سید ناصر حسین موسوی

ویکی شیعہ سے
(سید ناصر حسین سے رجوع مکرر)
سید ناصر حسین موسوی
کوائف
مکمل نامسید ناصر حسین موسوی بن سید حامد حسین
لقب/کنیتناصر الملت، فخر المحققین
نسبحمزہ بن موسی الکاظم کی نسل سے کنتوری موسوی خاندان۔
تاریخ ولادت19 جمادی الثانی 1284 ھ
آبائی شہرلکھنؤ
تاریخ وفات1 رجب 1361 ھ
مدفنآگرہ
نامور اقرباءسید حامد حسین موسوی سید محمد قلی
علمی معلومات
اساتذہمفتی سید محمد عباس سید حامد حسین موسوی
اجازہ اجتہاد ازمفتی سید محمد عباس سید حامد حسین موسوی
تالیفاتالمفردفی مسئلة وجوب السورۃ نفحات الازھا فی مناقب الائمة الاطہار فہرست انساب سمعانی سبایک الذھبان اثبات رد الشمس لعلی علیہ السلام وغیرہ۔
خدمات
سیاسیشیعہ عزاداری کے حقوق کا تحفظ
سماجیتشیع میں دنیاوی تعلیم اور غریب پروری کی جد و جہد، ہندوستان میں عربی اور فارسی ادب کا فروغ


سید ناصر حسین موسوی (1284-1361 ھ) ناصر الملت کے نام سے مشہور، برصغیر پاک و ہند کی مشہور اور صاحب فتوا شیعہ شخصیات میں سے ہیں۔ آپ خاندان کنتوری کے چشم و چراغ اور صاحب عبقات الانوار میر سید حامد حسین موسوی کے فرزند ہیں۔ برصغیر کا معروف ترین کتب خانہ ناصریہ آپ ہی کے نام سے معروف ہے۔ آپ نے ساری زندگی قومی، ملی اور مذہبی ترقی کیلئے کام کیا۔ اپنے زمانے میں اس خطے کی تشیع کا مرکز جانے جاتے تھے۔ عملی زندگی میں شاگرد پروری، قومی و ملی خدمات کے ساتھ ساتھ تالیف و تحقیق میں ۱۳ کے قریب قابل ذکر آثار چھوڑے جن میں عبقات الانوار کی تکمیل کا کام بھی شامل ہے۔

خاندانی پس منظر

ناصر الملت کا خاندان حضرت امام موسی کاظم کے فرزند حمزہ کی شاخ ہے جو نیشاپور سے ہجرت کرکے ہندوستان میں آباد ہوا۔ اس کا کچھ پس منظر اس طرح سے ہے:

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے فرزند حمزہ اور کنیت ابو القاسم[1] بڑے محترم اور جلیل القدر بزرگ تھے۔[2] موسوی سادات کے اکثر گھرانے جو ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ وہ مختلف زمانوں میں نیشاپور سے نکل کر ہندوستان پہنچے ہیں۔ مثلاً نواب سید محمد امین المعروف بہ نواب سعادت خاں برہان الملک بانی سلطنت اودھ کا خاندان، جو اودھ اور بنگال میں پھیلا ہوا ہے۔ شمس آباد، برست و کرنال وغیرہ کے سادات اور اجمیر کے چشتی خاندان بھی نیشاپوری خاندان کی ایک شاخ ہے۔

حمزہ کے دسویں طبقہ سے سید شرف الدین ابوطالب نامی بزرگ آٹھویں صدی ہجری میں اہل و عیال کے ساتھ نیشاپور سے نکل کر ہندوستان میں آباد ہوئے۔ انکے ایک صاحبزادے سلطان محمد نے تغلق کی فوج میں ملازمت کے بعد ایک ممتاز عہدہ حاصل کیا لیکن حسد کی بنا پر قتل ہو گئے۔ تغلق بادشاہ اپنی غلطی پر جلد متوجہ ہوا تو اس نے مقتول سید کے والد سید شرف الدین ابوطالب کو دریائے گھاگھرا کے دونوں کناروں پر واقع تقریباً ۹۰۰ موضع پر مشتمل جاگیر سے نوازا، جس کا صدر مقام سید صاحب موصوف نے قرار دیا کنتور میں۔ ابو المظفر علاء الدین حسین کی پیدائش کے بعد یہ خاندان کنتوری کہلانے لگا۔ اس خاندان سے علامہ غلام حسین کنتوری، جسٹس کرامت حسین، علامہ محمد قلی، سید حامد حسین کے نام قال ذکر ہیں۔[3]

