آل کاشف الغطا

ویکی شیعہ سے
(بیت کاشف الغطا سے رجوع مکرر)

آل کاشف الغطا کا شمار تیرہویں اور چودہویں صدی کے شیعہ علمی خاندانوں میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ حلہ میں ساکن تھے اور پھر نجف میں مقیم ہو گئے۔ ان کا نسب مالک اشتر سے جا ملتا ہے۔ اس خاندان میں بہت سے نامور علما گزرے ہیں۔ ان میں سے مشہور ترین اور سرفہرست شیخ جعفر کاشف الغطا ہیں کہ جو کشف الغطا کے مصنف ہیں۔ چودہویں صدی قمری کے شیعہ مرجع تقلید محمد حسین کاشف الغطا بھی اسی خاندان کے ایک مشہور عالم ہیں۔ اخباریت کے خلاف جدوجہد اور وحید بھبھانی کے اصولی افکار کا پرچار اس خاندان کے علما کی خصوصیات میں سے ہے۔

نسب

یہ خاندان قبیلہ بنی مالک سے ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کا سلسلہ نسب امام علیؑ کے مشہور صحابی مالک بن حارث بن عبد یغوث المعروف اشتر نخعی (شہادت 39ھ) تک پہنچتا ہے۔[1]اس رو سے ان افراد کو مالکی بھی کہا جاتا ہے۔

جائے پیدائش

اس خاندان کے بزرگ حلہ کے مضافاتی دیہاتوں جناجیہ یا جناجیا یا پھر قناقیا میں رہائش پذیر تھے اور بارہویں صدی ہجری کے آخر میں شیخ جعفر کے والد نے نجف کی طرف کوچ کیا اور اس جہت سے آل کاشف الغطا کے افراد جناحی کے نام سے بھی مشہور ہوئے۔[2]اس خاندان میں ایسے عالم پیدا ہوئے ہیں کہ جن میں سے بعض اپنے زمانے میں عراق، ایران اور کچھ اسلامی ممالک اور شیعہ معاشروں میں اہم علمی اور سیاسی ثمرات کا مرکز تھے۔ ان علما کی خصوصیات میں سے ایک ان کا اصولی ہونا اور ان کی اخباری علما کے خلاف مسلسل جدوجہد ہے۔لہٰذا انہوں نے وحید بھبھانی (متوفی 1205ھ) کے اصولی افکار کے فروغ اور انہیں چودہویں صدی ہجری کے علما اور فقہا تک منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مشہور شخصیات

آل کاشف الغطا کی چند مشہور شخصیات درج ذیل ہیں:

جعفر کاشف الغطا

تفصیلی مضمون: جعفر کاشف الغطا
مقبرہ آل کاشف الغطا

کاشف الغطا خاندان کے بانی جعفر بن خضر بن یحییٰ جناحی حلی نجفی کاشف الغطا (1156-1227ھ)، جعفرِ کبیر اور شیخ المشائخ کے نام سے معروف تھے۔ آپ فقیہ، اصولی، متکلم، محقق، مصنف، شیعہ مرجع تقلید، ادیب اور شاعر تھے۔ شیخ جعفر وحید بھبھانی کے اصولی مکتب کے زیر سایہ پروان چڑھے۔ آپ اجتہاد و استنباط کے قائل اور عقائد و شرعی احکام میں عقل و استدلال کو بروئے کار لانے کے حامی تھے۔ ان کی اہم تالیف کشف الغطا عن خفیات مبھمات الشریعۃ الغراء ہے اور اسی رو سے انہیں کاشف الغطا کا لقب دیا گیا۔

موسی‌ بن جعفر

موسی‌ بن جعفر کاشف الغطا (1180-1243ھ)، فقیہ، اصولی، ادیب اور شاعر تھے۔ آپ شیخ جعفر کاشف الغطا کے بڑے بیٹے تھے۔ ان کی ولادت نجف میں ہوئی۔ مقدماتی علوم اور فقہ و اصول کے درس خارج کی تعلیم اپنے والد کے پاس مکمل کرنے کے بعد درجہ اجتہاد پر فائز ہو گئے[3] ان کے بھائی شیخ حسن اور شیخ محمد حسن (صاحب جواہر)، آپ کے درس سے بہرہ مند ہوئے۔ شیخ موسی ایرانی اور عثمانی حکومتوں کے نزدیک معتبر تھے اور دونوں حکومتیں اپنے اختلافات ختم کرنے کیلئے ان سے بہرہ مند ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مصلح کے عنوان سے مشہور ہوئے۔ والد کی کتاب بغیۃ الطالب کی شرح منیۃ الراغب بھی آپ نے تالیف کی۔[4]

علی بن جعفر

شیخ جعفر کاشف الغطا کے بیٹے علی بن جعفر کاشف الغطا (1197-1253ھ)، فقیہ اور شاعر ہیں۔ آپ نے اپنے والد سے علم حاصل کیا۔ بھائی شیخ موسی کی رحلت کے بعد، دینی مرجعیت آپ اور شیخ محمد حسن (صاحب جواہر) کے درمیان دائر تھی۔ خضر بن شلال عفکاوی نجفی نے انہیں صاحب جواہر کی نسبت اعلم قرار دیا[5] سید ابراہیم قزوینی (1262ھ)، شیخ مرتضی انصاری (1281ھ)، شیخ راضی (1290ھ)، سید مہدی قزوینی (1300ھ) اور شیخ جعفر شوشتری (1303ھ) نے آپ سے کسب فیض کیا۔ آپ کی تصنیفات درج ذیل ہیں:

  • الخیارات، پہلی جزء [6]
  • النّور السّاطع فی الفقہ النّافع
  • الرّسالۃ الصّومیۃ؛ آقا بزرگ کے بقول اس کا ایک خطی نسخہ مدرسہ بروجردی نجف میں موجود ہے [7]
  • البیع جو شرح لمعہ کی شرح ہے
  • والد کی کتاب بغیۃ الطّالب پر حاشیہ جو توضیح المسائل تھی[8]
  • اصولی مباحث پر مشتمل کتاب: حجّیت ظن، قطع، برائت و احتیاط[9]

حسن بن جعفر

حسن‌ بن جعفر کاشف الغطا (1201-1262ھ)، فقیہ، اصولی، ادیب اور شاعر تھے۔ انہوں نے اپنے والد سے مقدماتی علوم کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اپنے بھائی شیخ موسی، سید محمد جواد عاملی، شیخ اسداللہ تُستری، سید عبداللہ شبر، شیخ علی بَحرانی اور شیخ سلیمان قطیفی کے دروس خارج میں شرکت کی۔[10] فقہ و اصول کا خارج مکمل کرنے کے بعد ان اساتذہ سے اجازہ روایت حاصل کیا[11] آپ اپنے زمانے کے زیادہ تر علوم پر عبور رکھتے تھے لیکن آپ علم فقہ میں بہت مشہور تھے۔شیخ مرتضی انصاری، حاج ملا علی خلیلی، سید مہدی قزوینی، احمد دجیلی، حسن بلاغی اور شیخ حسن مامقانی آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ اپنے بھائی کی رحلت سے پہلے حلہ میں رہائش پذیر تھے لیکن اس کے بعد 1243ھ میں نجف تشریف لے گئے اور تدریس میں مشغول ہو گئے۔ آپ کی تالیفات درج ذیل ہیں:

  • انوار الفقاهۃ، جو چند جلدوں پر مشتمل فقہ استدلالی کا ایک دورہ ہے اور یہ شہید اول کی لمعہ کے اسلوب پر ہے۔
  • السلاح الماضی فی احکام القاضی، اس کا خطّی نسخہ تہران یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں موجود ہے۔
  • علم اصول کی کتاب کشف الغطا کے مقدمہ کی شرح کہ جس کا خطی نسخہ آستان قدس کے کتاب خانے میں موجود ہے۔
  • الرسالۃ الصومیۃ العلمیۃ
  • الزّکوۃ و الخمس و الصوم
  • الامامۃ در کلام
  • والد کی کتاب بغیۃ الطالب کی تکمیل ’’العمل‘‘ کے نام سے
  • والد کی شرح قواعد کی تکمیل

مہدی‌ بن علی

مہدی‌ بن علی(1226-1289ھ)، فقیہ، اصولی، مرجع تقلید، ادیب اور شاعر تھے۔ آپ کی ولادت نجف میں ہوئی۔ اسلامی علوم کی تعلیم اپنے والد، چچا شیخ حسن، بھائی شیخ محمد اور دیگر علمائے نجف کے نزدیک حاصل کی اور درجہ اجتہاد پر فائز ہو گئے۔ آپ نے اپنے والد اور چچا حسن سے بھی اجازہ روایت دریافت کیا۔[12] آپ اس زمانے میں علم فقہ و اصول کے ممتاز استاد تھے۔ شیخ حسن مامقانی، سید اسماعیل صدر (1255-1338ھ)، شیخ فضل‌ الله نوری (1327ھ)، شیخ عبداللہ مازندرانی (1333ھ)اور سید کاظم یزدی (1247-1337ھ) آپ کے نامور شاگردوں میں سے تھے۔ آپشیخ مرتضی انصاری کے مورد اعتماد علما سے تھے اور شیخ بہت سے شرعی اور عرفی امور آپ کے حوالے کر دیتے تھے۔ شیخ انصاری کی وفات کے بعد ایران، قفقاز اور عراق کے کچھ لوگوں نے آپ کی تقلید کی۔

تصنیفات

  • الخیارات جو شرائع کی شرح ہے
  • کتاب الصوم
  • اللآلی النّجفیۃ، جو آپ کی توضیح المسائل ہے۔1273ھ میں اس کا فارسی ترجمہ مکمل ہوا اور اسے تبریز میں زیور طبع سے آراستہ کیا گیا۔
  • المکاسب المحرّمۃ

عباس بن علی

عباس بن علی (1242-1315ھ) فقیہ، اصولی، ادیب اور شاعر تھے۔ آپ نجف میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی والد کا انتقال ہو گیا اور اپنے چچا شیخ حسن اور بڑے بھائیوں کی سرپرستی میں پروان چڑھے۔ کچھ مدت تک شیخ مرتضی انصاری کے درس میں شرکت کرنے کے بعد اپنے بھائی شیخ مہدی اور اسی طرح شیخ راضی نجفی، مرزا محمد حسن شیرازی، شیخ محمد حسین کاظمی، مرزا حبیب الله رشتی اور سید مہدی قزوینی کی شاگردی اختیار کی اور درجہ اجتہاد پر فائز ہو گئے۔ انہوں نے ایک حلقہ درس تشکیل دیا کہ جس میں بہت سے علما اور طلبہ شرکت کرتے تھے۔ اپنے بھائی شیخ حبیب آل کاشف الغطا (1207ھ) کی رحلت کے بعد دینی زعامت میں ایک بلند مقام حاصل کیا۔ آپ کی وفات ھندیہ میں ہوئی اور نجف میں مدفون ہوئے۔ آپ کی تصنیفات یہ ہیں: موارد الانام فی شرح شرائع الاسلام؛ رسالۃ فی الشروط؛ رسالۃ فی الاصول اور اپنے مقلدین کیلئے توضیح المسائل۔

محمدبن علی

محمد بن علی (متوفی 1268ھ /1851ء)،فقیہ، اصولی اور شاعر تھے۔ آپ نجف میں پیدا ہوئے اور اپنے خاندان کے علما سے کسب فیض کر کے علمی اور فقہی مراحل طے کرتے رہے۔ آپ اپنے چچا شیخ حسن (صاحب انوار الفقاہۃ) کے شاگرد تھے اور ان کی اور شیخ محمد حسن صاحب جواہر کی وفات کے بعد عراقی شیعوں کے مرجع تقلید قرار دئیے گئے۔ 13ھ /19ء کے کچھ شیعہ عالم اور فقیہ آپ کے شاگرد تھے۔ آپ عوام کی مشکلات کے حل کیلئے عثمانی حکام کے سامنے بہت سعی و کوشش کرتے تھے۔[13] آپ کی تصنیفات یہ ہیں: الدّماء الثّلاثۃ، رسالۃفی الصّوم، الاعتکاف اور مناسک حج یہ تینوں کتابیں آپ کے مقلدین کیلئے ہیں۔[14]

محمد رضا بن موسی

محمد بن رضا موسی (1238-1297ھ /1822-1879ء)، آل کاشف الغطا کے علما اور فقہا میں سے ہیں۔ آپ نجف میں پیدا ہوئے۔ مقدماتی علوم کی تعلیم شیخ ابراہیم قفظان (متوفی 1279ھ /1879ء) اور شیخ موسی خمایسی کے پاس مکمل کی۔ فقہ، شیخ احمد دجیلی(متوفی 1265ھ /1489ء)، اپنے چچا شیخ حسن اور شیخ محمد حسن (صاحب جواهر) سے پڑھی۔ نجف کے ایک اندرونی جھگڑے کے باعث کاظمین چلے گئے۔ وہاں تین سال تک رہائش پذیر رہنے کے بعد 1290ھ /1873ء میں نجف لوٹ آئے۔[15] آپ نے اپنے دادا شیخ جعفر کی کتاب بغیۃ الطالب پر ایک حاشیہ بھی تحریر کیا[16]

عباس بن حسن

عباس بن حسن (1253-1323ھ/1837-1905ء)، فقیہ، اصولی ، ادیب اور شاعر تھے۔ آپ نجف میں پیدا ہوئے۔ مقدماتی علوم کی تعلیم اس شہر کے علما کے پاس حاصل کی۔ پھر فقہ و اصول کا درس خارج اپنے چچا زاد مہدی آل کاشف الغطا ، شیخ محمد حسین اَعسم، شیخ مرتضی انصاری، مرزا حبیب الله رشتی اور مرزا شیرازی کے پاس سامرا میں مکمل کیا۔ مذکورہ بالا اساتذہ اورشیخ راضی نجفی سے اجازہ روایت دریافت کیا۔ آپ شعر و ادب میں قوی تھے۔[17]

تألیفات

  • منہل الغمام فی شرح شرائع الاسلام
  • نبذۃ الغری فی احوال الحسن الجعفری
  • الفوائد العبّاسیۃ، در فقہ و اصول
  • شرح الرّوضۃ البهیۃ
  • الورود الجعفریۃ فی حاشیۃ الرّیاض الطباطبائیۃ
  • دلائل الامامۃ
  • الدّرّ النّضید فی التّقلید
  • رسالہ فی مباحث الالفاظ
  • رسالہ فی التعادل و التراجیح
  • فقہ، ادب اور دیگر موضوعات میں کچھ اشعار بھی آپ سے منسوب ہیں[18]

مرتضی بن عباس

مرتضی بن عباس (1291-1349ھ/1874-1930ء)، فقیہ، اصولی، متکلم، مصنف اور شاعر تھے۔ آپ نجف میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد کے زیر نگرانی پروان چڑھے اور اپنے خاندان کے علما سے ابتدائی دینی علوم کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعدعلم اصول کی تعلیمآخوند خراسانی، فقہ کی تعلیمسید کاظم یزدی سے حاصل کی اور سید محمد قزیونی سید مہدی قزیونی سے اجازہ روایت دریاففت کیا۔ آپ کی کچھ تصنیفات یہ ہیں: فوزالعباد فی المبدءِ و المعاد، 3 جلد، نجف، 1342ق[19]؛ منشومۃ فی الاوان الشّرعیۃ، تہران، 1322ق؛ الغررالغرویۃ فی الاحکام الزکویۃ، بغداد، 1329ق[20] اور دیگر تصنیفات بھی ہیں جو بظاہر قلمی ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے: الفوائد الغرویۃ، مسائل فی الفقۃو الأصول، الآداب الجلیۃ فی ردّ شبهات الوهّابیۃ در 2 جلد، اسنی التّحف، حاشیۃ علی مکاسب الشیخ الأنصاری، منظومۃفی احکام الخلل فی الصّلاۃو شرائطها، رسالۃفی تطبیق ما ورد فی الکرّ من المساحۃو الوزن بنحو التّحقیق لا التّقریب و رسالۃفی العدالۃ[21]

ہادی بن عباس

ہادی بن عباس (1289-1361ھ/1872-1942ء)، فقیہ، مورخ، محقق ، ادیب اور شاعر تھے۔ آپ کی ولادت نجف میں ہوئی۔ ابتدائی علوم اور فقہ و اصول کی تعلیم شیخ الشریعۃ اصفہانی، سیدکاظم یزدی، شیخ محمد طہ نجف (متوفی 1329ھ/1911ء) اور آخوند خراسانی کے پاس حاصل کی۔ طہ نجف، سیدحسین قزوینی، سیدمحسن صدر کاظمی اور شیخ آقا رضا اصفہانی (متوفی 1322ھ/1904ء) سے اجازہ حدیث حاصل کیا۔ شعر و ادب میں مشہور تھے۔ آپ کو عراق میں 14ھ/20ء کی ادبی تحریک کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔[22]

شیخ ہادی آل کاشف الغطا نے کچھ تالیفات چھوڑی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:

  • المقبولیۃ الحسنیۃ، شعر، نجف، 1342ھ
  • المستدرک علی نهج‌ البلاغہ، نجف، 1354ھ
  • مدارک نهج‌ البلاغہ، ضمیمہ مستدرک، نجف، نجف، 1354ھ
  • اوجزالانباء فی مقتل سید الشّهداء، ضمیمۀ المقبولیۃ الحسنیۃ، نجف، 1342ھ
  • هدی المتقین، در فقه، نجف، بی‌تاریخ[23]

علی بن محمد رضا

علی بن محمدرضا(1267-1350ھ/1850-1931ء)، عالم، ادیب، مورخ اور شاعر تھے۔ آپ کی ولادت نجف میں ہوئی اور اسی شہر میں علمی اور تربیتی مراحل کو طے کیا۔ شیخ مہدی آل کاشف الغطاء)، شیخ راضی نجفی، شیخ جعفر شوشتری، شیخ محمد حسن مامقانی و شیخ جواد محیی‌الدین جیسے علما سے اجازہ روایت دریافت کیا[24] آپ معاشرتی امور اور لوگوں کی مشکلات حل کرنے کو اہمیت دیتے تھے اور بغداد کے عثمانی حکام کے یہاں اثر و رسوخ رکھتے تھے اور ان کی بڑی مدح کرتے تھے۔ 1295ھ/1878ء میں ایران کا سفر کیا اور سات سال تک تہران، اصفہان، شیراز اور مشہد میں رہے اور 1302ھ/1884ء میں نجف واپس تشریف لے آئے۔ آپ نے شام، حجاز، مصر ، استنبول اورہندوستان کا بھی سفر کیا[25] شیخ علی آل کاشف الغطا کتب جمع کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے اور خود بھی محققین و مولفین میں سے شمار ہوتے تھے۔ تالیفات

  • کتاب الحصون المنیعۃ فی طبقات الشّیعۃ؛ یہ سات جلدوں پر مشتمل آپ کی اہم ترین تالیف ہے جو مکمل نہیں ہے۔ کتاب کا اصل خاکہ؛ صحابہ، تابعین، رواۃ، علما، حکما و متکلمین، عرب علما، تصوف کے پیشوا، بادشاہ، امرا، وزرا، شعرا اور خواتین کے طبقات پر مشتمل تھا کہ جس میں سے صحابہ کا طبقہ، علما کا کچھ حصہ اور شعرا کا کچھ طبقہ تدوین کیا گیا ہے ۔[26]
  • النوافح العنبریۃ فی المآثر السّرّیۃ[27]
  • سمیرالحاضر و انیس المسافر 5 جلدوں پر مشتمل ہے اور کشکول (متفرقات) کی روش پر ہے۔[28]

موسی بن محمد رضا

موسی بن محمد رضا (1260-1306ھ/1844-1888ء) فقیہ اور ادیب تھے۔ آپ کی ولادت نجف میں ہوئی۔ آپ نے علوم روزگار؛ نجف کے علما منجملہ شیخ محمد حسین کاظمی (متوفی 1308ھ/1890ء) سے حاصل کیے۔ اس کے بعدسامرا تشریف لے گئئے اورمرزا محمد حسن شیرازی کے درس میں شرکت کی۔کہا جاتا ہے کہ مرزا کی طرف سے اجازہ روایت حاصل کیا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد ایک مرتبہ 1298ھ/1880ء)میں اصفہان گئے۔ دوسری مرتبہ 1306ھ میںایران تشریف لے گئے اور اسی سفر کے دورانتہران میں انتقال کر گئے۔[29]

