صحیفہ سجادیہ کی سینتیسویں دعا

ویکی شیعہ سے
صحیفۂ سجادیہ کی سیتیسویں دعا
کوائف
موضوع:شکر الہی کے سلسلے میں کوتاہی کا اعتراف۔
مأثور/غیرمأثور:مأثورہ
صادرہ از:امام سجاد علیہ السلام
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفۂ سجادیہ
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفہ سجادیہ کی سیتیسویں دعا امام سجادؑ کی مأثورہ دعاؤں میں سے ایک ہے جو انسانوں کے شکر کے سلسلے میں ناتوانی اور کوتاہی کو بیان کرتی ہے۔ امام سجادؑ نے اس دعا میں نعمات الہیہ کے شکر کو محال جانا ہے اور بخشش و عنایات الہی کو تفضل خدا کا نتیجہ شمار کیا ہے۔ اس دعا میں پروردگارعالم کا برے لوگوں کو عقاب میں جلدی نہ کرنے کی وجہ صرف اس بنیاد پر ہے کہ لوگ توبہ کا دامن نہ چھوڑیں اور ہدایت الہی کی طرف پلٹ جائیں۔ امام زین العابدینؑ نے اسی طرح عدالت الہی کو بندوں کے شامل حال اور مسیر الہی سے انحراف کو شیطان کا فریب شمار کیا ہے۔

یہ 37ویں دعا جس کی متعدد شرحیں، مختلف زبانوں میں لکھی گئیں ہیں جیسے دیار عاشقان جو حسین انصاریان کی شرح فارسی زبان میں ہے اور اسی طرح ریاض السالکین جو سید علی خان مدنی کی عربی زبان میں شرح موجود ہے۔

دعا و مناجات

تعلیمات

صحیفہ سجادیہ کی سیتیسویں دعا شکر الہی کے مقابلے انسانی ناتوانی و کوتاہی کے لئے ہے۔ امام سجادؑ نے اس دعا میں شکر خدا کے سلسلے میں انسانی کوتاہی کی طرف اشارہ کیا ہے۔[1] ممدوحی کرمناشاہی کے مطابق اگر انسان اس مقام و منزل پر پہنچ جائے جہاں اپنے آپ کو نعمات الہی کے شکر کے لئے نتوان سمجھنے لگے تو یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں صرف مخلَصین پہنچ پاتے ہیں۔[2]

اس دعا کی تعلیمات مندرجہ ذیل ہیں:

  • مسلسل نعمات الہی میں غرق ہونے کی وجہ سے شکر خدا میں انسانی ناتوانی۔
  • اطاعت و عبادت خدا میں انسانی ناتوانی۔
  • نعمت کا شکریہ اصل نعمت سے برتر ہے۔
  • نعمات الہی کا شکریہ محال ہے۔
  • عنایات الہی کا سرچشمہ تفضل الہی ہے۔
  • بندوں کے کمترین اعمال کے مقابلے میں اجر عظیم۔
  • پروردگار کی یقینی بخشش جبکہ بندے اس کے مستحق نہ ہوں۔
  • نعمات الہیہ کے مقابلے اخلاق الہیہ سے مزین ہونا۔
  • بندوں کے حق میں عدالت الہیہ کا اعتراف۔
  • مسیر الہی سے انحراف کا سبب شیطان کا فریب ہے۔
  • برے بندوں کے عقاب میں خدا کا جلدبازی نہ کرنا۔
  • گنہگاروں اور فرمانبرداروں کے ساتھ خدا کی رفتار کریمانہ۔
  • اطاعت خدا، توفیق الہی کی ضمانت ہے۔
  • بندگان الہی پر وسعت رحمت خدا۔
  • اعمال نیک کے مقابلے اجر الہی کا استحقاق۔
  • توبہ کی امید میں بندوں پر تاخیر عقاب اور ہدایت الہی کی طرف بازگشت۔
  • عدالت الہی کا اعتراف۔[3]

