سورہ احزاب آیت نمبر 23

ویکی شیعہ سے
(آیت من قضا نحبہ سے رجوع مکرر)
سورہ احزاب آیت نمبر 23
آیت کی خصوصیات
سورہسورہ احزاب
آیت نمبر23
پارہ21
موضوعجنگوں میں پیغمبر اکرمؐ کا ساتھ دینے کے بارے میں مؤمنین کا خدا سے عہد و پیمان
مضمونحمزۃ بن عبد المطلب، جعفر بن ابی‌ طالب اور امام علیؑ
مرتبط موضوعاتجنگ بدر اور جنگ احد کے شہداء


سورہ احزاب آیت نمبر 23 ایسے مؤمنوں کے بارے میں ہے جو خدا کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان پر ثابت قدم رہے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض شہادت کے درجے پر فائز ہو گئے اور بعض شہادت کے منتظر ہیں۔ علامہ طباطبایی کے مطابق اس آیت میں عہد و پیمان سے مراد دشمن سے روبرو ہوتے وقت دشمن کو پشت دکھا کر نہ بھاگنے اور پیغمبر اکرمؐ کے رکاب میں ثابت قدم رہنے کا عہد ہے۔

آیت کے لئے مختلف شأن‌ نزول‌ ذکر کئے گئے ہییں۔ تفسیر منہج الصادقین کے مصنف کے مطابق اکثر مفسرین اور محدثین اس بات کے قائل ہیں کہ یہ آیت امام علیؑ، حمزہ بن عبد المطلب، جعفر بن ابی‌ طالب اور عبیدہ بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ امام علیؑ سے مروی ایک روایت میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اہل‌ سنت تفسیری منابع میں اس آیت کے شأن نزول کے بارے میں آیا ہے کہ یہ آیت صحابی پیغمبر اَنَس بن نَضْر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

شیعہ تفاسیر کے مطابق "مَنْ قَضى‏ نَحْبَہ‏" یعنی شہادت کے درجے پر فائز ہونے والے، سے مراد حمزہ اور جعفر بن ابی‌ طالب ہیں جبکہ شہادت کی انتظار میں موجود اشخاص سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔ اہل‌ سنت منابع میں حمزہ، جنگ بدر اور اُحُد کے شہداء اور طلحۃ بن عبیداللہ کو "مَنْ قَضى‏ نَحْبَہ‏" کے مصادیق میں شمار کئے گئے ہیں۔

آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق اس آیت کی تفاسیر اور اس کے ذیل میں ذکر کئے گئے مصادیق کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ یہ آیت بہت وسیع مفہوم کا حامل ہے اس بنا پر تمام شہداء اور وہ تمام افراد جو شہادت کے انتظار میں ہیں، کو شامل کرتی ہے۔

یہ آیت شہداء کے بارے میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے؛ مثلا امام حسینؑ نے مُسْلم بن عَوْسَجَہ اور مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ اسی طرح شہدا کے بارے میں رد و بدل ہونے والے تسلیتی پیغامات میں بھی اس آیت کا استعمال بہت زیادہ ہے۔

متن اور ترجمہ

سورہ احزاب کی آیت نمبر 23 مؤمنوں کے ایک خاص گروہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی پیروی کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جاتے تھے اور خدا کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان پر ثابت قدم رہے۔ ان میں سے بعض اپنے عہد پر عمل کرتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں اور بعض ابھی شہادت کی انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے عہد و پیمان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی اور انحراف و تزلزل نہیں آنے دی ہیں۔[1]

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللَّہَ عَلَيْہِ ۖ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا


اور اہلِ ایمان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے وہ عہد و پیمان سچا کر دکھایا جو اللہ سے کیا تھا۔ سو ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنا وقت پورا کر چکے ہیں اور کچھ اس (وقت) کا انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے (اپنی روش میں) ذرا بھی تبدیلی نہیں کی۔(ترجمہ محمد حسین نجفی)

|مآخذ= سورہ احزاب: 23}}

شأن نزول

سورہ احزاب کی آیت نمبر 23 کے لئے مختلف شأن نزول نقل ہوئے ہیں۔ ملا فتح‌ اللہ کاشانی (متوفی 988ھ) تفسیر منہج الصادقین میں کہتے ہیں کہ تمام مفسرین اور محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت امام علیؑ، حمزہ بن عبد المُطَّلِب، جعفر بن ابی‌ طالب اور عُبیدۃ بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[2] وہ ایک اور جگہ نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کا سبب نزول صحابہ کا ایک گروہ جیسے حمزہ بن عبدالمطلب، مُصعَب بن عُمیر اور انس بن جبیر ہیں جنہوں نے میدان جنگ میں شہادت کے مقام پر فائز ہونے تک پیغمبر اکرمؐ کا ساتھ نہ چھوڑنے کی نذر کر رکھی تھی۔ خدا نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 23 میں مؤمنوں کے اس گروہ کی توصیف کرتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے عہد و پیمان میں سچے تھے۔[3] امام علیؑ سے مروی ایک حدیث کے مطابق یہ آیت خود حضرت، حمزہ، جعفر اور عبیدۃ بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[4]

تفسیر طبری میں آیا ہے کہ یہ آیت جنگ بدر میں شہید ہونے والے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے خدا سے عہد کیا تھا کہ پیامبر اکرمؐ کے رکاب میں مشرکین کے ساتھ جنگ کریں گے۔ ان میں سے بعض شہادت کے درجے پر فائز ہو گئے اور بعض شہادت کے درجے پر فائز ہونے کی انتظار کر رہے ہیں۔[5]

اہل‌ سنت تفسیری منابع میں انس بن مالک سے نقل ہوا ہے کہ یہ آیت ان کے چچا انس بن نضر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ انس بن نضر جنگ بدر میں شریک نہیں تھا جس پر انہوں نے کہا کہ مشرکین کے ساتھ پہلی جنگ میں پیغمبر اکرم کا ساتھ نہ دے سکا اگر کوئی اور جنگ ہوئی تو میں پیغمبر اکرمؐ کا ساتھ دون گا۔ اس کے بعد جنگ اُحُد میں انہوں نے شرکت کی یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔[6]

تفسیر

علامہ طباطبایی کے مطابق "صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللَّہَ عَلَیْہِ" یعنی ان مؤمنوں نے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان میں اپنی صداقت اور سچائی ثابت کی۔ وہ عہد یہ تھا کہ جب دشمن کے ساتھ روبرو ہونگے تو دشمن کو پشت دکھا کر فرار نہیں کرینگے۔[7] "فَمِنْہم مَنْ قَضى‏ نَحْبَہ" یعنی ان میں سے بعض مؤمنین جنگ میں ان کی موت آگئی یا شہید ہو گئے اور ن میں سے بعض "مَنْ يَنْتَظِر" اس انتظار میں ہیں کہ ان کے لئے بھی موت آئے اور اپنے عہد و پیمان سے منحرف نہیں ہوئے۔[8]

تھمب نیل بنانے کے دوران میں نقص:
سورہ احزاب کی آیت نمبر 23، خط ثلث میں، ترکی کے خطاط حامد آمدی کے قلم سے (متوفی 1403ھ)۔

"نَحْب" کا لفظ نذر، پیمان، موت اور خطرے کے بارے میں آیا ہے۔[9] طبرسی،[10] ملافتح‌ اللہ کاشانی،[11] راغِب اصفہانی[12] اور علامہ طباطبایی راغب اصفہانی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "نَحْب" کا معنا نذر کے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ "قَضی نَحْبَہ" کے معنی نذر پر عمل کرنے کے ہیں؛ لیکن مذکورہ آیت میں "نحب" سے مراد موت یا قتل ہونا ہے۔ [13]

