سید علی حسینی سیستانی
شیعہ مرجع تقلید | |
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | سید علی حسینی سیستانی |
لقب/کنیت | حسینی، سیستانی |
تاریخ ولادت | 4 اگست 1930ء |
علمی معلومات | |
اساتذہ | آیت اللہ حجت، آیت اللہ بروجردی، آیت اللہ خوئی، شیخ حسین حلی |
اجازہ اجتہاد از | آیت اللہ خوئی، شیخ حسین حلی |
خدمات |
سید علی حسینی سیستانی (متولد 1930ء) شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں اور نجف اشرف میں درس خارج فقہ و اصول کے استاد ہیں۔ انہوں نے حوزوی تعلیم مشہد، قم اور نجف میں حاصل کی ہے اور سید محمد حجت کوہ کمرہ ای، آیت اللہ بروجردی اور آیت اللہ خوئی کے دروس میں شرکت کی ہے۔ آیت اللہ خویی کے انتقال کے بعد سن 1413 ہجری میں وہ مرجعیت تک پہنچے اور انہوں نے صدام حسین کے سقوط کے بعد ملک میں نظام حکومت تبدیل ہونے اور جدید ملی قانون کے نافذ ہونے میں مضبوط کردار ادا کیا ہے۔
سید سیستانی نے دہشت گرد تنظیم داعش کے عراق پر حملہ اور مرکزی اور جنوبی علاقوں کی طرف پیش قدمی کو روکنے اور ملک کے دفاع کرنے کے سلسلہ میں واجب کفائی کا فتوی دیا۔ ان کی بعض فقہی تالیفات جیسے قاعدہ لا ضرر و لا ضرار، تقریرات کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔ بہت سے علمی اور تعلیمی مراکز، کتب خانے، فلاحی و رفاہی ادارے دنیا کے مختلف گوشوں جن میں ایران، ترکی، عراق، برطانیہ اور لبنان جیسے ممالک شامل ہیں، آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی طرف سے تاسیس کئے گئے ہیں۔
سوانح عمری
سید علی حسینی سیستانی 9 ربیع الاول 1349ھ بمطابق 4 اگست 1930ء کو مشہد میں متولد ہوئے۔ ان کے والد سید محمد باقر شیعہ علمائ میں سے ہیں اور ان کی والدہ سید رضا مھربانی سرابی کی بیٹی تھیں، ان کے جد سید علی سیستانی نجف اشرف میں میرزای شیرازی کے شاگردوں میں سے تھے وہ سنہ 1318ھ میں ایران واپس آ گئے تھے۔[1]
تعلیمی سفر
سید سیستانی نے ابتدائی اور مقدماتی تعلیم مشہد میں حاصل کی اور سن 1360 ق کی ابتدائ میں انہوں نے حوزوی علوم کی مقدماتی تعلیم کا آغاز کیا۔ ادبیات عرب ادیب نیشاپوری سے، شرح لمعہ و قوانین سید احمد مدرس یزدی سے، فقہ و اصول کی سطوح عالی کی کتابیں میرزا ہاشم قزوینی سے پڑھیں اور فلسفہ کے دروس سیف اللہ ایسی میانجی، شیخ مجتبی قزوینی اور میرزا مھدی اصفہانی سے پڑھے، سید علی سیستانی نے اسی طرح سے میرزا مہدی آشتیانی اور میرزا ھاشم قزوینی کے درس خارج میں بھی شرکت کی۔[2]
قم میں تین سالہ قیام
سید علی سیستانی سن 1368 ق میں شہر قم میں وارد ہوئے اور وہاں آیت اللہ بروجردی کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کی اور اسی طرح وہ آیت اللہ حجت کوہ کمرہ ای کے درس خارج میں بھی شرکت کرتے تھے۔[3]
اسی دور میں انہوں نے سید علی بھبھانی سے جو محقق تھرانی کے مکتب فقہی کے پیروکار تھے، خط و کتابت کے ذریعہ سے رابطہ رکھتے ہوئے قبلہ شناسی کے موضوع پر خامہ فرسائی کی۔ جس کے نتیجہ میں سید علی بھبھانی نے انہیں 7 رجب 1370 ق کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے سید علی سیستانی کو جن کی عمر اس وقت 21 سال تھی، عمدۃ العلمائ و نخبۃ الفقہائ المدققین کے لقب سے سرفراز کیا اور باقی بحث کو ملاقات کے وقت پر موکول کیا۔[4]
نجف کی طرف ہجرت
سید علی سیستانی نے سن 1371 ق میں نجف اشرف کا سفر اختیار کیا اور وہاں مدرسہ بخارایی میں سکونت اختیار کی۔ آیت اللہ خویی اور شیخ حسین حلی کے درس خارج میں شرکت کی۔ ان دونوں دروس میں طولانی مدت تک شرکت کرنے کے علاوہ انہوں نے سید محسن حکیم اور سید محمود شاہرودی کے دروس سے بھی کسب فیض کیا۔[5]
اجتہاد و مرجعیت
سید علی سیستانی نے سن 1380 ق میں 31 سال کی عمر میں اپنے دو اساتذہ آیت اللہ خویی اور شیخ حسین حلی سے اجتہاد کا اجازہ مطلق حاصل کیا۔[6] شیخ حسین حلی سے اجتہاد کا اجازہ مطلق حاصل کرنے والے وہ فرد فرید ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے بھی سن 1380 ق کی اپنی ایک تحریر میں سید علی سیستانی کے علم رجال اور حدیث پر تسلط کی گواہی دی ہے۔ [7]
آیت اللہ سیستانی 5 جمادی الثانیۃ 1409 ق میں اپنے استاد آیت اللہ خوئی کی خواہش پر مسجد خضرائ کے امام جماعت متعین ہوئے۔ اس سے پہلے تک آیت خوئی مسجد خضرائ میں نماز جماعت کا فریضہ ادا کرتے تھے، بیماری کے سبب انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے شاگرد کے سپرد کر دی۔ سید سیستانی ذی الحجہ 1414 ق کے آخری جمعہ اور عراقی حکومت (صدام حسین کے زمانہ میں) کی طرف سے اس مسجد کا دروازہ بند ہونے تک اس میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔[8]
سید علی سیستانی 8 صفر 1413 ق میں آیت اللہ خوئی کے انتقال کے بعد مرجعیت کے منصب پر فائز ہوئے۔ 1414 ق میں سید عبد الاعلی سبزواری اور سید محمد رضا گلپایگانی کی رحلت کے بعد اور اس کے بعد محمد علی اراکی اور سید محمد روحانی انتقال کے بعد ان کے مقلدین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔[9]
سیاسی و سماجی کارنامے
آیت اللہ خویی کی نماز جنازہ کی امامت:
آیت اللہ خوئی کی وفات کے بعد، سید علی سیستانی نے جو ان کے مہم ترین شاگردوں میں سے تھے، ان کی نماز جنارہ پڑھائی۔ حوزہ کی سنت کے مطابق، جو بھی گزشتہ مرجع تقلید کے جنازہ پر نماز پڑھاتا ہے وہی اس کا جانشین بنتا ہے۔[10] اگر چہ صدام حسین کی حکومت کے زمانہ میں شیعوں اور حوزہ علمیہ نجف کے حالات سخت اور پیچیدہ ہونے اور آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری کے 25 مرداد 1372 ش تک ہونے کے سبب خاموشی کے ساتھ آیت اللہ سیستانی کی مرجعیت کا آغاز ہوا۔[11] البتہ آیت اللہ خوئی کے ایک شاگرد جعفر نطنزی کا ماننا ہے کہ آیت اللہ خوئی کے جنازہ پر آیت اللہ سیستانی کا نماز پڑھانا ان کے جانشین ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ہے کیونکہ اس وقت نجف اشرف میں کوئی بچا ہی نہیں تھا۔ نطنزی اسی طرح سے آیت خوئی کی تشییع جنازہ اور آیت اللہ سیستانی کے نماز پڑھانے کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ کوئی تشییع کا ماحول یا ہلچل نہیں تھی، جنازہ کو لایا گیا انہوں نے نماز پڑھائی اور چلے گئے۔ بعد میں بھی کوئی ایسی علامت دیکھنے میں نہیں آئی جو ان کی مرجعیت کی دلیل بن سکتی ہو۔ وہ ایک فہیم اور با فراست انسان ہیں۔ ان کے بعد آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری مرجع تقلید تھے۔[12]
عراقی حکومت اور قانون کی تبدیلی میں کردار:
آیت اللہ سیستانی نے عراق پر امریکی فوجیوں کے حملہ اور صدام حسین کی حکومت کے سقوط کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کی مقاومت میں دلچسبی نہیں دکھائی۔ اور انہوں نے ہمیشہ جی گارنر اور پال بارمر جیسی امریکی شخصیات سے ملاقات سے پرہیز کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے عراق میں جدید حکومت کے قیام اور جدید ملی قوانین کی تدوین کے سلسلہ میں ہونے والے مختلف انتخابات میں عوام کو اس میں شرکت کرنے کی طرف تشویق کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کرداد ادا کیا۔[13]
امریکی و عراقی افواج و مقتدی صدر کے تنازع کا حل:
1383 ش میں روزنامہ الحوزہ پر پابندی کے ساتھ ہی جس میں مقتدی صدر کے اسلامی اور امریکہ مخالف نظریات نشر ہوتے تھے،[14] جیش المہدی کے نیم فوجی دستوں اور عراق میں موجود امریکی افواج کے ساتھ جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔ یہ بحران امریکی فوج کے ٹینکوں کے کربلا، نجف اور کوفہ جیسے شہروں میں داخل ہونے اور وہاں لڑائی اور جھڑپوں کا سبب بنا۔[15] جس کے نتیجہ میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ 1383 ش میں اردیبہشت سے لیکر مرداد کے مہینے تک سپاہ مہدی اور امریکی و عراقی افواج کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ جس کے نتیجہ میں شہر نجف کا محاصرہ کر لیا گیا اور امیر المومنین (ع) کے حرم کو نقصان پہچا اور عراق کے شیعہ نشین علاقوں میں بسنے والے دسیوں افراد جاں بحق ہوئے[16] اور امیر المومنین علیہ السلام کے حرم میں سپاہ مہدی نے اپنے سنگر بنا لئے۔[17] [18]آخر کار اس بحران کا حل آیت اللہ سیستانی کے اس میں وارد ہونے اور اس مسئلہ پر ان کی طرف پیش کی گئیں امن پسند تجاویز سے نکالا گیا اور 6 شہریور 1383 ش کو اس کا سد باب ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد سے امیر المومنین علیہ السلام کے حرم اور مسجد کوفہ کی تمام تر ذمہ داریوں کو مرجعیت کے سپرد کر دیا گیا۔[19]
داعش سے جہاد کا فتوا:
آیت اللہ سیستانی نے عراقی شہر موصل کے سقوط اور داعش کے عراق کے مرکزی اور جنوبی علاقوں کی طرف رخ کرنے کے بعد ملک و ملت اور مقدسات دینی کے دفاع کے سلسلہ میں واجب کفائی کا حکم دیا۔ اور جنگ کرنے کی توانائی رکھنے والے شہریوں کو دفاع اور مقابلہ کے لئے اسلحہ اٹھانے اور فوج کے ساتھ ملحق ہونے کے لئے طلب کیا۔[20] آیت اللہ سیستانی کی اس خواہش کا شہر کربلا کے امام جمعہ اور آیت اللہ سیستانی کے نمایندہ عبد المہدی کربلائی نے اعلان کیا اگر چہ یہ حکم فتوی کی شکل میں نہیں تھا۔[21] لیکن بعض تحلیل کے مطابق فتوی کے حکم میں تھی اور یہ حکم سبب بنا کہ لاکھوں افراد داعش کے ساتھ مقابلہ کے لئے عراقی افواج کے ساتھ ملحق ہو گئے۔[22][23]
فرانسیس کیتھولک پاپ کی آیت اللہ سیستانی سے ملاقات
فرانسیس کیتھولک میسحیوں کے پاپ نے عراق کے سفر کے دوران 6 مارچ سنہ 2021ء کو نجف میں آیت اللہ سیستانی کے گھر آکر آپ سے ملاقات کی۔[24] آیت اللہ سیستانی نے اس ملاقات میں دنیا مختلف ممالک میں انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، غربت، دینی اور فکری محدودیت، آزادی سے محرومی اور معاشرتی ناانصافی بالخصوص مشرق وسطی میں جنگ اور تشدد نیز اس خطہ اور فلسطین میں اقتصادی پابندیوں اور غیر ارادی آوارگیوں کا تذکرہ کیا۔[25]
تالیفات
آیت اللہ سیستانی کی تالیفات میں کچھ کتابیں نشر ہو چکی ہیں جبکہ بعض تصنیفات ابھی بھی غیر مطبوعہ شکل میں ہیں۔ مطبوعہ کتابوں میں زیادہ تر ان کے فتاوی اور دروس کی تقریرات ہیں، جن کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:
1۔ منھاج الصالحین، سید علی سیستانی کے فتاوی پر مشتمل ہے جو تین جلدوں میں سن 1315 ق میں قم میں طبع ہوئی ہے۔ منھاج الصالحین سید محسن الحکیم کی تالیف ہے، آیت اللہ خوئی نے اپنے فتاوی کو اس پر تطبیق دے کر اور اس میں بعض ابواب و فصول کا اضافہ کرکے شائع کیا ہے۔ اور ان کے بعد ان کے شاگرد سید علی سیستانی نے بھی اسی روش کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کتاب پر آیت اللہ سیستانی کی طرف سے مقدمہ لکھے جانے کی تاریخ 20 ذی الحجۃ 1413 ق ہے۔[26]
2۔ قاعدہ لا ضرر و لا ضرار، آیت اللہ سیستانی کے ففہ کے دروس کی تقریرات ہیں، جنہیں سید محمد رضا سیستانی نے تحریر کیا ہے اور یہ کتاب سن 1414 ق میں شائع ہوئی ہے۔[27]
3۔ اختلاف الحدیث، سید سیستانی کے دروس حدیث کی تقریرات ہیں، جنہیں سن 1396 میں ان کے ایک شاگرد سید ہاشم ھاشمی نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب 195 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے ذاتی طور پر (غیر رسمی طور پر) شائع کیا گیا ہے۔ اس تالیف سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف احادیث کے رفع کے سلسلہ میں آیت اللہ سیستانی کے نظریات، تعادل و تراجیح پر مبتنی ہونے سے زیادہ اس کے اسباب اور منشائ پیدائش کی تجدید پر مشتمل ہیں۔[28]
4۔ العروۃ الوثقی، سید کاظم یزدی کی کتاب پر سید علی سیستانی کے تالیقات ہیں۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن 1431 ق میں بیروت سے شائع ہوا ہے اور یہ دو جلد پر مشتمل ہے۔[29]
5۔ الرافد فی علم اصول، سید منیر سید عدنان القطیفی کی تالیف ہے۔ اس میں آیت اللہ سیستانی کے دروس اصول کی تقریرات ہیں۔ یہ کتاب ایک جلد پر مشتمل ہے اور عربی زبان میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں مکتب امامیہ میں علم اصول فقہ کی اہمیت و منزلت، اس کے ادوار فکری وغیرہ کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے۔[30]
وابستہ مراکز و ادارے
آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی طرف خدمات انجام دینے والے علمی و ثقافتی ادارے دنیا کے مختلف گوشوں قم (ایران)، لندن (برطانیہ)، بیروت (لبنان)، استانبول (ٹرکی)، ایلام (ایران) میں قائم ہیں۔ ذیل میں ان کا ذکر کیا جا رہا ہے:
1۔ امام علی (ع) سینٹر، قم (ایران)؛ اسلامی کتب اور ائمہ اہل بیت علیھم السلام علوم و معارف کے ترجمے اور نشر و اشاعت کی غرض سے 1373 ش میں[31] تاسیس کیا گیا۔ دنیا بھر کی 25 اہم زبانوں میں اس کی طرف سے کتابیں طبع و شائع ہو چکی ہیں۔ اس ادارہ کا شعبہ لندن اور بیروت میں بھی ہے جو بالترتیب سن 1416 اور 1417 ق میں قائم کیا گیا ہے۔[32]
2۔ آل البیت ثقافتی سینٹر، استانبول (ٹرکی)؛ اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے احیائ، عوام کو مکتب اہل بیت سے متعارف کرانے اور اسلامی و مذہبی تعلیمات کی حفاظت کے مقصد سے سن 1380 ش میں ٹرکی کے شہر استانبول میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ قرآنی و دینی کلاسوں کا انعقاد، مذہبی رسومات کا انعقاد، ٹرکی میں اہل بیت نامی اولین تخصصی کتب خانہ کا قیام، دینی و مذہبی سیمیناروں کا انعقاد، دینی کتب و مجلات کا ترجمہ و نشر و اشاعت جیسے امور اس ادارہ کی فعالیت میں شامل ہیں۔[33] اس ادارہ کے ایک شعبہ نے جرمنی میں سن 1384 ش سے اپنی خدمات کا آغاز کیا ہے۔[34]
3۔ اعتقادی تحقیقاتی سینٹر، قم؛ یہ ادارہ مختلف شعبوں جیسے کتب خانہ، عقیدہ سے مربوط اعتراضات کا جواب دینے والی محققین کی کمیٹی، ہدایت یافتہ افراد کے امور پر توجہ، اسناد و دستاویز، عقائد سے متعلق کانفرنس اور انٹر نیٹ جیسے امور کے سلسلہ میں خدمات انجام دیتا ہے۔[35]
4۔ المصطفی اسلامی تحقیقاتی سینٹر، قم؛ اس ادارہ کے قیام کا مقصد، عقائد پر مبنی شیعہ سنی مصادر و منابع پر مشتمل ایک اطلاعاتی بینک یا ذخیرہ ایجاد کرنا ہے۔ اور اس نے عقائد کے دائرۃ المعارف یا انسائکلو پیڈیا کی تالیف کے لئے تین ہزار سے زیادہ جلدوں کی تحقیق اور جمع آوری انجام دی ہے۔[36]
5۔ اسلامی میراث کے احیائ کا مزکر، قم؛ یہ ادارہ خطی یا مخطوطات کے منابع و مصادر کی جمع آوری کی غرض سے تاسیس کیا گیا ہے۔[37]
6۔ فلکیات و نجومی تحقیقات کا مرکز، قم؛ اس ادارہ کی بنیاد 1418 ش میں رکھی گئی ہے اور اس کی تشکیل کا ہدف نجوم، منظومہ شمسی، اسلامی علم فلکیات سے متعلق تعلیم، فلکیات و نجوم کالج کا قیام، کتب خانہ تخصصی نجوم کی تاسیس، نجوم سے متعلق مقالات کا ترجمہ، رصد خانہ یا لیبوریٹری کا قیام، نجوم کے سلسلہ میں اسلامی محققین کی تالیفات کی طباعت، نجومی کیلینڈر کی طباعت وغیرہ جیسے امور کی انجام دہی ہے۔[38]
7۔ امام صادق کلچرل کامپلیکس، بیروت (لبنان)؛ 1385 ش میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارہ میں شرعی سوال و جواب کا دفتر، کتب خانہ اور آڈیٹوریم اپنی فعالیت انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ادارہ کا ایک اور مقصد سماجی و ثقافتی فلاحی اور خیراتی امور کی انجام دہی ہے۔[39]
8۔ آل البیت گلوبل انفارمیشن سینٹر، قم؛ یہ ادارہ بہار 1377 ش میں تاسیس کیا گیا۔ اس کی فعالیت میں سے ایک انٹر نیٹ ویب سایٹ الشیعہ www.al-shia.org کا قیام ہے۔[40] جس کا مقصد شیعہ اور اہل بیت علیہم السلام کے معارف اور تعلیمات کی نشر و اشاعت ہے۔[41] یہ ویب سائٹ دنیا کی اہم 29 زبان میں خدمت انجام دے رہی ہے۔[42] اسی نام کے دوسرے ادارے نجف[43]، کربلا[44]، کاظمین[45] (عراق) اصفہان، تہران اور ایلام[46] (ایران) میں انٹر نیٹ کے ذریعہ اسلامی اور شیعی تعلیمات کی تبلیغ کی غرض سے ان شہروں میں قائم کئے گئے ہیں۔
9۔ شہر قم میں تخصصی کتب خانے؛ آیت اللہ سیستانی کے دوسرے اداروں میں سے ایک یہ ادارہ بھی ہے جو مختلف موضوعات تفسیر و علوم قرآن، علوم حدیث، فقہ و اصول، فلسفہ و کلام، ادبیات عرب، تاریخ اسلام و ایران پر فعالیت انجام دے رہا ہے۔
کتب خانہ تخصصی تفسیر علوم قرآن، قم؛ 1418 ق میں اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس نے 15 ہزار سے زائد فارسی و عربی کتابوں کے ساتھ اپنی فعالیت کا آغاز کیا ہے۔[47]
کتب خانہ تخصصی علوم حدیث، قم؛ 1418 ق میں اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور اس میں شیعہ حدیث، رجال و درایہ، انسائکلو پیڈیا، ڈکشنری و لغات، انگریزی و فرانسوی و جرمن زبابوں میں حدیث کے منابع و مآخذ جیسے موضوعات پر کتابیں شامل ہیں اور اسی طرح سے اس میں حدیث متعلق مجلات موجود ہیں۔[48]
کتب خانہ تخصصی فقہ و اصول، قم؛ 1420 ق میں اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور افتتاح کے وقت اس میں 15 ہزار سے کتب اور 1580 تخصصی مجلات موجود تھے۔ اس میں فقہ و اصول اور رجال و حقوق جیسے موضوعات پر کتابیں شامل ہیں۔[49]
کتب خانہ تخصصی فلسفہ و کلام، قم؛ اس کتب خانہ میں فلسفہ، کلام، منطق، تاریخ، حکمت، عرفان و مذاہب فلسفی اور ادیان مختلف جیسے موضوعات پر کتابیں شامل ہیں۔[50]
کتب خانہ تخصصی ادبیات عرب، قم؛ 1418 ق میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور اس میں عربی و فارسی کی 45 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔[51]
کتب خانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران، قم؛ 1374 شمسی میں اس نے 4 ہزار کتابوں کے ساتھ اپنی فعالیت کا آغاز کیا اور 1390 ش میں اس میں موجود کتب کی تعداد میں ایک لاکھ پندرہ ہزار تک کا اصافہ ہو چکا تھا۔ اب تک اس کتب خانہ کی طرف سے 16 عنوان کتب طبع ہو چکی ہیں۔[52]
آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی طرف سے سماجی و فلاحی خدمات کے سلسلہ میں کافی مراکز دنیا کے مختلف گوشوں میں قائم کئے گئے ہیں:
1۔ مدینۃ العلم ثقافتی رہائشی کامپلیکس، نجف اشرف؛ طلاب حوزہ علمیہ کی رہائش کے مقصد سے اس کی بنیاد رکھی گئی۔[53] اس میں رہایشی عمارتیں، کنڈر گارڈن، ابتدائی و متوسطہ و ہائی اسکول، ہاسپیٹل و شاپنگ سینٹر کے ساتھ ساتھ ثقافتی مرکز جیسے کتب خانہ بھی شامل ہیں۔ آیت اللہ سیستانی ثقافتی رہایشی کامپلیکس، قم؛ میں بھی حوزہ علمیہ قم کے طلاب کی رہایش کے مقصد سے 1416 ق تاسیس کیا گیا۔[54] اسی طرح سے آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی جانب سے قم کے مہدیہ رہایشی کامپلیکس کی تعمیر میں جو قم میں حوزہ علمیہ کے طلاب کے لئے بنایا گیا ایک دوسرا کامپلیکس ہے، تعاون شامل رہا ہے۔[55] ثامن الحجج رہایشی کامپلیکس مشہد[56] اور اسی طرح سے امام ہادی رہائشی کامپلیکس قم بھی اسی تعاون اور مشارکت کی مثال ہیں۔[57]
2۔ مدرسہ علمیہ بلاغی[58] و نجم الائمہ[59] نجف، مدرسہ قرآنی کربلا،[60] مدرسہ حضرت رقیہ برای ایتام، کربلا،[61] آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی طرف سے تاسیس اور چلائے جا رہے ہیں۔
3۔ فلاحی اسپتال حضرت امام صادق (ع) قم،[62] فلاحی اسپتال امام حسن مجتبی (ع) ایلام،[63] امام حسین (ع) تخصصی اسپتال، کربلا،[64] جواد الائمۃ تخصصی و فوق تخصصی آئی ہاسپیٹل قم،[65] اور اسی طرح سے رفاہی ادارہ اجتماعی العین جو یتیموں کی حمایت اور ان کی سر پرستی کے کئے بنایا گیا ہے،[66] آیت اللہ سیستانی کے دفتر کے سماجی کاموں میں سے ایک ہے
حوالہ جات
- ↑ زندگینامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
- ↑ زندگینامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
- ↑ زندگینامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
- ↑ زندگینامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
- ↑ زندگینامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
- ↑ زندگینامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
- ↑ زندگینامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
- ↑ زندگینامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
- ↑ زندگینامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
- ↑ فتحی، «فقیهی برای همه اعصار
- ↑ شیعه با وجود آیت الله سیستانی احساس عزت میکند
- ↑ شیعه با وجود آیت الله سیستانی احساس عزت میکند
- ↑ فتحی، «فقیهی برای همه اعصار
- ↑ صالح، «ستارگان علمی و جهادی در عراق چه کسانی هستند؟
- ↑ خداحافظی مقتدا صدر از سیاست؛ نگاهی به زندگی وی
- ↑ درگیری خونین در نجف، ورود تانکهای ارتش امریکا به کربلا
- ↑ شروع و پایان جیش المهدی، گروه نظامی جریان صدر
- ↑ ستارگان علمی و جهادی در عراق چه کسانی هستند؟
- ↑ سفر درمانی حضرت آیت الله سیستانی؛ بازگشت به عراق و حل بحران نجف - بخش پایانی
- ↑ نقش فتوای جهادی آیت الله سیستانی در جلوگیری از تجریه عراق
- ↑ معموری، «نقش آیت الله سیستانی در افزایش مسئولیت اخلاقی در جنگ با داعش
- ↑ نقش فتوای جهادی آیت الله سیستانی در جلوگیری از تجریه عراق
- ↑ آیت الله سیستانی فتوای جهاد صادر کرد
- ↑ پاپ فرانسیس با آیتالله سیستانی در نجف اشرف ملاقات کرد، خبرگزاری ایرنا.
- ↑ بیانیه دفتر آیتالله العظمی سیستانی از دیدار پاپ، خبرگزاری ایرنا.
- ↑ سیستانی، منهاج الصالحین، 1415ق، ج1، ص5.
- ↑ سیستانی، قاعدة لا ضرر و لا ضرار، قم، 1414ق
- ↑ آیت الله العظمی سیستانی و اختلاف الحدیث
- ↑ یزدی، العروة الوثقی، 1431ق.
- ↑ سیستانی، الرافد فی علم الاصول، 1414ق.
- ↑ معرفی موسسه
- ↑ موسسه امام علی (ع) - قم
- ↑ موسسه فرهنگی آل البیت (ع) - استانبول
- ↑ موسسه فرهنگی آل البیت (ع) - برلین
- ↑ مرکز پژوهشهای اعتقادی - قم
- ↑ مرکز تحقیقات اسلامی المصطفی (ص) – قم
- ↑ مرکز احیای میراث اسلامی - قم
- ↑ مرکز پژوهشهای فلکی - نجومی - قم
- ↑ مجتمع فرهنگی امام صادق (ع) - بیروت
- ↑ صفحه معرفی سایت
- ↑ مرکز جهانی اطلاعرسانی آل البیت (ع) - قم
- ↑ پایگاه اینترنتی الشیعه: al-shia.org
- ↑ مرکز اطلاعرسانی آل البیت (ع) - شبکه نجف اشرف
- ↑ مرکز اطلاعرسانی آل البیت (ع)- شبکه کربلا
- ↑ مرکز اطلاعرسانی آل البیت (ع) - شبکه کاظمین
- ↑ مراکز و موسسات
- ↑ کتابخانه تخصصی تفسیر و علوم قرآنی - قم
- ↑ کتابخانه تخصصی علوم حدیث - قم
- ↑ کتابخانه تخصصی فقه و اصول - قم
- ↑ کتابخانه تخصصی فلسفه و کلام - قم
- ↑ کتابخانه تخصصی ادبیات - قم
- ↑ کتابخانه تخصصی تاریخ اسلام و ایران - قم
- ↑ مجتمع فرهنگی مسکونی مدینة العلم ـ نجف اشرف
- ↑ مجتمع فرهنگی مسکونی حضرت آیت الله العظمی سیستانی (دام ظله) ـ قم
- ↑ مجتمع مسکونی مهدیه - قم
- ↑ مجتمع مسکونی ثامن الحجج (علیه السلام) ـ مشهد
- ↑ مجتمع مسکونی امام هادی (ع) - قم
- ↑ مدرسه علامه بلاغی - نجف اشرف
- ↑ مدرسه دینی نجم الائمه - نجف اشرف
- ↑ مدرسه قرآنی ـ کربلا
- ↑ مدرسه حضرت رقیه (علیها السلام) برای ایتام ـ کربلا
- ↑ درمانگاه خیریه امام صادق (علیه السلام) - قم
- ↑ درمانگاه خیریه امام حسن مجتبی (علیه السلام) ـ ایلام
- ↑ درمانگاه تخصصی امام حسین (علیه السلام) ـ کربلا
- ↑ مرکز تخصصی و فوق تخصصی چشم پزشکی جواد الائمه (علیه السلام) ـ قم
- ↑ مؤسسه رفاه اجتماعی العین
مآخذ
- آیت الله العظمی سیستانی و اختلاف الحدیث، سایت مباحثات، تاریخ درج مطلب: 24 آبان 1393ش، تاریخ بازدید: 14 خرداد 1396ش.
- آیت الله سیستانی فتوای جہاد صادر کرد، خبرگزاری رسا، تاریخ درج مطلب: 23 خرداد 1393ش، تاریخ بازدید: 17 خرداد 1396ش.
- پایگاه اطلاع رسانی الشیعہ
- خداحافظی مقتدا صدر از سیاست؛ نگاہی بہ زندگی وی، سایت دیپلماسی ایرانی، تاریخ درج مطلب: 27 بهمن 1392ش، تاریخ بازدید: 17 خرداد 1396ش.
- درگیری خونین در نجف، ورود تانک ہای ارتش امریکا به کربلا، سایت جامع فرهنگی مذہبی شہید آوینی، تاریخ درج مطلب: 19 اردیبہشت 1383ش، تاریخ بازدید: 17 خرداد 1396ش.
- درمانگاه تخصصی امام حسین (علیہ السلام) ـ کربلا، پایگاه اینترنتی دفتر آیت الله سیستانی، تاریخ بازدید: 15 خرداد 1396ش.
- درمانگاه خیریہ امام حسن مجتبی (علیہ السلام) ـ ایلام، پایگاه اینترنتی دفتر آیت الله سیستانی، تاریخ بازدید: 15 خرداد 1396ش.
- درمانگاه خیریہ امام صادق (علیہ السلام) - قم، پایگاه اینترنتی دفتر آیت الله سیستانی، تاریخ بازدید: 15 خرداد 1396ش.
- زندگی نامہ حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی، سایت رسمی دفتر آیت الله سیستانی، تاریخ بازدید: 14 خرداد 1396ش.
- صالح، سہا، «ستارگان علمی و جہادی در عراق چہ کسانی هستند؟»، خبرگزاری دانشجو، تاریخ درج مطلب: 21 آذر 1394، تاریخ بازدید: 17 خرداد 1396ش.
- سیستانی، سید علی، منہاج الصالحین، ج1، قم، مکتب آیة الله العظمی السید السیستانی، 1415ق.
- سیستانی، سید علی، قاعدة لا ضرر و لا ضرار، قم، مكتب سماحة آيت الله العظمى السيد السيستانی، 1414ق.
- سیستانی، سید علی، الرافد فی علم الاصول، قم، مکتب آیت الله العظمی السید السیستانی، 1414ق.