دیوان امام علیؑ

ویکی شیعہ سے
دیوان الامام علی(ع)
مشخصات
مصنفامام علیؑ سے منسوب
زبانعربی
طباعت اور اشاعت
مقام اشاعتلیڈن ہالینڈ


دیوان امام علیؑ جو امام علیؑ سے منسوب عربی زبان میں شعری مجموعہ ہے۔ مسلمان علماء اور دانشور، ان اشعار کی ایک مختصر سی تعداد کو امام علیؑ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور باقی کو امام علیؑ کے بارے میں دوسرے شاعروں نے اپنی زبان سے یا ان نظموں سے جو کہ امام علی نے دوسروں سے نقل کی ہیں سمجھا جاتا ہے۔

یہ اشعار امام علیؑ کے بعد کی صدیوں میں جمع کیے گئے ہیں اور ان میں سب سے پرانی عبدالعزیز جلودی (وفات 322 ہجری) کی تالیف ہے۔ مختلف ایڈیشن میں اشعار کی تعداد 190 اور 506 اشعار کے درمیان مختلف اشعار پر منحصر ہے۔ اکثر علماء موجودہ دیوان کو قطب الدین کدری بیہقی (وفات 548 ھ) کی کتاب اَنوار العقول فی اَشعار وَصیِّ الرّسول کے مطابق سمجھتے ہیں۔

ان وجوہات میں سے جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اس دیوان کے زیادہ تر اشعار امام علیؑ کے نہیں ہیں، درج ذیل ہیں: ایسے اشعار کا وجود جو بحر رَجَز میں استعمال ہوئے ہیں کہ جنہیں گلی کوچوں اور بازاروں میں پڑھا جاتا تھا، ایسے اشعار کا وجود کہ جس میں قبائل کی مدح و ثنا، فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اشعار کا ضعیف ہونا، بعض اشعار میں غرور و تکبر کی نمائش، ایسے محاوروں کا استعمال جو ارانیوں، رومیوں اور یونانیوں سے مربوط ہیں، فلسفہ کی ایسی تقسیم بندی جو دوسری صدی میں مسلمانوں نے پیش کی تھی۔

آقا بزرگ تہرانی کے مطابق اس دیوان کی سب سے قدیم چھپائی درج ذیل ہیں: سنہ 1745 ء میں لیڈن (ہالینڈ) کی چھپائی، سنہ 1251 ھ میں بولاق مصر کی چھپائی اور سنہ 1276 ھ میں مصر میں چھپائی اور سنہ 1284 ھ میں تہران میں چھاپی گئی۔ اس دیوان کا فارسی، لاطینی، ترکی اور اردو میں ترجمہ اور شرح کی گئی ہے اور آج کل اس کے متعدد ایڈیشن موجود ہیں۔

اشعار کی نسبت امام علیؑ کی طرف

شیعہ علماء امام علی علیہ السلام کے زیادہ تر اشعار کو ان کا نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر، علامہ مجلسی تمام اشعار امام علیؑ سے منسوب کرنے کے سلسلہ میں مردد ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے بہت سی دوسری کتابوں سے تعلق رکھتے ہیں نیز ابن شہر آشوب سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دیوان علی بن احمد (فَنجگِردی) نام کے ایک نیشاپوری ادیب (وفات 513 ھ) نے تألیف کی ہے۔[1]

حسن حسن زادہ آملی تکملۃ المنہاج البراعہ میں اس کتاب کے اکثر اشعار کو دوسروں کے اشعار سمجھتے ہیں اور ان شعراء کے اسما کو بھی ذکر کیا ہے۔[2]

بعض کے مطابق ان میں سے صرف 10 فیصد اشعار امام علیؑ سے منسوب کئے جا سکتے ہیں اور باقی اشعار یا تو دوسرے دیوان میں موجود ہیں یا پھر دوسرے شعرا سے منسوب ہیں۔[3]

دلائل

اس مسئلے کے لئے کئی دلیلیں بیان کی گئی ہیں کہ امام علیؑ سے منسوب دیوان کے تمام اشعار ان کے نہیں ہیں: قاہرہ کی مکتبۃ الایمان کی تحقیقی کے مطابق کتاب دیوان الامان علی (ع) کے مقدمہ میں امام علی ابن ابیطالب سے منسوب ہونے کے سلسلہ میں دس اعتراضات کئے گئے ہیں۔ جن میں سے بعض یہ ہیں: ایسے اشعار کا وجود جو بحر رَجَز میں استعمال ہوئے ہیں کہ جنہیں گلی کوچوں اور بازاروں میں پڑھا جاتا تھا، ایسے اشعار کا وجود کہ جس میں قبائل کی مدح و ثنا، فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اشعار کا ضعیف ہونا، بعض اشعار میں غرور و تکبر کی نمائش، ایسے بہت زیادہ اشعار کہ جنہیں امام علیؑ نے معاویہ اور عمرو بن عاص کے ساتھ رد و بدل کیا اور اشعار میں عروضی و وزنی خطا کا پایا جانا۔[4]

ان اعتراضات کے علاوہ، کیوان سمیعی نے امام علی علیہ السلام پر ایسے اشعار کے انتساب کو غلط سمجھا ہے جن میں فارسی الفاظ کا وجود، ایرانیوں، رومیوں اور یونانیوں کے بارے میں کہاوتوں کا تذکرہ، مسلمانوں میں فلسفیانہ تقسیم کا وجود جو کہ دوسری صدی ہجری میں پیش آیا اور اس میں پہیلیوں وغیرہ کا وجود جو عربوں میں عام نہیں تھی۔[5]۔

ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ علی ابن ابی طالب میں ادبی ذوھ، فصاحت و بلاغت ہے، انہیں شاعر کہنا بحث کا موضوع رہا ہے۔ بعض جیسے دوسری تیسری صدی ہجری کے ادیب جاحظ اور چھٹی و ساتویں صدی ہجری کے مورخ یاقوت حَمَوی امام علیؑ کو شاعر نہیں سمجھتے۔ جاحظ کہتے ہیں کہ امام علیؑ بحر رجز کے علاوہ شعر نہیں کہتے تھے۔ یاقوت حموی نے بھی دو شعر کے علاوہ باقی اشعار کو امام علیؑ کا شمار نہیں کرتے۔[6]

نیز محمد بن جُریر طبری، ابن قتیبہ، ابن مسکویہ رازی، زمخشری، طبرسی اور شریف رضی جیسے لوگوں نے، اگرچہ امام علیؑ کے اشعار نقل کئے ہیں، انہیں شعراء میں شامل نہیں کیا ہے۔[7]

ان سب کے باوجود شعبی، ابن عبدارَبّہ (نویں اور دسویں صدی ہجری کا عربی شاعر) اور قلقشندی (معاصر مصری مصنف اور شاعر) نے امام کو شاعر کہا اور ابوبکر اور عمر بن خطاب (اور عثمان)) سے بہتر شاعر جانتے ہیں۔[8]

اشعار کی تعداد اور ان کی درجہ بندی

اب تک جو دیوان چھپ چکے ہیں ان میں اشعار کی تعداد بہت مختلف ہے: 190 قطعہ، 355 قطعہ، 374 قطعہ، 455 قطعہ اور 506 قطعہ[9] امام علی (ع) کے دیوان کے بارے میں ایک تحقیقی مضمون میں دیوان کی اشعار کو چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: اِنشاء، حکایت، اِنشاد اور موضوع:

  1. انشاء: خود امام علیؑ کے اشعار۔
  2. حکایتیں: دوسرے شاعروں کے اشعار جنہوں نے امام علیؑ کے کلام کو منظوم کیا ہے۔
  3. انشاد: دوسرے شعراء کے اشعار جنہیں امام علیؑ نے اپنے کلام میں استعمال کیا ہے۔
  4. موضوع: امام علیؑ کے چاہنے والوں کی طرف سے مرتب کئے گئے اشعار۔[10]

ابوالقاسم امامی نے "انوار العقول" کے ترجمے کے مقدمہ میں دیوان کی اشعار کو چھ اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ انہوں نے مذکورہ چار قسموں میں دو مزید قسم شامل کئے ہیں: واقعات کی منظوم شرح جو امام علیؑ سے مربوط ہے اور جنگوں میں اپنے مخالفین کے سامنے رجزخوانی۔[11]

مضمون

امام علیؑ کے دیوان کے اشعار میں مختلف موضوعات کو اٹھایا گیا ہے۔ ان اشعار کے کچھ موضوعات یہ ہیں: منزلت انسان، توحید و خداشناسی، آخرت و معاد، مناجات، مسائل اخلاقی، مدایح و مراثی، وصایا، اپنی پہچان اور رجز۔ ہفتے کے ایام، قسمت، عاقبت، پیری، جوانی، کام اور کوشش، دولت و غربت اور سفر جیسے موضوعات بھی ان اشعار میں نظر آتے ہیں۔[12]

مجموعہ کی تاریخ

محققین کے مطابق اگر ان اشعار کو صحیح طور پر امام علی (ع) کی طرف نسبت دے بھی دی جائے تب بھی وہ اشعار یقینی طور پر خود امام (ع) نے جمع نہیں کئے تھے۔[13] آقا بزرگ تہرانی نے الذریعہ میں سترہ مجموعے لائے ہیں جن میں سے قدیم ترین کا تعلق چوتھی صدی ہجری سے ہے۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  • شعرُ علی نجاشی) کی تعبیر کے مطابق، عبدالعزیز جلودی کی کتاب (وفات 322 ھ)
  • سلوۃ الشیعہ و تاج‌ الاشعار، علی بن احمد فَنجگِردی نیشابوری (وفات 513 ھ)
  • دیوان امیرالمؤمنین، ابن‌ شجری (وفات 543 ھ)
  • الحدیقۃ الانیقیہ، محمد بن حسین کیدری بیہقی (وفات 584 ھ)
  • انوار العقول از محمد بن حسین کیدری بیہقی (وفات 584 ھ)
  • دیوان امیرالمؤمنین علی الروایات الصحیحہ سید محسن امین (جمع آوری 1360 ھ) [14]

آقا بزرگ تہرانی کے مطابق موجودہ دیوان انوار العقول فی اشعار وصی الرسول کیدری بیہقی کا ہی ہے۔[15]

تاہم، سید محسن امین کے مطابق دیوان کا مرتب کرنے والا معلوم نہیں ہے اس لئے کہ ایسے علم کی آگاہی رکھنے والے کے بارے میں ہم جانتے ہیں جیسے جلودی، ابن شجری اور کیدری وغیرہ اور دیوان کا بعض غیر مناسب مطالب پر مشتمل ہونا کہ جس کو امام علیؑ کی طرف منسوب کرنا ممکن نہیں ہے، بعید ہے کہ ایسے پڑھے لکھے افراد ان اشعار کی جمع آوری کریں۔ سید محسن امین کی تنقید میں کہا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ موجودہ دیوان وہی ہے جس کا مجموعہ ان لوگوں سے منسوب کیا گیا ہے۔ نیز یہ مانتے ہوئے کہ موجودہ دیوان کیدری کے ذریعہ جمع کیا گیا ہے، اس نے امام سے منسوب ہر چیز کو محفوظ کرنے کی نیت سے اشعار جمع کرنا شروع کیا۔[16]

چھپائی

دیوان امام علیؑ متعدد بار چھاپا گیا ہے۔[17] آقا بزرگ تہرانی کے مطابق بعض قدیمی چاپ درج ذیل ہیں: بولاق مصر میں سنہ 1251 ھ میں، دوسری چاپ مصر میں سنہ 1276 ھ میں، تیران میں سنہ 1284 شمسی اور مصر کے انتشارات علمیہ میں سنہ 1311 ہجری میں۔ آقا بزرگ تہرانی نے یہ خبر دی ہے کہ لیڈن (ہالینڈ کے نزدیک لاھہ) میں لاٹینی شرح کے ساتھ سنہ 1745 ء میں چھاپی گئی۔[18] دیوان کی بعض دوسری چاپ یہ ہیں: سنہ 1411 ھ میں دارالکتب العربی بیروت میں یوسف فرحات کی شرح چھاپی گئی، مکتبۃ‌الایمان مصر میں مرکز البیان العلمی‌ کی تحقیق کے ساتھ چھاپی گئی اور دار المحجۃ البیضاء میں سلمان الجبوری کی تحقیق کامل کے ساتھ بھی چھاپی گئی۔[19]

ترجمہ اور شرح

دیوان امام علی(ع) کا ترجمہ اور شرح فارسی، لاتٹین، ترکی اور اردو زبان میں ہو چکا ہے۔ بعض ترجمہ یہ ہیں: دیوان حضرت علیؑ، ترجمہ محمد جواد نجفی (1384 ھ)، دیوان امام علیؑ، ترجمہ ابوالقاسم امامی (1373 ش)، دیوان امیرالمؤمنین امام علیؑ، ترجمہ مصطفی زمانی (1362 ش) اور دیوان امیرالمؤمنین کا لاٹینی زبان میں کوی پرس نے سنہ 1745 ء میں ترجمہ کیا ہے۔[20]