پیغمبر خداؐ امام علیؑ کے ساتھ دوستی کے بارے میں فرماتے ہیں

قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وآلہ: «يَا عَلِيُّ مَنْ أَحَبَّكَ ثُمَّ مَاتَ فَقَدْ قَضى‏ نَحْبَہُ وَ مَنْ أَحَبَّكَ وَ لَمْ يَمُتْ فَہُوَ يَنْتَظِرُ وَ مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ وَ لَا غَرَبَتْ إِلَّا طَلَعَتْ عَلَيْہِ بِرِزْقٍ وَ إِيمَانٍ» رسول خدا ؐ نے حضرت علىؑ سے فرمایا: اے على جو شخص تجھے دوست رکھے گا اور اسی حالت میں اسے موت آئے تو گویا اس نے اپنا کام انجام دے دیا ہے اور وہ اپنی مراد تک پہنچ چکا ہے اور جو بھی تچھے دوست رکھتا ہو اور ابھی تک اسے موت نہی آئی وہ گویا اپنی سعادت کی انتظار میں ہے اور سورج طلوع اور غروب نہیں کرتا مگر یہ کہ یہ شخص نئی ایمان اور نئی روزی سے بہرہ‌ مند ہوتا رہے گا

کلینی، روضہ كافى، 1362ہجری شمسی، ترجمہ رسولى محلاتى، ج‏2، ص: 136

مصادیق

یہ آیت کن اشخاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ تفسیر قمی[14] اور التبیان شیخ طوسی[15] میں امام باقرؑ سے مروی ہے کہ مذکورہ آیت میں شہادت کے عہدے پر فائز ہونے والوں سے مراد حمزہ اور جعفر بن ابی‌ طالب ہیں اور شہادت کی انتظار کرنے والوں سے مراد حضرت علیؑہیں۔ اس مطلب کو اہل سنت عالم دین حاکم حَسَکانی (متوفی 490ھ) نے شَواہدُ التَنزیل میں ابن‌عباس سے بھی نقل کیا ہے۔[16] ایک اور روایت میں امام علیؑ سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے؛ خدا کی قسم میں شہادت کی انتظار میں ہوں اور مجھ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے۔[17]

ایک روایت میں امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؑ نے حضرت علیؑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: جس نے آپ سے محبت اور دوستی کی اور اسی حالت میں اس دنیا سے چلا جائے تو "فقد قَضى‏ نَحْبَہ" اس نے اپنے عہد و پیمان کے ساتھ وفا کیا ہے اور جس نے آپ سے محبت اور دوستی کی اور ابھی تک زندہ ہے "فَہُوَ يَنْتَظِرُ" تو گویا وہ انتظار میں ہے۔[18]

بعض مفسرین کے مطابق "مَنْ قَضى‏ نَحْبَہ‏" کا فقرہ جنگ بدر اور احد کے شہداء کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[19]

دوسری صدی ہجری کی تفسیر، تفسیر مَقاتل بن سلیمان میں آیا ہے کہ وفائے عہد سے مراد لیلۃالعقبۃ (بیعت عَقَبہ ہجرت سے پہلے یثرب والوں کی رسول خداؐ کے ساتھ بیعت کی طرف اشارہ ہے) ہے، شہید ہونے والوں سے مراد حضرت حمزہ اور ان کے ساتھ ہیں جو جنگ اُحُد میں شہید ہوئے تھے۔[20]

ابن‌ عباس سے منقول ہے کہ "مَنْ قَضى‏ نَحْبَہ‏" سے حضرت حمزہ اور جنگ احد کے دیگر شہداء اور انس بن نضر اور ان کے ساتھی مراد ہیں۔[21] بعض تفسیری منابع میں طَلحۃ بن عبید اللہ کو بھی "مَنْ قَضى‏ نَحْبَہ‏" کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے۔[22]

