مندرجات کا رخ کریں

مباہلہ

ویکی شیعہ سے
(عید مباہلہ سے رجوع مکرر)

مُباہلہ، عربی زبان میں اپنی حقانیت اور مدمقابل کے بطلان کو ثابت کرنے کے لیے خدا کی درگاہ میں بد دعا کرنا اور عذاب کی درخواست کو کہاجاتا ہے۔ مباہلہ اس وقت کیا جاتا ہے جب گفتگو اور دلائل سے کوئی نتیجہ سامنے نہ آئے اور دونوں فریق اپنی بات پر مصر رہے۔ کہا گیا ہے کہ اسلام سے پہلے بھی بعض اقوام کے درمیان مباہلہ ہوتا رہا ہے۔

پیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ صدرِ اسلام کے مشہور واقعات میں سے ایک ہے۔ بعض روایات کے مطابق اہلِ بیتؑ نے بھی مختلف مواقع پر مختلف افراد کو مباہلہ کی دعوت دی؛ جیسے کہ امام باقرؑ نے عبد اللہ بن عمر لیثی کو مباہلہ کی دعوت دی۔ اسی طرح شیعہ علماء، جیسے میر فندرسکی، جعفر کاشف الغطاء اور علامہ طباطبائی نے بھی ائمہ معصومینؑ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مخالفین کے ساتھ مباہلہ کیا یا انہیں مباہلہ کی دعوت دی ہے۔

مفہوم اور اہمیت

"مباہلہ" کا مطلب یہ ہے کہ دو افراد یا دو گروہ اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے خدا سے دعا کریں کہ وہ ان کے مخالف پر، جسے وہ باطل سمجھتے ہیں، لعنت بھیجے،[1] جھوٹے کو رسوا کرے اور اسے عذاب میں مبتلا کرے۔[2] مباہلہ اس وقت کیا جاتا ہے جب دلائل اور علمی گفتگو بے نتیجہ ثابت ہو۔[3]

تاریخی اور حدیثی منابع کے مطابق صدرِ اسلام میں مختلف افراد کی جانب سے مباہلہ کیا گیا ہےیا مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے،[4] جن میں سب سے مشہور واقعہ پیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ ہے، جس کا ذکر قرآن میں آیتِ مباہلہ میں کیا گیا ہے۔[5] اس مباہلہ کو پیغمبرِ اسلام کی حقانیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔[6] شیعہ فقیہ اور فلسفی سید محمد حسین طباطبائی نے اس مباہلہ کو پیغمبرِ اسلام کا دائمی معجزہ قرار دیا ہے۔[7]

مباہلہ کی تاریخ

بعض محققین کے مطابق مباہلہ کی روایت اسلام سے پہلے بھی موجود تھی؛ مثلاً سامی قوم کے لوگ، جو تمدنِ بابل کے دور میں رہتے تھے، جب اپنی حقانیت یا اپنے دعوے کو ثابت کرنا چاہتے تھے، تو قسم کھاتے اور دعا کرتے تھے کہ اگر وہ جھوٹے ہوں تو خدا ان کو عذاب میں مبتلا کرے۔[8] اسی طرح علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق یہودیوں اور عیسائیوں کی تاریخ میں بھی مباہلہ کا تذکرہ ملتا ہے۔[9]

مباہلہ کے آداب

دعائے مباہلہ

امام صادقؑ: "اے خدا! اگر فلاں شخص نے کسی حق کا انکار کیا ہے اور کسی باطل کو تسلیم کیا ہے، تو اسے آسمانی بلا یا اپنے عذاب میں مبتلا کر دے۔"[10]

شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے ایسی روایات نقل کی ہے جن کے مطابق مباہلہ کے وقت اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں مدمقابل کے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنی چاہئیں۔[11] ایک اور روایت میں آیا ہے کہ مباہلہ کے دوران مخالف کو ستر (70) مرتبہ بد دعا دی جائے۔[12] ایک حدیث کے مطابق مباہلہ کے لیے بہترین وقت "بین الطلوعین" یعنی فجر اور سورج طلوع ہونے کا درمیانی وقت ہے۔[13]

وہ افراد جنہوں نے مباہلہ کیا

صدر اسلام سے لے کر اب تک مختلف افراد نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کیا ہے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

