کنتوری خاندان

ویکی شیعہ سے
(آل کنتوری سے رجوع مکرر)

کنتوری خاندان ایران کے شہر نیشاپور سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آکر آباد ہونے والے ایک موسوی خاندان کو کہا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اس خاندان نے شیعیت کی ترویج کیلئے بہت زیادہ کوششیں کیں جن کی بدولت یہاں تشیع کو پنپنے کا موقع ملا۔اس خاندان میں بہت سے ایسے علما نے آنکھیں کھولیں جن کی مذہبی خدمات کی بنا پر اس خاندان کا شہرہ ایران ، عراق اور مصر وغیرہ تک پھیلا ہوا تھا۔

خاندانی پس منظر

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے فرزند حمزہ اور کنیت ابوالقاسم[1] بڑے محترم اور جلیل القدر بزرگ تھے۔[2] موسوی سادات کے اکثر گھرانے جو ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔وہ مختلف زمانوں میں نیشا پور سے نکل کر ہندوستان پہنچے ہیں۔وہ اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً نواب سید محمد امین المعروف بہ نواب سعادت خاں برہان الملک بانی سلطنت اودھ کاخاندان، جواودھ اوربنگال میں پھیلا ہوا ہے. شمس آباد، برست وکرنال وغیرہ کے سادات اور اجمیر کے چشتی خاندان بھی نیشاپوری خاندان کی ایک شاخ ہے۔

حمزہ کے دسویں طبقہ سے سید شرف الدین ابوطالب نامی بزرگ آٹھویں صدی ہجری میں اہل و عیال کے ساتھ نیشاپور سے نکل کر ہندوستان میں آباد ہوئے۔انکے ایک صاحبزادے سلطان محمد نے تغلق کی فوج میں ملازمت کی اور جلد ہی ایک ممتاز عہدہ حاصل کر لیا لیکن حسد کی بنا بادشاہ نے انہیں قتل کروا دیا۔جلد ہی تغلق بادشاہ اپنی غلطی پر متوجہ ہوا تو اس نے اپنے گناہ کے جبران میں مقتول سید کے والد سید شرف الدین ابوطالب کو دریا ئے گھاگھرا کے دونوں کناروں پر واقع تقریباً نو سو۹۰۰ موضع پر مشتمل جاگیر سے نوازا، جس کا صدر مقام سید صاحب موصوف نے کنتور قرار دیا۔[3]

حمزہ بن امام موسی کاظم

حمزه کے والد کا نام امام موسی بن جعفر الکاظم(ع) اور کتاب منتخب التواریخ کے بقول انکی والدہ امّ احمد ہیں۔اس بنا پر حمزه شاه چراغ کے لقب سے معروف حضرت احمد بن موسی (ع) کے بھائی ہیں۔ایک اور قول کے مطابق ان کی والدہ ام ولد تھیں [4]اور ان انہیں ابوالقاسم کہا جاتا تھا۔ایک قول کے مطابق مامون عباسی کو حمایتیوں نے انہیں قتل کیا اور حمزہ کے ساتھیوں نے انہیں ری(تہران) کے ایک میں باغ میں دفن کیا۔محسن عاملی کے روایت کے مطابق امام رضا(ع) کے خدمتکاروں میں سے تھے۔مامون عباسی کے عمالوں نے انہیں سوسمار(نا معلوم جگہ) میں قتل کیا۔[5] اور امام نے وہیں باغ میں دفن کیا۔

وجۂ تسمیہ و شہرت

سید شرف الدین ابوطالب نے کنتور میں آباد ہونے کے بعد عبادت و زہد کو اختیار کیا۔ یہیں ان کے صاحبزادے سید عزالدین کے ہاں ابوالمظفر علاءالدین حسین کی پیدائش ہوئی اس کی پیدائش کے بعد یہ خاندان کنتوری کہلانے لگا۔[6] اور کنتوری کے نام مشہور ہو گیا۔

