مدرسہ ایمانیہ

ویکی شیعہ سے
مدرسہ ایمانیہ
دینی مدرسہ
ابتدائی معلومات
بانیسید بندہ علی، خورشید علی‌خان اور خورشید علی کی بیگم
تاسیس1287ھ (1861ء)
استعمالحوزہ علمیہ
محل وقوعبَنارَس ہندوستان؛ ریاست اترپردیش
دیگر اسامیمجمع العلوم الجامعۃ الایمانیۃ • جامعہ ایمانیہ
مشخصات
سہولیاتلائبریری
معماری


مدرسہ ایمانیہ یا مَجمَعُ العُلومِ الجامعۃِ الایمانیّۃ ہندوستان کے شہر بنارس کا پہلا اور قدیم ترین شیعہ دینی مدرسہ ہے۔ اس مدرسے کو سید بندہ علی نے 1287ھ میں قائم کیا اور اس کا انتظام ان کی اہلیہ اور اوقاف کی مدد سے کیا جاتا تھا۔ ہندوستان کی آزادی اور نئے قوانین کی منظوری اور مناسب انتظام کے فقدان کے باعث جامعہ ایمانیہ ایک طویل عرصے تک بند رہاار رہا یہاں تک کہ 1983 میں سید محمد حسینی نامی شیعہ عالم دین کی کوششوں سے یہ دوبارہ پروان چڑھا۔ شروع سے ہی مدرسہ ایمانیہ ہندوستانی علماء کی درسگاہ رہا ہے جنہوں نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی اور فارغ التحصیل ہوئے۔ یہ مدرسہ اب ہندوستان کے فعال مدرسوں میں سے ایک ہے۔

اہمیت

مدرسہ ایمانیہ کا اندرونی منظر

مَجمَعُ العُلومِ الجامعۃِ الایمانیّۃ یا مدرسہ ایمانیہ برصغیر پاک و ہند کا سب سے قدیم شیعہ مدرسہ ہے۔[1] بَنارَس ہندوستان میں ہندوؤں کا اہم اور مقدس شہروں میں شمار ہوتا ہے[2] اور جامعہ ایمانیہ پہلا سرکاری اور مکمل مدرسہ تھا جو ایک آزاد شیعہ مدرسے کے طور پر چلایا جاتا تھا۔ یہ مدرسہ ایک عمارت، ہاسٹل بلاک، ایڈمن بلاک، کتب خانہ اور کلاس روم پر مشتمل ہے۔[3] اس سے پہلے دینی طلاب کی تعلیمی اور تبلیغی ضروریات ان علمی مراکز تک محدود تھیں جو ہر علاقے کے مشہور علما اور امام بارگاہوں سے منسوب تھیں۔[4]

ابتدا ہی سے جامعہ ایمانیہ نے اسلام اور شیعیت کے لیے بہت سی خدمات انجام دی ہیں اور بہت سے ہندوستانی اساتذہ اور علما نے اسی مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے اور فارغ التحصیل ہوئے ہیں،[5] جن میں سید محمد یوسف زنگی پوری (استاذ العلماء)، سید ظفر الحسن رضوی (مدیر حوزہ علمیہ جوادیہ)، علامہ سید مجتبی کاموپوری (علی گڑھ یونیورسٹی کے شبعہ الہیات کے انچارج)، مولانا سید رسول‌احمد گوپالپوری (فخر المدرسین) و سید راحت‌حسین گوپالپوری قابل ذکر ہیں۔[6]

کہا جاتا ہے کہ یہ مرکز، شیعوں کے دیگر مراکز کے ساتھ جیسے؛ مدرسہ جوادیہ اور حزین لاہیجی کا مقبرہ، بنارس میں شیعہ ثقافت اور تاریخ کے اجتماع کا سبب بنا ہے۔[7]

قیام

جامعہ ایمانیہ 1287ھ بمطابق سنہ 1861ء کو ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے بنارش شہر میں قائم کیا گیا۔ سید بندہ علی اور بنارس کے زمیندار مولوی خورشید علی خان نے اس کی بنیاد رکھی اور اپنی ذاتی جائیدادیں اس کام کے لیے خرچ کر دیں۔[8] مولوی خورشید علی کی سنہ 1282ھ میں وفات کے بعد ان کی اہلیہ نے اس کام کو جاری رکھا اور 1866ء میں کافی موقوفات کے ہمراہ مدرسے کی تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔[9] ان کے بعد سید علی جواد زنگی پور بنارسی (متوفی 1339ھ) جو کہ ہندوستان کے فقہاء میں سے تھے، نے مدرسے کی ترقی کے لیے بہت کوششیں کیں۔[10] ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سید محمد سجاد بنارسی (متوفی 1347ھ) نے مدرسے کی ذمہ داری سنبھالی۔[11]

