سید محمدرضا موسوی گلپائگانی

ویکی شیعہ سے
(آیت اللہ گلپائگانی سے رجوع مکرر)
آیت اللہ گلپائگانی
شیعہ مرجع تقلید
کوائف
مکمل نامسید محمد رضا گلپائگانی
تاریخ ولادت9 ذی القعدہ 1316 ھ
آبائی شہرگوگد، گلپائگان
تاریخ وفات24 جمادی الثانی 1414 ھ
مدفنقم
علمی معلومات
اساتذہسید محمد حسن خوانساری، ­محمد تقی گوگدی، عبدالکریم حائری یزدی، محمد حسین غروی اصفہانی، ضیاء الدین عراقی، سید ابو الحسن اصفہانی، میرزای نائینی
شاگردمرتضی حائری یزدی، مرتضی مطہری، سید محمد حسینی بہشتی، سید اسد الله مدنی، محمد مفتح، علی قدوسی، علی مشکینی، اکبر ہاشمی رفسنجانی، علی‌ پناه اشتہاردی، لطف‌ الله صافی گلپایگانی، ناصر مکارم شیرازی و...
تالیفاتافاضۃ العوائد، حاشیہ بر عروۃ­الوثقی، ارشاد المسائل، ہدایۃ العباد، رسالۃ فی عدم­ تحریف ­القرآن، توضیح المسائل۔
خدمات
سماجیمرجع تقلید


سید محمد رضا گلپائگانی (1899۔1993 ء) شیعہ مراجع تقلید میں سے تھے۔ آپ آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد مرجعیت کے مقام پر فائز ہوئے۔ آپ عبدالکریم حائری یزدی کے شاگردوں میں سے تھے۔ مرتضی حائری یزدی، مرتضی مطہری، سید محمد حسینی بہشتی، لطف‌ الله صافی گلپایگانی اور ناصر مکارم شیرازی آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔

گلپایگانی نے 15 خرداد کی تحریک میں قتل عام، واقعہ فیضیہ، امام خمینی کی گرفتاری اور جلاوطنی جیسے پہلوی حکومت کے اقدامات کی مخالفت کی۔ آپ کی تالیفات میں تقریباً 40 کتابیں موجود ہیں۔

ہسپتال، دینی مدارس، دار القرآن اور مجمع اسلامی لندن کی تاسیس آپ کے فلاحی کاموں اور فعالیتوں میں سے ہیں۔

طالب علمی کا دور

سید محمد رضا گلپایگانی 8 ذی القعدہ سنہ 1316 ھ کو ایران کے شہر گلپایگان سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوگد نامی گاوں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید محمد باقر روحانی تھا اور اپنے گاوں میں امام کے لقب سے مشہور تھے۔ تین سال کی عمر میں والدہ اور 9 سال کی عمر میں والد کے سائے سے بھی محروم ہوئے۔[1]

سید محمد رضا گلپایگانی نے حوزہ کے سطوح کی تعلیم گلپایگان میں سید محمد حسن خوانساری (سید احمد خوانساری کے بڑے بھائی) اور آخوند خراسانی کے شاگرد محمد تقی گوگدی گلپایگانی سے حاصل کی۔[2] اس کے بعد وہ اراک چلے گئے اور وہاں شیخ عبد الکریم حائری کے دروس میں شرکت کی۔ جب عبد الکریم یزدی نے قم کی طرف ہجرت کی تو آپ بھی چار سال اراک میں گزارنے کے بعد ان کے ساتھ قم چلے گئے اور مدرسہ فیضیہ میں مقیم ہوئے۔[3]
آیت اللہ حائری کی وفات کے بعد آپ نجف چلے گئے اور تین مہینے تک ضیاء الدین عراقی اور سید ابو الحسن اصفہانی کے درس میں شرکت کی۔[4] جبکہ میرزا نائینی اور سید ابو الحسن اصفہانی کے قم میں قیام کے دوران 8 مہینے ان کے درس میں شرکت کی۔[5] اور اسی طرح آپ سیدحسین بروجردی کے درس میں بھی شرکت کیا کرتے تھے۔[6]
قم میں آپ سید احمد خوانساری کے مباحث تھے۔[7]

