معالم العلماء (کتاب)

ویکی شیعہ سے
معالم العلماء
کتاب معالم العلماء
کتاب معالم العلماء
مشخصات
مصنفمحمد بن علی ابن شہر آشوب
موضوعرجال
زبانعربی
تعداد جلد1 جلد


مَعالمُ العُلَماء فی فهرست کُتُب الشیعَة و أسماء المُصنّفین‌ قَدیما و حَدیثا عربی زبان میں ایک رجالی کتاب ہے جسے ابن‌ شہر آشوب مازندرانی‌ (متوفا 588 ھ) نے تالیف کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں شیخ طوسی کی الفہرست کے تتمے کے طور پر 600 شیعہ مصنفین کی کتابوں کے نام ذکر کئے ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے الذریعہ میں اس کتاب کا نام رجال ابن شہر آشوب لیا ہے اور وہ معتقد ہیں کہ یہ کتاب معالم العلماء کے علاوہ ایک اور مستقل کتاب ہے۔[1]

مؤلف

تفصیلی مضمون: ابن شہر آشوب

اس کتاب کے مولف ابو عبد اللہ محمد بن علی بن شہر آشوب سَرَوی مازندرانی (488-588 ھ)، ابن شہر آشوب کے نام سے مشہور ہیں۔ رشید الدین و عزّ الدین کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا شمار چھٹی صدی ہجری کے بزرگ شیعہ امامیہ علماء و فقہاء و محدثین میں ہوتا ہے۔ وہ ایران کے شمالی علاقے ساری میں پیدا ہوئے اور علوم دین کے حصول کو جاری رکھنے کیلئے بغداد گئے۔ ابن شہر آشوب کی بہت سی تألیفات مناقب آل ابی طالب اور معالم العلماء کی مانند ہیں۔

تاریخ تألیف

اس کتاب کی تاریخ تالیف 581 ھ کے بعد کی نہیں ہے کیونکہ مؤلف نے تاریخ 15 جمادی الثانی سال 581 ھ کو شیخ جمال الدین ابو الحسن علی بن شعره حلّی جامعانی کیلئے اجازہ لکھا اور اسے معالم العلماء میں ذکر کیا ہے نیز معروف ہے کہ کتاب معالم العلماء اور کتاب فہرست شیخ منتجب الدین زمانی اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ یہ دونوں کتابیں شیخ طوسی کی فہرست کا تتمہ ہیں۔

سبب تالیف

مؤلف کتاب کی تالیف کا سبب ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

«معالم العلماء شیعہ کتب کی نئی اور پرانی کتب کی فہرست کا مجموعہ ہے۔ اگرچہ ہمارے شیخ بزرگوار ابو جعفر محمد طوسی نے اس زمانے میں ایک بے نظیر کتاب لکھی تھی لیکن کہنا چاہئے کہ اس مختصر کتاب میں ایسے اضافی مطالب اور فوائد مذکور ہیں کہ جو شیخ طوسی کی کتاب کا تتمہ ہو۔ اس کتاب میں میں نے ان 600 مؤلفین کا ذکر کیا ہے جن کا ذکر شیخ طوسی کی کتاب میں مذکور نہیں ہے۔ اگرچہ اس موضوع (فہرست نویسی) پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔[2]

ترتیب کتاب

ابن شہر آشوب نے کتاب کے مقدمے میں فہرست‌ نویسی اور کتاب‌ نویسی کا تاریخچہ ذکر کیا ہے اور ابو حامد محمد غزالی کی اس بات کو کہ اسلام میں سب سے پہلے ابن جریح نے کتاب لکھی ہے، رد کیا ہے۔ ابن شہر آشوب اسلام کے سب سے پہلے مؤلف کے طور پر امیرالمؤمنین (ع)، پھر سلمان، ابوذر، اصبغ بن نباتہ، عبید الله بن ابی رافع اور امام زین العابدین (ع) کا ذکر کرتے ہیں اور پھر اصول اربع مائۃ کے مصنفین کا نام لیتے ہیں۔[3] مقدمے کے بعد کتاب کی ترتیب اس طرح سے ہے:

  • ابتدا میں الف با کی ترتیب کے مطابق مصنفین کے نام ذکر ہیں۔
  • جداگانہ فصل میں انکا تذکرہ ہے جو کنیت سے پہچانے جاتے ہیں۔
  • جداگانہ فصل وہ لوگ جو قبیلے، شہر اور القاب سے پہچانے جاتے ہیں۔
  • جداگانہ فصل وہ لوگ جو کتابوں کے مجہول مصنف ہیں۔ یہ فہرست کی آخری فصل ہے اور 2301 عنوان کتابوں کو 1031 مصنفین سے متعارف کیا ہے ۔
  • دو فصلیں: 1. شعرائے اہل بیت (ع) میں چار فصلیں بنام: مجاہرین (نڈر و بے باک)، مقتصدین (معتدل)، سادات، صحابہ اور تابعین»؛ 2. اصحاب آئمہ کی معرفی دو فصلوں میں بنام: مُتقین اور مُتکلّفین میں کی ہے۔[4]

خصوصیات کتاب

اس کتاب کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں:

