معلی بن خنیس
کوائف | |
---|---|
نام: | ابو عبد اللہ معلی بن خنیس بزاز کوفی۔ |
اصحاب | امام صادق علیہ السلام |
سماجی خدمات | نقل روایت، وکیل امام صادق (ع) |
مذہب | شیعہ |
معلی بن خنیس کوفی (متوفی 131 ھ)، امام جعفر صادق علیہ السلام کے راوی اور مالی وکلا میں سے تھے۔ شیعہ فقہا اور علمائے رجال میں سے شیخ طوسی، احمد بن محمد برقی اور علامہ حلی انہیں ثقہ مانتے ہیں۔ لیکن ابن غضائری اور نجاشی نے ان کی روایات کی تضعیف کی ہے۔ آیت اللہ خوئی کے مطابق، معلی نے 80 روایت نقل کی ہے۔ ان کی زیادہ تر روایات امام صادق (ع) سے بلا واسطہ نقل ہوئی ہیں اور اصحاب اجماع میں شمار عبد اللہ بن مسکان جیسے راوی نے ان سے روایت نقل کی ہے۔ وہ نوروز کے سلسلہ میں ذکر ہونے والی احادیث کے راوی ہیں۔ انہیں 131 ھ میں مدینہ میں عباسیوں کے حکم سے قتل کیا گیا۔
تعارف
ابو عبد الله مُعَلّیٰ بن خُنَیس بَزّاز کوفی، امام جعفر صادق (ع) کے روات اور اصحاب میں سے تھے۔[1] اسی طرح سے ان کا تعارف امام صادق (ع) کے غلام[2] اور وکیل مالی کے طور پر بھی کیا گیا ہے۔[3] ان کی تاریخ ولادت کتابوں میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔[4] البتہ ان کا شغل و پیشہ پارچہ فروشی نقل ہوا ہے۔[5]
معلی بن خنیس کو سن 131 ھ میں عباسی حکومت کے ایک گورنر داود بن علی کے حکم سے قتل کیا گیا۔[6] ان کے قتل پر امام صادق (ع) نے داود بن علی پر اعتراض کیا تو اس نے ان کے قاتل، جو اس کے ما تحت تھا، سے قصاص لیتے ہوئے اس کے قتل کا حکم دیا۔[7]
تحقیق اعتبار راوی
مشہور ترین شیعہ محدث و فقیہ شیخ طوسی (385۔460 ھ) معلی بن خنیس کو امام جعفر صادق (ع) کے مورد اعتماد اصحاب اور ان کے کار گزار میں شمار کرتے ہیں۔[8] تیسری صدی ہجری کے شیعہ محدث و ماہر رجال عالم احمد بن محمد برقی نے بھی اپنی رجال کی کتاب میں معلی بن خنیس کا تعارف امام صادق (ع) کے صحابی کے طور پر کرایا ہے۔[9] اسی طرح سے امام ششم سے نقل ایک روایت کے مطابق معلی ان کے کار گزار اور مالی وکیل تھے۔[10] علامہ حلی نے شیخ طوسی کی نطر سے استناد کرتے ہوئے انہیں ایک عادل راوی ذکر کیا ہے۔[11] ان سب کے باوجود شیعہ علمائے رجال میں سے نجاشی اور ابن غضائری نے انہیں حدیث میں ضعیف اور نا قابل اعتبار قرار دیا ہے۔[12]
معلی بن خنیس کا شمار مغیرہ بن سعید کے ابتدائی حامیوں میں کیا جاتا تھا جو محمد بن عبد اللہ (نفس زکیہ) کی امامت کی طرف دعوت دینے والوں میں تھا اور اسی رجحان کو ان کے قتل کا سبب بیان کیا گیا ہے۔[13] اسی طرح سے نقل ہوا ہے کہ ان کی روایات غلات کے یہاں مورد استناد رہیں ہیں۔[14]
معاصر فقیہ و ماہر علم رجال سید ابو القاسم خوئی (1278۔1371 ش) معلی بن خنیس کے سلسلہ میں تمام مدح و ذم کی روایات کی تحقیق کرنے کے بعد مدح کی روایات میں ہم آہنگی پاتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ انہیں مرد صادق، مورد توجہ امام جعفر صادق (ع) اور اہل بہشت افراد میں سے شمار کرتے ہیں۔[15] اسی طرح سے آیت اللہ خوئی انہیں غالی کہنے کو اہل سنت کی طرف سے ان پر لگائی گئی تہمتوں میں سے حساب کرتے ہیں جن کا مقصد ان حربوں کے ذریعہ ان کی شخصیت کو مجروح کرکے شیعہ راویوں کے اعتبار کو ختم کرنا تھا۔[16] حسین ساعدی نے اپنی عربی کتاب المعلی بن خنیس: شہادتہ و وثاقتہ و مسنده میں جو انتشارات دار الحدیث کی طرف سے شائع ہوئی ہے، ان کی شخصیت اور ان کے ثقہ ہونے کے سلسلہ میں تحقیق انجام دی ہے۔
روایات
معلی بن خنیس سے شیعہ منابع حدیثی میں جن میں کتب اربعہ بھی شامل ہیں، احادیث نقل ہوئی ہیں۔[17] آیت اللہ خوئی نے ان سے نقل ہونے والی روایات کی تعداد 80 ذکر کی ہے۔[18] ان کی زیادہ تر روایات بلا واسطہ امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوئی ہیں۔[19] اصحاب اجماع میں سے عبد اللہ بن مسکان[20] و دیگر اصحاب میں حریز بن عبد الله سجستانی[21] و معلی بن عثمان[22] جیسے افراد نے ان سے روایت نقل کی ہے۔ معلی سے منقول روایات فقہ،[23] اعتقادات،[24] آداب اسلامی[25] اور تفسیر قرآن[26] جیسے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح سے وہ نوروز کے سلسلہ میں نقل ہونے والی روایات کے بھی راوی ہیں۔[27]
حوالہ جات
- ↑ طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیہ، ج1، ص347.
