حسین بخش جاڑا
فائل:علامہ حسین بخش جاڑا طاب ثراہ.jpg | |
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | حسین بخش جاڑا |
لقب/کنیت | نجفی |
تاریخ ولادت | 1920ء |
آبائی شہر | ڈیرہ اسماعیل خان |
رہائش | ڈیرہ اسماعیل خان |
تاریخ وفات | 4 دسمبر 1990ء |
مدفن | دریاخان ضلع بھکر |
اولاد | ایک بیٹا |
علمی معلومات | |
مادر علمی | نجف اشرف |
اساتذہ | آیات عظام سید محمود مرعشی، ابو القاسم خوئی، سید عبد اللہ شیرازی ، سید حسن موسوی بجنوردی |
شاگرد | سید صفدر حسین نجفی، محمد حسین نجفی، |
اجازہ اجتہاد از | آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم الطباطبائی |
تالیفات | تفسیر انوار النجف |
خدمات |
حسین بخش جاڑا (1920-1990ء) برصغیر کے شیعہ عالم دین اور مفسر تھے۔ تفسیر انوار النجف آپ کی مشہور تالیف ہے۔ نجف اشرف میں مختلف مراجع عظام سے کسب فیض کیا اور ان سے اجتہاد کی اجازت بھی حاصل کی۔ آپ نے مختلف دینی مدارس کی تاسیس بھی کی اور پاکستان میں مختلف شاگردوں کی تربیت کی۔ آپ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین خطیب بھی تھے۔ آپ کو روحانی علوم میں بھی مہارت حاصل تھی۔
ولادت
برصغیر پاک و ہند کے ممتاز شیعہ عالم دین و مفسر قرآن علامہ حسین بخش جاڑا 1920 کو پاکستان کے صوبہ سرحد "خیبر پختونخواہ" کے قصبہ جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔
خاندان
آپ کا تعلق "جاڑا" خاندان سے تھا جن کی علمی و عملی سربلندی کی بدولت یہ خاندان شہرت کے اعلیٰ زینے تک پہنچا۔ آپ کے والد کا نام ملک اللہ بخش جاڑا تھا جو کہ ذاکر آل محمد تھے۔
دینی و دنیاوی تعلیم کا حصول
1935 میں مڈل کا امتحان پاس کیا اور دینی علوم کے حصول کے لئے چک نمبر 38 تحصیل خانیوال ضلع ملتان میں حضرت مولانا سید محمد باقر نقوی رح کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، وہاں آپ نے صرف و نحو اور ادب و فقہ جیسے علوم کی تحصیل کی، بعد ازاں آپ نے حضرت مولانا سید محمد یار شاہ نجفی اور حضرت مولانا مفتی جعفر حسین کی خدمت میں کئی سال گزارے اور اخذ فیض کرتے رہے، آپ نے اہل سنت کے مدارس گوجرانوالہ انہی ضلع گجرات میں معقولات کی تعلیم حاصل کی، 1945 میں پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان پاس کیا۔
سلسلہ تدریس
1946 میں مدرسہ محمدیہ جلال پور ننگیانہ میں بطور مدرس تعیین ہوئے، تقسیم ہند کے کچھ عرصہ بعد تک مدرسہ صادقیہ خان پور ضلع رحیم یار خان میں تدریسی فرائض انجام دیئے، 1951 میں دار العلوم محمدیہ سرگودھا میں بحیثیت صدر مدرس معین ہوئے۔
حصول تعلیم کے لئے نجف اشرف کا سفر
وطن عزیز میں کچھ عرصہ درس و تدریس کے بعد آپ اپنی تعلیمی تشنگی کو بجھانے کے لئے 1951 کو بابِ مدینۃ العلم کے شہر نجف اشرف "عراق" چلے گئے، وہاں تقریباً پانچ سال تک درس آل محمد سے فیض یاب ہوتے رہے۔
نجف اشرف میں آپ کے اساتذہ کرام
حوزہ کے سطوح کی تعلیم حسب ذیل اساتذہ سے حاصل کی (1) آیت اللہ سید محمود مرعشی (2) آیت اللہ سید محمد تقی عرب اور درس خارج میں آپ نے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا وہ یہ ہیں (1) آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی (2) آیت اللہ سید عبد اللہ شیرازی (3) آیت اللہ مرزا حسن یزدی (4) آیت اللہ مرزا حسن بجنوردی (5) آیت اللہ مرزا محمد باقر زنجانی۔
اجتہاد
آپ نے نجف اشرف میں جن مجتہدین سے اجازہ اجتہاد حاصل "جو کہ آپ کی مجتہد ہونے کی سند ہے" کیا ان کے نام یہ ہیں:
- آیت اللہ العظمی آقا المرزا محمد حسن البروی رضوان اللہ علیہ
- آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم الطباطبائی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی آقا محمد باقر الزنجانی طاب ثراہ