شرحیں

صحیفۂ سجادیہ کی سیتیسویں دعا کی بھی شرح دوسری دعاؤں کی طرح کی گئی ہے۔ یہ دعا حسین انصاریان،[4] نے اپنی کتاب دیار عاشقان میں بطور تفصیل فارسی زبان میں شرح کی ہے۔ اسی طرح سے یہ دعا محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت [5] میں اور سید احمد فہری کی کتاب شرح و ترجمۂ صحیفہ سجادیہ[6] میں فارسی زبان میں شرح کی گئی ہے۔


اسی طرح یہ 37ویں دعا بعض دوسری کتابوں میں جیسے: سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین،[7] جواد مغنیہ کی فی ظلال الصحیفہ السجادیہ،[8] محمد بن محمد دارابی[9] کی ریاض العارفین اور سید محمد حسین فضل اللہ [10] کی کتاب آفاق الروح میں عربی زبان میں شرح لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس دعا کے الفاظ کی توضیح، فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ میں[11] اور عزالدین جزائری کی کتاب شرح الصحیفہ السجادیہ[12] میں بھی دی گئی ہے۔

دعا کا متن اور ترجمہ

متن ترجمہ: (مفتی جعفر حسین)
وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِذَا اعْتَرَفَ بِالتَّقْصِيرِ عَنْ تَأْدِيَةِ الشُّكْرِ

(۱) اللَّهُمَّ إِنَّ أَحَداً لَا يَبْلُغُ مِنْ شُكْرِكَ غَايَةً إِلَّا حَصَلَ عَلَيْهِ مِنْ إِحْسَانِكَ مَا يُلْزِمُهُ شُكْراً.

(۲) وَ لَا يَبْلُغُ مَبْلَغاً مِنْ طَاعَتِكَ وَ إِنِ اجْتَهَدَ إِلَّا كَانَ مُقَصِّراً دُونَ اسْتِحْقَاقِكَ بِفَضْلِكَ

(۳) فَأَشْكَرُ عِبَادِكَ عَاجِزٌ عَنْ شُكْرِكَ، وَ أَعْبَدُهُمْ مُقَصِّرٌ عَنْ طَاعَتِكَ

(۴) لَا يَجِبُ لِأَحَدٍ أَنْ تَغْفِرَ لَهُ بِاسْتِحْقَاقِهِ، وَ لَا أَنْ تَرْضَى عَنْهُ بِاسْتِيجَابِهِ

(۵) فَمَنْ غَفَرْتَ لَهُ فَبِطَوْلِكَ، وَ مَنْ رَضِيتَ عَنْهُ فَبِفَضْلِكَ

(۶) تَشْكُرُ يَسِيرَ مَا شَكَرْتَهُ، وَ تُثِيبُ عَلَى قَلِيلِ مَا تُطَاعُ فِيهِ حَتَّى كَأَنَّ شُكْرَ عِبَادِكَ الَّذِي أَوْجَبْتَ عَلَيْهِ ثَوَابَهُمْ وَ أَعْظَمْتَ عَنْهُ جَزَاءَهُمْ أَمْرٌ مَلَكُوا اسْتِطَاعَةَ الِامْتِنَاعِ مِنْهُ دُونَكَ فَكَافَيْتَهُمْ، أَوْ لَمْ يَكُنْ سَبَبُهُ بِيَدِكَ فَجَازَيْتَهُمْ!

