مہمان نوازی

ویکی شیعہ سے

مہمان‌ نوازی مسلمانوں کے ہاں رائج اسلامی آداب و سنت میں سے ہے۔ عام طور پر عید غدیر،‌ عید فطر، شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش اور گھر کی خریداری وغیرہ کے موقعوں پر مہمان نوازی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ فرمانِ پیغمبرخداؐ کے مطابق مہمان اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے، مہمان کی آمد میزبان کے گھر میں رزق روزی کا سبب اور اس کا واپس جانا میزبان کے گناہوں کی بخشش کا باعث بنتا ہے۔
مہمان کی خدمت، اس کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا، اس کے سامنے خندہ پیشانی سے پیش آنا اور نامحرموں کے ساتھ نشست وبرخاست کرنے سے پرہیز کرنا میزبانی کے آداب میں سے ہیں۔ مہمان کو بھی چاہیے کہ جب اسے دعوت دی جائے تو اسے قبول کرے اور جس کو دعوت نہیں دی گئی اسے اپنے ہمراہ لے جانے سے اجتناب کرے اور 3 دن سے زیادہ میزبان کے ہاں مت ٹھہرے۔
فقہائے شیعہ کے مطابق جو مہمان میزبان کے ہاں چاند رات میں غروب آفتاب سے پہلے چلا جائے اور اس کا نان خور شمار ہوتا ہو اس کا فطرانہ دینا مہمان پر واجب ہے۔ مہمانی سے متعلق ایک اور حکم یہ ہے کہ جس دسترخوان پر شراب اور فقاع سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہو اس دسترخوان پر بیٹھنا حرام ہے۔

اہمیت

علمائے اسلام مہمان نوازی کو سنت رسول خداؐ کی پیروی کا نمونہ[1] اور احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس کے ترک کرنے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔[2] پیغمبر اسلامؐ کے فرمان کے مطابق مہان اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے جو اپنا رزق و روزی خود لے آتا ہے اور اس کا واپس جانا مہمان کے گناہوں کی بخشش کا باعث بنتا ہے۔[3] علامہ مجلسی نے حضرت امام علیؑ کی مہمان نوازی میں انتہائی دلچسپی کے سلسلے میں ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام علیؑ نے ایک ہفتہ اپنے گھر مہمان نہ آنے پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔[4]

جس شخص نے ایک مہمان کا اکرام کیا بے شک اس نے 70 انبیاء کا اکرام کیا اور جس نے ایک درہم مہمان پر خرچ کیا گویا اس نے ایک لاکھ دینار راہ خدا میں انفاق کیا۔[5]

مسلمانوں کے ہاں رائج ہے کہ مختلف مناسبتوں جیسے عید غدیر،[6] عید فطر،[7] شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش اور گھر کی خریداری پر دعوتوں کا اہتمام کرکے مہمانوں کو اپنے ہاں بلاتے ہیں۔[8] ایران میں عید نوروز کے موقع پر[9] اور عراق میں اربعین حسینی کے موقع پر زائرین حسینی کی مہمانداری کو اہمیت دی جاتی ہے۔[10]

آداب

احادیث، کتب اخلاقی اور بعض تفاسیر میں مہمان نوازی سے متعلق آداب بیان کیے گئے ہیں جن میں سے بعض مہمان سے متعلق جبکہ کچھ آداب میزبان سے متعلق ہیں۔ ان میں سے اہم آداب یہ ہیں: مہمان نوازی میں قصد قربت ہونا چاہیے[11] اور ریاکاری سے پرہیز کرنا چاہیے۔[12]

جو شخص کسی مومن کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اس کے اخروی اجر کی مقدار کے بارے میں سوائے پروردگار کے کوئی نہیں جانتا، نہ اللہ کے مقرب فرشتے اور نہ ہی کوئی نبی مرسل اس عمل کے اخری اجر و ثواب کو جانتا ہے۔[13]

