ذوالثدیہ (لقب)

ویکی شیعہ سے

ذُوالثُّدَیَّۃ صاحب پستان کے معنی میں بطور لقب استعمال ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کو ان کے بدن پر پستان کی مانند اضافی گوشت کی وجہ سے یہ لقب دیا گیا ہے۔ ان لوگوں کی وجہ مشترک یہ ہے کہ یہ سب خوارج سے تعلق رکھتے تھے اور امام علیؑ کے خلاف جنگ نہروان میں شریک ہوئے اور اسی جنگ میں مارے گئے۔ حضرت علیؑ نے ان کے مارے جانے پر سجدہ شکر بجالایا۔ رسول اللہؐ سے منقول ایک حدیث میں ایسی صفات کے حامل شخص کا ذکر آیا ہے اور آپؐ نے اس پر لعنت کی ہے۔ تاریخی کتب میں نافع مخدج، حرقوص بن زہیر اور ذوالخویصرہ تمیمی کو ذوالثدیہ کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ ​

لقب ذوالثدیہ کی وضاحت

ذوالثُدَیَۃ کا لقب ان افراد کے لئے استعمال کیا جاتا جن کے جسم پر عورتوں کے پستان کی طرح زائد گوشت موجود ہوتا۔ تاریخی اور حدیثی منابع میں کئی افراد کو ذوالثدیہ کا لقب دیا گیا ہے۔ لیکن مورخین کا اس بات پر اتفاق نہیں کہ کسی خاص شخص کو اس لقب سےملقب کیا گیا ہو۔ اگرچہ تاریخ میں یہ ثبت ہے کہ ذوالثدیہ کا تعلق خوارج سے تھا اور جنگ نہروان میں شریک تھا۔ شیخ مفید (متوفی: 413ھ) کے مطابق امام علیؑ نے خوارج کی صفات بیان کرتے ہوئے انہیں دن کے وقت روزہ رکھنے، رات کو عبادت میں گزارنے اور امام علیؑ کے خلاف بغاوت کرنے والے قرار دینے کے بعد فرمایا کہ ذوالثدیہ بھی انہی اوصاف کا مالک تھا۔ [1] نیز سلمان فارسی نے حضرت علیؑ سے روایت کی ہے کہ رسول خداؐ نے اصحاب الثدیہ یعنی (خوارج) پر لعنت کی ہے۔[2]

ابن ابی جمہور (متوفی: 880 ہجری) نے بھی امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ نوروز حضرت علیؑ کی اہل نہروان پر فتح کا دن ہے اور اسی دن ذوالثدیہ قتل ہوا ہے۔ [3]بعض مؤرخین کے مطابق جنگ نہروان کے اختتام پر ذوالثدیہ کی لاش ملی تو حضرت علیؑ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے[4]اس کے مارے جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا[5]اور اس کی لاش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لائق تعریف ہے وہ ذات جس نے تجھے جلدی آتش جہنم میں پہنچا دیا۔[6] ابن‌شاذان کی کتاب الایضاح کے مطابق جب امام علیؑ کے ہاتھوں ذوالثدیہ کے قتل کی خبر عائشہ تک پہنچی تو انہوں نے عمروعاص پر لعنت کی؛ اس لیے کہ اس نے جھوٹ بول کر [7] عائشہ سے کہا تھا کہ اس نے ذوالثدیہ کو اسکندریہ [8] مصر میں قتل کیا ہے۔[9]پھر عائشہ نے رسول خداؐ سے یہ روایت نقل کی: وہ لوگ(خوارج) خدا کے بدترین مخلوق ہیں جنہیں خدا کے بہترین مخلوق نے قتل کیا۔[10] بعض مورخین نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ذوالثدیہ کو مصر میں قتل کیا گیا تھا۔[11]

ذوالثدیہ کون ہے؟

تاریخ میں چند لوگوں کے لیے لقب ذوالثدیہ استعمال کیا گیا ہے جن میں نافع مخدجی، حرقوص بن زہیر، ذوالخویصره تمیمی[12] اور عمرو بن عبدود شامل ہیں جو عصر پیغمبر اکرمؐ میں بقید حیات تھا۔[13]

تاریخی منابع کے مطابق[14] جنگ نہروان میں ذوالثدیہ لقب کے تین لوگ شریک تھے۔ ان میں سے ایک حرقوص بن زہیر،[15] دوسرا ذوالخویصره تمیمی[16] جو کہ خوارج کا سردار تھا[17] اور تیسرے کا نام نافع[18] تھا یہ سب اس جنگ میں مارے گئے۔[19] ابن‌عبد البر کے مطابق بعض لوگ ذوالخویصره کو ذوالثدیہ کے علاوہ کوئی اور شخص مانتے ہیں۔[20]