علمی منزلت اور شاگرد

آپ نے عبدالکریم حائری سے اجتہاد کی اجازت حاصل کی اور رضا مسجد شاہی و شیخ عباس قمی سے اجازہ روایت حاصل کیا۔[8] آپ عبد الکریم حائری یزدی کے گروہ استفتاء کے رکن تھے۔[9] حائری یزدی نے اپنی کتابُ الصلاة کی تصحیح آپ اور آیت‌ الله اراکی کے سپرد کی تھی۔[10]

آیت‌الله بروجردی کی وفات کے بعد آپ 1340 شمسی میں مرجع تقلید بنے۔[11]1372 شمسی تک آپ 32 سال مرجعیت کے منصب پر فائز رہے۔[12] آپ تقریبا 75 سال حوزہ کے دروس تدریس کرتے رہے جن میں سے 60 سال فقہ اور اصول فقہ کا درس خارج دیا۔[13] آپ کا درس خارج پررونق‌ ترین دروس میں سے تھا۔[14]

آپ کے شاگردوں میں بعض مندرجہ ذیل ہیں:

علمی آثار

آپ کے علمی آثار میں تقریباً 40 کتابیں چھپ چکی ہیں۔[17] جن میں سے بعض آپ کی اپنی کاوش ہے جبکہ بعض کتابیں آپ کے دروس ہیں جنہیں آپ کے شاگردوں نے مرتب کیا ہے۔[18] مندرجہ ذیل تالیفات آپ نے بعنوان آثار علمی باقی چھوڑے ہیں:[19]

  • افاضۃ العوائد
  • حاشیہ بر وسیلۃ­ النجاۃ
  • حاشیہ بر عروۃ­ الوثقی
  • مجمع­ المسائل
  • ارشاد المسائل
  • ہدایۃ العباد
  • کتاب­ الطہارہ
  • الہدایۃ الی من لہ ­الولایۃ
  • کتاب­ القضاء
  • بغیۃ ­الطالب فی شرح­ المکاسب
  • الدر­ المنضود فی احکام­ الحدود
  • نتایج­ الافکار فی­ نجاسۃ­ الکفار
  • کتاب­ الحج، رسالۃ محرمات بالسبب
  • رسالۃ فی عدم­ تحریف ­القرآن
  • صلاۃ ­الجمعہ و عیدین، مناسک حج
  • احکام عمرہ، احکام­ النساء
  • مختصر الاحکام
  • توضیح المسائل[20]

سیاسی کارکردگی

آیت الله بروجردی اور آیت الله گلپایگانی

سید محمد رضا گلپایگانی اگرچہ پہلوی حکومت کو نامشروع سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود علنی طور پر اس کا مقابلہ کرنا مصلحت نہیں سمجھتے تھے اور حتی الامکان سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کرتے تھے۔[21] آبراہیمیان اپنی کتاب ایران بین دو انقلاب میں انہیں میانہ رو مرجع تقلید مانتے ہیں جو حکومت کی نابودی کے خواہاں نہیں تھے اور صرف سیاست میں اعتدال کے خواہاں تھے۔[22] اس کے باوجود وہ گلپائگانی کو امام خمینی کی تحریک میں ایک موثر شخصیت مانتے ہیں۔[23] آپ نے 1341 شمسی سے انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی تک پہلوی حکومت کے بہت سارے فیصلوں کی مخالف کی۔ 1341 ش کو ایران کے دوسرے مراجع تقلید جیسے سید احمد خوانساری، سید محسن حکیم اور مرعشی نجفی کے ہمراہ اصلاحات اراضی[یادداشت 1] کے بل کے بارے میں ایک ٹلیگراف کے ذریعے اپنی مخالفت کا اعلان کیا۔[24] اسی سال آپ اور دیگر مراجع تقلید نے شاہ کو ٹیلیگرام کے ذریعے صوبائی کونسل بل[یادداشت 2] کو شریعت کے منافی قانون قرار دیا۔[26] گلپایگانی نے 1341 شمسی کو محمد رضا پہلوی کی طرف سے اعلان شدہ استصواب رائے[یادداشت 3] میں لوگوں کی شرکت کو حرام قرار دیا۔[27]