(۷) بَلْ مَلَكْتَ- يَا إِلَهِي- أَمْرَهُمْ قَبْلَ أَنْ يَمْلِكُوا عِبَادَتَكَ، وَ أَعْدَدْتَ ثَوَابَهُمْ قَبْلَ أَنْ يُفِيضُوا فِي طَاعَتِكَ، وَ ذَلِكَ أَنَّ سُنَّتَكَ الْإِفْضَالُ، وَ عَادَتَكَ الْإِحْسَانُ، وَ سَبِيلَكَ الْعَفْوُ

(۸) فَكُلُّ الْبَرِيَّةِ مُعْتَرِفَةٌ بِأَنَّكَ غَيْرُ ظَالِمٍ لِمَنْ عَاقَبْتَ، وَ شَاهِدَةٌ بِأَنَّكَ مُتَفَضَّلٌ عَلَى مَنْ عَافَيْتَ، وَ كُلٌّ مُقِرٌّ عَلَى نَفْسِهِ بِالتَّقْصِيرِ عَمَّا اسْتَوْجَبْتَ

(۹) فَلَوْ لَا أَنَّ الشَّيْطَانَ يَخْتَدِعُهُمْ عَنْ طَاعَتِكَ مَا عَصَاكَ عَاصٍ، وَ لَوْ لَا أَنَّهُ صَوَّرَ لَهُمُ الْبَاطِلَ فِي مِثَالِ الْحَقِّ مَا ضَلَّ عَنْ طَرِيقِكَ ضَالٌّ

(۱۰) فَسُبْحَانَكَ! مَا أَبْيَنَ كَرَمَكَ فِي مُعَامَلَةِ مَنْ أَطَاعَكَ أَوْ عَصَاكَ: تَشْكُرُ لِلْمُطِيعِ مَا أَنْتَ تَوَلَّيْتَهُ لَهُ، وَ تُمْلِي لِلْعَاصِي فِيمَا تَمْلِكُ مُعَاجَلَتَهُ فِيهِ.

(۱۱) أَعْطَيْتَ كُلًّا مِنْهُمَا مَا لَمْ يَجِبْ لَهُ، وَ تَفَضَّلْتَ عَلَى كُلٍّ مِنْهُمَا بِمَا يَقْصُرُ عَمَلُهُ عَنْهُ.

(۱۲) وَ لَوْ كَافَأْتَ الْمُطِيعَ عَلَى مَا أَنْتَ تَوَلَّيْتَهُ لَأَوْشَكَ أَنْ يَفْقِدَ ثَوَابَكَ، وَ أَنْ تَزُولَ عَنْهُ نِعْمَتُكَ، وَ لَكِنَّكَ بِكَرَمِكَ جَازَيْتَهُ عَلَى الْمُدَّةِ الْقَصِيرَةِ الْفَانِيَةِ بِالْمُدَّةِ الطَّوِيلَةِ الْخَالِدَةِ، وَ عَلَى الْغَايَةِ الْقَرِيبَةِ الزَّائِلَةِ بِالْغَايَةِ الْمَدِيدَةِ الْبَاقِيَةِ.

(۱۳) ثُمَّ لَمْ تَسُمْهُ الْقِصَاصَ فِيمَا أَكَلَ مِنْ رِزْقِكَ الَّذِي يَقْوَى بِهِ عَلَى طَاعَتِكَ، وَ لَمْ تَحْمِلْهُ عَلَى الْمُنَاقَشَاتِ فِي الْآلَاتِ الَّتِي تَسَبَّبَ بِاسْتِعْمَالِهَا إِلَى مَغْفِرَتِكَ، وَ لَوْ فَعَلْتَ ذَلِكَ بِهِ لَذَهَبَ بِجَمِيعِ مَا كَدَحَ لَهُ وَ جُمْلَةِ مَا سَعَى فِيهِ جَزَاءً لِلصُّغْرَى مِنْ أَيَادِيكَ وَ مِنَنِكَ، وَ لَبَقِيَ رَهِيناً بَيْنَ يَدَيْكَ بِسَائِرِ نِعَمِكَ، فَمَتَى كَانَ يَسْتَحِقُّ شَيْئاً مِنْ ثَوَابِكَ لَا! مَتَى!

