مسودہ:ویلیم مونٹگمری واٹ
| ویکی شیعہ میں مقالات «شیعہ نقطہ نظر» سے تحریر کئے جاتے ہیں، اس موضوع کے دیگر پہلوؤں سے آشنائی کے لئے دوسرے منابع کی طرف رجوع کریں۔ |
| اسلام و پیغمبر شناس عیسائی | |
|---|---|
| ذاتی کوائف | |
| نام: | ویلیم مونٹگری واٹ (William Montgomery Watt) |
| پیدائش: | 1909ء |
| تعلیم: | فلسفہ، عربی اور اسلامی مطالعات |
| پیشہ/مہارت: | اسلامشناسی، سیرہ و تاریخ پیغمبر اکرمؐ |
| خدمات | |
| سماجی خدمات: | اسلام، قرآن، سیرت اور شخصیت پیغمبر اکرمؐ، فلسفہ اسلامی |
| علمی خدمات: | عربی اور اسلامی مطالعات کے پروفیسر، اڈینبورگ یونیورسٹی کے شعبہ عربی و اسلامیات کے سربراہ |
| قلمی آثار: | محمد مکہ میں، محمد مدینہ میں، محمد پیغمبر اور سیاستدان، تاریخ اسلام، فلسفہ و کلام اسلامی، قرون وسطی میں مغرب پر اسلام کے اثرات، مسلمان اور عیسائی نظریات کا تعامل |
ویلیم مونٹگمری واٹ (1909-2006ء)، ایک عیسائی اسلام شناس اور مستشرق تھے، جو پیغمبر اسلامؐ کی سیرت اور شخصیت پر گہرے مطالعات رکھتے تھے اور مغرب میں اسلام کے ممتاز غیر مسلم مفسروں میں شمار ہوتے تھے۔ اسلامی دنیا میں ان کی شہرت سیرت نبوی پر لکھی گئی کتابوں کی وجہ سے ہے، جن میں "محمد مکہ میں"، "محمد مدینہ میں" اور "محمد پیغمبر و سیاستدان" وغیرہ شامل ہیں۔
ان کے تحقیقی اور مطالعاتی موضوعات میں اسلام، قرآن اور پیغمبر اکرمؐ کی سیرت و شخصیت نیز اسلامی فلسفہ شامل تھے۔ ان موضوعات پر ان کی 30 سے زائد کتابیں اور درجنوں مضامین شائع ہوئے ہیں، جن میں سے بعض مختلف زبانوں بشمول فارسی میں ترجمہ بھی ہوچکے ہیں۔
واٹ کو ان کی تحقیق اور تصنیف میں ایک منصف مزاج، اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے لئے خیر خواہانہ جذبات رکھنے والے انسان کے طور پر جانا جاتا ہے؛ تاہم ان کے بعض نظریات خاص طور پر وحی اور سیرت نبوی سے متعلق نظریات پر مسلم علماء کی طرف سے ان کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اسلام کے بارے میں واٹ کے بعض نادرست نظریات کی اصل وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اسلام کو عیسائی نقطہ نظر اور مغربی زاویہ فکری سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
اہمیت
ویلیم مونٹگمری واٹ (انگریزی: William Montgomery Watt) ایک عیسائی اسلام شناس اور مستشرق تھے اور یونیورسٹی آف ایڈنبراک کے عربی زبان اور اسلامی مطالعات کے پروفیسر تھے۔[1] وہ اس یونیورسٹی میں اسی شعبے کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔[2] واٹ کو بیسویں صدی میں سیرت نبوی کے ممتاز اور مشہور محققین[3] اور مغرب میں اسلام کے نمایاں غیر مسلم مفسروں میں شمار کیا جاتا ہے۔[4] کہا جاتا ہے کہ عالم اسلام میں واٹ کی شہرت سیرت نبوی پر لکھی گئی 5 بنیادی کتابوں کی وجہ سے ہے جن میں "محمد مکہ میں" اور "محمد مدینہ میں" نامی دو کتابیں شامل ہیں۔[5] یہ دو تصانیف پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں لکھی گئی بہترین کتابوں میں شمار ہوتی ہیں۔[6]

واٹ کے تحقیقی اور مطالعاتی موضوعات میں اسلام، قرآن اور پیغمبر اکرمؐ کی سیرت و شخصیت نیز اسلامی فلسفہ شامل تھے۔[7] کہا جاتا ہے کہ تاریخ اسلام اور سیرت نبوی پر ان کی تصانیف مسلم اور غیر مسلم دانشوروں میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔[8]یہ بھی مشہور ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان پرامن مکالمے کو فروغ دینے کے لئے وقف کردی تھی۔[9]