آیت‌ اللہ مکارم شیرازی کے مطابق مذکورہ آیت کی تفاسیر اور ذکر شدہ مصادیق میں کوئی منافات نہیں ہے؛ کیونکہ یہ آیت وسیع مفہوم کا حامل ہے اس بنا پر اس میں تمام شہدائے اسلام جو جنگ اَحزاب سے پہلے شہید ہوئے ہیں شامل ہیں بلکہ کسی بھی جگہ یا وقت شہید ہونے والے تمام شہداء اس میں شامل ہیں۔ اسی طرح انتظار کرنے والوں میں بھی وہ تمام افراد شامل ہیں جو فتح اور شہادت کے منتظر تھے؛ البتہ حمزہ اور حضرت علیؑ جیسے افراد ان میں سر فہرست ہیں۔[23]

استعمال

یہ آیت اکثر مواقع شہداء کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ منقول ہے کہ امام حسینؑ نے اس آیت کو واقعہ کربلا میں شہدائے کربلا جیسے مُسْلم بن عَوْسَجَہ وغیرہ کے جنازے پر تلاوت فرمائی ہے۔[24] اسی طرح کہا گیا ہے کہ امام حسینؑ کو جب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر دی گئی تو آپ نے اس وقت بھی اس آیت کی تلاوت فرمائی۔[25] امام خمینی نے شہید محراب، عطاء‌ اللہ اشرفی اصفہانی کو "رِجالٌ صَدَقُوا ما عاہَدُوا اللَّہَ عَلَيْہِ‌" کے مصادیق میں سے قرار دیا ہے۔[26] شہداء کی برسی اور تسلیتی پیاغامات میں بھی اس آیت کا ذکر کیا جاتا ہے۔[27] من جملہ ان میں جنرل سلیمانی کی شہادت پر مراجع تقلید اور علما کی طرف سے رد و بدل ہونے والے تسلیتی پیغمات میں بھی [28] مذکورہ آیت کو ذکر کیا گیا ہے۔

کربلاء میں حرم امام حسینؑ میں باب الشہداء‌[29] اور باب رأس الحسینؑ[30] کے بالائی حصے پر بھی اس آیت کو درج کیا گیا ہے۔

فوٹو گیلری

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص245۔
  2. کاشانی، منہج الصادقین، 1336ہجری شمسی، ج7، ص272۔
  3. کاشانی، منہج الصادقین، 1336ہجری شمسی، ج7، ص271۔
  4. عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ھ، ج4، ص258۔
  5. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج21، ص93۔
  6. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج4، ص19؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج21، ص93؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص549؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، 1411ھ، ص366۔
  7. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج16، ص290۔
  8. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج16، ص290۔
  9. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص548؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص245۔
  10. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص549۔
  11. کاشانی، منہج الصادقین، 1336ہجری شمسی، ج7، ص271۔
  12. راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، 1412ھ، 793 و 794۔
  13. طباطبائی، المیزان، الناشر منشورات اسماعيليان، ج16، ص290۔
  14. قمی، تفسیر القمی، 1363ہجری شمسی، ج1، ص307 و ج2، ص188و189۔
  15. طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج8، ص329۔
  16. حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج2، ص6۔
  17. حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج2، ص5؛ عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ھ، ج4، ص259۔
  18. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص306۔
  19. مراجعہ کریں: طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008م، ج5، ص180؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص549۔
  20. مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج3، ص484۔
  21. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص549۔
  22. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج21، ص94؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008م، ج5، ص181؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، 1411ھ، ص367۔
  23. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص246 و 247۔
  24. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص103؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص246 و 247۔
  25. مطہری، مجموعہ آثار ،1390ہجری شمسی، ج17، ص329؛ مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، 1388ہجری شمسی، ص160۔
  26. خمینی،‌ صحیفہ امام، 1389ہجری شمسی، ج17، ص50۔
  27. نمونہ کے لئے رجوع کریں: «بیانات در دیدار دست‌اندرکاران کنگرہ شہدای استان ایلام»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای؛ «پیام بہ مناسبت ہفتہ دفاع مقدس و روز تجلیل از شہیدان و ایثارگران»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای؛ «پیام آیت‌اللہ العظمی نوری ہمدانی بہ سومین یادوارہ شہدای قرآنی»،‌ پایگاہ اطلاع‌رسانی دفتر آیت‌اللہ العظمی نوری ہمدانی؛ «تجلیل از مادران، ہمسران و دختران شہدای روحانی قم»، خبرگزاری ایسنا۔
  28. «پیام‌ہای تسلیت مراجع تقلید، علما و شخصیت‌ہای حوزوی بہ شہادت سردار سلیمانی»، خبرگزاری میزان۔
  29. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، 1388ہجری شمسی، ص209۔
  30. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، 1388ہجری شمسی، ص209۔

