عکرمۃ بن ابی جہل
کوائف | |
---|---|
محل زندگی | مکہ |
نسب/قبیلہ | قریش |
اقارب | ابوجہل |
وفات | 13 یا 15 ہجری |
سبب وفات | جنگ یرموک میں مارا گیا |
دینی معلومات | |
اسلام لانا | فتح مکہ کے کچھ عرصہ بعد |
جنگوں میں شرکت | جنگ بدر، احد اور خندق میں مسلمانوں کے خلاف اور جنگ یرموک لشکر اسلام میں |
دیگر فعالیتیں | پیغمبر اکرم کے دشمنوں میں سے ایک |
عِکْرِمَۃ بن ابی جَہل قریش کے ان بزرگوں میں سے ایک تھا جو رسول اللہؐ سے دشمنی کرتا تھا لیکن فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور رسول اللہؐ کے اصحاب میں شمار ہونے لگے۔ عکرمہ بعثت کے آغاز میں پیغمبر اکرمؐ کا دشمن تھا۔ وہ جنگ بدر، احد اور خندق میں مسلمانوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں شریک ہوا۔ عکرمہ کا باپ ابوجہل بھی مکہ کے سرداروں اور رسول اللہؐ کے سرسخت دشمنوں میں سے تھا۔
پیغمبر اکرمؐ نے فتحِ مکہ میں چند لوگوں کے علاوہ تمام مکہ والوں کو امان دیا۔ عکرمہ بن ابوجہل بھی ان لوگوں میں سے ایک تھا جنہیں امان نہیں ملا تھا۔ عکرمہ یمن بھاگ گیا لیکن اس کی بیوی نے رسول اللہؐ کے پاس جاکر اس کے لئے امان دلایا اور یوں وہ مکہ لوٹ آیا اور مسلمان ہوا۔ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد ابوبکر نے عکرمہ کو ردہ کی جنگوں کا کمانڈر بنا دیا تھا۔ وہ جنگ یرموک میں مارا گیا۔
خاندان اور خصوصیات
عکرمہ ولد ابوجہل، قبیلہ قریش کی بنی مخزوم قوم سے تعلق رکھتا تھا۔[1] عکرمہ کی نسل نہیں بڑھی؛[2] کیونکہ اس کا بیٹا عمر جنگ یرموک میں مارا گیا۔[3]
عکرمہ کو مکہ کے روئسا[4] اور دوران جاہلیت کے سرداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔[5] وہ مشہور[6] اور بہادر جنگجو تھا۔[7] اس کی بیوی ام حلیم[8] یا اُم حکیم بنت حارث بن ہشام تھی[9] جس نے رسول اللہؐ سے عکرمہ کے لئے امان لے آئی۔[10]
رسول اللہؐ سے دشمنی
عکرمہ اپنے باپ کی طرح رسول اللہ سے دشمنی کرتے تھا۔[11] جنگ بدر میں مشرکین کے لشکر میں شامل تھا اور انصار میں سے کسی ایک کو قتل بھی کیا تھا۔[12] اسی طرح ابوجہل کے قتل میں شریک ایک شخص کا ہاتھ بھی اس نے کاٹا تھا۔ [13]
جنگ احد میں عکرمہ مشرکین کی فوج کے ایک دستے کا کمانڈر تھا۔ [14] اور مسلمان تیراندازوں کا احد کی گھاٹی چھوڑنے کے بعد خالد بن ولید کی ہمراہی میں عکرمہ نے پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کیا جس کی وجہ سے سپاہِ اسلام کو شکست ہوئی۔[15]
جنگ احد کے بعد عکرمہ نے ابوسفیان اور ابی الاعور السلمی کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ سے امان مانگا اور مذاکرات کے لئے مدینہ گئے اور رسول اللہ سے درخواست کی کہ وہ لات و عزی اور منات کو برا بھلا نہ کہے اور یہ اعلان کرے کہ ان بتوں کے بھی کچھ منافع ہیں، تاکہ اس طرح مشرکین بھی مسلمانوں کے خدا کے خلاف کچھ نہ کہیں۔ ان باتوں سے رسول اللہؐ کو بہت تکلیف ہوئی اور ان لوگوں کو مدینہ سے نکل جانے کا کہا۔ اس دوران سورہ احزاب کی پہلی آیت: «یا أَیُّہا النَّبِیُّ اتَّقِ اللَّہ وَ لا تُطِعِ الْکافِرِینَ وَ الْمُنافِقِینَ»؛ «اے نبی! تقوی اختیار کرو اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو»۔ نازل ہوئی۔[16]
جنگ خندق میں عکرمہ نے عمرو بن عبدود کے ساتھ خندق عبور کیا اور لشکرِ اسلام تک پہنچا اور عمرو قتل ہونے کے بعد وہ واپس گیا۔[17]
اسلام لے آنا
«عکرمہ اسلام لانے کے بعد تمہاری طرف آرہا ہے۔ اس کے باپ کو دشنام نہ دو۔ مرے ہوئے انسان کو برا بھلا کہنے سے صرف زندہ انسانوں کو ہی تکلیف پہنچتی ہے مُردوں کو نہیں۔»
ابنجوزی، المنتظم، 1412ھ، ج4، ص155.