- آیت اللہ العظمی محمد محسن طہرانی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی آقا سید حسین الموسوی الحمامی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی آقا سید حسن الموسوی البجنوردی اعلیٰ اللہ مقامہ
- آیت اللہ العظمی سید محمد جواد الطباطبائی اعلیٰ اللہ مقامہ
- آیت اللہ العظمی آقا سید محمود الحسینی شاہرودی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی سید عبد اللہ موسوی الشیرازی مدظلہ العالی
- آیت اللہ العظمی آقا سید احمد الموسوی المستنبط قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی محمد رضا الطیسی النجفی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی شیخ محمد تقی الراضی طاب ثراہ
خطابت
شیخ جعفر شوشتری رح جو تاریخ کربلا کے خطیب، قابل اعتماد عالم اور ذاکر آل محمد ہیں آپ کے استاذ الاستاذ ہیں اس وجہ سے آپ نے زیب منبر ہو کر اپنے سخن دلنواز اور خطابت کے تاریخی و مذہبی جواہر سے تشنگان علوم آل محمد کو سیراب کیا۔
وطن واپسی اور مدرسہ کا قیام
1956 میں آپ نجف اشرف سے واپس پاکستان آئے، اور اپنے آبائی گاوں جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مدرسہ بنام جامعہ علمیہ باب النجف قائم کیا جو آج بھی علامہ غلام حسن نجفی صاحب کے زیر نگرانی پورے علاقہ کی علمی تشنگی کو رفع کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کر رہا ہے۔
باب النجف کے علاوہ تدریس
علامہ حسین بخش جاڑا کچھ عرصہ دار العلوم جعفریہ خوشاب اور جامعہ المنتظر لاہور میں بھی مدرس رہے، 1970 میں دوبارہ دار العلوم محمدیہ سرگودھا میں تشنگان علم کو علوم آل محمد ع سے سیراب کرتے رہے پھر قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر صاحب کے حکم پر جامعہ جعفریہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ میں بھی کچھ عرصہ تک مدرس رہے، آخری مدرسہ جس میں طلباء کو علوم آل محمد ع سے سیراب کرتے رہے وہ جامعہ امامیہ کربلا گامے شاہ لاہور ہے۔
تصانیف
آپ نے مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے جن میں اہم تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
- تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف جو قرآن مجید کی تفسیر ہے اور چودہ جلدوں پر مشتمل ہے۔
- مجالس الفاخرۃ فی اذکار العترۃ الطاہرۃ جو مصائب و ذکر آل محمدؐ پر مشتمل ہے۔
- اصحاب الیمین جو شہدائے کربلا کی زندگی کے بارے میں تحریر ہوئی ہے۔
- امامت و ملوکیت جو عقائد پر مشتمل ہے۔
- لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار جو مذہب شیعہ کے عقائد پر لکھی گئی ہے۔
- معیار شرافت جو اخلاقیات پر لکھی گئی ہے۔
- آپ نے آیت اللہ کاشف الغطاء کی کتاب دین و اسلام کا ترجمہ بھی کیا۔
- ان کے علاوہ آپ کی تصانیف میں نماز امامیہ، اسلامی فکر، چور کی سزا، مناظرہ مصر شیعہ مذہب حق ہے، احباب رسول وغیرہ بھی شامل ہیں۔
آپ کے مشاہیر تلامذہ
علامہ مرحوم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے علمائے اعلام کا ایک مجموعہ ہے جن میں سے سید صفدر حسین نجفی لاہور ، محمد حسین نجفی سرگودھا ، غلام حسین نجفی لاہور ، ملک محمد اعجاز حسین خوشاب ، غلام حسن نجفی جاڑا ، سید کرامت حسین نجفی لاہور ، محمد ہاشم صاحب چکوال ، کاظم حسین اثیر جاڑوی دریاخان ، خطیب نسیم عباس رضوی لاہور
وفات و مدفن
آپ جامعہ امامیہ کربلا گامے شاہ لاہور میں 4 دسمبر 1990 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے، اور 5 دسمبر کو مسجد امامیہ دریاخان ضلع بھکر کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔
آپ کی اولاد
مرحوم جناب حکیم محمد باقر جاڑا، آپ کے اکلوتے بیٹے تھے۔ آپ بھی 17 دسمبر 2009 کو دار فنا سے کوچ کر گئے۔
حوالہ جات
تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف
تذکرہ علماء امامیہ پاکستان
لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار