قربان علی محقق کابلی

ویکی شیعہ سے
(آیت اللہ کابلی سے رجوع مکرر)
قربان علی محقق کابلی
کوائف
تاریخ ولادت29 مئی 1929
آبائی شہردرہ ترکمن (پروان)
رہائشقم
تاریخ وفات11 جون 2019
علمی معلومات
مادر علمیکابلنجف
خدمات
سیاسیتأسیس سازمان دفاع از حریم اسلامی
جنرل سیکرٹری شورائے نظارت حزب وحدت اسلامی
ویب سائٹآیت اللہ العظمی کابلی کی آفیشل ویب سائٹ


قربان علی محقق کابلی (1929-2019 ء) شیعہ مراجع تقلید میں سے، اہل افغانستان اور مقیم قم تھے۔ آپ نے طالبان کی شکست کے بعد افغانستان کے شیعوں کو ملک کے سیاسی نظام میں مشارکت کرنے کی تشویق کی۔ محقق کابلی نے تقریبا بیس برس تک (1953۔1972 ء) حوزہ علمیہ نجف اشرف میں کسب فیض کیا۔ 1979 ء افغانستان میں کمیونسٹ مارشل لاء کے بعد کابل کی حکومت کے خلاف برسر پیکار رہے اور حزب وحدت اسلامی کی تاسیس کے بعد اس کے نظارتی کونسل کی ذمہ داری سنبھالی۔ محقق کابلی حوزہ علمیہ قم فقہ کا درس خارج دیتے تھے جو مباحث الفقہیہ کے نام سے 5 جلدی کتاب کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ بعض معاشرتی مسائل میں وہ خاص نظریات کے حامل تھے جیسے وہ شیر بہا کو حرام سمجھتے تھے۔ سنہ 2019 ء میں قم میں ان کی وفات ہوئی اور حرم حضرت معصومہ میں دفن کئے گئے۔

سوانح حیات

آیت‌ اللہ محقق کابلی بن محمد رضا افغانستان کے ولایت پروان، درہ ترکمن میں 29 مئی 1929ء میں پیدا ہوئے۔[1] ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے شروع کی اور اس کے بعد کابل چلے گئے اور 1953 میں نجف اشرف چلے گئے۔[2]

نجف میں حصول علم

نجف اشرف میں محقق کابلی نے سید عبد الاعلی سبزواری، کاظم تبریزی، عبد الحسین رشتی اور محمد تقی آل‌ رازی کے رسائل و مکاسب، صدرا و مجتبی لنکرانی کے کفایۃ الاصول اور عباس قوچانی کے شرح منظومہ سبزواری کے دروس میں شرکت کی۔[3]

قربان‌ علی نے 1955ء کے موسم سرما سے محمد باقر زنجانی کے درس خارج میں شرکت شروع کی۔[4] دو سال کے بعد سید محسن حکیم اور سید حسین حمامی کے درس خارجِ فقہ میں جبکہ خویی اور حسین حلی کے اصول کے درس خارج میں شرکت کی۔ آپ نے مختصر عرصہ امام خمینی سے بھی کسب فیض کیا۔ درس خارج کے ساتھ ساتھ حوزہ علمیہ کی رائج بعض کتابیں جیسے شرح لمعہ، قوانین، رسائل، مکاسب اور کفایۃ الاصول کی تدریس بھی کرتے رہے۔[5]

کابل واپسی

محقق کابلی، 13 مارچ 1973ء میں کابل واپس آئے اور 1989ء تک وہیں سکونت پذیر رہے۔[6]اس مدت میں آپ نے علوم دینی کی تدرسی اور تبلیغ کے علاوہ چند اسلامی مراکز تاسیس کیا۔ مدرسہ جامعۃ الاسلام کی تاسیس انہی امور میں سے ایک ہے جس میں دینی طلاب کسب فیض کر رہے ہیں۔[7] اسی طرح مسجد امام خمینی کی تعمیر بھی شروع کی لیکن کمیونسٹی مارشل لاء کی وجہ سے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا سکے لیکن چند سالوں بعد اسے بھی تکمیل تک پہنچا دیا۔ اہل بیتؑ کی ولادت اور وفات کے مراسم خاص کر محرم و صفر کی عزاداری، روز جمعہ اور ماہ رمضان میں تقاریر بھی آپ نے انجام دیں۔[8]