  1. اس کتاب میں 43 افراد کی توثیق مذکور ہے جن میں: ابراہیم بن صالح الانماطی الکوفی، ابراہیم بن عبد الحمید، اسماعیل بن مہران، اسماعیل بن شعیب العریشی و اسماعیل بن عمار شامل ہیں۔
  2. مؤلف نے 67 صاحبان اصل کو ذکر کیا ہے جن میں: ابراہیم بن مہزم الاسدی، ابراہیم بن عثمان ابو الخزاز الکوفی، ابراہیم بن أبی البلاد، ابراہیم بن یحیی و ابراہیم بن عمیر یمانی قابل ذکر ہیں۔
  3. ایک طبقہ 53 افراد کا ذکر کیا ہے۔
  4. نئی اصطلاحات یا مخصوص جملوں کا استعمال جیسے: مَجفُوّ الروایہ (جس کی روایت کا اعتنا نہ کیا جائے)، مِن غِلمان العیاشی (عیاشی کے تربیت یافتہ شاگردوں میں سے ہے)، الزکاة علی نسق الفقہ (زکات کے نام سے کتاب ہے کہ جو فقہ کی روش کے مطابق لکھی گئی ہے)، لہ کتاب الرحمة مثل کتاب سعد بن عبدالله (الرحمۃ نام کی کتاب کا صاحب ہے جیسے الرحمة سعد بن عبدالله کی کتاب تھی)، لہ کتاب مُعَوّل علیه (قابل اعتباد کتاب)، من أجلّاء الکُتّاب (بزرگ مصنفین میں سے ہیں)۔
  5. بعض مقامات پر راوی کے احوال اور مذہب مذکور ہیں، مثلا لکھا گیا: ابراہیم بن اسحاق نہاوندی ‌متہم ہے؛ ابراہیم بن عبد الحمید، ‌واقفی مذہب کا معتقد تھا؛ اسماعیل بن عمار، فحطی مذہب تھا؛ احمد بن علی ابو العباس، غلو سے متہم تھا۔
  6. اگرچہ یہ کتاب شیعہ مصنفین کی کتابوں کی فہرست و آثار پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود کچھ اہل سنت کے علما کے نام بھی مذکور ہیں جنہوں نے اہل بیت یا شیعہ کے بارے میں کتابیں لکھیں ہیں جیسے:
  • حافظ أبو نعیم أحمد بن عبدالله اصفہانی سنی المذہب ہے مگر اس کی ایک کتاب بنام منقبة المطهرین و مرتبة الطیبین و ما نزل فی القرآن فی امیرالمؤمنین(ع) ہے۔
  • ابو صالح احمد بن عبدالملک المؤذن اہل سنت میں سے ہے لیکن کتاب بنام الاربعین فی فضائل الزهراء (س) کا ممصنف ہے۔
  • علی بن محمد المدائنیسنی ہے لیکن اس کی کتابیں اچھی ہیں جن میں سے السیرة فی مقتل الحسین (ع) ہے۔
  • عباد بن یعقوب الرواجنی سنی ہے لیکن حضرت مہدی (ع) کے بارے میں کتاب تصنیف کی جس کا نام مسند رکھا۔[5]

مقام و منزلت

کتاب معالم العلماء اگرچہ حجم کے اعتبار سے دوسری رجالی کتب کے مقابلے میں چھوٹی ہے لیکن علمائے رجال کے یہاں یہ کتاب درجہ اول کے مآخذ میں شمار ہوتی ہے؛ صاحب خلاصۃ الاقوال علامہ حلی، صاحب أمل الآمل شیخ حر عاملی، صاحب نقد الرجال سید مصطفی تفرشی، میرزا محمد استر آبادی، علامہ مجلسی، شیخ ابو علی حائری، آقا محمد باقر خوانساری اور دیگر علماء نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔[6]

اشاعت

سنہ 1380 ھ میں مطبعہ حیدریہ نجف کی جانب سے شایع ہونے والے ایڈیشن کے مقدمے میں سید محمد صادق آل بحر العلوم لکھتے ہیں: یہ کتاب پہلی بار سنہ 1353 ھ میں تہران سے شایع ہوئی جو 141 صفحات پر مشمتل تھی۔ اس ایڈیشن میں عباس اقبال کی جانب سے اس کتاب پر کی گئی تحقیق اور کئی حاشیے پر شامل ہیں۔
موصوف آگے لکھتے ہیں: اس کتاب پر جو تحقیق میں نے انجام دی ہے اس میں مذکورہ بالا تحقیق کے نسخے سے بہتر نسخے کے ساتھ موازنہ ہوا ہے اور اس میں مذکورہ بالا نسخے کی نسبت اس کے ترجمے میں 31 مورد اضافہ بھی ہوا ہے۔
آل بحر العلوم کی باتوں سے جو نتیجہ لیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے صرف دو ہی ایڈیشن شایع ہوئے ہیں، حالانکہ ان کی تعداد اس سے زیادہ ہیں؛ جیسا کہ آیت اللّہ مرعشی کے مطابق یہ کتاب پہلی بار ہندوستان کے شہر لکھنئو میں اور دوسری بار نجف اشرف اور تیسری بار تہران میں شایع ہوئی ہے۔[7]

حوالہ جات

  1. تهرانی، الذریعہ، ج ۱۰، ص ۸۶.
  2. ابن شہرآشوب، معالم العلماء، ص ۳۸.
  3. ابن شہر آشوب، معالم العلماء، ص ۳۸.
  4. عباس علی مردی، درباره تصحیح تازه معالم العلماء
  5. عباس علی مردی، درباره تصحیح تازه معالم العلماء
  6. کتابخانہ دیجیتال نور.
  7. جہاد فرحات، گذری بر کتاب معالم العلماء، ۱۳۸۳ش

مآخذ

  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، معالم العلماء، قم.
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دار الاضواء.
  • فرحات، جہاد ، گذری بر کتاب «معالم العلماء»، علوم حدیث، بہار ۱۳۸۳ش، شماره ۳۱.