معروف شخصیات

  • مفتی سید محمد علی قلی بن سید محمد حسین کنتوری لکھنوی:1260 ھ میں فوت ہوئے۔صاحب اجتہاد، فارسی، اردو اور عربی ادب کے ماہر ،علوم عقلیہ کے بارع متکلم ،بہترین مؤلف،کثیر علوم کے حامل،مذہب تشیع کے دفاع میں مشغول رہے۔مختلف علوم میں 15 کتابیں تالیف کیں جن میں سے معروف ترین تالیف تشیید المطاعن تھی جو 1283ھ کو ہند میں چھپی۔یہ تحفۂ اثنا عشریہ کے دسویں باب کا جواب ہے۔[7]
  • سید حامد حسین موسوی بن مفتی سید محمد علی قلی کنتوری لکھنوی:18 صفر 1306ھ میں فوت ہوئے۔ أكابر المتكلمين والباحثين ،كلام وجدل میں بے نظیر، اخبار وآثار پر مطلع، واسع الأطلاع، دائم المطالعہ، ...تھے۔امامیہ میں شیخ مفید و سید مرتضی کے بعد اسکی نظیر نا ممکن ہے۔[8] انکی تالیفات کی تعداد 200 کے قریب ہے لیکن ان کی آفاقی شہرت کا سبب عبقات الانوار ہے جو تحفۂ اثنا عشریہ کے باب امامت کا جواب ہے۔
  • سيد اعجاز حسين بن مفتى سيد محمد علي قلی كنتوری :یہ رجب کے ختم ہونے سے 9 دن پہلے 1240ھ کو میرٹھ میں پیدا ہوئے اور 17شوال 1286ھ کو میرٹھ میں فوت ہوئے۔[9]صاحب بحث و تحقیق بالخصوص اہل سنہ اور اہل شیعہ کے درمیان اختلافی مسائل میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کی معروف تالیفات میں كشف الحجب والاستار عن احوال الكتب والأسفار [10] استقصاء الافحام و استیفاء الانتقام فی رد منتہی الکلام اور شذور العقبان فی تراجم الاعیان(چند جلدوں میں) ہیں۔
  • سيد سراج حسين بن مفتي سيد محمد علی قلي :متوفی 1286ھ ہیں۔ عالم كبير، وحكيم فاضل،اپنے زمانے کے حکیم اور فلسفی تھے۔تالیفات اور تصنیفات بھی لکھیں لیکن اپنے خاندان کے دیگر افراد کی مانند وہ شہرت نہ حاصل کر سکیں۔[11]
  • سيد ذاكر حسين بن سيد حامد حسين:یہ ایک ادیب اور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔انکی تصنیفات میں سے الأدعية المأثورةفارسی اور عربی کلام کا مجموعہ ہے۔
  • سید ناصر حسین موسوی بن سید حامد حسین:آپ کی ولادت ۱۹ جمادی الاخری ۱۲۸۴ ھ بروز جمعرات اول وقت نماز صبح بمقام لکھنؤ ہوئی۔[12]اور وفات یکم رجب 1361ھ کو لکھنؤ میں ہوئی۔ناصر الملت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔13 تالیفات لکھیں۔ناصریہ کتابخانہ کی اکثر کتابوں پر تعلیقے انکی علمی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اپنے زمانے میں شیعوں کی علمی مرجعیت کا محور یہی ذات اعلی تھی۔
  • سید محمد سعید بن ناصر حسین:سید ناصر حسین کے فرزند ہیں۔ اپنے دور کے عالم، فاضل، محقق ،مجتہد اور متکلم مانے جاتے تھے۔8محرم 1333ھ میں ولادت اور وفات 12 جمادی الثانی 1378ھ کو ہوئی اور شہید ثالث کے مزار میں اپنے والد کے پاس انہیں دفن کیا گیا۔الامام الثانی عشر نجف اشرف میں سبائک الذہب فی معرفة انساب العرب للسویدی کے جواب میں لکھی۔الایمان الصحیح عقائد صحیحہ کو آیات قرآن کی روشنی میں بیان کیا گیا وغیرہ۔[13]
  • مفتی محمد عباس کنتوری بن سید علی اکبر :آپ کی ولادت آخر ربیع الاول 1224 ھ ق کو لکھنؤ میں ہوئی۔آپ اپنے زمانے کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ 300 کے قریب مختلف علوم میں تالیفات چھوڑیں۔ فارسی اور عربی کی شاعری میں بے نظیر تھے۔ سید ناصر حسین موسوی معروف ناصر الملت کے استاد اور سید العلما سید حسین علیین کے شاگرد تھے۔ 25 رجب 1306ھ ق کو لکھنؤ میں فوت ہوئے اور انہیں امام باڑہ غفران مآب میں دفنایا گیا۔
  • ....

