حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال (کتاب)

ویکی شیعہ سے
حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال
مؤلفعبدالنبی جزائری (متوفی 1021 ھ)
مقام اشاعتقم
زبانعربی
مجموعہ۴جلدی
موضوععلم رجال
ناشرمؤسسۃ الہدایۃ لاحیاء التراث
تاریخ اشاعتسنہ 1418 ھ


حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال شیعہ رجال شناس عبدالنبی جزائری (متوفی 1021 ھ) کی علم رجال کے موضوع پر عربی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے۔ سلیمان بن عبداللہ ماحوزی شیعہ رجال شناسوں کو چار قسموں (تاسیس کرنے والے، تکمیل کرنے والے، تدوین کرنے والےاور تنقیح کرنے والے) میں تقسیم میں کیا ہے۔ وہ جزائری کو اس کتاب کی تالیف کے ذریعہ تنقیح کا آغاز کرنے والا قرار دیتے ہیں۔

حاوی الاقوال میں پہلی بار راویوں کو چار حدیث کی چار اقسام؛ صحیح، موثق، حسن اور ضعیف کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے۔جزائری نے غیر معروف روایوں کو یا جن کے مدح کی گئی ہے لیکن حسن کی حد تک نہیں پہنچے ہیں، کو ضعیف میں شمار کیا ہے اس لیے اس کتاب میں ضعیف راویوں کا حصہ سب سے بڑا حصہ ہے جس میں روایوں کی تعداد 1168 ہے۔

مصنف نے اس کتاب کی تالیف میں زیادہ تر نجاشی، شیخ طوسی اور علامہ حلی کے اقوال کو محور بنایا ہے اور رجال کی پانچ کتابوں کے مضامین کو نقل کرنے کے بعد راوی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ حاوی الاقوال کلیات علم رجال کے ایک مقدمے اور اصلی حصے میں روایوں کے بارے میں چار باب صحیح، حسن موثق اور ضعیف اور خاتمہ پر مشتمل ہے۔

مصنف

عبد النبی الجزائری (متوفی 1021ھ) [1] گیارویں صدی کے شیعہ رجال شناس عراق کے رہنے والے تھے۔[2] سید محمد باقر خوانساری کے مطابق عبد النبی الجزائری فقہ، اصول، کلام و حدیث وغیرہ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔[3]

اسلوب نگارش

عبدالنبی الجزائری نے کتاب حاوی ۔۔۔ کی نگارش میں شیخ طوسی علامہ حلی ،اور نجاشی کی رجالی کتابوں پر خاص توجہ دی ہے۔ انہوں نے آغاز میں نجاشی کی عبارت کو تبدیلی کے بغیر اور اس کی مستندات کو حذف کرتے وقت واسطوں کو نقل کر کے ذکر کیا ہے اس کے بعد علامہ حلی کی خلاصۃ الاقوال سے ان کی رائے کو بیان کیا ہے، اس کے بعد شہید ثانی کی عبارت اور شیخ طوسی کے اقوال کو دو کتابوں یعنی رجال شیخ طوسی اور فہرست شیخ طوسی سے ذکر کیا ہے، اس کام میں ان کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ کس روای کا رجال کے اصول پنچگانہ (رجال کشی، رجال نجاشی، رجال شیخ طوسی، فہرست شیخ طوسی و رجال برقی) میں سے کس میں آیا ہے مصنف نے ہر نام کے آخر میں تایید یا اسے رد کر کے مطلب کو روشن کیا ہے۔[4]

شیعہ رجال شناس سلیمان ابن عبد اللہ ماحوزی نے مصنف کو حاوی الاقوال تالیف کرنے پر علم رجال میں منقحین (محققین) کے دور کو آغاز کرنے والا قرار دیا ہے۔ انہوں نے رجال شناسوں کو چار حصوں؛ تاسیس، تکمیل، تدوین اور تنقیح کرنے والوں میں تقسیم کیا ہے۔ منحقین کے دور میں علم رجال کی محققانہ جان پڑتال ہوئی اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ راویوں کے جرح و تعدیل کا کام انجام دیا گیا ہے۔[5] البتہ علامہ جزائری سے پہلے بھی راویان حدیث کی تنقیدی نگاہ سے جان پڑتال کی گئی ہے جیسے شہید ثانی، لیکن انہوں نے تمام روایوں اور علم رجال کے تمام پہلووں پر کام نہیں کیا ہے۔[6]