ماضی میں مدرسے کی حالت

مدرسہ ایمانیہ قیام کے آغاز سے ہی بہت سی جائیدادیں اور موقوفات کا مالک تھا جو مدرسے کی آمدنی کا ذریعہ تھیں لیکن ہندوستان کی آزادی اور زمین کی ملکیت کے نئے قوانین کی منظوری کے بعد، لوگوں کی عصری علوم اور اس کی ڈگری کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان، صحیح مدیریت کا فقدان اور بنارس میں شیعہ آبادی کی کمی کے باعث یہ مدرسہ بند ہوگیا۔[12] سنہ 1983ء میں شیعہ عالم دین اور بنارس کے امام جمعہ سید محمد حسینی نامی شیعہ عالم کی کوششوں سے مدرسہ دوبارہ کھل گیا۔[13]

موجودہ حالت

جامعہ ایمانیہ بنارس مختلف تعلیمی، تحقیقی اور علمی شعبوں میں سرگرم ہے اور ہندوستان کو ثقافتی، تبلیغی اور مذہبی خدمات فراہم کرتا ہے۔[14] "شمس الافاضل" اس مدرسے کی اعلیٰ ترین ڈگری ہے جو طلاب کو دی جاتی ہے۔[15] سید صادق حسینی اشکوری کے مطابق بنارس کے دوسرے شیعہ مدارس کی طرح مدرسہ ایمانیہ کی لائبریری میں موجود خطی نسخوں کی فہرست نگاری اور تصویر کشی کی گئی ہے۔[16]

حوالہ جات

  1. «جامعہ ایمانیہ»، علمائے ہند ویب سائٹ۔
  2. رضایی، حضور علمی شیعیان در جہان، 1397شمسی، ص132۔
  3. جعفری محمدی، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، 1397شمسی، ص412۔
  4. «آیندہ فعالیت‌ہای علمی حوزہ‌ہای علمیہ ہند بسیار روشن است»، خبرگزاری رسا۔
  5. جعفری محمدی، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، 1397شمسی، ص412۔
  6. جعفری محمدی، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، 1397شمسی، ص413و414؛ محمدی، «جریان‌شناسی علمی و دینی در ہند»، ص148۔
  7. حسینی اشکوری، شش مقالہ ہندی، 1392شمسی، ص20۔
  8. جعفری محمدی، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، 1397شمسی، ص411۔
  9. رضایی، حضور علمی شیعیان در جہان، 1397شمسی، ص132۔
  10. محمدی، «جریان‌شناسی علمی و دینی در ہند»، ص151؛ نقوی، تراجم مشاہیر علماء الہند، 1435ھ، ص283۔
  11. محمدی، «جریان‌شناسی علمی و دینی در ہند»، ص152۔
  12. جعفری محمدی، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، 1397شمسی، ص413۔
  13. جعفری محمدی، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، 1397شمسی، ص413۔
  14. «آیندہ فعالیت‌ہای علمی حوزہ‌ہای علمیہ ہند بسیار روشن است»، خبرگزاری رسا۔
  15. فیضان‌جعفر، مراکز علمی آموزشی شیعیان در اودہ؛ از اقتدار یافتن انگلیس تا استقلال ہند، ص219۔
  16. حسینی اشکوری، فہرست نسخہ‌ہای خطی کتابخانہ مدرسہ مظہر العلوم، 1386شمسی، ص11و12۔

مآخذ

  • «آیندہ فعالیت‌ہای علمی حوزہ‌ہای علمیہ ہند بسیار روشن است»، خبرگزاری رسا، تاریخ انتشار خبر: 09 آبان 1388ہجری شمسی۔
  • «جامعہ ایمانیہ»، سایت علمای ہند، تاریخ بازدید: 12 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • جعفری محمدی، غلام‌جابر، نقش شیعہ در گسترش علوم اسلامی در شبہ قارہ ہند، قم، امام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
  • حسینی اشکوری، فہرست نسخہ‌ہای خطی کتابخانہ مدرسہ مظہر العلوم، قم، مجمع ذخائر اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
  • حسینی اشکوری، صادق، شش مقالہ ہندی، قم، مجمع ذخائر اسلامی، 1392ہجری شمسی۔
  • رضایی، حسن، حضور علمی شیعیان در جہان، قم، امام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
  • فیضان جعفر، علی، مراکز علمی آموزشی شیعیان در اودہ؛ از اقتدار یافتن انگلیس تا استقلال ہند (1857م تا 1947م)، تاریخ اسلام، بہار 1399 - شمارہ 81.
  • محمدی، محسن، «جریان‌شناسی علمی و دینی در ہند؛ علما و اندیشمندان شیعہ در منطقہ»، دوفصلنامہ جریان‌شناسی دینی - معرفتی در عرصہ بین‌الملل، شمارہ 7، بہار 1394ہجری شمسی۔
  • نقوی، علی‌نقی، تراجم مشاہیر علماء الہند، کربلا، مکتبۃ العتبۃ العباسیۃ المقدسۃ، 1435ھ۔