(۱۴) هَذَا- يَا إِلَهِي- حَالُ مَنْ أَطَاعَكَ، وَ سَبِيلُ مَنْ تَعَبَّدَ لَكَ، فَأَمَّا الْعَاصِي أَمْرَكَ وَ الْمُوَاقِعُ نَهْيَكَ فَلَمْ تُعَاجِلْهُ بِنَقِمَتِكَ لِكَيْ يَسْتَبْدِلَ بِحَالِهِ فِي مَعْصِيَتِكَ حَالَ الْإِنَابَةِ إِلَى طَاعَتِكَ، وَ لَقَدْ كَانَ يَسْتَحِقُّ فِي أَوَّلِ مَا هَمَّ بِعِصْيَانِكَ كُلَّ مَا أَعْدَدْتَ لِجَمِيعِ خَلْقِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ.

(۱۵) فَجَمِيعُ مَا أَخَّرْتَ عَنْهُ مِنَ الْعَذَابِ وَ أَبْطَأْتَ بِهِ عَلَيْهِ مِنْ سَطَوَاتِ النَّقِمَةِ وَ الْعِقَابِ تَرْكٌ مِنْ حَقِّكَ، وَ رِضًى بِدُونِ وَاجِبِكَ‏

(۱۶) فَمَنْ أَكْرَمُ- يَا إِلَهِي- مِنْكَ، وَ مَنْ أَشْقَى مِمَّنْ هَلَكَ عَلَيْكَ لَا! مَنْ فَتَبَارَكْتَ أَنْ تُوصَفَ إِلَّا بِالْإِحْسَانِ، وَ كَرُمْتَ أَنْ يُخَافَ مِنْكَ إِلَّا الْعَدْلُ، لَا يُخْشَى جَوْرُكَ عَلَى مَنْ عَصَاكَ، وَ لَا يُخَافُ إِغْفَالُكَ ثَوَابَ مَنْ أَرْضَاكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ هَبْ لِي أَمَلِي، وَ زِدْنِي مِنْ هُدَاكَ مَا أَصِلُ بِهِ إِلَى التَّوْفِيقِ فِي عَمَلِي، إِنَّكَ مَنَّانٌ كَرِيمٌ.

شکر میں کوتاہی کے اعتراف کی دعا

(۱) بار الہا! کوئی شخص تیرے شکر کی کسی منزل تک نہیں پہنچتا۔ مگر یہ کہ تیرے اتنے احسانات مجتمع ہوجاتے ہیں کہ وہ اس پر مزید شکریہ لازم و واجب کر دیتے ہیں اور کوئی شخص تیری اطاعت کے کسی درجہ پر چاہے وہ کتنی ہی سرگرمی دکھائے نہیں پہنچ سکتا؛

(۲) اور تیرے اس استحقاق کے مقابلہ میں جو بر بنائے فضل و احسان ہے، قاصر ہی رہتا ہے؛

(۳) جب یہ صورت ہے تو تیرے سب سے زیادہ شکر گزار بندے بھی ادائے شکر سے عاجز اور سب سے زیادہ عبادت گزار بھی درماندہ ثابت ہوں گے۔

(۴) کوئی استحقاق ہی نہیں رکھتا کہ تو اس کے استحقاق کی بنا پر بخشش دے یا اس کے حق کی وجہ سے اس سے خوش ہو۔

(۵) جسے تو نے بخش دیا تو یہ تیرا انعام ہے اور جس سے تو راضی ہو گیا تو یہ تیرا تفضل ہے

