تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس(کتاب)

ویکی شیعہ سے
(تسلیة المجالس سے رجوع مکرر)
تسلیة المجالس و زینة المجالس
مشخصات
مصنفمحمد بن ابى طالب حسينى حائرى
موضوعپنج تن آل عبا
زبانعربی
تعداد جلد2
طباعت اور اشاعت
ناشرمؤسسۃ المعارف الإسلاميۃ
مقام اشاعتقم
سنہ اشاعت1418ھ


تسلیۃُ المُجالس و زینۃُ المَجالس عربی زبان میں دو جلدوں پر مشتمل کتاب ہے جسے دسویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین محمد بن ابی طالب حسینی حائری نے پنجتن آل عباؑ کی حالات زندگی کے بارے میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں امام حسینؑ سے مربوط مطالب (پانچویں مجلس سے دسویں مجلس) زیادہ تفصیل سے درج ہیں اسی بنا پر یہ کتاب مقتل الحسین کے نام سے مشہور ہے۔ مصنف نے اپنی تصنیف کو ادبی پیرائے میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں اس کتاب پر اعتماد کیا ہے۔

مصنف کے بارے میں

محمد بن ابی طالب حائری شیعہ خطباء میں سے تھے جن کی پیدائش شام کے شہر کرک میں ہوئی پھر وہاں سے نقل مکانی کر کے کربلا چلے گئے تھے۔ ان کی ولادت اور وفات کے بارے میں دقیق معلومات میسر نہیں لیکن دسویں صدی ہجری کے آخری نصف صدی میں آپ کتاب حاضر کی تصنف میں مشغول تھے۔ اس کتاب میں ان کی زندگی کے بارے میں درج مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دمشق میں کچھ عرصہ سکونت اختیار کی تھی اور دشمنان اہل بیتؑ کی سرزمین میں سکونت اختیار کرنے پر اپنی پشیمانی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ حائری شعر و شاعری کا ذوق بھی رکھتا تھا اور کتاب حاضر میں انہوں نے اپنے کچھ اشعار بھی درج کی ہے اس کے علاہ ان کا ایک شعری مجموعہ بھی ہے۔

مصنف کی علمی آثار کی تعداد زیادہ نہیں ہے اور جو کچھ انہوں نے اس کتاب کے مقدمے درج کیا ہے وہ ان کے کچھ خطبے تھے جو ایک خطیب ہونے کی حیثیت سے وہ اہل بیتؑ کی شان میں پڑھتے تھے جنہیں کتاب زینۃ المجالس میں بھی درج کیا گیا ہے۔[1]

نام کتاب

کتاب کے مقدمے میں مصنف کی تصریح کے مطابق اس کتاب کا نام «تسلیۃُ المُجالِسِ و زینَۃُ المَجالس» یعنی (تسلی‌ بخش ہم‌ نشین اور زینت‌ بخش مجالس‌) ہے۔ لیکن اختصار کے ساتھ اسے تسلیۃ المُجالس، زینۃ المجالس یا مقتل الإمام الحسینؑ کا نام بھی دیا گیا ہے۔[2]

تألیف کا مقصد

مؤلف نے فارسی زبان میں دس مجالس پر مشتمل ایک کتاب دیکھی تھی جس میں محرم کے پہلے عشرے کی مجالس تحریر کی گئی تھی۔ اس کتاب سے متأثر ہو کر انہوں نے مذکورہ کتاب کے مصنف کی پیروی کرتے ہوئے کتاب حاضر کو اسی طرز پر زبان عربی میں تحریر کیا ہے۔ اسی طرح مصنف نے کتاب کے مقدمے میں شاہ اسماعیل صفوی کا تذکرہ کرتے ہوئے مذہب تشیع کی نشر و اشاعت میں ان کی خدمات کی قدردانی بھی کی ہے۔[3]

مضامین

کتاب حاضر میں مصنف نے دس مجالس کو یوں ترتیب دیا ہے، پہلی تین مجالس کو کتاب کی پہلی جلد میں جبکہ بقیہ مجالس کو کتاب کی دوسری جلد میں تحریر کیا ہے۔ ان دس مجالس کے عناوین جو حقیقت میں اس کتاب کے فصول کا نام بھی ہے درج ذیل ہیں:

اس کتاب کا پہلا مضمون ہرمز کے بیٹے کسری کے نام پیغمبر اکرمؐ کا خط ہے جس میں آپ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ہے ( اما بعد فأسلم تسلم، و إلّا فأذن بحرب من اللہ و رسولہ، و السلام على من اتّبع الہدى۔ اما بعد، اسلام قبول کرو تاکہ تم سلامتی کے ساتھ زندگی گزار سکو، بصورت دیگر خدا اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ کرو۔ درود و سلام ہو راہ ہدایت کی اتباع کرنے والوں پر۔) لیکن کسری نے آپ کے خط کو پھاڑ ڈالا اور پیغمبر اکرمؐ کو دھمکی دی جس پر پیغمبر اکرمؐ نے بھی ان کے لئے بد دعا کی جس کے نتیجے میں وہ اپنے بیٹے بشرویہ کے ہاتھوں مارا گیا۔ [5]