نافع مخدجی

ذو الثدیہ کا لقب دیے جانے والوں میں سے ایک نافع[21] یا ثرملہ[22] ہے جس کا عرفی نام مُخْدَج تھا[23] اور حبشہ کا رہنے والا تھا۔[24] اس کے ہاتھوں میں عورتوں کی چھاتیوں جیسا گوشت ابھرا ہوا تھا اس لیے وہ ذوالثدیہ کے نام سے مشہور ہوا۔[25]شیعہ ماہر علم رجال محمد تقی شوشتری اپنے تحقیقی جائزے کے آخر میں کہتے ہیں کہ ذوالثدیہ نافع کا لقب تھا۔ [26]

ابن کثیر (متوفی: 774ھ) اور ابن اشعث سجستانی (متوفی: 275ھ) جیسے مورخین کے مطابق نافع مخدجی ایک غریب آدمی تھا جو ہمیشہ مسجد میں حاضر ہوتا تھا اور دوسرے غریبوں کے ساتھ امام علیؑ کے دسترخوان سے کھانا کھاتا تھا [27]وہ لوگوں کے درمیان حرقوس کے نام سے جانا جاتا تھا۔ [28]بَلاذُری (متوفی: 279ھ) لکھتے ہیں کہ جنگ نہروان کے بعد امام علیؑ بذات خود ذوالثدیہ کی لاش کی تلاش میں نکلے اور اسے ایک گھڑے میں پایا، وہ مخدج تھا اور نافع کے نام سے جانا جاتا تھا۔[29] ابن ابی عاصم (متوفی: 287ھ) نے بھی رسول اکرمؐ سے حدیث بیان کرنے کے بعد، جس میں دین سے خارج ہونے والوں(خوارج) میں سے ایک شخص ایسا بھی تھا جس کے بدن پر عورت کی چھاتی کے مشابہ گوشت تھا، مخدج کی لاش برآمد ہونے اور اس موقع پر امام علی کی طرف سے تکبیر بلند کرنے کرنے کا واقعہ بھی نقل کیا ہے۔[30]