رچرڈ بیل کی کتاب "انٹروڈکشن ٹو دی قرآن" پر واٹ کی اصلاحات اور تشریحات قرآنیات میں ایک بڑی تبدیلی سمجھی جاتی ہے۔[10] خصوصاً اس لئے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ قرآن کی الہامی حیثیت کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدہ کو سنجیدگی سے علمی تحقیقات کا حصہ بنایا۔[11] جبکہ ان سے پہل کے مستشرقین منجملہ رچرڈ بیل، قرآن کو حضرت محمدؐ کی فکر کا نتیجہ سمجھتے تھے نہ کہ وحی الہی۔[12]
کہا جاتا ہے کہ مونٹگمری واٹ اپنی واضح فکری روش، منصف مزاجی اور پیغمبر اکرمؐ کی تاریخ اور سیرت کے بارے میں خیر خواہانہ نظریات کی وجہ سے مسلمان دانشوروں اور محققین میں نیک نامی کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں اور ان کی تصانیف مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بنی ہیں۔[13] ان کی تصانیف کے فارسی اور عربی ترجموں کا منظر عام پر آنا اور ان میں سے بعض کے متعدد ایڈیشنز کا شائع ہونا، مسلمانوں کے یہاں ان کی مقبولیت کی اہم علامت و نشانی سمجھا جاتا ہے۔[14]
واٹ کو آئیونا کمیونٹی(Iona Community) کی طرف سے "آخری مستشرق" کا اعزازی خطاب دیا گیا اور وہ سن 2006ء میں ایران کے چھٹے عالمی کانفرنس برائے پائیدار شخصیات کی فہرست میں شامل ہوئے۔[15]
کہا جاتا ہے کہ قرآن اور پیغمبر اسلام کو ماحولیات سے متأثر سمجھنے اور آپؐ کو شعراء کے ساتھ تشبیہ دینے میں عبد الکریم سروش[16] اور ناول "شیطانی آیات" میں افسانہ غرانیق کے بیانئے میں سلمان رشدی[17] واٹ سے متاثر تھے۔
تعلیمی سوانح عمری
ویلیم مونٹگمری واٹ (William Montgomery Watt) 14 مارچ 1909ء کو اسکاٹ لینڈ کے ایک گاؤں "کریس" میں پیدا ہوئے۔[18] انہوں نے 1930 کی دہائی میں یونیورسٹی آف ایڈنبرگ میں یونانی ادب کے شعبہ میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور پھر اخلاقیات کے شعبہ میں اعلی تعلیم جاری رکھی۔[19] اسی طرح انہوں نے جارج واٹسن کالج اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ اور جرمنی کے شہر "ینا" میں بھی تعلیم حاصل کی،[20] اور 1946ء میں انہوں نے فلسفہ[21] میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ جس کا عنوان "Free Will and Predestination in Early Islam" تھا،(صدر اسلام میں آزادی ارادہ اور قضا و قدر) [22] رچرڈ بیل کی نگرانی میں [23] تحریر کیا جو 1948ء میں انگلینڈ میں شائع ہوا۔[24]
واٹ 1940ء میں پادری بنے،[25] اور 1943 سے 1946ء تک یروشلم میں انگلیکان راہب (انگلستان کے پروٹسٹنٹ کلیسا سے منسلک) کے یہاں عربی زبان کے ماہر کے طور پر کام کرتے رہے اور 1960ء میں اسکاٹ لینڈ میں عالمی چرچ کمیونٹی آئیونا کی رکنیت حاصل کی۔[26]
مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی ثقافت کے ہم پر جو احسانات ہیں ان کا مکمل اعتراف کریں... اسے چھپانا غرور اور مباہات کی علامت اور ایک غلط اور بے جا امر ہے... میں مسلمانوں کو... عظیم کارناموں سے لبریز تہذیب و تمدن کا نمائندہ سمجھتا ہوں... ہم یورپیوں کا فرض... یہ ہے کہ ... عرب اور عالم اسلام کے سامنے ہماری گردن پر ان کے عظیم احسانات کا اعتراف کریں۔[27]
مونٹگمری واٹ نے 1946ء سے یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں عربی ادب پڑھانا شروع کیا اور 1964ء میں پروفیسر کے عہدے پر پہنچے [28] اور اسی یونیورسٹی میں عربی اور اسلامی مطالعات میں بطور پروفیسر لیکچر دینے لگے۔[29] اور 1947ء میں انہیں اسی یونیورسٹی کے شعبہ عربی اور اسلامی مطالعات کی سربراہی سونپی گئی اور 1979ء میں وہ اس یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے۔[30] وہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو، جارج ٹاؤن اور کالج ڈی فرانس کے وزٹنگ پروفیسر بھی تھے۔[31]
انہوں نے سنہ 1977ء میں اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف ہیریٹ واٹ [32] اور سن 1988ء میں یونیورسٹی آف کراچی پاکستان سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔[33]
سیرت نبوی کے یہ عیسائی محقق 24 اکتوبر 2006ء کو 97 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔[34]
اسلام سے واقفیت
واٹ کی اسلام سے واقفیت کا آغاز 1937ء میں پاکستان کے ایک مسلمان کرایہ دار سے ان کی ملاقات سے ہوا۔ ان کے اپنے بقول، اس سے پہلے وہ اسلام کے بارے میں ناواقف تھے۔[35] اسلام سے واقفیت کے بعد انہوں نے یروشلم میں انگلیکان راہب کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ شروع کیا اور ان سے اسلام کے بارے میں رہنمائی کی درخواست کی۔[36] واٹ 1939ء میں انگلیکان راہب کے مشورے اور دعوت پر اسلام سے واقفیت کے لیے یروشلم چلے گئے اور 1946ء تک وہاں مقیم رہے۔[37]
تصانیف

مونٹگمری واٹ نے اسلام، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات کے بارے میں 30 سے زائد کتابیں اور درجنوں مضامین تالیف کئے ہیں۔[38] ان کی بعض تصانیف یہ ہیں:
- Muhammad at Mecca (سال تالیف: 1953ء) [39] اور Muhammad at Medina (سال تالیف: 1956ء):[40] واٹ کی دو اہم تصانیف ہیں جن میں تفصیل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی اور مدنی زندگی اور صدر اسلام کے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔[41]
- کتاب محمد پیغمبر اور سیاستدان (سال تالیف: 1961ء)۔[42] یہ کتاب مذکورہ بالا دو کتابوں کا خلاصہ ہے۔[43] یہ کتاب 9 ابواب پر مشتمل ہے جس میں مصنف نے نبی اکرمؐ کی کامیابی کی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھنے میں آپؐ کی پالیسیوں کو واضح کیا ہے۔[44] اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ کی شخصیت کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ، غیر مسلم محققین کی طرف سے نبی اکرمؐ اور آپؐ کی نبوت کے بارے میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔[45] یہ کتاب فارسی، عربی، ترکی اور جاپانی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔[46]
- "کمپینین ٹو دی قرآن" یہ کتاب قرآن اور بائبل کی آیات پر مصنف کے تاثرات کا مجموعہ ہے۔[47]
- ""عصرِ حاضر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مکالمہ، تصورات اور تفاہم" (سال تالیف: 1991ء)، جو تجزیاتی اور تاریخی طور پر اسلام کے ظہور سے لے کر موجودہ دور تک مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی تصورات کے باہمی اختلافات کی وضاحت کرتی ہے۔[48]