اسی طرح واقعہ فیضیہ کے اعتراض میں دروس کی چھٹی، 15 خرداد کے قیام میں عام لوگوں کے قتل عام اور امام خمینی اور بعض دیگر علماء کی گرفتاری کے خلاف بیانیہ دینا، امام خمینی کی ترکی جلاوطنی پر دربار کے وزیر کو قم بلانا، محمد رضا پہلوی کی طرف سے ترویج پانے والی رستاخیز پارٹی میں شمولیت کو حرام قرار دینا، بادشاہ کی طرف سے دینی حکومتی ادارے بنانے کے اقدام کی مخالف میں حوزہ علمیہ کے استقلال کا دفاع، تاریخ ہجری کو تاریخ شہنشاہی میں تبدیل کرنے پر مخالفت، گورنمنٹ کی طرف سے حساسیت کے باوجود مصطفی خمینی کے لیے مجلس ترحیم کا انعقاد، روزنامہ اطلاعات میں امام خمینی کی توہین پر ان کے خلاف تقریر اور 19 دی کے قیام میں لوگوں کے قتل عام کے خلاف ایک ہفتہ درس کی چھٹی انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے پہلے آپ کی سیاسی سرگرمیوں میں سے بعض ہیں۔[28]

گلپایگانی‌ نے انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد جمہوری اسلامی ایران کی حمایت کی اور ان کے ساتھ اچھا رابطہ رکھا۔[29]

سماجی و فلاحی خدمات

آیت اللہ گلپایگانی اور امام خمینی

حوزہ علمیہ کے درسی نظام میں تبدیلی،[30] مجمع اسلامی لندن، دار القرآن الکریم، قم میں آیت ‌الله گلپایگانی ہسپتال، دینی مدارس اور مرکز مُعجَم‌ المسائل‌ الفقہیۃ کی تاسیس آپ کی خدمات میں سے بعض ہیں۔[31] آپ کے بیٹے سید جواد گلپایگانی کے بقول حوزہ علمیہ قم کے تعلیمی نظام میں تحول ایجاد کر کے طلاب سے امتحانات لینے کیلئے ایک باقاعدہ پروگرام، حوزہ علمیہ کے مدارس کی جدید طرز پر تعمیر، طلاب کی سکونت کیلئے قدیم مدارس کی مرمت اور جدید مدارس کی تعمیر، محققین کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر مرکز معجم فقہی کی تأسیس، آپ کی بعض ثقافتی فعالیتوں میں شمار ہوتے ہیں۔[32]

مجمع جہانی اسلام

1974 ء میں لندن اسلامک سینٹر (Islamic Universal Association) قائم کیا جو دین اسلام کی ترویج اور شیعہ مذہب سے آشنائی کے لیے بنایا گیا۔[33] اور اسی طرح ایران میں پہلے دار القرآن الکریم کا قیام عمل میں لایا جس میں قرآن مجید کا ترجمہ، طباعت اور نشر کا کام ہونے لگا اور قرآن مجید سے مخصوص لائبریری اور میوزیم بھی قائم کیا جس میں قلمی اور مطبوعہ نسخوں کی جمع آوری کی گئی۔[34]

وفات

سید محمد رضا گلپایگانی نے 24 جمادی الثانی 1414 ھ بمطابق 9 دسمبر 1993 میں 98 سال کی عمر میں قم میں وفات پائی۔[35] جمہوری اسلامی ایران کی اس وقت کی حکومت نے سات روز سوگ کا اعلان کیا اور ایک دن پورے ملک میں چھٹی کی۔[36]آپ کا جسد خاکی پہلے تہران اور پھر قم میں تشییع ہوا اور حرم حضرت معصومہ میں دفن ہوا۔[37] جمہوری اسلامی ایران کے رہبر سید علی خامنہ ای نے تہران میں آپ کے تشییع جنازہ میں شرکت کی۔[38]