تدوین اور مضامین میں خلاقیت

حاوی الاقوال میں پہلی بار روایوں کو حدیث کی چار تقسیمات یعنی صحیح، موثق، حسن اور ضعیف کے مطابق، تقسیم کیا گیا ہے۔[7] اس کتاب سے پہلے، روات حدیث کی تحقیق میں کوئی تقسیم بندی نہیں پائی جاتی تھی۔ یا حدیث کی دو قسموں (صحیح اور ضعیف) کے مطابق تقسیم بندی ہوتی تھی۔[8] علم رجال میں تنقید کا دور اس کتاب اور مصطفی نقرشی کی نقد الرجال کی نگارش سے شروع ہوا۔[9]

توثیق میں سختی

حاوی الاقوال میں مجہول روات اور وہ راوی جن کی مدح نہیں کی گئی اور حسن کی حد تک ان کی توثیق نہیں ہوئی ہے، ضعیف شمار کئے گئے ہیں؛اس بنیاد پر ضعیف راویوں کا حصہ سب سے طولانی ہے اور اس میں 1167 افراد کو شامل کیا گیا ہے۔[10] تیرہویں صدی ہجری کے رجال شناس ابو علی حائری نے کتاب کے مصنف کو ابن غضائری سے تشبیہ دی ہے، کیونکہ ان کی طرح ان افراد کو بھی ضعیف جانا ہے جن کی توثیق ممکن تھی،[11] اور اس نطقۂ نگاہ سے مصنف پر تنقید کی ہے۔[12] البتہ توثیق میں ان کی سختی کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ وہ راوی جن کے بارے میں اختلاف تھا، ان کے سلسلے میں ان کی رائے پر اعتماد کیا جائے۔[13]

کتاب کے مضامین

حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال میں ایک مقدمہ، پھر اصلی حصہ اور ایک اختتامیہ پیش کیا گیا ہے۔

مقدمہ

مقدمہ میں مصنف نے علم رجال کے بارے میں مندرجہ ذیل باتوں کو پیش کیا ہے:

  • تعریف و بیان موضوع علم رجال
  • کلمات جرح و تعدیل کے بارے میں بحث
  • جرح کو تعدیل پر مقدم کرنے کی وجہ
  • راوی کے تزکیہ میں دو عادل افراد کی گواہی
  • راوی کے عقیدہ کے انحراف سے پہلے اس کی روایات کا قبول کیا جانا
  • نام کے مشترک ہونے کی صورت میں راوی کی تشخیص کے راستے
  • شیعوں کے سات مذاہب
  • ائمہ کی کنیتیں
  • اصل اور نوادر میں فرق
  • ابن غضائری کون ہیں؟[14][15]

اصلی حصہ

کتاب کو چار حصوں (صحاح، حِسان، موثقین اور ضعاف) میں تقسیم کیا گیا ہے اور حروف تہجی کے مطابق پیش کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر ۲۳۵۸ افراد کی چھان بین کی گئی ہے۔[16] صحاح میں 763 افراد کی وثاقت کی تصریح کی گئی ہے۔ مصنف نے اس حصے کو ختم کرنے کے بعد ان افرادی کی جانچ پڑتال کا کام کیا ہے جن کا ذکر علامہ حلی کی خلاصۃ الاقوال میں ہوا ہے۔ اس کے بعد شیخ طوسی کے زمانے کے شیعہ مشائخ حدیث اور بزرگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔[17] دوسرے حصے یعنی حسان (جن افراد کی توثیق کی تصریح نہیں ہوئی ہے) کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس حصے میں 80 افراد کے نام شامل کئے گئے ہیں۔ اس حصے کے آخر میں بعض اولیا اور امام علیؑ کے خاص ساتھیوں اور باقی اصحاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز قبیلہ ربیعہ اور یمن کے بارے میں بات کی گئی ہے۔[18] تیسر حصے میں 62 موثق افراد کی جانچ پڑتال کی گئی ہے، یہ وہ افراد ہیں جن کے فاسد العقیدہ ہونے کے بعد بھی ان کی توثیق کی تصریح کی گئی ہے۔[19] چوتھے حصہ ضعفا سے متعلق ہے اور اس میں 1168 افراد کے نام ہیں جن میں ممدوح اور مجہول الحال دونوں طرح کے افراد شامل ہیں۔[20]