میزبانی کے آداب

  • بہتر یہ ہے کہ بد کردار لوگوں کے بجائے نیک لوگوں کو دعوت کی جائے؛[14]
  • اپنے عزیز و اقارب کو دعوت کی جائے تاکہ خاندانی لحاظ سے روابط مستحکم ہوں اور صلہ رحمی کا حق ادا ہوجائے؛[15]
  • تکلّف اور زحمت میں ڈالنے سے پرہیز کیا جائے؛[16]
  • مہمان کے ساتھ خندہ پیشانی اور نیک رفتاری کے ساتھ پیش آنا؛[17]
  • مہمانی میں نامحرموں کی موجودگی کی صورت میں محرم و نامحرم کا خیال رکھا جائے؛[18]
  • مہمان سے سوال نہ کیا جائے کہ اس نے کھانا کھایا ہے یا نہیں؛[19]
  • کافی مقدار میں کھانے کا اہتمام کیا جائے (تاکہ کھانا کم ہونے کی صورت میں شرمندگی کا باعث نہ بنے)؛[20]
  • میزبان کو چاہیے کہ سب سے پہلے کھانا شروع کرے اور سب سے آخر میں کھانے سے ہاتھ اٹھائے؛[21]
  • مہمان سے کوئی کام نہ لے؛[22]
  • نماز کے اوقات میں اس کی طرف طرف توجہ دلائے؛[23] قبلہ رخ اور وضو خانہ کی نشاندہی کی جائے؛[24]
  • مہمان کو خدا حافظی کرتے ہوئے گھر کے دروازے تک پہنچایا جائے۔[25]

مہمانی پر جانے کے آداب

  • میزبان کی دعوت کو قبول کیا جائے؛[26]
  • صرف کھانے اور پیٹ بھرنے کے لیے میزبان کی دعوت کو قبول نہ کیا جائے(بلکہ اس میں اخلاقی پہلو کا خیال بھی رجھا جائے)؛[27]
  • مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی اجازت سے اس کے گھر میں داخل ہوں[28] اور اس کو سلام کرے؛[29]
  • اس جگہ بیٹھے جہاں میزبان کہے؛[30]
  • عورتوں کے آمنے سامنے ہو کر مت بیٹھے؛[31]
  • شائستہ نہیں ہے کہ گناہ کی مہمانیوں میں شرکت کی جائے؛[32]
  • مہمانی کے دورانیے کو کم کرے اور 3 دن سے زیادہ کسی کے ہاں مہمان مت ٹھہرے؛[33]
  • جو کھانا تیار کیا گیا ہے اسے کو قبول کر کے کھائے؛[34]
  • میزبان کی رضایت کے بغیر مسحبی روزہ مت رکھے اور اگر میزبان روزہ رکھنے سے منع کرے تو مہمان کو چاہیے کہ مستحبی روزہ رکھنے سے پرہیز کرے؛[35]
  • کھانے کے حلال ہونے کے بارے میں سوال کرنے سے پرہیز کرے؛[36]
  • اضافی کھانے کو اپنے ساتھ مت لے جائے مگر یہ کہ میزبان راضی ہو؛[37]
  • دعوت پر جانے سے پہلے ہی شرط رکھے کہ میزبان خود کو تکلیف میں نہیں ڈالے گا اور تکلفات سے دور رہے گا؛[38]
  • جس کو دعوت نہیں اسے اپنے ساتھ لے جانے سے پرہیز کرے؛[39]
  • شائستہ یہ ہے کہ میزبان کی اجازت سے مہمان اٹھے؛[40]
  • خندہ پیشانی کے ساتھ میزبان کا گھر چھوڑے اگرچہ مہمان کے حق میں کوتاہی ہوئی ہو[41]

شرعی احکام

شیعہ فقہاء نے مہمان نوازی کے سلسلے میں کچھ شرعی احکام بیان کیے ہیں ان یں سے چند یہ ہیں:

  • مراجع تقلید کے فتوا کے مطابق اگر مہمان کو معلوم ہوجائے کہ مہمانی کا کھانا غیر مخمس مال سے مہیا کیا گیا ہے تو اسے کھانے سے پرہیز کیا جائے۔[42]
  • جو مہمان شب عید فطر کے غروب آفتاب سے پہلے میزبان کے گھر میں داخل ہوں اگر اس کا نان خور محسوب ہو تو اس صورت میں مہمان کا فطرانہ میزان پر واجب ہوگا۔[43]
  • بعض شیعہ فقہاء کےمطابق اگر میزبان کے گھر میں کوئی جگہ یا فرش وغیرہ نجس ہوجائے اور وہ نجاست مہمان کے جسم یا لباس پر لگے تو میزبان پر واجب ہے کہ اسے بتایا جائے۔[44]
  • سید کاظم یزدی کے فتوا کے مطابق اگر تیار کردہ کھانا نجس ہوجائے تو میزبان کو چاہیے کہ اس کی بابت مہمان کو مطلع کیا جائے۔[45]
  • جس دسترخوان پر شراب اور فقاع رکھے گئے ہوں اس پر بیٹھنا حرام ہے۔[46]

مونوگرافی

مہمان نوازی اور اس کے آداب و سنن کے بارے میں مختلف زبانوں میں متعدد کتابیں تالیف کی گئی ہیں ان میں سے ایک فارسی زبان میں تالیف شدہ "فرہنگ‌ نامهٔ مہمانی" نامی کتاب ہے جسے محمد محمدی ریے شہری نے تالیف کی ہے اور اسے مؤسسهٔ علمی فرهنگی دارالحدیث نے شائع کیا ہے۔[47]

حوالہ جات

  1. نراقی، معراج السعادة، 1386شمسی، ص345۔
  2. حر عاملی، وسائل الشیعة، 1409ھ، ج24، ص316۔
  3. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج72، ص461۔
  4. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج41، ص28۔
  5. دیلمی، ارشادالقلوب،‌ 1371شمسی، ج1، ص138۔
  6. باقی‌ زاده، «بزرگداشت عید غدیر در پرتو آداب آن»، ص35۔
  7. هاشمی، «مروری بر آداب عید فطر در میان مسلمانان»، ص137۔
  8. موسسة دائرة المعارف الفقه الاسلامی، المعجم الفقهی لکتب الشيخ الطوسی، 1424ھ، ج6، ص559۔
  9. پاک‌ نیا تبریزی، «نگاهی نو به جایگاه عید نوروز»، ص13۔
  10. شراهی، «واکاوی ادراک زائران از رفتار خادمان در اربعین»، ص115۔
  11. نراقی، معراج السعادة، 1386شمسی، ص345۔
  12. نراقی، معراج السعادة، 1386شمسی، ص345۔
  13. دیلمی، ارشاد القلوب،‌ 1371شمسی، ج1، ص147۔
  14. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص33۔
  15. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص33-34۔
  16. حمیری، قرب الاِسناد، 1413ھ، ص75۔
  17. قمی، سفینة‌ البحار، 1414ھ، ج5، ص270۔
  18. سید مرتضی، أمالی المرتضی، 1998ء، ج1، ص208۔
  19. قرائتی، تفسیر نور، 1388شمسی، ج9، ص253۔
  20. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص42۔
  21. کلینی،‌ الکافی، 1363شمسی، ج6، ص285۔
  22. کلینی،‌ الکافی، 1363شمسی، ج6، ص283۔
  23. ورام، مجموعه ورام، 1410ھ، ج1، ص48۔
  24. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص38۔
  25. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج72، ص451۔
  26. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص34۔
  27. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص37۔
  28. محمدی ری‌ شهری، فرهنگ‌ نامه مهمانی، 1390شمسی، ص113۔
  29. قرائتی، تفسیر نور، 1388شمسی، ج9، ص253۔
  30. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج72، ص451۔
  31. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص38۔
  32. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص36۔
  33. کلینی، الکافی، 1363شمسی، ج6، ص283۔
  34. قرائتی، تفسیر نور، 1388شمسی، ج9، ص253۔
  35. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص189؛ خمینی، تحریر الوسیله، ناشر: موسسه تنظيم و نشر آثار امام خمينى( ره)، ج1، ص286۔
  36. محمدی ری‌شهری، فرهنگ‌ نامه مهمانی، 1390شمسی، ص153۔
  37. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص44۔
  38. محمدی ری‌شهری، فرهنگ‌ نامه مهمانی، 1390شمسی، ص111۔
  39. محمدی ری‌شهری، فرهنگ‌ نامه مهمانی، 1390شمسی، ص147۔
  40. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص45۔
  41. فیض کاشانی، محجة‌ البیضاء، 1417ھ، ج3، ص44۔
  42. «پرتال امام خمینی»
  43. طباطبائی یزدی، عروة الوثقی، 1423ھ، ج4،‌ص207-208۔
  44. طباطبائی یزدی، عروة الوثقی، 1423ھ، ج1، ص194۔
  45. طباطبائی یزدی، عروة الوثقی، 1423ھ، ج1، ص194-195۔
  46. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج3، ص183؛ «وبگاه پاسخگویی به سوالات دینی هدانا».
  47. محمدی ری‌شهری، فرهنگ‌نامه مهمانی، 1390شمسی،‌ ص7۔

