تفأل
تَفَأُّل نیک شگون اور نیک فال لینے اور اچھی توقع رکھنے کو کہا جاتا ہے۔ روایات میں اس کام کی تاکید ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں تَطَیُّر ہے جو فال بد کے معنی میں ہے اور اس سے منع ہوئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ رسول اللہؐ اکثر کاموں کے بارے میں نیک فال لیتے تھے؛ منجملہ صلح حُدَیبیّہ کے بارے میں، جب مکہ کے بزرگوں کا نمائندہ آپ کے پاس آیا، تو اسے آپ نے نیک فال قرار دیتے ہوئے آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: «اب تم پر کام آسان ہوگیا۔»
نیک فال کی تاکید اور بد فال سے منع کرنے کی علت یہ ہے کہ نیک فال سے امید آجاتی ہے اور سائکلوجیکل مثبت آثار ہیں۔ بعض روایات میں قرآن مجید سے نیک فال لینا منع کیا گیا ہے؛ لیکن بعض علما کا کہنا ہے کہ ان روایات کا مراد، قرآن کے ذریعے آیندہ رونما ہونے والے حادثات کی پیشنگوئی کرنا ہے؛ ورنہ ہر قسم کا فال ممنوع نہیں ہے۔
فال اور استخارہ کے درمیان فرق ہے۔ استخارہ اس وقت لیا جاتا ہے کہ جب انسان کسی چیز کے بارے میں شک میں پڑجائے اور اس کی شناخت اللہ کے حوالے کرتا ہے۔ یوانِ حافظ سے فال لینا فارسی زبان مسلمانوں کے درمیان رائج ہے۔
فال کی تعریف، استخارہ اور اس کے درمیان فرق
تَفَأُل کا معنی نیک فال لینا اور نیک شگون لینے کو کہا جاتا ہے، خواہ وہ زبان سے ہو یا دل ہی دل میں ہو؛ تَطَیُّر کے خلاف کہ اس کا معنی برا فال لینا ہے۔[1] فال اور استخارے میں فرق ہے۔ فال سے مراد، اپنے امور اور حادثات میں امید رکھنا اور مثبت سوچنا ہے؛[2] جبکہ استخارہ سے مراد اپنے ان کاموں کو اللہ کے سپرد کرنا ہے جن کے بارے میں تردید اور شک پائی جاتی ہے اور اس کی اچھائی اور برائی، دوسروں سے مشورے کے ذریعے بھی معلوم نہیں ہوتی ہے۔[3]
تَفَأُل کی تاکید
روایات میں نیک فال لینے کو شائستہ کام قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر رسول خداؐ کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے:«ہمیشہ فالِ نیک لیا کرو تاکہ وہ آپ کو حاصل ہوجائے۔»[4] اسی طرح مزید کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نیک فال کو پسند کرتے تھے اور فالِ بد سے نفرت کرتے تھے[5] اور بہت سارے امور میں فالِ نیک لیا کرتے تھے۔[6]
صلح حُدَیبیّہ کے واقعے میں سہیل بن عمرو جب مکہ کے سرکردوں کی طرف سے مذاکرات کرنے آیا، آپ نے اسے نیک فال قرار دیتے ہوئے فرمایا:« اب تم پر کام آسان ہوگیا۔»[7] اسی طرح جب رسول خداؐ کو خبر دی گئی کہ خسروپرویز نے آپ کا خط پھاڑا ہے اور اس کے جواب میں ایک مشت مٹی بھیجا ہے تو آپ نے اسے نیک فال قرار دیتے ہوئے فرمایا: «انقریب مسلمان اس کی سرزمین کے مال ہونگے۔»[8]
ایک حدیث میں امام علیؐ نے بھی نیک فال لینے کو اچھا اور صحیح قرار دیا ہے۔[9]
نیک فال کی تاکید کی علت
تفسیر نمونہ میں کہا گیا ہے کہ نیک فال لینے کا کوئی طبیعی اثر نہیں ہے لیکن چونکہ اس سے امید آجاتی ہے اور یہ روحی اعتبار سے مثبت اثر کے حامل ہے اسی وجہ سے اسلام میں اس کی تاکید ہوئی ہے اور فالِ بد کی نہی ہوئی ہے۔[10]
فال نیک اور عمومی رسم
فال لینا دنیا میں ایک مرسوم کام ہے اور قدیم الایام سے رائج ہے اور مختلف صورتوں میں انجام دیا جاتا ہے۔[11]مسلمان قرآن سے فالِ نیک لیتے ہیں، فارسی زبان مسلمانوں میں دیوان حافظ اور مثنوی معنوی سے فال لینا بھی مرسوم ہے[12]
فال نیک فارسی ادبیات میں بھی منعکس ہوئی ہے۔ حافظ شیرازی اپنے شعر میں اسے یوں بیان کرتے ہیں:
|
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ طریقہدار، کندوکاوی دربارہ استخارہ، ۱۳۷۷ش، ص۱۱۷.
- ↑ ملاحظہ فرمائیں؛ زوزنی، المصادر، ۱۳۴۵ش، ج۲، ص۵۸۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۶۱ش، ج۶، ص۳۱۷.
- ↑ ضميرى و حسينىزادہ، «استخارہ».
- ↑ مجلسی، بحارالانوار،۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۳۳.
- ↑ ابنمنظور، لسانالعرب ، ۱۴۱۱ق، ج۱۰، ص۱۶۸.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۴ق، ج۱۹ ص۸۶.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۸۱.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۸۱.
- ↑ نہجالبلاغہ، حکمت ۴۰۰.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۶۱ش، ج۶، ص۳۱۷.
- ↑ طریقہدار، کندوکاوی دربارہ استخارہ، ۱۳۷۷ش، ص۱۱۸.
- ↑ طریقہدار، کندوکاوی دربارہ استخارہ، ۱۳۷۷ش، ص۱۲۰.
- ↑ حافظ، غزلیات، غزل ۵۸.
مآخذ
- ابنمنظور، محمد بن مکرم، لسانالعرب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۱ھ۔
- زوزنی، حسین بن احمد، کتاب المصادر، مشہد، تقی بینش، ۱۳۴۵شمسی ہجری
- ضميرى، محمدتقی و سیدعبدالرسول حسينىزادہ، «استخارہ»، در دایرۃ المعارف بزرگ قرآن، تاریخ مشاہدہ: ۳۰ تیر ۱۳۹۸شمسی ہجری
- حافظ، غزلیات، غزل ۵۸، وبگاہ گنجور، تاریخ بازدید: ۲۸ فروردین ۱۳۹۹شمسی ہجری
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، مؤسسہ اعلمی، بیروت، ۱۳۹۴ھ۔
- طریقہدار، ابوالفضل، کندوکاوی دربارہ استخارہ و تفأل، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۷شمسی ہجری
- مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار الجامعۃ لدُرر اخبار الائمۃ الاطہار، تہران، دارالكتب الاسلامیہ، ۱۳۹۰ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتاب الاسلامیۃ، ۱۳۶۱شمسی ہجری
- نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، بیروت، درالکتاب اللبنانی، بیتا.