حرقوص بن زہیر

جنگ نہروان میں حرقوص بن زہیر[31] نامی ایک شخص خوارج کی فوج میں موجود تھا، اسے بھی ذوالثدیہ کہا جاتا ہے۔[32] حرقوص جنگ صفین میں رکاب امام علیؑ میں تھا؛[33]علامہ حلی کے مطابق واقعہ حکمیت کے بعد اس نے امام علیؑ کی مخالفت شروع کی۔[34] جنگ نہروان کے بعد امام علیؑ نے اپنے اصحاب سے کہا کہ وہ حرقوص کی لاش کو مرنے والوں میں سے تلاش کریں؛ اس کی لاش برآمد ہونے کے بعد آپؑ نے سجدہ شکر بجا لایا اور اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا: "تم نے سب سے زیادہ برے شخص کو قتل کیا ہے"۔[35]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. شیخ مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص179.
  2. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج13، ص284؛ ملاحظہ کریں: طبرانی، المعجم الاوسط، 1415ھ، ج4، ص34؛ طبرانی، المعجم الصغیر، دار الکتب العلمیة، ج1، ص155.
  3. ابن‌ابی‌جمهور، عوالی اللئالی، 1404ھ، ج3، ص41.
  4. ابن‌ابی‌شیبه کوفی، المصنف، 1409ق، ج2، ص368.
  5. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج6، ص230؛ محقق حلی، المعتبر، مؤسسه سیدالشهداء، ج2، ص270؛ علامه حلی، نهایة الاحکام، 1410ھ، ج1، ص498؛ شهید اول، ذکری الشیعه، 1419ھ، ج3، ص463.
  6. راوندی، الخرائج و الجرائج، 1409ھ، ج1، ص227.
  7. ابن‌شاذان، الایضاح، 1363ہجری شمسی، ص86.
  8. ابن‌ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، 1378ھ، ج2، ص268.
  9. ابن‌شاذان، الایضاح، 1363ہجری شمسی، ص86.
  10. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نهج البلاغه، 1378ھ، ج2، ص268؛ قمی، العقد النضید، 1423ھ، ص131.
  11. ابن‌شهرآشوب، مناقب، 1376ھ، ج1، ص5.
  12. ابن‌عبدالبر، التمهید،1387ھ، ج23، ص332.
  13. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص375.
  14. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج3، ص33؛ زیعلی، نصب الرایة، 1415ھ، ج2، ص372.
  15. حائری طهرانی، تفسیر مقتنیات الدرر، 1337ہجری شمسی، ج11، ص268.
  16. شیخ طوسی، الخلاف، 1417ھ، ج6، ص462؛ ابن‌حمدون، التذکرة الحمدونیة، 1996ء، ج8، ص295؛ ابن‌ابی‌الفداء، المختصر فی اخبار البشر، دار المعرفة، ج1، ص148؛ شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج1، پاورقی ص436؛ حلبی، السیرة الحلبی، 1400ھ، ج3، ص89؛ نمازی، مستدرکات علم رجال الحدیث، 1415ھ، ج8، ص533.
  17. نهج البلاغه، صبحی صالح، ص579؛ نمازی، مستدرک سفینة البحار، 1418ھ، ج2، ص260.
  18. العینی، عمدة القاری، دار احیاء التراث العربی، ج16، ص143 و ج18، ص8.
  19. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص362؛ مسعودی، مروج الذهب، 1404ھ، ج2، ص406؛ آملی، تفسیر المحیط، 1428ھ، ج4، ص331.
  20. ابن‌عبدالبر، التمهید، 1387ھ، ج23، ص332.
  21. ابن‌اشعث سجستانی، سنن ابی‌داود، 1410ھ، ج2، ص430؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص375؛ ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، 1408ھ، ج7، ص325؛ العینی، عمدة القاری، دار احیاء التراث العربی، ج15، ص230. شوکانی، نیل الاوطار، 1973ء، ج7، ص343؛ تستری، قاموس الرجال، 1422ھ، ج11، ص509.
  22. ابن‌قتیبه دینوری، المعارف، 1969ء، ص421؛ راوندی، الخرائج و الجرائج، 1409ھ، ج1، پاورقی ص227.
  23. العینی، عمدة القاری، دار احیاء التراث العربی، ج15، ص230.
  24. مسعودی، مروج الذهب، 1404ھ، ج2، ص406.
  25. ابن‌اشعث سجستانی، سنن ابی‌داود، 1410ھ، ج2، ص430؛ ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، 1408ھ، ج7، ص325؛ ابن‌حجر، فتح الباری، دار المعرفة، ج12، ص265؛ تستری، قاموس الرجال،1422ھ، ج11، ص509.
  26. تستری، قاموس الرجال، 1422ھ، ج12، ص107.
  27. ابن‌اشعث سجستانی، سنن ابی‌داود، 1410ھ، ج2، ص430. ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، 1408ھ، ج7، ص325؛ ابن‌حجر، فتح الباری، دار المعرفة، ج12، ص265؛ شوکانی، نیل الاوطار، 1973ء، ج7، ص343.
  28. ابن‌اشعث سجستانی، سنن ابی داود، 1410ھ، ج2، ص430؛ تستری، قاموس الرجال، 1422ھ، ج11، ص509.
  29. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص375.
  30. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص375؛ ابن‌ابی عاصم، السنة، 1413ھ، ص432.
  31. ابن‌عبدالبر، التمهید، 1387ھ، ج23، ص332.
  32. حائری طهرانی، تفسیر مقتنیات الدرر، 1337ہجری شمسی، ج11، ص268.
  33. بلعمی، تاریخنامه ‏طبری، 1378ہجری شمسی، ج5، ص1537.
  34. علامه حلی، کشف الیقین، 1411ھ، ص165.
  35. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج41، ص283.