مآخذ

  • «پرتال امام خمینی»، تاریخ بازدید 10 دی 1402ہجری شمسی۔
  • «وبگاه پاسخگویی به سوالات دینی هدانا»، تاریخ بازدید 12 دی 1402ہجری شمسی۔
  • باقی‌زاده، رضا، «بزرگداشت عیدغدیر در پرتو آداب آن»، مندرج در مجله پاسدار اسلام، شماره 255، 1382ہجری شمسی۔
  • پاک‌نیا تبریزی، عبدالکریم، «نگاهی نو به جایگاه عید نوروز»، مندرج در مجله مبلغان، شماره 138، 1389ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصيل وسائل الشيعة إلى تحصيل مسائل الشريعة، قم، مؤسسة آل‌ بیت علیهم السلام، چاپ اول، 1409ھ۔
  • حمیری، عبد الله بن جعفر، قرب الاِسناد، قم، مؤسسة آل‌ بیت علیهم السلام، چاپ اول، 1413ھ۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب، قم، الشریف الرضی، 1371ہجری شمسی۔
  • شراهی، اسماعیل، «واکاوی ادراک زائران از رفتار خادمان در اربعین»، مندرج در مجله دین و ارتباطات، شماره 55، 1398ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، أمالی المرتضی، قاهره، دار الفکر العربی، چاپ اول، 1998ء۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاه‌مرتضی، المحجة البیضاء، قم، دفتر نشر اسلامی (جامعه مدرسین)، 1417ھ۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تهران، مرکز فرهنگی درس‌هایی از قرآن،‌ چاپ اول، 1388ہجری شمسی۔
  • قمی،‌ عباس، سفینة البحار و مدینة الحکم و الآثار، قم، اسوه، چاپ اول، 1414ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الاسلامیة، 1363ہجری شمسی۔
  • مؤسسة دائرة المعارف الفقه الاسلامی، المعجم الفقهی لکتب الشيخ الطوسی، قم، مؤسسة دائرة المعارف الفقه الاسلامی، 1424ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • محقق حلی، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • محمدی ری‌شهری، محمد، فرهنگ‌ نامه مهمانی، قم،‌ مؤسسه علمی فرهنگی دارالحدیث، 1390ہجری شمسی۔
  • نراقی، ملا احمد، معراج السعادة، قم، انتشارات قائم آل محمد، چاپ پنجم، 1386ہجری شمسی۔
  • ورام بن ابی‌ فراس، مسعود بن عیسی، مجموعة ورّام، قم، مکتبه فقیه، چاپ اول، 1410ھ۔
  • هاشمی، سید علی رضا، «مروری بر آداب عید فطر در میان مسلمانان»، مندرج در مجله فرهنگ مردم ایران، شماره 53 و 54، 1397ہجری شمسی۔