اس دیوان کے منظوم ترجمے بھی موجود ہیں، جیسے میرزا ابراہیم امینی ہروی (وفات دسویں ہجری) کا فارسی زبان میں منظوم ترجمہ اور سعد الدین مستقیم زادہ کا ترکی زبان میں منظوم ترجمہ۔ یہ ترجمہ سنہ 1312 ھ میں دمشق میں چاپ ہوا تھا۔[21] اردو زبان میں بھی اس دیوان کا ترجمہ سنہ 1976 ء میں کراچی میں شائع ہوا جس کے مترجم ای شاہد ہیں۔[22] اس دیوان کی شرحوں میں میر حسین بن معین الدین میبدی (وفات 909 ھ) کی شرح ہے کہ جسے سنہ 1379 ش میں حسن رحمانی و سید ابراہیم اشک نے تصحیح کیا اور مرکز نشر میراث مکتوب کی طرف سے شائع ہوئی۔[23]

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۴۲۔
  2. حسن‌ زادہ آملی، منہاج‌ البراعہ، ۱۴۰۰، ج۱۵، ص۳۰۶-۳۱۳۔
  3. خوشنویسان و سبزیان‌پور، پژوہشی در اسناد دیوان امام علی(ع)، ۱۳۹۳ش، ص مقدمہ۔
  4. مہریزی، «دیوان امام علی(ع)»، ص۲۲۶-۲۲۱۔
  5. مہریزی، «دیوان امام علی(ع)»، ص۲۲۶-۲۲۱
  6. زیلاوی، «کتاب شناسی توصیفی منظومہ فی سرّ»، ص۴۱۔
  7. زیلاوی، «کتاب شناسی توصیفی منظومہ فی سرّ»، ص۴۱۔
  8. زیلاوی، «کتاب شناسی توصیفی منظومہ فی سرّ»، ص۴۱۔
  9. مہریزی، «دیوان امام علی(ع)»، ص۲۲۶۔
  10. حسینی جلالی، «پژوہشی دربارہ دیوان امام علی(ع)»، ص۷۵۲-۷۵۴ ۔
  11. مہریزی، «دیوان امام علی(ع)»، ص۲۲۵۔
  12. مہریزی، «دیوان امام علی(ع)»، ص۲۳۶-۲۴۰۔
  13. مہریزی، «دیوان امام علی(ع)»، ص۲۱۷۔
  14. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، بیروت، ج۹، ص۱۰۱-۱۰۲۔
  15. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، بیروت، ج۲، ص۴۳۱-۴۳۴۔
  16. حسینی جلالی، «پژوہشی دربارہ دیوان امام علی(ع)»، ص۷۵۶۔
  17. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، بیروت، ج۹، ص۱۰۲۔
  18. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، بیروت، ج۹، ص۱۰۲۔
  19. مہریزی، «دیوان امام علی(ع)»، ص۲۲۷-۲۲۸۔
  20. مهریزی، «دیوان امام علی(ع)»، ص۲۲۸-۲۲۹.
  21. حسینی جلالی، «پژوہشی دربارہ دیوان امام علی(ع)»، ص۷۶۱۔
  22. مہریزی، «دیوان امام علی(ع)»، ص۲۲۹۔
  23. مہریزی، «دیوان امام علی(ع)»، ص۲۲۹۔

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، چاپ دوم، بے‌تا۔
  • حسن‌ زادہ آملی، حسن، منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ، تہران، مکتبۃالاسلامیہ، ۱۴۰۰ھ۔
  • حسینی جلالی، محمد حسین، «پژوہشی دربارہ دیوان امام علی(ع)»، ترجمہ جویا جہانبخش، در آینہ پژوہش، شمارہ ۶۶، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
  • خوشنویسان، لیلا و وحید سبزیانپور، پژوہشی در اسناد دیوان منسوب بہ امام علی (ع)، تہران، یار دانش، ۱۳۹۳ ہجری شمسی۔
  • زیلاوی، نگار، «کتاب شناسی توصیفی کتاب «منظومۃ فی سرّ اسم اللہ الاعظم» از علی بن ابی‌ طالب (ع)»، در کتاب ماہ دین، شمارہ ۳۷، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء‌ التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مہریزی، مہدی، «دیوان امام علی (ع)»، در دانشنامہ امام علی (ع)، ج۱۲، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۰ ہجری شمسی۔