نوٹ

  1. رضا شاہ کی حکومت اس کوشش میں تھی کہ عوام الناس میں علماء کی اثر و رسوخ اور ان کے مقام و منزلت سے استفادہ کرتے ہوئے "اصلاحات ارضی" کے مسودے پر علماء اور مراجع سے دستخط لئے جائیں۔ اسی بنا پر شاہ نے عید فطر کی مناسبت سے مبارک بادی کے لئے تلگراف بھیجے جس میں قم اور نجف کے علماء کا اس بل کی موافقت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ اس طرح شاہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ علماء اور مراجع حکومت کے ساتھ ہیں۔ آیت اللہ گلپایگانی دیگر مراجع منجملہ آیات عظام خوانساری، حکیم اور مرعشی نجفی وغیرہ کے ہمراہ اس بل کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے اس بل کی منظوری کے خلاف ایک تیلیگراف میں علماء اور مراجع کے اس بل کی منظوری میں کسی طرح کے کردار کی نفی کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا اور علماء کی طرف ایسے امور کی نسبت دینے کو ایک قابل مذمت اقدام قرار دیا۔
  2. 16 مہر ماہ 1341 ش کو شاہی حکومت نے صوبائی کونسل کے نام سے ایک بل کی منظوری دی۔ اس بل کے مطابق منتخب ارکان سے اسلام کی شرط کو ختم کیا اور منتخب ارکان کیلئے اس کے بعد قرآن پر حلف اٹھانا لازمی نہیں بلکہ کسی بھی آسمانی کتاب پر حلف اٹھا سکتے ہیں۔ اسی طرح اس بل کے ذریعے عورتوں کو بھی حق رای دہی دی گئی تھی۔ اس بل کی منظوری کے خلاف تمام مراجع نے احتجاج کیا اور اپنے خدشات سے حکومت کو آگاہ کیا اس دوران آیت اللہ گلپایگانی نے اپنا احتجاج اور اعتراض ایک بیانیہ کی صورت میں یوں دیا: "کیا ایک ایسے ملک میں جہاں ابھی تک مردوں کو انتخابات میں آزادی کے ساتھ شرکت کی اجازت نہیں ایسے میں طاقت کے بل بوتے پر عورتوں کو حق رائے دہی دینے کا مطلب عصر حجر کی یاد آوری اور اسلامی معاشرے میں عورتوں کی توہین نہیں ہے؟" آخر کار جب وزیر اعظم نے یہ جان لیا کہ علماء اور مراجع کے احتجاجات اور اعتراضات کے سامنے مقاومت نہیں کی جا سکتی تو اس نے کابینہ کو اس بل کو لغو کرنے کا حکم دیا.[25]
  3. 19 دی 1341 شمسی کو شاہ نے باقاعدہ طور پر اعلان کیا کہ چھ اصولوں جسے بعد میں "انقلاب سفید" کہا گیا، کو ریفرنڈم کیلئے رکھ دیا جائے گا۔ شاہ جو اس مسئلے میں شخصا خود مجری بن رہا تھا یہ اعلان کیا کہ اگر آسمان زمین پر آئے اور زمین آسمان پر چلی جائے تب بھی میں اس کام کو انجام دے کر ہی رہوں گا۔ علماء نے اس مسئلے میں بھی اپنی مخالفت کا اعلان کیا اور اس معاملے میں بھی آیت اللہ گلپایگانی نے ایک اشتہار کے ذریعے اس شاہی ریفرنڈم کے خلاف اپنے موقف کا اعلان کیا اور اس دفعہ اس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی حرمت کا فتوا دیا۔

