اسود بن قطبہ

ویکی شیعہ سے
حلوان کے والی اسود ابن قطیبہ کے نام

دیکھو! جب حاکم کے رجحانات (مختلف اشخاص کے لحاظ سے) مختلف ہوں گے تو یہ امر اس کو اکثر انصاف پروری سے مانع ہو گا۔ لہٰذا حق کی رو سے سب لوگوں کا معاملہ تمہاری نظروں میں برابر ہونا چاہیے، کیونکہ ظلم انصاف کا قائم مقام کبھی نہیں ہو سکتا اور دوسروں کے جن کاموں کو تم برا سمجھتے ہو ان سے اپنا دامن بچا کر رکھو، اور جو کچھ خدا نے تم پر واجب کیا ہے اسے انہماک سے بجا لاتے رہو، اور اس کے ثواب کی امید اور سزا کا خوف قائم رکھو۔ یاد رکھو کہ دنیا آزمائش کا گھر ہے۔ جو بھی اس میں اپنی کوئی گھڑی بے کاری میں گزارے گا تو قیامت کے دن وہ بے کاری اس کیلئے حسرت کا سبب بن جائے گی۔ اور دیکھو کوئی چیز تمہیں حق سے بے نیاز نہیں بنا سکتی اور یہ بھی ایک حق ہے تم پر کہ تم اپنے نفس کی حفاظت کرو اور مقدور بھر رعایا کی نگرانی رکھو۔ اس طرح جو فائدہ تم کو اس سے پہنچے گا وہ اس فائدہ سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہوگا جو تم سے پہنچے گا۔ والسلام[1]

اَسْوَد بن قُطبَہ امام علی کے صحابی اور حُلوان کے علاقے میں آپ کے لشکر کے سپہ سالار تھے۔[2] ان کے نام امام علیؑ کی طرف سے ایک خط لکھا گیا ہے جو نہج البلاغہ میں درج ہے۔[3] امام اس خط میں اسود کو نفس امارہ کی پیروی، ظلم اور لوگوں سے ناانصافی سے اجتناب نیز لوگوں کی خدمت کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔[4] امام کا ایک خط واقعہ صفین میں اسود بن قطنہ (نون کے ساتھ) کے نام موجود ہے جس کا مضمون نہج البلاغہ کے مکتوب 59 کے مشابہ ہے۔[5]

علی احمدی میانجی (متوفی: 1379شمسی) اپنی کتاب مکاتیب الائمہ میں لکھتے ہیں کہ مورخین اور نہج البلاغہ کے شارحین نے اسود کے والد کا نام قطبہ یا قطنہ یا قطینہ کے بارے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں۔[6] شرح ابن میثم بحرانی میں قطینہ درج ہے۔[7] نہج البلاغہ کے آٹھویں صدی ہجری کے شارح ابن ابی الحدید اسود کے نسب کے بارے میں کتاب الاستیعاب کے نظریے کی طرف مائل ہوئے ہیں اور انہیں اسود بن زید بن قطبہ بن غنم انصاری کے نام سے تعارف کرایا ہے۔[8] بعض کا کہنا ہے کہ اسود نے جنگ بدر میں بھی حصہ لیا ہے۔[9]

شیعہ مورخ سید مرتضی عسکری (متوفی: 1386شمسی)، نہج البلاغہ کے مکتوب 59 کے مخاطب اسود بن قطبہ کو سبائی قحطانی سمجھتے ہیں جو اسود بن قطبہ تمیمی کے علاوہ کوئی اور ہے۔[10] ان کی نظر میں اسود تمیمی تاریخ اسلامی کی کوئی جعلی شخصیت ہے۔ حقیقت میں ایسا کوئی شخص نہیں ہے۔[11]


حوالہ جات

  1. مفتی جعفر حسین، ترجمہ نہج البلاغہ، مکتوب:59، 2003ء، ص675
  2. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج3، ص442؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 59، ص449.
  3. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 59، ص449.
  4. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 59، ص449.
  5. منقری، وقعۃ صفین، 1404ھ، ج1، ص106.
  6. احمدی میانجی، مکاتیب الائمہ، 1426ھ، ج1، ص362.
  7. ابن میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج5، ص196.
  8. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج17، ص145.
  9. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج17، ص145.
  10. عسکری، صد و پنجاہ صحابی ساختگی، 1387شمسی، ج2، ص53.
  11. عسکری، صد و پنجاہ صحابی ساختگی، 1387شمسی، ج2، ص53.

مآخذ

  • نہج البلاغہ، تصحیح: صبحی صالح، قم، مؤسسہ دار الہجرہ، 1414ھ۔
  • ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی(رہ)، 1404ھ۔
  • احمدی میانجی، علی، مکاتیب الائمہ، تحقیق: مجتبی فرجی، قم، دار الحدیث، چاپ اول، 1426ھ۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، لبنان، دار التعارف، 1403ھ۔
  • ابن میثم بحرانی، میثم بن علی، شرح نہج البلاغہ، تہران، دفتر نشر الکتاب، 1404ھ۔
  • مفتی، جعفر حسین، ترجمہ نہج البلاغہ، لاہور، المعراج کمپنی، 2003ء۔
  • عسکری، سید مرتضی، صد و پنجاہ صحابی ساختگی، قم، دانشکدہ اصول الدین، 1387ہجری شمسی۔
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، قم، منشورات مکتبۃ آیت اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404ھ۔