احمد بن علی

محمد حسین کاشف الغطا

احمد بن علی (1292-1344ھ/1875-1925ء)، فقیہ اور مرجع تقلید تھے۔ آپ مقدماتی علوم کو مکمل کرنے کے بعد سامرا چلے گئے۔ کچھ مدت وہاں حصول علم میں مشغول رہے پھر نجف لوٹ آئے۔ فقہ و اصول کا درس خارج سید کاظم یزدی، آغا شیخ رضا اصفہانی اور آخوند خراسانی کی خدمت میں مکمل کیا۔ (1324ھ/1906ء)، میں ایران کے انقلاب مشروطہ کے بعد مشروطیت کی حمایت کے سبب اپنے استاد آخوند خراسانی سے دور ہو گئے اور سید کاظم یزدی جو مشروطہ کے خلاف تھے؛ سے نزدیک ہو گئے۔ زندگی کے آخری ایام میں مرجع تقلید شمار ہوتے تھے اورمرزا نائینی اورسید ابو الحسن اصفہانی جیسے علما کے ہوتے ہوئے ایران ،عراق اور افغانستان کے بعض لوگ ان کی تقلید کرتے تھے۔ آپ نےمرزا حسین خلیلی نجفیسے 1325 ھ میں اجازہ روایت دریافت کیا۔[30]

آخر کار آپ نجف میں وفات پا گئے اور وہیں سپرد خاک ہوئے۔ آپ کی چند تالیفات جن میں زیادہ ترفقہی موضوعات مذکور ہیں، یہ ہیں:

احسن الحدیث فی احکام المواریث، نجف 1341ق؛ سفینۃالنّجاۃ، نجف، 1338ھ، یہ کتاب، شیخ کی دو جلدوں پر مشتمل توضیح المسائل ہے۔ آپ کے ایک شاگرد نے عین الحیاۃ کے نام سے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا اور 1341/1345ھ میں بمبئی سے شائع ہوئی؛ قلائد الدّرر فی مناسک مَن حجّ اواعتمر، بغداد، 1344ھ۔

محمد حسین کاشف الغطا

محمد حسین بن علی آل کاشف الغطا (1294 – 1373ھ، ایک روشن فکر شیعہ عالم اور نجف کے مرجع تقلید تھے۔ آپ فقہ، خطابت، ادبیات عرب، فلسفہ و حکمت اور تفسیر و عرفان میں ماہر تھے۔ آپ کو ان پہلے فقہا میں سے شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے حوزہ علمیہ نجف کی فقہی تحقیقات میں تقابلی فقہ کی روش کا آغاز کیا۔کاشف الغطا نے بہت سی کتب خاص طور پر تشیع کے تعارف میں لکھی ہیں کہ جن میں سے کتاب اصل الشیعۃ و اصولها ایک ہے اور اس کا فارسی ترجمہ آئین ما کے نام سے ہو چکا ہے۔ آپ وحدت اور اسلامی بیداری کیلئے فکرمند رہتے تھے اور شیعہ کے تعارف اور اس کا دفاع کرنے کی سعی و کوشش زیادہ تر اسلامی مذاہب کے مابین تقریب اور اتحاد کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے تھی۔ کاشف الغطا سماج اور سیاست پر خصوصی توجہ رکھتے تھے اور انہوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانوی قابض فوج کے خلاف مسلح جنگوں میں شرکت کی۔

محمد رضا بن ہادی

محمد رضا بن ہادی (1310-1366ھ/1892-1947ء)، فقیہ، ادیب اور شاعر تھے۔ آپ نجف میں پیدا ہوئے۔مقدماتی علوم کے بعد فقہ و اصول کی تعلیم اپنے والد اور دیگر علمائے نجف سے حاصل کی۔ آپ ادب پر عبور رکھتے تھے۔ آپ کی تحریریں مختلف نشریات میں شائع ہوتی رہیں۔ آپ کی وفات بیروت میں ہوئی اور نجف میں سپرد خاک کیا گیا۔

