الامالی (سید مرتضی)

ویکی شیعہ سے
(الامالی سید مرتضی سے رجوع مکرر)
الأمالی للمرتضی
تصویر جلد کتاب الامالی
مشخصات
مصنفالشریف المرتضی
موضوعحدیثی
زبانعربی
طباعت اور اشاعت
ناشردار الفکر العربی
سنہ اشاعت1998ھ


الأمالی پانچویں صدی کے شیعہ عالم دین سید مرتضی کے علمی آثار میں سے ہے۔ جنہوں نے اس کتاب میں بعض محکم و متشابہ اور مشکل آیات کی تفسیر، دشوار احادیث کی کی وضاحت اور شیعہ سنی اور دیگر مذاہب کے مابین بعض کلامی اختلافی مسائل کو بیان کرتے ہوئے عدلیہ مذہب کے نظریئے کو بھی بیان کیا ہے۔ کتاب، فقہ الحدیث، تفسیر اور علم کلام کے اعتبار سے نہایت اہم کتاب ہے۔

مؤلف

علی بن حسین بن موسی بن محمد بن موسی بن ابراہیم بن امام موسی کاظمؑ، (355ھ-436 ھ) سید مرتضی، شریف مرتضی اور علم الہدی، نہج البلاغہ کی جمع آوری کرنے والے سید رضی کے بھائی ہیں۔ آپ اپنے بھائی رضی کے بعد شیعوں کے حامی، سادات اور بغداد کے علویوں کے نقیب، امیرالحاج اور حاکم شرع تھے جوکہ اس سے پہلے ان کے والد کے منصب تھے۔ آپ اپنے استاد شیخ مفید کی وفات کے بعد فقیہ، امامیہ کے متکلم اور مرجع تقلید تھے۔ آپ ہر مذہب کے مناظرے اور علم کلام کے متخصص اور ماہر تھے۔ آپ فقہ اور اصول، ادب، لغت، تفسیر، تاریخ اور تراجم میں ماہر ہیں۔

نام

اہل حدیث اس کتاب کو أمالی المرتضی کے نام سے جانتے ہیں۔ [1]لیکن قدیم فہرست کی کتابوں میں اس کتاب کا نام «الغرر و الدرر» ہے۔ اس کتاب کے بعض دیگر نام جیسے؛ الامالی فی التفسیر، غررالفوائد و درر القلائد، التفسیر، مجالس التاویلات، مجالس کشف الآیات بھی بتائے گئے ہیں۔

تألیف کا طرز

اس کتاب کو امالی نویسی کے طرز پر تحریر کیا گیا ہے۔ منقول ہے کہ سید مرتضی نے اس «الغرر و الدرر» کو حجاز کے راستے میں جہاں کہیں رک جاتے تھے تو اپنے شاگردوں میں املاء کرتے تھے اور وہ بھی جس طرح سے آپ بیان کرتے تھے اسی ترتیب سے لکھتے تھے۔ ایک اور نقل کے مطابق آپ نے ان مجالس کو اپنے گھر پر اپنے مریدوں اور شاگردوں میں مسلسل بیان کیا ہے۔ ان مجلسوں کا آغاز معلوم نہیں ہے لیکن سید کا آخری املاء 28 جمادی الاول 413 ھ بروز جمعرات کو واقع ہوا ہے۔[2]

کتاب کا محتوا اور ڈھانچہ

یہ کتاب 80 مجلسوں اور ایک تکملہ پر مشتمل ہے جس میں مختلف موضوعات شامل ہیں۔ اس کتاب میں بیان کئے جانے والے موضوعات مندرجہ ذیل ہیں:

  1. قرآن کریم کی بعض آیات کی عدلیہ مذہب کے مطابق تفسیر۔ ان آیات کی تفسیر اور تاویل میں آپ نے اکثر شعر، لغت اور حدیث کے محفوضات سے مدد لی ہے۔ سید مرتضی نے جن آیات کو انتخاب کر کے ان کی تفسیر کی ہے ان میں سے اکثر ایسی آیات ہیں جن کے بارے میں دوسری کتابوں میں کچھ نہیں ملتا ہے۔ [3]
  2. بعض ایسی احادیث کی شرح اور توضیح جن کی تاویل کے بارے میں علماء نے آپس میں اختلاف کیا ہے۔ آپ نے عدلیہ مذہب کے مطابق ان روایت کی تشریح کی ہے۔[4]
  3. علم کلام کے بعض اختلافی مسائل جیسے رؤیت خدا، بندوں کے افعال کی تخلیق، برے کاموں پر اللہ تعالی کا ارادہ،۔۔۔۔ اور بعض دوسرے نظریات کی نقد۔ [5]
  4. دور جاہلیت اور صدر اسلام کے بعض ادبی نثر اور شعرا کے اشعار کی تشریح۔ [6]
  5. کتاب کے اصلی مباحث کے علاوہ کتاب کے آخر میں بعض چیزیں اضافہ بھی ہوئی ہیں اور مسئلے کی شکل میں آئے ہیں اور تکملة الغرر کے نام سے کتاب میں اضافہ ہوئے ہیں۔ اور اسی تکملہ کے ساتھ کتاب امالی سید مرتضی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ [7]

اس کتاب میں موجود مختلف موضوعات کی وجہ سے ادبا، متکلمین، مفسرین وغیرہ میں سے ہر کسی نے اپنے سلیقے کے مطابق استفادہ کیا ہے۔[8] اور بہت سارے علما نے اس کتاب کے مضامین کی وجہ سے اس کی تعریف و تمجید کی ہے۔[9] یہاں تک کہ اہل سنت کے علما کی توجہ بھی اس کتاب کی طرف جلب ہوئی ہے۔ [10]

خصوصیات

  • اس کتاب میں مذکور اکثر و بیشتر احادیث میں اشکال پائے جاتے ہیں اور صحیح سند والی احادیث بہت کم ہیں اور اکثر ضعیف (مرسل، مرفوع،…) روایات پائی جاتی ہیں۔
  • احادیث سمجھنے کے لیے ایک اہم کتاب ہے جس سے احادیث کے معانی اور بعض مشکل الفاظ کے معانی ملتی ہیں یا روایات میں استعمال شدہ ادبی اور بلاغت کے نکات کو استعمال کرنے کا بہترین منبع ہے۔
  • سید مرتضی نے روایات کی تشریح کرتے ہوئے عقائد اور علم کلام کے نکات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے شیعہ عقیدے کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے نظریات کو بیان کیا ہے اور ان اطلاعات سے امامیہ اور اہل سنت کے اس وقت کے فقہی اور کلامی نظریات اور ترجیحات بیان ہوتے ہیں۔
  • سید مرتضی نے روایات کے مشکل الفاظ کو سمجھانے کے لیے دور جاہلیت کے اشعار سے بھی استفادہ کیا ہے جو روایات کو سمجھنے میں ان اشعار کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ اس کتاب کو بعض اشعار کی صحیح عبارت حاصل کرنے اور اس کے مدلول اور مفہوم نیز اس کے معنی کو سمجھنے کے منبع کے طور پر استفادہ کرسکتے ہیں۔[11]

نسخے

اس کتاب کے چار خطی نسخے پائے جاتے ہیں:

  • وہ نسخہ جو 567 ھ کو لکھا گیا ہے اور جس کی رویت کرنے کی اجازت پانچ واسطوں کے بعد سید مرتضی سے ملتی ہے۔ اس نسخے میں بعض عبارتوں کی تشریح اور تفسیر میں بہت سارے حاشیے نسخہ لکھنے والی کی طرف سے پائے جاتے ہیں۔ اس نسخے میں ایسے رموز پائے جاتے ہیں جو اس نسخے کو دوسرے نسخوں سے موازنہ کرنے کو بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان چار قلمی نسخوں میں سے ایک ابویعلی کا نسخہ ہے جس میں سید کے املاء کی آخری تاریخ کو 28 جمادی الاول، 413 ھ بروز جمعرات قرار دیا ہے اور اس کا اصلی نسخہ اسکوریال لائبریری میں موجود ہے۔
  • محمد بن ابی طاہر بن أبی الحسین وراق کا لکھا ہوا نسخہ جو 15 رجب 586 ھ کو مکمل ہوا ہے۔ اس نسخے میں کچھ اضافی باتیں بھی ہیں جو اس سے پہلے والے اور پرانے نسخوں میں درج نہیں ہیں۔ یہ خطی نسخہ استنبول کی لائبریری میں موجود ہے۔
  • ایک اور نسخہ جو 619 ھ کو لکھا گیا ہے جس میں چونتیسویں مجلس کے آخر تک موجود ہے۔ اور اس کے آخر میں لکھنے والے کا نام اور تاریخ بھی درج نہیں ہے۔ یہ نسخہ مصر کی لائبریری میں موجود ہے۔
  • ہاشم بن الحسین الحسینی کا لکھا ہوا نسخہ جو 10 شعبان سنہ 1067 ھ کو مکمل ہوا ہے اور اس کے آخر میں لکھا ہوا ہے کہ اس نسخے کو اصلی نسخے سے مطابقت بھی کی ہے۔[12]

یہ کتاب اب تک چار مرتبہ چھپ چکی ہے۔

شرح

صاحب جواہر کے بیٹے شیخ محسن نے اس کتاب کی شرح لکھی ہے جو اب تک نہیں چھپی ہے اور خطی نسخے میں موجود ہے۔[13]

حوالہ جات

  1. ادب المرتضی من سیرتہ و آثارہ، عبدالرزاق محی الدین، ص۱۵۸.
  2. مقدمہ امالی المرتضی، ص۲۰
  3. مقدمہ أمالی المرتضی، ص۱۸ تا ۲۰
  4. مقدمہ أمالی المرتضی، ص۱۸ تا ۲۰
  5. مقدمہ أمالی المرتضی، ص۱۸ تا ۲۰.
  6. مقدمہ أمالی المرتضی، ص۱۸ تا ۲۰.
  7. مقدمہ أمالی المرتضی، ص۱۸ تا ۲۰.
  8. مقدمہ أمالی المرتضی، ص۱۸ تا ۲۰؛ وفیات الأعیان، ج ۳، ص۳۱۳؛ ریاض العلماء، ج، ص۲۰؛اعیان الشیعہ، ج۸، ص۲۱۴.
  9. الذریعہ، ج۱۶، ص۴۲؛أعیان الشیعة، ج ۸، ص۲۱۳
  10. روضات الجنات، ج ۴، ص۳۰۳.
  11. مقالہ سید مرتضی،کتاب امالی و احادیث آن نوشتہ مہرداد عباسی
  12. مقدمہ أمالی المرتضی، ص۲۱ تا ۲۶.
  13. گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقہا، ص۱۷۰-۱۷۱.

مآخذ

  • تفضلی، مریم، کہن ترین نسخہ ‌ہای خطی امالی سید مرتضی، فصل نامہ کتاب، زمستان ۱۳۸۳،ش ۶۰، ص۱۸۹- ۱۹۴.
  • طارمی راد، حسن، فرہنگ آثار ایرانی- اسلامی، ج ۱، ص۳۱۳- ۳۱۴.
  • عباسی، مہرداد، شخصیت سید مرتضی، کتاب امالی و احادیث آن، علوم حدیث، زمستان ۱۳۸۰، ص۹۶- ۱۲۳
  • علی زادہ، میرزا، آشنایی با امالی سید مرتضی، علوم و معارف قرآن، بہار ۱۳۷۵،ش ۱، ص۱۲۱- ۱۴۵.
  • گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقہا، تہران: سمت، ۱۳۸۵ش.