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، مؤسسہ النشر الاسلامی، ج1، ص304؛ ابن غضائری، الرجال، 1422ق، ص87.
- ↑ طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیہ، ج1، ص347.
- ↑ نگاه کریں: خوئی، معجم رجال الحدیث، مؤسسہ الخوئی، ج19، ص258؛ تفرشی، نقد الرجال، مؤسسہ آل البیت، ج4، ص395.
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، مؤسسہ النشر الإسلامی، ج1، ص417.
- ↑ طوسی، الغیبہ، مؤسسہ المعارف الاسلامیہ، ج1، ص347.
- ↑ طوسی، رجال الکشی، مرکز تحقیقات و مطالعات، ج1، ص377.
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، مؤسسة النشر الاسلامی، ج1، ص304؛ طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیہ، ج1، ص347.
- ↑ برقی، رجال البرقی، انتشارات دانشگاه تہران، ج1، ص25-26.
- ↑ طوسی، الغیبہ، مؤسسہ المعارف الاسلامیہ، ج1، ص347.
- ↑ حلی، خلاصة الاقوال، مؤسسہ نشر الفقاهہ، ج1، ص409.
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، مؤسسہ النشر الإسلامی، ج1، ص417؛ ابن غضائری، الرجال، 1422ق، ص87.
- ↑ ابن غضائری، الرجال، 1422ق، ص87.
- ↑ ابن غضائری، الرجال، 1422ق، ص87.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، مؤسسة الخوئی، ج19، ص269.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، مؤسسة الخوئی، ج19، ص269.
- ↑ برای نمونہ نگاه کریں، صدوق، من لا یحضره الفقیہ، 1367ش، ج1، ص410؛ کلینی، الکافی، 1429ق، ج13، ص126؛ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ق، ج6، ص388.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، مؤسسہ الخوئی، ج19، ص256.
- ↑ برای نمونہ نگاه کریں: صدوق، من لا یحضره الفقیہ، 1367ش، ج1، ص410؛ کلینی، الکافی، 1429ق، ج13، ص126؛ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ق، ج6، ص388.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص354.
- ↑ برقی، المحاسن، 1371ق، ج1، ص255.
- ↑ برقی، المحاسن، 1371ق، ج1، ص235.
- ↑ برای نمونہ نگاه کریں، کلینی، الکافی، 1407ق، ج3، ص336.
- ↑ برقی، المحاسن، 1371ق، ج1، ص255.
- ↑ برقی، المحاسن، 1371ق، ج2، ص561.
- ↑ برای نمونہ نگاه کریں: قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج1، ص222؛ عیاشی، تفسیر عیاشی، 1380ق، ج2، ص255.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج56، ص93.
مآخذ
- ابن غضائری، احمد بن حسین، الرجال، تحقیق سید محمد رضا الحسینی الجلالی، قم، دار الحدیث، 1422ھ/1380ہجری شمسی۔
- برقی، احمد بن محمد، کتاب الرجال، تهران، انتشارات دانشگاه تہران، بی تا۔
- برقی، احمد بن محمد، المحاسن، تصحیح جلال الدین محدث، قم، دار الکتب الاسلامیہ، 1371ھ۔
- تفرشی، سید مصطفی، نقد الرجال، قم، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، بی تا۔
- حلی، حسن بن یوسف بن مطہر، خلاصة الاقوال، بہ تحقیق جواد قیومی، قم، مؤسسہ نشر الفقاہہ، 1417ھ۔
- خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، نجف، مؤسسہ الخوئی الإسلامیہ، بی تا۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تہران، چاپخانہ علمیہ، 1380ھ۔
- صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیہ، تہران، صدوق، 1367ہجری شمسی۔
- طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، بہ تحقیق عباد الله طہرانی و علی احمد، قم، مؤسسہ المعارف الاسلامیہ، 1411ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، رجال الکشی، بہ تحقیق سید مہدی رجائی، مشہد، مرکز تحقیقات و مطالعات دانشکده الہیات و معارف اسلامی، بی تا۔
- طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1415ھ۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح: طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، 1404ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الاسلامیہ، 1429ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، مؤسسہ النشر الإسلامی، بی تا۔