واٹ کی دیگر کتابیں یہ ہیں: "تاریخ اسلام"، "عیسائیت اور صلح طلبی"، "فلسفہ اور کلام اسلامی"، "اسلامی فکر کی تشکیل کا دور"، "اسپین میں اسلام کی تاریخ"، "امام محمد غزالی، عظیم مسلمان مفکر"، "قرون وسطی کے یورپ پر اسلام کے اثرات"، "عصر حاضر میں اسلام اور عیسائیت"، "اسلامی کی عظمت، سن 661-1100ء تک" اور "عصر حاضر میں ایک عیسائی کا ایمان" (سال تالیف و اشاعت: 2002ء / واٹ کی آخری کتاب)۔[49]
تاریخ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں واٹ کے متعدد مضامین اسلامی دنیا کے مختلف جرائد اور انسائیکلوپیڈیا، بشمول انسائیکلوپیڈیا آف اسلام، میں شائع ہوئے ہیں۔[50]
نقد و نظر
اگرچہ کہا جاتا ہے کہ واٹ نے اپنی تحقیق اور تصانیف میں انصاف کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، لیکن ان کی بعض تصانیف کو مسلمان دانشوروں اور محققین کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے؛[51] مثلاً ابوالحسن شعرانی نے کتاب "محمد، پیغمبر اور سیاستدان" پر، سید جعفر شہیدی نے کتاب "اسلامی فلسفہ اور الہیات" پر اور سید محمد ثقفی نے ان کی دو کتابوں "محمد مکہ میں" اور "محمد مدینہ میں" پر تعلیقات اور تنقیدی نکات تحریر کئے ہیں۔[52] سید مصطفی حسینی طباطبائی نے کتاب "مستشرقین کی تصانیف پر نقد و نظر" اور محسن الویری نے کتاب "مغرب میں اسلامی مطالعات"، عمادالدین خلیل نے کتاب "مناہج المستشرقین" اور "المستشرقون والسیرۃ النبویۃ" اور محمد مہار علی نے کتاب "سیرۃ النبی و مستشرقان" میں سیرت نبویؐ کے بارے میں واٹ کے بعض خیالات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔[53]
سید محمد موسوی مقدم نے کتاب "ویلیام مونٹگمری واٹ کے نظریات کی روشنی میں مغرب میں سیرت نبوی پر تحقیقی مطالعات کا جائزہ" میں نبی اکرمؐ کی سیرت سے متعلق واٹ کے اسلوب تحقیق، اصول اور مصادر کی وضاحت کے بعد نبوت، سیرت نبوی اور وحی کے بارے میں ان کے بعض نظریات پر تنقید کی ہے۔[54]
کہا جاتا ہے کہ اگرچہ واٹ کا قلم معتدل اور منصفانہ تھا، لیکن انہوں نے اسلام کو عیسائی نقطہ نظر اور مغربی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے، اور یہی چیز اسلام کے بارے میں ان کے نادرست استنباطات اور نظریات کا سرچشمہ رہی ہے۔[55]
نظریات
اسلام، قرآن اور نبی مکرم اسلامؐ کے بارے میں مونٹگمری واٹ کے بعض مخصوص نظریات درج ذیل ہیں:

قرآن اور وحی
واٹ نے ایک انٹرویو میں صراحت کے ساتھ قرآن کو وحی الہی اور خدا کا کلام قرار دیا ہے، لیکن ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو اس بارے میں ایک نئے فہم و ادارک تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔[56] ان کے نزدیک، قرآن اور بائبل دونوں میں خدا کے احکام ہیں، لیکن یہ احکام اپنے زمانے کے معاشروں اور لوگوں کے لئے تھے۔ اب اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ معاشرہ تبدیل ہوتا رہا ہے، تو پھر ان میں سے بعض احکام تو ہر جگہ اور ہر زمانے میں درست تھے اور ہیں، لیکن بعض احکام موجودہ معاشروں میں درست اور قابل اطلاق نہیں ہیں۔[57] البتہ انہوں نے کتاب "محمد، پیغمبر اور سیاستدان" میں وحی کے بارے میں "تخیل خلاق" کی اصطلاح استعمال کی ہے۔[58] ان کا یقین ہے کہ انبیاء بشمول حضرت محمدؐ کے پاس تخلیقی صلاحیت تھی، اور تخیل خلاق سے حاصل ہونے والے خیالات عام طور پر درست ہوتے ہیں، لیکن تخیل خلاق کو ایک حقیقی اور اصلی ماخذ میں تبدیل کرنا مبالغہ آرائی اور غلط ہے۔[59] واٹ اس سوال کے جواب میں کہ آیا محمدؐ پیغمبر تھے یا نہیں؟، لکھتے ہیں کہ وہ تخیل خلاق رکھنے والے انسان تھے جنہوں نے بنیادی نوعیت کے انسانی سوالات سے متعلق اظہار نظر کیا ہے جو نہ صرف اپنے زمانے میں بلکہ آنے والی صدیوں کے لئے بھی وسیع کشش رکھتے تھے، لیکن ان کے تمام نظریات درست نہیں تھے۔[60]

پیغمبر کی خصوصیات
واٹ اس بات کے معتقد ہیں کہ اسلام کی نشر و اشاعت حضرت محمدؐ کی تین خصوصیات کی مرہون منت ہے: 1۔ پیغمبر اکرمؐ کی غیبی اور روحانی صلاحیت و استعداد، 2۔ ایک حکمران کے طور پر ان کی حکمت و دانش، اور 3۔ ایک مدیر کے طور پر ان کی مہارت، تدبیر، اور کارگزاروں کے انتخاب میں ان کی حکمت اور دانشمندی۔ مونٹگمری واٹ کے خیال میں، اگر ایک حکمران اور مدیر کی حیثیت سے حضرت محمدؐ کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ خدا پر ان کا توکل اور خدا کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجے جانے کا پختہ یقین نہ ہوتا تو اسلام اس حد تک ترقی اور پیشرفت نہ کرتا۔[61]
واٹ پیغمبر اسلامؐ کے اُمّی اور ان پڑھ ہونے کی نفی کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ محمدؐ جیسے نوجوان تاجر کے ان پڑھ ہونے کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔[62] ان کے نزدیک حضرت محمدؐ اپنی رسالت کے دوران اپنے آبائی شہر مکہ میں ایک گمنام مذہبی مصلح سے مدینہ میں ایک مذہبی اور سیاسی حکمران اور پھر سارے جزیرہ نمائے عرب اور بعد میں ساری دنیا کے لئے پیغمبر اور نبی بن گئے۔[63]
تثلیث کی نئی تفسیر
واٹ نے اسلام میں توحید کے عقیدے پر تاکید کرتے ہوئے عیسائیت کے تثلیث اور خدا کا تین عنصر (باپ، بیٹا اور روح القدس) میں حلول کرنے کے عقیدے پر شک و تردید کا اظہار کیا ہے اور ان کا یقین ہے کہ اسلام خدا کی وحدانیت کے بارے میں عیسائیت کی مدد کرسکتا ہے تاکہ اس کی بہتر تفسیر پیش کی جاسکے۔ انہوں نے اسلام میں خدا کے متعدد صفات اور ناموں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ تثلیث کی تفسیر خدا کے مختلف صفات کے طور پر کی جاسکتی ہے۔[64]
اسلام میں عورت کا مقام
واٹ کے نزدیک، اسلام اس وقت ظاہر ہوا جب عورتوں کی حالت خوفناک تھی؛ انہیں اپنی دولت اور جائیداد پر کوئی حق حاصل نہ تھا اور وہ خود مردوں کی جائیداد کا حصہ سمجھی جاتی تھیں۔ اگر کوئی مرد فوت ہوجاتا تو سب کچھ اس کے بیٹوں کو ملتا تھا۔ حضرت محمدؐ نے حالات کو کافی حد تک بہتر بنایا۔ انہوں نے ملکیت، وراثت، تعلیم اور طلاق کے حقوق کی بنیاد رکھی اور عورتوں کی حفاظت کی۔[65] ان کے خیال میں، مغرب والوں کی اکثریت عورتوں کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر کے بارے میں غلط فہمی کے شکار ہیں؛ کیونکہ وہ نادر واقعات اور عالم اسلام کے ایک چھوٹے سے حصے کو اپنے فیصلے کا معیار بناتے ہیں۔[66]
حوالہ جات
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص168۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص168۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص277۔
- ↑ قائمی و امین، کلام شیعہ در پژوہشہای غربی، 1399ش، ج1، ص15۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص277۔
- ↑ قائمی و امین، کلام شیعہ در پژوہشہای غربی، 1399ش، ج1، ص15۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص168-169۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص169۔
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian.
- ↑ «مونتگمری وات؛ پژوہشگری دورانساز در مطالعات قرآن کریم»، خبرگزاری بینالمللی قرآن۔
- ↑ «مونتگمری وات؛ پژوہشگری دورانساز در مطالعات قرآن کریم»، خبرگزاری بینالمللی قرآن۔
- ↑ «مونتگمری وات؛ پژوہشگری دورانساز در مطالعات قرآن کریم»، خبرگزاری بینالمللی قرآن۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص169۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص170۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص280؛ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص177۔
- ↑ اسکندرلو، «تأثیرپذیری عبدالکریم سروش از مستشرقان»، ص145۔
- ↑ میرزایی، «افسانہ غرانیق و آیات شیطانی»، سایت روزنامہ کیہان۔
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian؛ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص278۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص174۔
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian.
- ↑ حسینی طباطبایی، نقد آثار خاورشناسان، 1375ش، ص148۔
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian.
- ↑ «مونتگمری وات؛ پژوہشگری دورانساز در مطالعات قرآن کریم»، خبرگزاری بینالمللی قرآن۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص279؛ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص174۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص278۔
- ↑ قائمی و امین، کلام شیعہ در پژوہشہای غربی، 1399ش، ج1، ص15۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص173، بہ نقل از مونتگمری وات، تأثیر اسلام بر اروپای قرون وسطی، (ترجمہ حسین عبدالمحمدی)، ص143۔
- ↑ «ہمدلی از ہمزبانی خوشتر است: در گفتوگو با ویلیام مونتگُمری وات»، سایت مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص279۔
- ↑ «ہمدلی از ہمزبانی خوشتر است: در گفتوگو با ویلیام مونتگُمری وات»، سایت مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی۔
- ↑ قائمی و امین، کلام شیعہ در پژوہشہای غربی، 1399ش، ج1، ص16۔
- ↑ قائمی و امین، کلام شیعہ در پژوہشہای غربی، 1399ش، ج1، ص16۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص280؛ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص177۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص277و280؛ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian.
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian.
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian.
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian؛ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص278۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص277؛ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص169و 178۔
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian.
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian.
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص185-186۔
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian.
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian.