تصنیفات

  • حیات الشّریف الرّضّی، نجف، 1353ھ۔
  • الغیب و الشّهادۃ، نجف، 1346ھ۔
  • سیدرضی کی کتاب حقائق التأویل فی متشابہ التّنزیل کی تحقیق، جلد 5، نجف، 1355ھ، مقالہ «الصوت و ماهیتہ»، المرشد مجلے میں شائع ہوا۔
  • آپ کے کچھ اشعار کتاب شعراء الغری (مطبوعہ: 1374ھ/1955ء) میں شائع ہوئے۔

آل کاشف الغطا کے آثار پر مشتمل سافٹ وئیر

آل کاشف الغطا سافٹ وئیر

آل کاشف الغطا سافٹ وئیر عقائد، تفسیر، فقہ، اصول، اخلاق، تاریخ اور تراجم کے بارے میں کاشف الغطا خاندان کے 123 آثار پر مشتمل ہے۔یہ سافٹ وئیرمرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نے تیار کیا ہے۔[31]

حوالہ جات

  1. امین، اعیان الشیعہ، ج4، ص99۔
  2. امین، اعیان الشیعہ، ج4، ص100۔
  3. امین، اعیان الشیعہ، ج10، ص178۔
  4. آقا بزرگ، الذریعہ، ج3، ص133 ۔
  5. حرزالدین، معارف الرجال، ج2، ص95۔
  6. مشار، چاپی عربی؛ آستان قدس، ج5، ص557۔
  7. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج11، ص206۔
  8. امین، اعیان الشیعہ، ج، ص177-ـ179۔
  9. حرزالدین، معارف الرجال، ج94، ص92ـ95۔
  10. امین، اعیان الشیعہ، ج5، ص35۔
  11. حرزالدّین، معارف الرجال، ج1، ص211 ۔
  12. حرزالدین، معارف الرجال، ج3، ص97۔
  13. حرزالدین، ج2، ص356-358۔
  14. آقابزرگ، الذریعہ، ج8، ص263، ج15، ص101، ج22، ص272۔
  15. حرزالدین، ج2، ص283-284۔
  16. آقابزرگ، الذریعہ، ج6، ص28۔
  17. آقابزرگ، طبقات۔۔۔، ص992۔
  18. آقابزرگ، طبقات۔۔۔، ص994۔
  19. عوّاد، ج3، ص294؛ مشار، چاپی عربی۔
  20. عواد، ج3، ص294-295۔
  21. عواد، ج3، ص294-295؛ حرزالدّین، ج2، ص408۔
  22. امین، ج10، ص231۔
  23. مشار، چاپی عربی۔
  24. آقابزرگ، طبقات۔۔۔، 1439۔
  25. آقابزرگ، طبقات۔۔۔، 1439۔
  26. آقابزرگ، طبقات۔۔۔، 1439۔
  27. حرزالدین، ج2، ص137۔
  28. حرزالدین، ج2، ص137۔
  29. حرزالدین، ج3، ص52۔
  30. حرزالدین، ج1، ص88۔
  31. مرکز کامپیوتری علوم اسلامی۔

مآخذ

  • آستان قدس، فہرست۔
  • آقا بزرگ، الذریعہ۔
  • آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، قرن 13 و 14، مشہد، 1404ھ۔
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، 1403ھ۔
  • حرزالدین، محمد، معارف الرجال فی التراجم العلماء و الادباء)، تعلیق: محمد حسین حرز الدین، منشورات مکتبہ آیت الله العظمی المرعشی النجفی، قم، 1405ھ۔
  • زرکلی، خیر الدین، الأعلام، بیروت، 1984ء۔
  • عواد، کورکیس، معجم المؤلّفین العراقیین، بغداد، 1969ء۔
  • قمی، عباس، فوائد الرّضویہ، تہران، 1327 شمسی۔
  • کاشف الغطاء)، جعفر، کشف الغطاء)، تہران، سنگی۔
  • مشار، خان بابا، فہرست کتابہای چاپی عربی ایران: از آغاز چاپ تاکنون، بی جا، 1344 شمسی۔
  • مشار، خان بابا، فہرست کتاب‌ ہای چاپی فارسی، تہران، 1350 شمسی۔
  • معلم حبیب‌ آبادی، محمد علی، مکارم الآثار، اصفہان، 1352 شمسی۔

بیرونی روابط