(۶) جس عمل قلیل کو تو قبول فرماتا ہے اس کی جزا فراواں دیتا ہے اور مختصر عبادت پر بھی ثواب مرحمت فرماتا ہے یہاں تک کہ گویا بندوں کا وہ شکر بجا لانا جس کے مقابلہ میں تو نے اجرو ثواب کو ضروری قرار دیا اور جس کے عوض ان کو اجر عظیم عطا کیا، ایک ایسی بات تھی کہ اس شکر سے دست بردار ہونا ان کے اختیار میں تھا تو اس لحاظ سے تو نے اجر دیا ( کہ انہوں نے باختیار خود شکر ادا کیا) یا یہ کہ ادائے شکر کے اسباب تیرے قبضہ قدرت میں نہ تھے (اور انہوں نے خود اسباب شکر مہیا کئے) جس پر تو نے انہیں جزا مرحمت فرمائی۔ (ایسا تو نہیں ہے)

(۷) بلکہ اے میرے معبود ! تو ان کے جملہ امور کا مالک تھا۔ قبل اس کے کہ وہ تیری عبادت پر قادر و توانا ہوں اور تو نے ان کے لیے اجر و ثواب کو مہیا کر دیا تھا۔ قبل اس کے کہ وہ تیری عبادت پر قادر ہوں اور تو نے ان کے لیے اجر و ثواب کو مہیا کر دیا تھا قبل اس کے کہ وہ تیری اطاعت میں داخل ہوں اور یہ اس لیے کہ تیرا طریقہ انعام و اکرام تیری عادت تفضل و احسان اور تیری روش عفو و درگذر ہے۔

(۸) چنانچہ تمام کائنات اس کی معترف ہے کہ تو جس پر عذاب کرے اس پر کوئی ظلم نہیں کرتا اور گواہ ہے اس بات کی کہ جس کو تو معاف کر دے، اس پر تفضل و احسان کرتا ہے اور ہر شخص اقرار کرے گا اپنے نفس کی کوتاہی کا اس (اطاعت) کے بجا لانے میں جس کا تو مستحق ہے؛

(۹) اگر شیطان انہیں تیری عبادت سے نہ بہکاتا تو پھر کوئی شخص تیری نافرمانی نہ کرتا۔ اور اگر باطل کو حق کے لباس میں ان کے سامنے پیش نہ کرتا تو تیرے راستہ سے کوئی گمراہ نہ ہوتا۔

(۱۰) پاک ہے تیری ذات، تیرا لطف و کرم ۔ فرمانبردار ہو یا گنہگار ہر ایک کے معاملہ میں کس قدر آشکارا ہے یوں کہ اطاعت گزار کو اس عمل خیر پر جس کے اسباب تو نے خود فراہم کئے ہیں جزا دیتا ہے اور گنہگار کو فوری سزا دینے کا اختیار رکھتے ہوئے پھر مہلت دیتا ہے؛

(۱۱) تو نے فرمانبردار و نافرمان دونوں کو وہ چیزیں دی ہیں جن کا انہیں استحقاق نہ تھا۔ اور ان میں سے ہر ایک پر تو نے وہ فضل و احسان کیا ہے جس کے مقابلہ میں ان کا عمل بہت کم تھا۔

(۱۲) اور اگر تو اطاعت گزار کو صرف ان اعمال پر جن کا سر و سامان تو نے مہیا کیا ہے جزا دیتا ہے تو قریب تھا کہ وہ ثواب کو اپنے ہاتھ سے کھو دیتا اور تیری نعمتیں اس سے زائل ہو جاتیں ۔ لیکن تو نے اپنے جود و کرم سے فانی و کوتاہ مدت کے اعمال کے عوض طولانی و جاودانی مدت کا اجر و ثواب بخشا اور قلیل و زوال پذیر اعمال کے مقابلہ میں دائمی و سرمدی جزا مرحمت فرمائی۔