مآخذ

  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، بیروت، دار طوق النجاۃ، چاپ اول، 1422ھ۔
  • ‌«بیانات در دیدار دست‌اندرکاران کنگرہ شہدای استان ایلام»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای، تاریخ درج مطلب: 30 آبان 1400ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 23 مرداد 1402ہجری شمسی۔
  • ‌«پیام آیت‌اللہ العظمی نوری ہمدانی بہ سومین یادوارہ شہدای قرآنی»،‌ پایگاہ اطلاع‌رسانی دفتر آیت‌اللہ العظمی نوری ہمدانی،‌ تاریخ درج مطلب: 10 دی 1394ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 23 مرداد 1402ہجری شمسی۔
  • «پیام بہ مناسبت ہفتہ دفاع مقدس و روز تجلیل از شہیدان و ایثارگران»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای، تاریخ درج مطلب: 5 مہر 1397ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 23 مرداد 1402ہجری شمسی۔
  • ‌ «پیام‌ہای تسلیت مراجع تقلید، علما و شخصیت‌ہای حوزوی بہ شہادت سردار سلیمانی»، خبرگزاری میزان، تاریخ درج مطلب: 13 دی 1398ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 مرداد 1402ہجری شمسی۔
  • ‌«تجلیل از مادران، ہمسران و دختران شہدای روحانی قم»، خبرگزاری ایسنا، تاریخ درج مطلب: 18 دی 1396ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 23 مرداد 1402ہجری شمسی۔
  • حاکم حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1411ھ۔
  • ‌ خمینی،‌ سید روح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، 1389ہجری شمسی۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن علی، مفردات الفاظ القرآن، تحقیق صفوان عدنان‏ داوودی، بیروت-دمشق، دار القلم- الدار الشامیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • رسولی محلاتی، ہاشم، ترجمہ روضہ کافی، تحقیق: علی اکبر غفاری، ناشر: انتشارات علميہ اسلاميہ‌، تہران، چاپ اول، 1364ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طباطبائی، المیزان، ناشر منشورات اسماعیلیان، بی تا، بی جا۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر: تفسیر قرآن العظیم، اردن-اربد، دار الکتاب الثقافی، چاپ اول، 2008ء۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح فضل‌اللہ یزدی طباطبایی و سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر بن یزید، جامع البیان فی تفسیر القرآن (تفسیر الطبری)، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • عروسی حویزی، عبدعلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، قم، اسماعیلیان، چاپ چہارم، 1415ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1363ہجری شمسی۔
  • کاشانی، ملا فتح‌اللہ، منہج الصادقین فی الزام المخالفین، تہران، کتابفروشی محمدحسن علمی، 1336ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، نشر صدرا، 1390ہجری شمسی، بی جا۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، تحقیق محمود عبداللہ شحاتہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1423ھ۔
  • مقدس، احسان، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، تہران، نشر مشعر، چاپ سوم، 1388ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، تحقیق كمال بسيونى‏ زغلول، بیروت، درا الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1411ھ۔