تعارف

نسب

السيد ناصر حسين - شمس العلماء - بن السيد مير حامد حسين بن المفتى السيد محمد قلى بن السيد محمد حسين المعروف بالسيد الله كرم ابن السيد حامد حسين بن السيد زين العابدين بن السيد محمد المشهور بالسيد البولاقي بن السيد محمد المعروف بالسيد مدا بن السيد حسين المشهور بالسيد ميتم ابن السيد حسين بن السيد جعفر بن السيد علي بن السيد بن السيد كبير الدين بن السيد شمس الدين بن السيد جمال الدين بن السيد شهاب الدين أبي المظفر حسين الملقب بسيد السادات والمعروف بالسيد علاء الدين أعلى بزرك بن السيد محمد المعروف بالسيد عز الدين بن السيد شرف الدين أبي طالب المشهور بالسيد الأشرف بن السيد محمد الملقب بالمهدي المعروف بالسيد محمد المحروق بن حمزة بن علي بن أبي محمد بن جعفر بن مهدي بن أبي طالب بن علي بن حمزة بن أبي القاسم حمزة إبن الإمام أبي إبراهيم موسى الكاظم[4]

ولادت

آپ کی ولادت با سعادت جمادی الاخری 1284 ھ بروز پنجشنبہ اول وقت نماز صبح بمقام لکھنو ہوئی۔[5] حضرت اسحاق پیغمبر کی تاریخ پیدائش سے موافقت کی بنا پر آپکے چچا محترم جناب مولانا سید اعجاز حسین صاحب قبلہ مرحوم نے اسحاق نام رکھا لیکن والد نے بیٹے کی خبر سنی تو کہا: میرا نام حامد حسین ہے اس بچے کا نام ناصر حسین ہونا چاہیے۔ یہی نام معروف ہوا۔ خاندانی رسم کے مطابق کنیت ابوالفضل اور لقب نجم الدین قرار پایا۔[6] نیز شمس العلما بھی لقب معروف ہے۔[7]

تعلیم و تربیت

پانچویں برس یعنی ماہ رمضان 1288 ھ میں آپ کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک سال میں اردو لکھنے اور قدرت حاصل کر لی۔ فارسی و عربی کیلئے مولوی لطف حسین صاحب استاد مقرر ہوئے۔ خدا داد ذہانت اور قوی حافظہ کی بدولت قلیل مدت میں ابتدائی مراحل مکمل ہوئے۔ درجۂ ثانوی کی تعلیم کیلئے والد حامد حسین نے اپنے استاد علامہ مفتی سید محمد عباس کنتوری صاحب قبلہ-اعلی اللہ مقامہ- کے حلقہ تلمذ میں داخل کر دیا۔ حضرت مفتی صاحب -علیہ الرحمہ- فقہ، تفسیر، اصول حدیث، تاریخ، ادب، کلام وغیرہ تمام علوم متداولہ کی ایک جامع شخصیت اور اردو، فارسی، عربی تینوں زبانوں کے بہت بڑے شاعر اور صاحب دیوان تھے۔ اسی وجہ سے ناصر الملت- اعلی اللہ مقامہ- اپنے اس تلمذ پر فخر و ناز فرماتے تھے۔ انکے پاس وہ تمام مراحل کم مدت میں طے کئے جن کے بعد انسان کیلئے اجتہاد کے زینے کو طے کرنا ہوتا ہے۔