حوالہ جات

  1. ابن عنبہ، عمدة الطالب 228
  2. مجلسی،بحار الانوار تعلیقہ 48/284
  3. مرزا احمد حسن کاظمینی، تذکرۂ ناصر الملت،5،نظامی پریس لکھنؤ
  4. انس الکتبی الحسنی،ص۱۱۲
  5. سید محسن امین عاملی،اعیان الشیعہ، ج۶ ص۲۵۱
  6. مرزا احمد حسن کاظمینی، تذکرۂ ناصر الملت،5،نظامی پریس لکھنؤ
  7. سید ناصر حسین،افحام الاعداء و الخصوم،17۔ سید محسین امین عاملی، اعیان الشیعہ،9/401
  8. سید محسن امین،أعيان الشيعہ 18: 371۔سید ناصر حسین،افحام الاعداء و الخصوم،10
  9. سید اعجاز حسین،کشف الحجب و الستار،مقدمہ ص 2
  10. سید اعجاز حسین،کشف الحجب و الاستار ص (ص: 1)
  11. سيد ناصر حسين ہندی، إفحام الأعداء والخصوم- 11
  12. سيد ناصر حسين ہندي و إفحام الأعداء والخصوم-(ص: 8)
  13. سيد علی میلانی، خلاصہ عبقات الأنوار جلد : 1 وفات : 1306 ھ چاپ : سال چاپ : 1405 ناشر : مؤسسة البعثہ - قسم الدراسات الإسلاميہ - طہران -

مآخذ

  • ابن عنبہ، عمدۃ الطالب،چاپ : الثانيہ،سال چاپ : 1380- 1961 م،چاپخانہ :ناشر : منشورات المطبعہ الحيدريہ - النجف الأشرف (سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)
  • سید محسن امین عاملی،اعیان الشیعہ،وفات : 1371،تحقيق : تحقيق وتخريج : حسن الأمين،ناشر : دار التعارف للمطبوعات - بيروت - لبنان (سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)۔
  • بزرگ تہرانی وفات : 1389،الذریعہ الی تصانیف الشیعہ،چاپ : الثالثہ،سال چاپ : 1403 - 1983 م،ناشر : دار الأضواء - بيروت - لبنان (سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)
  • علامہ مجلسی ،بحار الانوار،چاپ:الثانيہ المصححہ،سال چاپ:1403-1983 م،ناشر:مؤسسۃ الوفاء-بيروت-لبنان۔(سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)۔
  • مرزا احمد حسن کاظمینی،حالات ناصر الملت،ناشر:مرکز احیاء آثار برصغیر،قم۔
  • سید ناصر حسین ہندی، افحام الاعداءو الخصوم، تقديم : دكتور محمد ہادي الأمينی،ناشر : مكتبہ نينوى الحديثہ - طہران۔(سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)
  • سيد علی میلانی، خلاصہ عبقات الأنوار جلد : 1 وفات : 1306 ھ چاپ : سال چاپ : 1405 ناشر : مؤسسہ البعثہ - قسم الدراسات الإسلاميہ - طہران -