اختتامیہ

علامہ جزائری نے کتاب کے آخر میں کچھ نوٹس ذکر کئے ہیں:

نسخے اور طباعت

اس کتاب کے جو مندرجہ ذیل نسخے موجود ہیں:

حاوی الاقوال ریاض حبیب الناصری کی تحقیق کے ساتھ مؤسسۃ الہدایۃ الاحیاء التراث قم کے ذریعہ 1418 ھ میں زیور طبع سے آراستہ ہوا ہے۔[24]

حوالہ جات

  1. افندی، ریاض العلماء، ۱۴۳۱ھ، ج۳، ص۲۷۵۔
  2. خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۶۸۔
  3. خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۶۹۔
  4. انصاری قمی، «جدید مطبوعات: مرآة الحرمین و۔۔۔»، ص۶۸ و ۶۹۔
  5. بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۷-ص۲۴۔
  6. بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۲۳۔
  7. ربانی، سبک‌ شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۵۹۔
  8. مازندرانی حائری، منتہی المقال، ۱۴۱۶ھ، مقدمہ، ج۱، ص۳۱۔
  9. ربانی، سبک ‌شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۲۴۔
  10. ساعدی، الضعفاء من رجال الحدیث، ۱۴۲۶ھ، ج۱، ص۲۳۔
  11. مازندرانی حائری، منتہی المقال، ۱۴۱۶ھ، مقدمہ، ج۱، ص۳۱۔
  12. مازندرانی حائری، منتہی المقال، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۹۔
  13. ربانی، سبک ‌شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۶۰۔
  14. انصاری قمی، «جدید مطبوعات: مرآة الحرمین و۔۔۔»، ص۶۸ و ۶۹۔
  15. جزائری، حاوی الاقوال، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۹۸–۱۱۵۔
  16. انصاری قمی، « جدید مطبوعات: مرآة الحرمین و۔۔۔»، ص۶۸ و ۶۹۔
  17. انصاری قمی، « جدید مطبوعات: مرآة الحرمین و۔۔۔»، ص۶۸ و ۶۹۔
  18. انصاری قمی، « جدید مطبوعات: مرآة الحرمین و۔۔۔»، ص۶۸ و ۶۹۔
  19. انصاری قمی، « جدید مطبوعات: مرآة الحرمین و۔۔۔»، ص۶۸ و ۶۹۔
  20. انصاری قمی، « جدید مطبوعات: مرآة الحرمین و۔۔۔»، ص۶۸ و ۶۹۔
  21. انصاری قمی، « جدید مطبوعات: مرآة الحرمین و۔۔۔»، ص۶۸ و ۶۹۔
  22. جزائری، حاوی الاقوال، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۸۸۔
  23. جزائری، حاوی الاقوال، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۸۸۔
  24. طلائیان، مأخذ شناسی رجال شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۹۰۔

مآخذ

  • آفندی، عبداللہ ابن عیسی ‌بیگ، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، تحقیق: احمد حسینی اشکوری، اہتمام: محمود مرعشی، بیروت، مؤسسۃ التاریخ العربی، ۱۴۳۱ھ۔
  • انصاری قمی، ناصرالدین، «جدید مطبوعات: مرآة الحرمین و۔۔۔»، حاوی الاقوال فی معرفة الرجال کا تعارف، در آینہ پژوہش، شماره ۵۲، مہر و آبان ۱۳۷۷ش۔
  • بحرانی، سلیمان بن عبداللہ، معراج أہل الکمال إلی معرفۃ الرجال، تحقیق: مہدی رجائی و عبدالزہراء عویناتی، عبدالزہراء العویناتی، ۱۴۱۲ھ۔
  • جزائری، عبد النبی، حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال، تحقیق: ریاض حبیب الناصری، قم، مؤسسۃ الهدایہ لاحیاء التراث، ۱۴۱۸ھ۔
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی أحوال العلماء و السادات، تحقیق: اسداللہ اسماعیلیان، قم، دہقانی (اسماعیلیان)، ۱۳۹۰ھ۔
  • طلائیان، رسول، مأخذ شناسی رجال شیعہ، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، ۱۳۸۱ش۔
  • مازندرانی حائری، محمد بن اسماعیل‏، منتہی المقال فی احوال الرجال‏، تحقیق: مؤسسۃ آل البیت(ع) لاحیاء التراث‏، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع) لاحیاء التراث‏، ۱۴۱۶ھ۔