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الحدید،‌ عبدالحمید، شرح نهج البلاغه، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بی جا: دار احیاء الکتب العربیه، 1378ہجری شمسی.
  • ابن‌ابی‌جمهوی اسکافی، عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة، تحقیق مجتبی عراقی، قم: سید الشهداء،1404ھ.
  • ابن‌ابی‌شیبة، عبدالله، المصنف فی الاحادیث و الآثار، تحقیق سعید اللحام، بیروت، دار الفکر، 1409ھ.
  • ابن‌ابی‌عاصم، عمرو، السنة، تحقیق محمدناصرالدین، بیروت: المکتب الاسلامی، 1413ھ.
  • ابن‌اشعث، ابی‌داود سلیمان، سنن ابی داود، تحقیق سعید محمد لحام، بی جا: دار الفکر، 1410ھ.
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد، الاصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق عادل احمد و علی محمد، بیروت، دار الکتب العلمیّة، 1415ھ.
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد، فتح الباری شرح صحیح البخاری، بیروت، دار المعرفه لطباعه و النشر، بی تا.
  • ابن‌حمدون، محمد بن حسن، التذکرة الحمدونیه، تحقیق: احسان عباس و بکر عباس، بیروت: دار صادر، 1996ء.
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت: دار صادر، بی‌تا.
  • ابن‌شاذان، فضل، الایضاح، تحقیق جلال‌الدین حسینی، تهران: موسسة انتشارات، 1363ہجری شمسی.
  • ابن‌شهر آشوب، محمد، مناقب آل ابی‌طالب، تحقیق لجنة من اساتذة النجف الاشرف، النجف الاشرف، الحیدریة، 1376ھ.
  • ابن‌عبدالبر، التمهید، تحقیق: مصطفی بن احمد، المغرب: وزارة عموم الاوقاف و الشّؤون الاسلامیة، 1378ھ.
  • ابن‌قتیبه، عبدالله، المعارف، قم: منشورات الشریف الرضی، 1969ء.
  • ابن‌کثیر، اسماعیل، البدایة و النّهایة، تحقیق علی شیری، بیروت: دار احیاء التراث العربی، 1408ھ.
  • العینی، محمود بن احمد، عمدة القاری، بیروت: دار احیاء التراث العربی، بی تا.
  • آملی، حیدر، تفسیر المحیط الاعظم، تحقیق محسن موسوی، بی جا: موسسه فرهنگی و نشر نور علی نور، 1428ھ.
  • بدری، عادل عبدالرحمن، نزهة النظر فی غریب النهج و الاثر، قم: مؤسسة المعارف الاسلامیة،‌ 1421ھ.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت: موسسة الاعلمی، 1394ھ.
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، تحقیق مؤسسة النشر الاسلامی، قم: النشر الاسلامی، 1422ھ.
  • حائری طهرانی، علی، مقتنیات الدرر، طهران: دار الکتب الاسلامیة، 1337ہجری شمسی.
  • حلبی، علی‌ بن ابراهیم، السیرة الحلبیة، بیروت: دار المعرفة، 1400ھ.
  • خطیب بغدادی، احمد، تاریخ بغداد او مدینة السلام، تحقیق مصطفی عبدالقادر، بیروت: دار الکتب العلمیّة، 1417ھ.
  • راوندی، قطب‌الدین، الخرائج و الجرائح، تحقیق موسسة الإمام المهدی، قم: موسسة الإمام المهدی، 1409ھ.
  • زیعلی، جمال‌الدین، نصب الرایة، تحقیق ایمن صالح شعبان، القاهره: دارالحدیث، 1415ھ.
  • شهید اول، محمد بن مکی، ذکری الشّیعة فی احکام الشّریعة، تحقیق موسسة آل البیت، قم، موسسة آل البیت، 1419ھ.
  • شیخ طوسی، محمد، الخلاف، تحقیق: علی خراسانی، جواد شهرستانی و محمد مهدی نجف، قم، النشر الاسلامی، 1417ھ.
  • شیخ مفید، محمد، الاختصاص، تحقیق: علی اکبر غفاری و محمود زرندی، بیروت: دارالمفید، چاپ دوم، 1414ھ.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الصّغیر، بیروت: دار الکتب العلمیة، بی تا.
  • طبرانی، سلیمان‌ بن احمد، المعجم الاوسط، تحقیق ابراهیم حسینی، بی جا: دار الحرمین، 1415ھ.
  • علامه حلی، حسن بن یوسف، کشف الیقین فی فضائل أمیر المؤمنین(ع)، تصحیح حسین درگاهی، تهران، وزارت ارشاد، چاپ اول، 1411ھ.
  • علامه حلی، حسن بن یوسف، نهایة الاحکام، تحقیق مهدی رجائی، قم، موسسة اسماعیلیان، 1410ھ.
  • قمی، محمد بن حسن، العقد النضید و الدر الفرید، تحقیق علی اوسط الناطقی، المساعد هاشم شهرستانی و لطیف فرادی، قم: دار الحدیث للطباعة و النّشر، 1423ھ.
  • مبارکفوری، محمد عبدالرحمن، تحفة الاحوذی، بیروت، دارالکتب العلمیّة، 1410ھ.
  • متقی هندی، علی، کنزالعمال فی سنن الأقوال و الأفعال، تحقیق بکری حیانی، بیروت: موسسة الرسالة، 1409ھ.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ.
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، المعتبر، قم: موسسه سیدالشهداء، بی تا.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، قم، دار الهجرة، چاپ دوم، 1404ھ.
  • نعمان مغربی، شرح الاخبار، تحقیق محمد حسینی، قم: موسسة النشر الاسلامی، 1414ھ.
  • نمازی، علی، مستدرک سفینة البحار، تحقیق حسن بن علی نمازی، قم، موسسة النشر الاسلامی،1418ھ.
  • نمازی، علی،‌ مستدرکات علم رجال الحدیث، طهران: ابن‌مولف، 1415ھ.
  • نهج البلاغة، تحقیق صبحی صالح، بیروت: بی نا، 1387ھ.
  • هیثمی، علی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت، دار الکتب العلمیّة، 1408ھ.