حوالہ جات

  1. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۱۸و۱۹.
  2. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۲۷تا۲۹.
  3. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۲۴و۲۵.
  4. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۳۹و۴۰.
  5. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۳۷و۴۰.
  6. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۳۸.
  7. «سال روز رحلت حضرت آیت الله العظمی سید محمد رضا گلپایگانی»، حوزہ کی ویب سائٹ، ۸ آذر ۱۳۸۶، دیکھنے کی تاریخ ۱۲ خرداد ۱۳۹۷.
  8. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۴۱.
  9. «سال روز رحلت حضرت آیت الله العظمی سید محمد رضا گلپایگانی»، حوزہ ویب سائٹ، ۸ آذر ۱۳۸۶، دیکھنے کی تاریخ ۱۲ خرداد ۱۳۹۷.
  10. «سال روز رحلت حضرت آیت الله العظمی سید محمد رضا گلپایگانی»، حوزہ ویب سائٹ، ۸ آذر ۱۳۸۶، دیکھنے کی تاریخ ۱۲ خرداد ۱۳۹۷.
  11. داوودی، «بازخوانی زندگی سیاسی‌اجتماعی آیت‌الله العظمی سید محمد رضا گلپایگانی»، جماران ویب سائٹ، ۱۶ آذر ۱۳۹۲، دیکھنے کی تاریخ ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  12. «سال روز رحلت حضرت آیت الله العظمی سید محمد رضا گلپایگانی»، حوزہ ویب سائٹ، ۸ آذر ۱۳۸۶، دیکھنے کی تاریخ ۱۲ خرداد ۱۳۹۷.
  13. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۵۴.
  14. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۶۱.
  15. صالح، جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ۱۳۸۵ش، ج۳، ص٣٩.
  16. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۶۰تا۶۴.
  17. لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۱۱۴تا۱۱۸.
  18. حبیبی، کتاب‌ شناسی توصیفی آیت ‌الله العظمی گلپایگانی، ۱۳۹۱، ص۱۹.
  19. حبیبی، کتاب‌ شناسی توصیفی آیت ‌الله العظمی گلپایگانی، ۱۳۹۱، ص۲۵-۶۵.
  20. حبیبی، کتاب ‌شناسی توصیفی آیت‌ الله العظمی گلپایگانی، ۱۳۹۱، ص۲۵-۶۵.
  21. حسن‌ زاده و شفایی هریسی، «مواضع و اقدامات آیت ‌الله گلپایگانی در قبال سیاست‌های حکومت پهلوی »، ص۸۴و۸۹.
  22. حسن‌ زاده و شفایی هریسی، «مواضع و اقدامات آیت‌الله گلپایگانی در قبال سیاست‌های حکومت پهلوی »، ص۸۴.
  23. داوودی، «بازخوانی زندگی سیاسی‌اجتماعی آیت‌الله العظمی سیدمحمدرضا گلپایگانی»، جماران ویب سائٹ، ۱۶ آذر ۱۳۹۲، مشاہدہ کی تاریخ ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  24. داوودی، «بازخوانی زندگی سیاسی‌اجتماعی آیت‌الله العظمی سیدمحمدرضا گلپایگانی»، جماران ویب سائٹ، ۱۶ آذر ۱۳۹۲، مشاہدہ کی تاریخ ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  25. سایت جماران.
  26. حسن‌ زاده و شفایی هریسی، مواضع و اقدامات آیت ‌الله گلپایگانی در قبال سیاست‌های حکومت پهلوی، ص۸۸.
  27. داوودی، «بازخوانی زندگی سیاسی‌اجتماعی آیت‌الله العظمی سیدمحمدرضا گلپایگانی»، جماران ویب سائٹ، ۱۶ آذر ۱۳۹۲، مشاہدے کی تاریخ ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  28. داوودی، «بازخوانی زندگی سیاسی‌اجتماعی آیت‌الله العظمی سیدمحمدرضا گلپایگانی»، جماران ویب سائٹ، ۱۶ آذر ۱۳۹۲، دیده‌شده در ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  29. داوودی، «بازخوانی زندگی سیاسی‌اجتماعی آیت‌الله العظمی سیدمحمدرضا گلپایگانی»، ماران ویب سائٹ، ۱۶ آذر ۱۳۹۲، مشاہدہ کی تاریخ۔ ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  30. «تحول در نظام آموزشی حوزه از خدمات ماندگار آیة الله العظمی گلپایگانی»، حوزہ ویب سائٹ، مشاہدہ کی تاریخ ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  31. «رحلت آیت‌الله گلپایگانی»، مجلہ گلبرگ، ش۳۶، ۱۳۸۱، حوزہ ویب سائٹ سے منقول، مشاہدہ کی تاریخ ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  32. «تحول در نظام آموزشی حوزه از خدمات ماندگار آیة الله العظمی گلپایگانی»، وبگاه پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، دیده‌شده در ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  33. جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، ۱۳۹۱، ص۶۶۰و۶۶۱.
  34. «رحلت آیت الله گلپایگانی»، مجلہ گلبرگ، ش۳۶، ۱۳۸۱، بہ نقل از حوزہ ویب سائٹ، مشاہدہ کی تاریخ ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  35. «سال روز رحلت حضرت آیت الله العظمی سید محمد رضا گلپایگانی»، ۸ آذر ۱۳۸۶، حوزہ ویب سائٹ، مشاہدہ کی تاریخ، ۱۲ خرداد ۱۳۹۷.؛ لطفی، نوری از ملکوت، ۱۳۹۱ش، ص۳۰۲.
  36. «رحلت آیت‌الله گلپایگانی»، مجله گلبرگ، ش۳۶، ۱۳۸۱، به نقل از وبگاه پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه، دیده‌ شده در ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  37. «رحلت آیت‌الله گلپایگانی»، مجله گلبرگ، ش۳۶، ۱۳۸۱، بہ نقل از وبگاه پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه، دیده‌ شده در ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.
  38. «رحلت آیت‌الله گلپایگانی»، مجلہ گلبرگ، ش۳۶، ۱۳۸۱، بہ نقل از وبگاه پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه، دیده‌ شده در ۱۳ خرداد ۱۳۹۷.

مآخذ

بیرونی روابط