(۱۳) پھر یہ کہ تیرے خوان نعمت سے جو رزق کھا کر اس نے تیری اطاعت پر قوت حاصل کی اس کا کوئی عوض تو نے نہیں چاہا اور جن اعضاء و جوارح سے کام لے کر تیری مغفرت تک راہ پیدا کی اس کا سختی سے کوئی محاسبہ نہیں کیا۔ اور اگر تو ایسا کرتا تو اس کی تمام محنتوں کا حاصل اور سب کوششوں کا نتیجہ تیری نعمتوں اور احسانوں میں سے ایک ادنی و معمولی قسم کی نعمت کے مقابلہ میں ختم ہو جاتا اور بقیہ نعمتوں کے لیے تیری بارگاہ میں گروی ہو کر رہ جاتا۔ (یعنی اس کے پاس کچھ نہ ہوتا کہ اپنے کو چھڑاتا) توایسی صورت میں وہ کہاں تیرے کسی ثواب کا مستحق ہو سکتا تھا؟ نہیں! وہ کب مستحق ہو سکتا تھا۔

(۱۴) اے میرے معبود ! یہ تو تیری اطاعت کرنے والے کا حال اور تیری عبادت کرنے والے کی سرگزشت ہے اور وہ جس نے تیرے احکام کی خلاف ورزی کی اور تیرے منہیات کا مرتکب ہوا اسے بھی سزا دینے میں تو نے جلدی نہیں کی تا کہ وہ معصیت و نافرمانی کی حالت میں چھوڑ کر تیری اطاعت کی طرف رجوع ہو سکے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جب پہلے پہل ا س نے تیری نافرمانی کا قصد کیا تھا جب ہی وہ ہر اس سزا کا جسے تو نے تمام خلق کے لیے مہیا کیا ہے مستحْْق ہو چکا تھا؛

(۱۵) تو ہر وہ عذاب جسے تو نے اس سے روک لیا اور سزا و عقوبت کا ہر وہ جملہ جو اس سے تا خیر میں ڈال دیا : یہ تیرا اپنے حق سے چشم پوشی کرنا اور استحقا ق سے کم پر راضی ہونا ہے

(۱۶) اے میرے معبود! ایسی حالت میں تجھ سے بڑھ کر کون کریم ہو سکتا ہے اور اس سے بڑھ کے جو تیری مرضی کے خلاف تباہ و برباد ہو کون بدبخت ہو سکتا ہے ؟ نہیں ! کون ہے جو اس سے زیادہ بدبخت ہو ۔ تو مبارک ہے کہ تیری توصیف لطف و احسان ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے اور تو بلند تر ہے اس سے کہ تجھ سے عدل وانصاف کے خلاف کا اندیشہ ہو ۔ جو شخص تیری نافرمانی کرے تجھ سے یہ اندیشہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تو اس پر ظلم و جور کرے گا اور نہ اس شخص کے بارے میں جو تیری رضا و خوشنودی کو ملحوظ رکھے تجھ سے حق تلفی کا خوف ہو سکتا ہے ۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور میری آرزؤوں کو بر لا اور میرے لیے ہدایت اور رہنمائی میں اتنا اضافہ فرما کہ میں اپنے کاموں میں توفیق سے ہمکنار ہوں۔ اس لیے کہ تو نعمتوں کا بخشنے والا اور لطف و کرم کرنے والا ہے۔


حوالہ جات

  1. ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۲۱۰۔
  2. ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۲۱۰۔
  3. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ش، ج۷، ص۲۷۳-۲۸۵؛ ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۲۱۰-۲۴۷؛ شرح فرازہای دعای سی و ہفتم از سایت عرفان۔
  4. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ش، ج۷، ص۲۶۷-۲۸۵۔
  5. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۲۰۷-۲۴۷۔
  6. فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۱۰۷-۱۱۶۔
  7. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ، ج۵، ص۲۲۱-۲۷۲۔
  8. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ، ص۴۳۵-۴۴۴۔
  9. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۴۶۳-۴۷۴۔
  10. فضل‌ا للہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۲۳۳-۲۵۲۔
  11. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ھ، ص۷۳-۷۴۔
  12. جزایری، شرح الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۲، ص۱۸۹-۱۹۲۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • فضل‌اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
  • فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌ خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔

بیرونی روابط