رسول اکرم کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ

مورخین کے مطابق رسول اکرمؐ نے نجران کے پادری کو خط لکھ کر وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دی۔ وہ مدینہ آئے اور رسول اکرمؐ سے گفتگو کی، لیکن حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت کے عقیدے سے دستبردار نہ ہوئے۔ بحث و مباحثے کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا۔ مباہلہ کے دن، رسول اکرمؐ امام علیؑ، حضرت فاطمہ (س) اور حسنینؑ کے ساتھ تشریف لائے۔ تاہم، مسیحی مباہلہ سے دستبردار ہو گئے اور صلح کی درخواست کی۔ رسول اکرمؐ نے جزیہ ادا کرنے کی شرط پر ان کی درخواست قبول کر لی۔[14]

اہل بیتؑ کا مخالفین کے ساتھ مباہلہ

علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں نقل کیا ہے کہ بعض حدیثی منابع کے مطابق رسول اکرمؐ نے یہودیوں کو بھی مباہلہ کی دعوت دی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔[15] اسی طرح کتاب الجعفریات میں ذکر ہے کہ امام علیؑ نے کنیز کے ساتھ ظہار نہ ہونے کے مسئلے میں لوگوں کو مباہلہ کی دعوت دی۔[16] محمد بن یعقوب کلینی کے مطابق امام باقرؑ نے ایک مرتبہ عبد اللہ بن عمر لیثی سے گفتگو کے دوران، جب وہ کسی مسئلے کو تسلیم نہیں کر رہا تھا تو اسے مباہلہ کی دعوت دی۔[17]

اہل بیتؑ کے اصحاب کا مخالفین کے ساتھ مباہلہ

ابومِخنف کے مطابق واقعۂ کربلا میں بریر بن خضیر ہمدانی (کربلا کے شہدا میں سے) نے یزید بن معقل (عمر بن سعد کے سپاہیوں میں سے ایک) کے ساتھ امام علیؑ کی خلافت کے مسئلے پر مباہلہ کیا۔[18] شیعہ مفسر فیض کاشانی نے تفسیر الصافی میں نقل کیا ہے کہ صحابی رسول عبداللہ بن عباس نے متعدد بار زید بن ثابت (کاتبِ قرآن) جیسے کئی افراد کو مباہلہ کی دعوت دی۔[19]

شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں ذکر کیا ہے کہ خَیرانی کے والد (امام جوادؑ کے خادم) نے امام ہادیؑ کی جانشینی کے بارے میں احمد بن محمد بن عیسی جو اس کا انکار کرتا تھا، کو مباہلہ کی دعوت دی، لیکن وہ مباہلے کی جرأت نہ کر سکتا اور امام ہادیؑ کی جانشینی کا اقرار کر لیا۔[20] شیخ طوسی نے کتاب الغیبۃ میں لکھا ہے کہ امام زمانہؑ کے نواب اربعہ میں سے حسین بن روح نوبختی نے شلمغانی کے ساتھ مباہلہ کیا، اور تھوڑے عرصے بعد شلمغانی مر گیا۔[21] نجاشی کے مطابق ابو عبد اللہ صفوانی نے قاضی موصل کے ساتھ امامت کے مسئلے پر مناظرہ اور مباہلہ کیا، اور چند دن بعد قاضی موصل وفات پا گیا۔[22]

شیعہ علماء کا مخالفین کے ساتھ مباہلہ

ملا احمد نراقی نے اپنی کتاب معراج السعادت میں ذکر کیا ہے کہ ابوالقاسم فندرسکی نے ایک ایسے شہر کا سفر کیا جہاں کافر آباد تھے۔ وہ لوگ اپنی عبادت گاہوں کی مضبوطی اور مسلمانوں کی مساجد کی ویرانی کو اپنے مذہب کی حقانیت کی دلیل مانتے تھے۔ میرفندرسکی نے ان کے دعوے کو رد کیا اور اسے ثابت کرنے کے لیے ان کی عبادت گاہ میں اذان دی اور نماز ادا کی، جس سے اس عبادت گاہ کی چھت گر گئی۔[23]

کہا جاتا ہے کہ تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ جعفر کاشف الغطاء نے میرزا محمد اخباری ایران کے مشہور اخباری کو مباہلہ کی دعوت دی اور تہران کے مضافات میں ان کا انتظار کیا، لیکن وہ نہ آیا۔[24] علامہ طباطبائی نے بھی بعض اہل کتاب کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اور اس بات کے قائل تھے کہ مباہلہ ایک زندہ دلیل ہے اور جب بھی ضروری شرائط موجود ہوں، اس کا نتیجہ سامنے آئے گا۔[25]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مجلسی، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، 1404ھ، ج12، ص185
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج‏2، ص578۔
  3. محمدی ری شہری، فرہنگ‌نامہ مباہلہ، 1395شمسی، ص11۔
  4. ملاحظہ کریں: ابومخنف، وقعۃ الطفّ، 1417ھ، ص221؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج2، ص17؛ ابن عبدالبر، جامع العلم و فضلہ، 1421ھ، ص381؛ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، 1413ھ، ج2، ص298؛ طوسی، الغیبۃ، 1411ھ، ص307۔
  5. سورہ آل‌عمران، آیہ61۔
  6. پاک‌نیا، «مباہلہ، روشن‌ترین باورہای شیعہ»، ص51۔
  7. طباطبایی، اعجاز قرآن‏، 1362شمسی، ص127-128۔
  8. لویی، مباہلہ در مدینہ، 1378شمسی، ص65۔
  9. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج10، ص65۔
  10. کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص514۔
  11. کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص514۔
  12. کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص514۔
  13. کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص514۔
  14. ابن‌سعد، الطبقات الكبری، خامسۃ1، 1410ھ، ص391-392۔
  15. طباطبایی، تفسیر المیزان، 1417ھ، ج3، ص234۔
  16. ابن اشعث، الجعفریات، مکتبۃ النینوی الحدیثۃ، ص115۔
  17. کلینی، کافی، 1407ھ، ج5، ص449۔
  18. ابومخنف، وقعۃ الطفّ، 1417ھ، ص221۔
  19. ابن‌عبدالبر، جامع العلم و فضلہ، 1421ھ، ص381۔
  20. مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، 1413ھ، ج2، ص298۔
  21. طوسی، الغیبۃ، 1411ھ، ص307۔
  22. نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص393۔
  23. نراقی، خزائن، 1380شمسی، ص48۔
  24. «مباہلہ راہکاری برای مقابلہ با افراد بی منطق است»، خبرگزاری رسا۔
  25. بوستان کتاب، مرزبان وحی و خرد، 1381شمسی، ص290۔

مآخذ

  • «مباہلہ راہکاری برای مقابلہ با افراد بی منطق است»، خبرگزاری رسا، تاریخ درج مطلب: 15 اسفند 1389شمسی، تاریخ مشاہدہ: 27 آذر 1403ہجری شمسی۔
  • ابن‌عبدالبر، یوسف‌بن عبداللہ، جامع العلم و فضلہ، تحقیق: مسعد عبدالحمید سعدنی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1421ھ۔
  • ابومخنف، لوط بن یحیی، وقعۃ الطفّ، محقق: محمد ہادی یوسفی غروی، قم، جامعہ مدرسین، چاپ سوم،1417ھ۔
  • ابن‌اشعث، محمدبن محمد، الجعفریات، تہران، مکتبۃ النینوی الحدیثۃ، چاپ اول، بى تا۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الكبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الكتب العلمیۃ، چاپ اول، 1410ھ۔
  • بوستان کتاب، مرزبان وحی و خرد، قم، بوستان کتاب، چاپ اول‏، 1381ہجری شمسی۔
  • پاک‌نیا، عبدالکریم، مباہلہ روشن‌ترین دلیل باورہای شیعہ، مبلغان، شمارہ 50، اسفند 1382ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، اعجاز قرآن‏، تہران، مرکز نشر فرہنگی رجاء، چاپ اول‏، 1362ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طوسی، محمدبن حسن، الغیبۃ، محقق: عباداللہ تہرانی و علی احمد ناصح، قم، دار المعارف الاسلامیۃ، چاپ اول، 1411ھ۔
  • فیض کاشانی ملا محسن، تفسیر الصافی، تحقیق حسین اعلمی، تہران، صدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، محقق: علی اکبر، غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • لویی، ماسینیون، مباہلہ در مدینہ، مترجم: محمودرضا افتخارزادہ، تہران، رسالت قلم، 1378ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار‏، محقق: جمعی از محققان‏، بیروت، دار احياء التراث العربی‏، چاپ دوم‏، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، محقق: رسولی محلاتی، سید ہاشمم، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ‏، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • محمدی ری شہری، محمد، فرہنگ نامہ مباہلہ، قم، دارالحدیث، 1395ہجری شمسی۔
  • مفید، محمدبن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، محقق: موسسہ آل البیت(ع)، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • نجاشی، احمدبن علی، رجال النجاشی، قم، موسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجامعۃ المدرسین بقم المشرفۃ، جاپ ششم، 1365ہجری شمسی۔
  • نراقی، احمد، خزائن، تحقیق حسن حسن زادہ آملی، قم، قیام، 1380ہجری شمسی۔