- ↑ والیزادہ، «مقدمہ»، ص د۔
- ↑ والیزادہ، «مقدمہ»، ص د-و۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص279۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص279۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص280۔
- ↑ Holloway, "William Montgomery Watt", the Guardian؛ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص178-180؛ حسینی طباطبایی، نقد آثار خاورشناسان، 1375ش، ص149۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص180-185۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص277؛ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص170-172۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص170۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص170-171۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص6۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص202۔
- ↑ «ہمدلی از ہمزبانی خوشتر است: در گفتوگو با ویلیام مونتگُمری وات»، سایت مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی۔
- ↑ «ہمدلی از ہمزبانی خوشتر است: در گفتوگو با ویلیام مونتگُمری وات»، سایت مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی۔
- ↑ فرمانیان، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، ص282۔
- ↑ Watt, Muhammad, Prophet and Statesman, 1961, p239۔
- ↑ Watt, Muhammad, Prophet and Statesman, 1961, p240۔
- ↑ Watt, Muhammad, Prophet and Statesman, 1961, p236-237۔
- ↑ موسوی مقدم، جریانشناسی سیرہ پژوہشی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، 1392ش، ص170۔
- ↑ «مونتگمری وات؛ پژوہشگری دورانساز در مطالعات قرآن کریم»، خبرگزاری بینالمللی قرآن۔
- ↑ «ہمدلی از ہمزبانی خوشتر است: در گفتوگو با ویلیام مونتگُمری وات»، سایت مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی۔
- ↑ «ہمدلی از ہمزبانی خوشتر است: در گفتوگو با ویلیام مونتگُمری وات»، سایت مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی۔
- ↑ «ہمدلی از ہمزبانی خوشتر است: در گفتوگو با ویلیام مونتگُمری وات»، سایت مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی۔
مآخذ
- اسکندرلو، محمدجواد، «تأثیرپذیری عبدالکریم سروش از مستشرقان»، در مجلہ قرآنپژوہی خاورشناسان، شمارہ 4، بہار و تابستان 1387ہجری شمسی۔
- حسینی طباطبایی، سید مصطفی، نقد آثار خاورشناسان، تہران، انتشارات چاپخش، 1375ہجری شمسی۔
- فرمانیان، مہدی، «مونْتگُمرى وات؛ کشیش پیامبرشناس»، دوفصلنامہ ہفت آسمان، شمارہ 32، اسفند 1385ہجری شمسی۔
- قائمی، رضا، و محمدرضا امین، کلام شیعہ در پژوہشہای غربی، قم، دارالحدیث، 1399ہجری شمسی۔
- موسوی مقدم، سید محمد، جریانشناسی سیرہپژوہی در غرب با تأکید بر دیدگاہ ویلیام مونتگمری وات، قم، دانشگاہ علوم و معارف قرآن کریم، چاپ اول، 1392ہجری شمسی۔
- «مونتگمری وات؛ پژوہشگری دورانساز در مطالعات قرآن کریم»، خبرگزاری بینالمللی قرآن، تاریخ درج مطلب: 30 نومبر 2024ء تاریخ اخذ: 13 ستمبر 2025ء۔
- میرزایی، مصطفی، «افسانہ غرانیق و آیات شیطانی»، سایت روزنامہ کیہان، تاریخ درج مطلب: 17 مارچ 2017ء، تاریخ اخذ: 17 ستمبر 2025ء۔
- «ہمدلی از ہمزبانی خوشتر است: در گفتوگو با ویلیام مونتگُمری وات»، سایت مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، تاریخ درج مطلب: 27 مئی 2018ء، تاریخ اخذ: 15 ستمبر 2025ء۔
- والیزادہ، اسماعیل، «مقدمہ»، در کتاب محمد، پیامبر و سیاستمدار، تألیف ویلیام مونتگمری وات، تہران، انتشارات کتابفروشی اسلامیہ، 1344ہجری شمسی۔
- Holloway, Richard, "William Montgomery Watt", the Guardian, Published: 14 November 2006, Accessed: 14 September 2025.
- Watt, William Montgomery, Muhammad, Prophet and Statesman, Oxford University Press, 1961.