اجتہاد

سید محمد عباس کنتوری کے سامنے تعلیم کے مراحل طے کرنے کے بعد اگرچہ کسی اور چیز کی ضرورت نہ تھی لیکن اس کے باوجود سید حامد حسین نے مستقبل میں اجتہادی صلاحیت کو مزید نکھارنے کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جس علم کا کوئی مسئلہ بیان کرتے اس میں چھوٹی بڑی تمام کتابوں کے مصنفین کی عبارتیں ایک سلسلہ میں پڑھا دیتے تھے۔ اس سے نہ صرف یہ ہوتا کہ اس مسئلہ کے ہر پہلو پر روشنی پڑ جاتی بلکہ اس کے متعلق عہد بہ عہد مصنفین کے نظریات میں جو اختلاف ہوا وہ بھی نمایاں ہو جاتا تھا اور ان مختلف نظریات میں موازنہ کرنے اور خود رائے دینے کا ملکہ بھی پیدا ہو جاتا تھا جو خود اجتہادی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بہت مؤثر ہوتا ہے۔ کچھ مدت یہ طریقۂ تعلیم ہی جاری نہیں رہا بلکہ پھر سید ناصر حسین کیلئے ضروری تھا کہ وہ ایک استاد کی مانند پڑھے ہوئے مطالب کو اپنے باپ سید حامد حسین موسوی کے سامنے بیان کریں۔ یہی وہ تربیت تھی جس نے آپ کو فضل و کمال کے ان اعلیٰ مراتب پر پہنچا دیا۔ جب آپ کو ہر طرح سے کامل و اکمل پالیا گیا تب اجتہاد کی سند عطا فرمائی گئی۔ چنانچہ تیرہویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے، یعنی 1300 ھ میں جبکہ آپ کی عمر مبارک سولہ سال سے زیادہ نہ تھی، آپ منصب اجتہاد و افتاء پر فائز ہوچکے تھے۔ ۵ سال تک سید حامد حسین کی موجودگی میں تمام فقہی مسائل کا جواب دیتے رہے۔ شب و روز کی درس و تدریس اور کثرت مطالعہ کی بنا پر آپکو فخر المحققین کا لقب دیا گیا۔ باپ کی وفات کے بعد تشیع کی مرجعیت کا بار آپ کے کاندھوں پر آگیا۔

علمی مقام

16 سال کی عمر میں اجتہاد کے درجے پر فائز ہو جانا ایک غیر معمولی امر تھا۔ مختلف علوم میں کثیر المطالعہ تھے۔ ناصریہ کا کتابخانے کی مختلف علوم کی ہزاروں تصنیفات پر آپ کے حاشیے موجود ہیں جو آپ کے کثیر المطالعہ ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔ حافظے کا یہ عالم تھا کہ شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جس کے حوالہ جات آپکو کتاب اور صفحہ کے ہمراہ حفظ نہ ہوں۔[8] اسی قوت حافظہ کے متعلق آپ کے شاگرد کاظمینی کا بیان قابل رشک ہے:

یہ مضمون فلاں کتاب کی فلاں جلد، باب اور فصل میں ہے، یا یہ کہ وہاں نہیں ہے، یا یہ کہ یہ مضمون فلاں سنہ کی طباعت میں تھا اور فلاں سنہ سے نکالا گیا۔ (یہ اس لئے کہ مصری مطبوعات میں کچھ عرصہ سے ترمیم و تنسیخ اور قطع و برید کا التزام کر لیا گیا ہے۔) یایہ کہ یہ مضمون کن کن کتابوں میں کہاں کہاں ہے اور کن کن فقہا یا متکلمین نے کس کس جگہ اسے مقام استدلال میں پیش کیا ہے۔[9]

منطق، فلسفہ، لغت، ادب، فقہ، اصول، کلام، تاریخ، حدیث، تفسیر، غرض جس علم کو دیکھیے اس میں آپ کامل دسترس رکھتے تھے۔ غیر متداولہ علوم مثلاً علم الحروف ،علم الرمل، علم الجفر، علم الکیمیا، علم شانہ وغیرہ یا وہ علوم جو جدیدہ کہلاتے ہیں مثلاً جدید فلسفہ، ہیئت، طبیعات، طبقات الارض وغیرہ، میں بھی آپ مہارت تامہ رکھتے تھے اور اس کے علاوہ علم طب میں بھی آپ کو کافی مدخلیت تھی اور اکثر و بیشتر بعض اطبا سے مشورہ کرکے اپنا علاج خود فرماتے۔ سیاسی بصیرت سے بھی مالا مال تھے۔ آپ کی علمی جامعیت اور کمال کا اقرار کرتے ہوئے مولانا ابو الکلام آزاد نے تو یہاں تک کہہ دیا:

محقق طوسی علیہ الرحمہ کے بعد سے لے کر اب تک اس جامعیت اور کمال کی کوئی دوسری ہستی نظر نہیں آتی اور اسی بنا پر اگر آپ کو ہند کا طوسی کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔

خدمات

قومی خدمات

  • شیعہ کانفرنس

اس دور میں آپ نے شیعہ قوم کے اتحاد کیلئے شیعہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔

  • شیعہ یتیم خانہ

آپ، حضرت قدوۃ العلماء سید حسن اور حضرت نجم العلماء سید نجم الحسن نے شیعہ یتیم بچوں کے لیے یتم خانے کی ضرورت محسوس کی۔چنانچہ آپ اور آپ کے محترم معاصرین کی کوششوں سے آل انڈیا شیعہ یتیم خانہ کی بنیاد پڑی اور جب تک آپ بقید حیات رہے اس کی سرپرستی فرماتے رہے۔

  • شیعہ کالج

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شیعوں کے ساتھ ناروا سلوک برتاؤ کی وجہ سے شیعہ بچوں کے لیے مستقل طور پر ایک درسگاہ قائم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ابھی یہ خیال ہی کی حد تک تھا کہ پنجاب کے نواب سر فتح علی خان صاحب بہادر نے آپ کے محاسن و کمالات سے گرویدہ ہو کر خواہش ظاہر کی کہ وہ کتب خانہ ناصریہ کے لیے ایک عمارت بنوانا چاہتے ہیں۔ آپ نے کہا: آپ اسکی بجائے قومی درسگاہ کے لیے ایک مناسب عمارت بنوا دیں۔ نواب صاحب نے قومی درسگاہ بنوائی۔ اعیان ملت نے اشتراک عمل کیا۔ ایک رقم کثیر جمع ہوگئی اور حکومت کے تعاون کے ساتھ شیعہ کالج قائم ہو گیا۔ اسی طرح شیعہ عربی کالج بھی اسی سعی کا حصہ ہے۔

  • دارالتصنیف و تالیف

احکام شرعیہ اور حجج و بیّنات دینیہ کی عام تبلیغ و اشاعت کے لیے دارالتصنیف و تالیف کی بنیاد ڈالی۔ اس ادارہ سے ایک رسالہ العوارف عرصے تک جاری رہا اور مختلف گرانقدر کتابیں شائع ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ یادگار حسینی کے موقع پر سید دلدار علی کی عماد الاسلام کی چھپوائی کروائی گئی۔

  • دیگر خدمات

شہید ثالث کے مزار کی تعمیر، عزاداری میں توسیع کے ساتھ اس میں موجود ناروا امور کی اصلاح کے اقدامات کئے۔ جس کی وجہ سے لکھنؤ کے حالات بھی خراب رہے۔ آپ کے آخری ایام میں مخالفین کی جانب سے عزاداری کی مخالفت کے نتیجے میں شیعوں کی جانب سے محاذ حسینی کے نام سے تحریک میں اٹھارہ ہزار افراد کو جیل جانا پڑا۔ یہ معرکہ آپ کے ہی ہاتھوں سر ہوا۔

عربی علم و ادب کی خدمت کیلئے انجمن بہجۃ الادب اور نادی الادبا قائم ہوئی جس میں عربی شعر وشاعری کی محفلیں اور تقریر و مکالمے کی صحبتیں برپا ہوتیں۔ انہی محفلوں کا نتیجہ تھا کہ آپ کے شاگرد رشید مولانا شبیر حسین صاحب مجتہد نے عراق کے مجتہد اعظم جناب آقائے صدر کی وفات پر مرثیہ کہہ کر بھیجا۔ جب اسے وہاں کے بڑے بڑے ادبا کے سامنے پڑھا گیا تو وہ محو حیرت ہو گئے اور اس امر کا یقین نہیں کرتے تھے کہ یہ کسی ہندی کا کہا ہوا ہو سکتا ہے۔

اردو اور فارسی ادب کی ترقی کیلئے بزم ناصری یعنی قصائد خوانی کی وہ محفلیں جو آپ کے شریعت کدہ پر منعقد ہوا کرتی ہیں، کا انعقاد جس کے پروردہ مایہ ناز شاعر اور مُسلّم الثبوت استاد فن جناب عزیز لکھنوی اسی بزم ناصری کے ہی تربیت یافتہ تھے۔

کتابخانہ ناصریہ

لکھنؤ میں ناصریہ لائبریری کا ایک منظر

اس کتابخانے کا ابتدائی ذخیرہ علامہ محمد قلی نے جمع کیا۔ اس کے بعد سید حامد حسین موسوی نے اس میں قابل قدر اضافہ کیا۔ کدو کاوش اور تفحص و تلاش سے نادر کتابیں فراہم کیں۔ جس کیلئے صرف مال کثیر ہی نہیں خرچ کرنا پڑا بلکہ خود ممالک اسلامیہ کے کتب خانوں کی چھان بین اور دست مبارک سے نقل و کتابت کی زحمتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ان کے وقت وفات تک اس کتب خانہ میں دس ہزار کتابیں تھیں۔ ناصر الملت کی زحمتوں کی بنا پر اکتالیس بیالیس ہزار (41000/42000) تک اس کی تعداد پہنچ گئی۔ اس کتب خانہ میں دیگر علوم کے ساتھ ساتھ علوم اسلامیہ کی کتابوں کا ذخیرہ بہت زیادہ ہے اور یہی اس کی خصوصیت اور وجہ امتیاز ہے۔

  • مولوی انیس احمد صاحب عباسی حقیقت اخبار کے ایڈیٹر نے یکم رجب 61 ھ کے اپنے اخبار میں آپ اور آپ کے کتب خانہ کے متعلق لکھا:
ان کے علمی کمالات کا اعتراف ہر وہ شخص کرے گا خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو، جو اس سے واقف ہے کہ ان کے اوقات زندگی کس طرح آخر دم تک تحصیل علم اور علمی خدمات میں صرف ہو رہے تھے۔ ان کا شوق مطالعہ کسی خاص علم و فن تک محدود نہ تھا۔ جس کا اندازہ کتب خانہ ناصریہ واقع لکھنو کے دیکھنے سے ہی ہو سکتا ہے جہاں ہر علم و فن کی اور ہر مذاق کی سینکڑوں کتابیں مولانا مرحوم کے حاشیوں کے ساتھ موجود ہیں۔
  • آج سے تیس پینتیس سال[10](یعنی 1362ھ سے مدت مذکور پہلے) قبل جب مصر کے مشہور عالم رسالہ المنار کے ایڈیٹر علامہ رشید رضا ندوۃ العلماء کے سالانہ جلسے کی صدارت کرنے کے لئے آئے تو ناصریہ کتب خانہ دیکھنے بھی گئے۔ یہاں کے علمی ذخائر دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ علامہ شبلی نعمانی مرحوم سے کہا: اگر ہندوستان سے یہ کتب خانہ دیکھے بغیر واپس چلا جاتا تو میرا یہاں آنا ہی بے کار ہو جاتا۔
  • اکثر یورپین مستشرقین نے بھی اس کتب خانہ کے نایاب ذخائر دیکھ کر ایسے ہی ریمارکس کئے ہیں۔
  • صدر کانگرس مولانا ابو الکلام آزاد نے ایک دفعہ -بر سبیل تذکرہ- راقم السطور کی موجودگی میں کہا: لکھنؤ کے علمی مرکز ہونے کا سب سے بڑا ثبوت مولانا ناصر حسین صاحب کا نایاب کتب خانہ ہے کہ جسے دیکھنے کے بعد ہی مولانا مرحوم کے ذوق کتب بینی اور ان کے تبحر علمی کی وسعت بے پایاں کا اندازہ ہو سکتا ہے۔[11]

علمی خدمات

  • المفردفی مسئلة وجوب السوره[12]

نماز میں سورہ الحمد کے بعد سورہ پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ پر یہ کتاب فقہی استدلال کی صورت میں لکھی گئی ہے۔ یہ آپ کی سب سے پہلی تصنیف ہے، جس پر مفتی محمد عباس اور سید حامد حسین نے آپ کو اجازہ اجتہاد عطا فرمایا ہے۔

  • اسباغ النائل فی تحقیق المسائل[اسباغ النائل بتحقیق المسائل][13]

یہ کتاب بھی فقہ میں ہے اور بڑی مبسوط و مفصل ہے اس کی نو جلدیں ہیں۔ تمام ابواب فقہ میں آپ کے اجتہادی فتاوا واحکام کو جمع کیا گیاہے۔

اس تالیف میں فارسی کے کچھ ادبی مضامین ہیں اور وہ خطوط ہیں جو آپ نے علمائے عراق وایران کو وقتاً فوقتاً لکھے۔ فی الحقیقت یہ مضامین اور خطوط تحقیقات علمیہ اور لطائف ادبیہ کے لحاظ سے ایک بیش بہا ذخیرہ ہے۔

  • المنشائت العربیہ[15]

یہ آپ کے عربی مضامین ادبیہ وعلمیہ اور ان خطوط کا مجموعہ ہے، جو آپ نے علماء ممالک اسلامیہ کو لکھے ہیں۔

  • دیوان الشعر[16]

یہ اہل بیت کی شان میں آپ کے فارسی اور عربی ان قصائد کا مجموعہ ہے۔ آپکی شاعری کا اندازہ فی الجملہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ جب آپ کا قصیدہ رائیہ شائع ہوا، جس کا مطلع یہ ہے۔

مالی اری لیلتی حفت بانوار کانھا بضیہ السما ذات اقمار

تو مصر وشام کے بعض ادباء نے قصیدے کے بعض اشعار کی مدح و ثنا کرتے ہوئے کہا: اگر یہ کلام عرب کے سب سے بڑے شاعر امراء القیس کے کلام کے ساتھ رکھ دیا جائے، تو اس کا امتیاز دشوار ہے کہ کون سا کلام آپ کا اور کون سا اس کا ۔

آپ ہر موعظہ سے قبل ایک تازہ خطبہ بکمال فصاحت و بلاغت ارشاد فرمایا کرتے تھے یہ آپ کے انھیں بے شمار خطبات کا ایک وسیع مجموعہ ہے، جس کی پانچ جلدیں ہیں۔

یہ آپ کے چند خصوصی موعظوں کا مجموعہ ہے جو علم و حکمت اور اخلاق کے جواہر بیں۔

  • مسند فاطمہ بنت الحسین[19]

حضرت فاطمہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا سے جو حدیثیں ماثور ہیں، ان سب کو اس کتاب میں ایک جگہ مع تشریحی حواشی کے ساتھ جمع کر دیا گیا ہے۔

مناقب اہلبیت میں بڑی مبسوط کتاب ہے، جس کی ۱۶ ضخیم جلدیں ہیں اور جو آپ کے علم وتحقیق کے آیات کمال میں سے ایک خاص آیت ہے۔

  • الأثمار الشهية[21]
  • إجازة[22]
  • فہرست انساب سمعانی

انساب سمعانی فن رجال میں بڑی مشہور اور مبسوط کتاب ہے۔ اس میں اکثر ایک ہی آدمی کا تذکرہ اس کے مختلف ناموں، لقبوں اور کنیتوں کے ذیل میں متعدد مقامات پر ہوا ہے۔ آپ نے اس فہرست میں اس امر کو ضبط فرمایا ہے کہ کسی شخص کا تذکرہ اس کتاب میں کن ناموں کے ذیل میں کہاں کہاں کس کس جلد اور صفحہ میں ہوا ہے۔

  • سبایک الذھبان

یہ فن رجال کی بڑی مبسوط تالیف ہے، جس کی 48 جلدیں ہیں اور یہ بھی آپ کی تحقیقی عرق ریزیوں کا آئینہ ہے۔ یہ ابتدائے اجتہاد کے دور اور والد کی زندگی کی تالیف ہے۔ اس کتاب میں تمام کتب رجال سے ہزا ر ہا راویوں کے حالات جمع کئے گئے ہیں، گویا یہ کتاب فن رجال کا ایک وسیع خزا نہ ہے۔ 1306 ھ سے پہلے کی تالیف ھے۔

  • اثبات رد الشمس لعلی علیہ السلام
  • النجاح

مسئلہ عقد ام کلثوم پر یہ ایک مختصر رسالہ ہے۔ یہ بھی آپ کے عنفوان شباب کی یادگار ہے ۔

  • افحام الاعداء والخصوم فی عقد اُم کلثوم

یہ کتاب آخر عمر کی ہے۔

یہ کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے باب ہفتم کا جواب ہے۔ اس کتاب کیلئے یہ طے پایا تھا کہ چھ آیتوں میں سے ہرآیت پر ایک جلد اور بارہ حدیثوں میں سے ہر حدیث پر دو جلدیں لکھی جائیں۔ اس طرح مجموعی تیس جلدوں میں یہ کتاب لکھی جائے۔ آیات کے مباحث تو کچھ نہ کچھ اور کتابوں میں بھی عام طور سے مل سکتے ہیں لہذا پہلے احادیث کی ابحاث لکھی گئیں۔ حدیث ولایت، حدیث نور، حدیث طیر اور حدیث غدیر چار حدیثوں پر سات جلدیں تحریر ہوئیں تو سید حامد حسین کا 1306 ق میں انتقال ہو گیا۔

سید ناصر حسین نے اس کام کو جاری رکھتے ہوئے حدیث منزلت، حدیث تشبیہ، حدیث مدینتہ العلم اور حدیث ثقلین چار حدیثوں پر آٹھ ضخیم جلدیں سید حامد حسین کے انداز میں تحریر فرمائیں۔ دونوں کے انداز تحریر میں فرق کرنا مشکل ہے۔ یہ کتاب آج بھی مکمل طور پر سید حامد حسین کی تالیف سمجھی جاتی ہے۔

  • ذكر ماظهر لامير المؤمنين (ع) من الفضائل يوم خيبر[23]

وفات

پیری، تقلیل غذا اور سولہ سترہ گھنٹہ روزانہ کی محنت و مشقت کی بنا پر گوناگون امراض کا ہجوم ہوا۔ طاقت روز بروز گھٹتی گئی اور امراض بڑھتے گئے علاج کہاں تک فائدہ کرتا بالآخر یکم(1)رجب [1361ہجری] کو انتقال ہو گیا۔ پچیس تیس ہزار کے مجمع سے جنازہ اُٹھا اور بعد تجہیز و تکفین آپکے فرزند محمد سعید نے نماز جنازہ پڑھائی اور حسب وصیّت سرکار مرحوم نعش مطہر کربلائے امین الدولہ بہادر میں سونپ دی گئی۔

وصیت

اپنا وصیت نامہ وفات سے برسوں قبل تیار کرلیا تھا۔ یہ وصیت نامہ بہت سے وصایا پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اہم وصایا:

  1. میرے ورثاء، اعقاب اور احباب خوف خدااور اتباع احکام الٰہی اختیار کریں اور میرے فراق میں جزع و فزع نہ کریں بلکہ صبر سے کام لیں۔
  2. میرے مرنے کے بعد وہی الفاظ جو میری زندگی میں میرے لیے استعمال ہوتے تھے، میرے بعد بھی استعمال ہوں۔
  3. میرے حالات کے تذکرہ میں مبالغہ سے کام نہ لیں اور جب کبھی میرا تذکرہ ہو تو آخر میں ایک مرتبہ سورہ فاتحہ اور تین مرتبہ سورہ توحید پڑھ کے اس کا ثواب مجھے بخشیں۔
  4. اگر میری موت لکھنو میں واقع ہو، تو میری میت کو دریا پر غسل نہ دیں، بلکہ کربلائے امین الدولہ بہادر میں غسل دیں اور وہیں سونپ دیں اور چند روز کی سپردگی کے بعد آگرہ لے جا کر مزار شہید ثالث علیہ الرحمہ میں اس طرح دفن کریں کہ قبر زمین سے بلند نہ ہو کہ زائرین مزار مقدس کی تکلیف کا باعث بنے۔
  5. فاتحہ خوانی اور اس کے مراسم میں اقتصاد کا لحاظ رکھیں۔ اگر میرے احباب میرے لیے اہدائے ثواب کی غرض سے مجلسیں کریں تو اس میں بھی اخلاص، سادگی اور اقتصاد کو پیش نظر رکھیں۔

اولاد

آپ کی اولاد میں

  • سید محمد نصیر
  • سید محمد سعید

اور تین صاحبزادیاں ہیں۔

حوالہ جات

  1. ابن عنبہ، عمدة الطالب 228
  2. مجلسی، بحار الانوار تعلیقہ 48/284
  3. مرزا احمد کاظمینی، حالات ناصر الملت ملخص از 14 تا 17۔
  4. سيد ناصر حسين ہندی و إفحام الأعداء والخصوم-(ص: 8)
  5. سيد ناصر حسين ہندي و إفحام الأعداء والخصوم-(ص: 8)
  6. مرزا احمد کاظمینی، حالات ناصر الملت، ص22۔
  7. سيد محسن الأمين، أعيان الشيعہ: ج10،ص200
  8. امین عاملی، اعیان الشیعہ،10/200
  9. احمد حسن کاظمینی، حالات ناصر الملت،41
  10. مرزا کاظمینی کے رسالے میں عنوان کے تحت مصنف نے 9 ربیع الاول 1362 ھ کی تاریخ لکھی ہے۔
  11. مرزا احمد حسن کاظمینی، حالات ناصر الملت 42
  12. سبیکۃ اللجین، ص 20۔
  13. سبیکۃ اللجین، ص 20۔
  14. سبیکۃ اللجین، ص 20۔
  15. سبیکۃ اللجین، ص 20۔
  16. سبیکۃ اللجین، ص 20۔
  17. سبیکۃ اللجین، ص 20۔
  18. سبیکۃ اللجین، ص 20۔
  19. الذريعۃ إلى تصانيف الشيعہ (26/ 31)
  20. سبیکۃ اللجین، ص 20۔
  21. الذريعہ إلى تصانيف الشيعہ (1/ 124)
  22. الذريعہ إلى تصانيف الشيعہ (1/ 269)
  23. تہرانی ،الذريعہ إلى تصانيف الشيعہ (15/ 45)

مآخذ

  • ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، چاپ: الثانيہ، سال چاپ: 1380- 1961 م، چاپخانہ: ناشر: منشورات المطبعہ الحيدريہ-النجف الأشرف (سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)
  • سید محسن امین عاملی، اعیان الشیعہ، وفات : 1371، تحقيق: تحقيق و تخريج: حسن الأمين، ناشر: دار التعارف للمطبوعات -بيروت- لبنان (سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)۔
  • بزرگ تہرانی وفات: 1389، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، چاپ : الثالثہ، سال چاپ : 1403 - 1983 م، ناشر : دار الأضواء - بيروت - لبنان (سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)
  • علامہ مجلسی، بحار الانوار، چاپ: الثانيہ المصححہ، سال چاپ: 1403-1983 م، ناشر: مؤسسۃ الوفاء -بيروت- لبنان۔(سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)۔
  • مرزا احمد حسن کاظمینی، حالات ناصر الملت، ناشر: مرکز احیاء آثار برصغیر، قم۔
  • سید ناصر حسین ہندی، افحام الاعداء و الخصوم، تقديم: دكتور محمد ہادي الأمينی، ناشر: مكتبہ نينوى الحديثہ - طہران۔(سافٹ وئر مکتبۂ اہل البیت)

بیرونی روابط

اس مقالے کو مرزا احمد حسن کاظمینی کی کتاب حالات ناصر الملت سے لکھا گیا۔