رسول اللہؐ نے فتح مکہ کے دوران مکہ میں چند لوگوں کے علاوہ باقی تمام لوگوں کو امان دیا۔ عکرمہ بھی امان نہ پانے والوں میں سے ایک تھا۔[18] اسی وجہ سے عکرمہ یمن فرار کر گیا اور اس کی بیوی رسول خدا کے پاس پہنچی اور اس کے لئے امان لے آئی اور اس کے بعد عکرمہ کے پیچھے چلی گئی اور اسے مکہ میں رسول اللہؐ کے پاس لے گئی۔[19] عکرمہ نے پیغمبر اکرمؐ کے حضور اسلام لے آیا اور قسم کھائی کہ جتنا اسلام کے خلاف خرچ کیا ہے اس کے دو برابر خدا کی راہ میں خرچ کرے گا۔[20]
جنگ حنین کے بعد رسول خداؐ نے مال غنیمت کو تألیف قلوب کی خاطر صرف قریش میں تقسیم کیا جن میں سے ایک عکرمہ بن ابو جہل تھا۔[21] رسول اللہؐ نے حجۃ الوداع کے دوران عکرمہ کو ہوزان قبیلہ سے زکات جمع کرنے والوں کا سربراہ مقرر کیا۔ [22]
رسول اللہؐ کی وفات کے بعد ابوبکر نے عکرمہ کو ردہ کی جنگوں میں اشعث بن قیس،[23] مسیلمہ[24] اور بعض مرتدوں کے ساتھ مقابلے کے لئے عمان بھیجا[25] اور انہیں شام کے بعض علاقوں کا حاکم بنایا۔[26]
وفات
عکرمہ دوسرے خلیفہ کے دور حکومت میں سنہ 15ہجری کو جنگ یرموک میں مارا گیا۔[27] اس کا بیٹا عمر بھی اسی جنگ میں مارا گیا۔ [28] بعض مآخذ میں عکرمہ کی وفات کو جنگ اَجْنَادَین میں اور بعض میں سنہ 13 ہجری کو جنگ مَرْجُ الصُّفَّر میں قرار دیا گیا ہے۔[29]
حوالہ جات
- ↑ ذہبی، تاریخ الإسلام، 1409ھ، ج3، ص99.
- ↑ ابنقتیبۃ، المعارف، 1992ء، ص334.
- ↑ ابناثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج3، ص681.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص312.
- ↑ ذہبی، تاریخ الإسلام، 1409ھ، ج3، ص99.
- ↑ ابناثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج3، ص567.
- ↑ ابنکلبی، جمہرۃ النسب، 1407ھ، ص86.
- ↑ ابنجوزی، المنتظم، 1412ھ، ج4، ص155.
- ↑ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1932ء۔
- ↑ ابنجوزی، المنتظم، 1412ھ، ج4، ص155.
- ↑ ابنحجر، الاصابہ، 1415ھ، ج4، ص443.
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص301.
- ↑ زرکلی، الاعلام، 1989ء، ج7، ص258.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص316.
- ↑ ابنسید، عیون الاَثر، 1414ھ، ج2، ص19.
- ↑ واحدی، أسباب نزول القرآن، 1411ھ، ص364.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص573.
- ↑ ابناثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج2، ص195.
- ↑ ابنجوزی، المنتظم، 1412ھ، ج4، ص155.
- ↑ ابنجوزی، المنتظم، 1412ھ، ج4، ص156.
- ↑ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص145.
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص4.
- ↑ ابناعثم، الفتوح، 1411ھ، ج1، ص57.
- ↑ ابناثیر، الکامل، 1385ھ، ج2، ص360.
- ↑ ذہبی، تاریخ الإسلام، 1409ھ، ج3، ص99.
- ↑ ذہبی، تاریخ الإسلام، 1409ھ، ج3، ص99.
- ↑ ابنحجر، الاصابہ، 1415ھ، ج4، ص443.
- ↑ ابناثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج3، ص681.
- ↑ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1083.
مآخذ
- ابناثیر، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
- ابناثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
- ابناعثم، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق: علی شیری، بیروت، دار الاضواء، 1411ھ۔
- ابنجوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم، محقق: عطا، محمد عبد القادر، عطا، مصطفی عبد القادر، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
- ابنحجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق: عادل احمد عبدالموجود، علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
- ابنسعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: عطا، محمد عبد القادر، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ اول، 1410ھ۔
- ابنسید، عیون الاثر، بیروت، دار القلم، چاپ اول، 1414ھ۔
- ابنعبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق: علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، چاپ اول، 1412ھ۔
- ابنقتیبۃ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق: ثروت عکاشۃ، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ دوم، 1992ء۔
- ابنکلبی، ہشام بن محمد، جمہرۃ النسب، محقق، ناجی حسن، بیجا، عالم الکتب، 1407ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: سہیل زکار، ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، 1417ھ۔
- ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق: عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، 1409ھ۔
- زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989ء۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
- واحدی، علی بن احمد، اسباب النزول، بیروت، دارالکتب الاسلامیہ، 1411ھ۔
- واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق: مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، چاپ سوم، 1409ھ۔