضی نکاح کو جائز کہا ہے۔[25]
غیر اہلِ کتاب عورت سے نکاح کا حکم
شیعہ فقہ میں مسلمان مرد کا ایسی عورت سے نکاح جو خدا اور قیامت پر ایمان نہ رکھتی ہو جائز نہیں ہے۔[26] اس حکم میں نکاح کے دائمی یا عارضی ہونے میں کوئی فرق نہیں۔[27] فقہا نے اس مسئلے پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔[28] اس کے علاوہ فقہا نے مسلمان کا بہائی عورت سے نکاح بھی ناجائز قرار دیا ہے۔[29]
مونوگراف
- کتاب ازدواج با غیرمسلمانان، تحریر محمدرضا جباران، انتشارات بوستان کتاب کے توسط سے سنہ 1383ہجری شمسی کو شایع ہوئی ہے۔
- کتاب ازدواج با بیگانگان در فقہ اسلام و سایر شرایع الہی، تحریر محمد ابراہیمی، انتشارات بوستان کتاب کے توسط سے سنہ 1382ہجری شمسی کو منتشر ہوئی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1402ھ، ص314؛ ابنسعید حلی، الجامع للشرایع، 1405ھ، ص432؛ سید مرتضی، المسائل الناصریات، 1417ھ، ص327۔
- ↑ عظیمزادہ اردبیلی، «علل و مستندات حرمت ازدواج با غیر مسلمان»، ص42۔
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1402ھ، ص314؛ ابنسعید حلی، الجامع للشرایع، 1405ھ، ص432؛ سید مرتضی، المسائل الناصریات، 1417ھ، ص327۔
- ↑ عظیمزادہ اردبیلی، «علل و مستندات حرمت ازدواج با غیر مسلمان»، ص34۔
- ↑ عظیمزادہ اردبیلی، «علل و مستندات حرمت ازدواج با غیر مسلمان»، ص42۔
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1402ھ، ص314؛ برجی، «ازدواج با زنان اہل کتاب»، ص122۔
- ↑ حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص299؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، دارالفکر، ص166؛ شیخ طوسی، النہایۃ، بیروت، 1400ھ، ص457۔
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1409ھ، ج2، ص520؛ فیض کاشانی، مفاتیح الشرائع، ج2، ص249۔
- ↑ ابنسعید حلی، الجامع للشرایع، 1405ھ، ص432۔
- ↑ برجی، «ازدواج با زنان اہل کتاب»، ص120۔
- ↑ شیخ مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص500۔
- ↑ شیخ طوسی، المبسوط، تہران، 1387ہجری شمسی، ج4، ص209۔
- ↑ سید مرتضی، الانتصار، قم، ص279۔
- ↑ طبرسی، المؤتلف من المختلف بین أئمۃ السلف، 1410ھ، ج2، ص144۔
- ↑ بابایی، «پژوہشی دربارۂ ازدواج با زنان اہل کتاب»، ص14۔
- ↑ شیخ صدوق، المقنع، 1415ھ، ص308۔
- ↑ شہید ثانی، مسالک الأفہام، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، ج7، ص360۔
- ↑ فیض کاشانی، مفاتیح الشرائع، 1401ھ، ج2، ص249۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج30، ص31۔
- ↑ بابایی، «پژوہشی دربارۂ ازدواج با زنان اہل کتاب»، ص15۔
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1402ھ، ص315۔
- ↑ برجی، «ازدواج با زنان اہل کتاب»، ص145۔
- ↑ کلانتری، «فقہ و ازدواج با کافران»، ص247۔
- ↑ شیخ صدوق، المقنع، 1415ھ، ص308۔
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1409ھ، ج2، ص520۔
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1402ھ، ص314؛ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج27، ص221۔
- ↑ محمدحسینزادہ، «ازدواج دائم با اہل کتاب در فقہ اسلامی و حقوق مدنی ایران»، ص150۔
- ↑ حرعاملی، نہایہ المرام، قم، ج1، ص189؛ فیض کاشانی، مفاتیح الشرائع، 1401ھ، ج2، ص248؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، دارالفکر، ص166؛ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1409ھ، ج2، ص520۔
- ↑ گلپایگانی، مجمع المسائل، 1409ھ، ج4، ص295؛ خمینی، استفتائات، 1372ہجری شمسی، ج3، ص128۔
مآخذ
- ابنسعید حلی، یحیی بن احمد، الجامع للشرایع، قم، موسسہ سیدالشہداء(ع)، 1405ھ۔
- بابایی، علی، «پژوہشی دربارۂ ازدواج با زنان اہل کتاب»، فصلنامہ دانشکدہ الہیات و معارف مشہد، شمارہ 69، 1384ہجری شمسی۔
- برجی، یعقوبعلی، «ازدواج با زنان اہل کتاب»، پژوہشنامہ حکمت و فلسفہ اسلامی، شمارہ 3 و 4، پاییز و زمستان 1381ہجری شمسی۔
- جباران، محمدرضا، ازدواج با غیرمسلمانان، قم، بوستان کتاب، 1383ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، نہایہ المرام، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بیتا۔
- حلبی، ابوالصلاح، الکافی فی الفقہ، اصفہان، مکتبۃ الإمام أمیر المؤمنین علیہ السلام، 1403ھ۔
- خمینی، سید روحاللہ، استفتائات، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1372ہجری شمسی۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار فی انفرادات الإمامیۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، بیتا۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، المسائل الناصریات، تہران، رابطۃ الثقافۃ و العلاقات الاسلامیۃ، 1417ھ۔
- شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ، بیجا، دارالفکر، بیتا۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، بیجا، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، بیتا۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، بیجا، مؤسسۃ الإمام الہادی علیہ السلام، 1415ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حس، النہایۃ، بیروت، دارالکتاب العربی، 1400ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الإمامیۃ، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، 1387ہجری شمسی۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، المؤتلف من المختلف بین أئمۃ السلف، مشہد، مجمع البحوث الإسلامیۃ، 1410ھ۔
- عظیمزادہ اردبیلی، فائزہ، «علل و مستندات حرمت ازدواج با غیر مسلمان»، فقہ و حقوق خانوادہ (ندای صادق)، شمارہ 52، سال پانزدہم، بہار و تابستان 1389ہجری شمسی۔
- عندلیبی، علی، و عندلیبی، رضا، «حکم ازدواج با زنان اہل کتاب در قرآن کریم»، قرآن، فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ 1، سال اول، پاییز و زمستان 1393ہجری شمسی۔
- فیض کاشانی، ملامحسن، مفاتیح الشرائع، قم، مجمع الذخائر الاسلامیۃ، 1401ھ۔
- کلانتری، علیاکبر، «فقہ و ازدواج با کافران»، فقہ، شمارہ 7 و 8، بہار و تابستان 1375ہجری شمسی۔
- گلپایگانی، سید محمدرضا، مجمع المسائل، قم، دار القرآن الکریم، 1409ھ۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام، تہران، استقلال، 1409ھ۔
- محمدحسینزادہ، عبدالرضا، «ازدواج دائم با اہل کتاب در فقہ اسلامی و حقوق مدنی ایران»، مقالات و بررسیہا، شمارہ 80، 1385ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1390ہجری شمسی۔
- مغنیہ، محمدجواد، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، بیجا، بینا، 1402ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