اس کتاب کا آخری مطلب زمانے کے ظالموں اور ستمگروں کے ظلم کے خلاف خدا سے توسل اور استغاثہ پر مشتمل ہے۔ اور آخر میں مصنف کے کچھ اشعار کو بھی اس کتاب کے ساتھ ضمیمہ کیا گیا ہے:

عبد لعزّ جلال مجدك يخضع‌بيد التذلّل باب جودك يقرع‌

تیرا بندہ تیری عزت و جلالت کے آگے خاضع اور خاشع ہے اور ذلت و خواری کے ساتھ تیرے در پر دست دے رہا ہے۔[6]

کتاب کے منابع

اس کتاب کے مقدمے میں مصنف کی تصریح کے مطابق انہوں نے ان مجالس کو کتاب روضۃ الشہداء کی طرز پر مرتب کیا ہے۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ مؤلف نے اپنی کتاب میں روضۃ الشہداء اور اس قسم کے کتابوں سے کوئی خاص مطالب ذکر نہیں کیا بلکہ اس کتاب کے مطالب کو زیادہ تر قدیمی اور معتبر مآخذ اور منابع سے نقل کیا ہے چنانچہ بعض جگہوں پر ابومخنف اور حمید بن مسلم اور بعض جگہوں پر متأخرین جیسے مقتل خوارزمی اور لہوف وغیرہ سے نقل کیا ہے۔[7] معاصر تاریخی محقق صادقی کاشانی کے مطابق یہ کتاب، لہوف کے بعد پہلا منبع ہے جسے لہوف کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے۔[8]

ان تمام باتوں کے باوجود مؤلف نے اپنے مطالب کو قدیم متعدد منابع سے سے نقل کیا ہے اور بعض موارد میں منابع کے نام کی تصریح کی ہے جبکہ بعض اوقات سلسہ اسناد کو ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کے محقق نے کتاب کے منابع کو تفصیل کے ساتھ استخراج کیا ہے۔ حائری نے کتاب روضۃ الشہداء کی طرز پر اپنی کتاب کو فصاحت و بلاغت اور بہترین قافیے کے ساتھ آراستہ کیا ہے۔[9]

خصوصیات اور اعتبار

اس کتاب میں مصنف نے ائمہؑ کی تاریخ کو صحیح احادیث کے مطابق نقل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں ضعیف اور غیر قابل اعتماد احادیث کو ذکر کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ مصنف فصاحت و بلاغت، قلم میں روانی اور شعر و شاعری کا وافر ذوق رکھتے تھے۔ کتاب کے معتبر ہونے کے سلسلے میں اتنا کافی ہے کہ علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں کتاب اور مصنف کے بارے میں علماء اور بزرگان کی باتوں پر اعتماد کیا ہے۔[10]

نسخے اور طباعت

اس کتاب کا واحد نسخہ علمائے خوی کی ہمت سے خوی کے مدرسہ کے کتابخانے میں ردیف 459 پر محفوظ ہے۔[11] یہ کتاب فارس حسون کی تحقیق اور قم کے ساتھ انتشارات مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ کے توسط سے زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔

حوالہ جات

  1. حائری، تسلیۃ المجالس، 1418ھ، ج1، ص13–17۔
  2. حائری، تسلیۃ المجالس، 1418ھ، ج 1، ص20۔
  3. صدرایی‌نیا، تسلیۃُ المجالس و زینۃ المجالس، 1375ہجری شمسی، ص186۔
  4. حائری، تسلیۃ المجالس، 1418ھ، فہرست کتاب۔
  5. کرکی حائری، تسليۃ المُجالس وزينۃ المَجالس، ج1، ص31-32۔
  6. کرکی حائری، تسليۃ المُجالس وزينۃ المَجالس، ج1، ص540-545۔
  7. تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، کتابخانہ دیجیتال نور۔
  8. صادقی کاشانی، تصحیح و منبع‌شناسی کتاب الملہوف، 1399ہجری شمسی، ص24۔
  9. تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، کتابخانہ دیجیتال نور۔
  10. صدرایی‌نیا، تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، 1375ہجری شمسی۔
  11. حائری، تسلیۃ المجالس، 1418ھ، ج1، ص19۔

مآخذ

  • حائری، محمد بن ابی طالب، تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1418ھ۔
  • صادقی کاشانی، مصطفی، تصحیح و منبع‌شناسی کتاب الملہوف، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1399ہجری شمسی۔
  • صدرایی‌نیا، علی، تسلیۃُ المجالس و زینۃ المجالس (کتابی حدیثی از قرن دہم)، علوم حدیث، پاییز 1375 - شمارہ 1۔
  • تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، کتابخانہ دیجیتال نور، تاریخ مشاہدہ: 12 اسفند 1398ہجری شمسی۔