1960ء کی دہائی کے ابتدا میں جب کمینسٹوں کی تبلیغات عروج کو پہنچیں تو محقق کابلی نے حوزہ علمیہ کابل میں ان کے نظریات کو نقد کرنا شروع کیا اور بعض دیگر علما؛ واعظ بهسودی، محمد امین افشار اور اسماعیل مبلغ وغیرہ کے ساتھ ملکر اپنی تقاریر کے ذریعے ان نظریات کو نقد کرنا شروع کیا۔[9]یہ کام شیعوں کے مابین تحریک اسلامی کی آغاز کا باعث بنا۔ مئی 1978ء میں افغانستان میں خلق ڈیموکریٹک پارٹی کے مارشل لاء نے اسلامی گروہوں کے وجود میں آنے میں بڑا کردار ادا کیا کیونکہ اس پارٹی نے اپنا منشور اسلامی فعال افراد کی مخالفت اعلان کیا تھا[10] اسی لئے بہت سارے افراد منجملہ محقق کابلی ہمسایہ ممالک، جیسے پاکستان اور ایران چلے گئے۔[11]

پاکستان و ایران میں سکونت

محقق کابلی، شہید عارف حسین الحسینی کے ہمراہ

محقق کابلی فروری 1979 میں پاکستان چلے گئے اور پاکستان میں مقیم حزب اسلامی و جمعیت اسلامی جیسی بعض افغانستانی پارٹیوں نے ان سے ملحق ہونے کی درخواست کی[12]جبکہ بعض نے پاکستان کے شہر کوئٹہ میں سکونت اختیار کرنے کی پیشکش کی۔ آپ مختصر عرصے کے بعد 1980ء کے موسم سرما میں امام خمینی اور قم میں مقیم افغانستانی علماء سے ملاقات کی غرض سے ایران چلے گئے جبکہ اسلامی انقلاب ایران کی کامیابی کو ابھی ایک سال ہوا تھا اور افغانستان کے اکثر شیعہ فعال افراد اسوقت ایران میں موجود تھے۔[13]

آیت‌الله محقق ابتدائی طور پر مشہد اور اس کے بعد قم میں سکونت پذیر ہوئے[14]اور مئی 1992ء میں مجاہدوں کا کابل وارد ہونے تک ایران میں رہے۔ اس عرصے میں آپ نے رسائل اور مکاسب کی تدریس کی جبکہ آخری سالوں میں درس خارج بھی شروع کیا۔[15]

دوبارہ کابل واپسی

کابل میں کمیونسٹ حکومت کے زوال اور مجاہدوں کے کابل ورود باعث بنا کہ محقق کابلی حزب وحدت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کے عنوان سے مئی 1992ء میں دوبارہ کابل لوٹ آئے۔[16] آپ نے کابل میں شیعوں کی نماز جمعہ قائم کیا اور مجاہدوں کے مختلف گروہوں کے باہمی تنازعات اور حزب وحدت اسلامی کے موقف پر شدید حملات کے باوجود آپ نے ایک سال تک نماز جمعہ قائم رکھا۔[17]

ایران میں سکونت اور وفات

آیت‌الله محقق کے گھر اور مسجد پر کابل میں کئی مرتبہ راکٹ سے حملہ ہوا، جس کی وجہ سے 1993 کے ابتدائی مہینوں میں آپ دوبارہ ایران چلے گئے۔[18] محقق کابلی 10 جون 2019ء کی شام کو قم میں وفات پاگئے۔[19] اور ۱۳ جون کو حرم حضرت معصومہ قم میں دفن ہوئے۔[20]

مرجعیت

محقق کابلی نے 1994ء میں اپنا توضیح المسائل زیور طبع سے آراستہ کیا اور مارچ 1994 میں قم میں آپ نے دفتر کا افتتاح کیا۔[21]قم کے علاوہ ایران اور افغانستان کے بڑے شہر جیسے؛ تہران، مشہد، اصفہان، کابل، ہرات اور مزار شریف نیز پاکستان کے شہر کوئٹہ میں بھی دفاتر فعال ہیں۔ آیت‌الله محقق حوزہ علمیہ قم میں خارج فقہ دینے میں مشغول رہے۔[22]بعض کا کہنا ہے کہ کابلی کو ہزارہ شیعوں کے ہاں بڑا مقام حاصل ہے۔[23]

مخصوص نظریات

فقہ اور معاشرتی بعض مسائل میں محقق کابلی کے بعض مخصوص نظریات ہیں۔ ان کی نظر کے مطابق شیر بہاء حرام ہے اور مہر کی مقدار ، جہیز اور شادی کے دیگر اخراجات زیادہ ہونا افراط اور اسراف کے زمرے میں آتے ہیں جو خلاف احتیاط اور شبہہ ناک ہیں۔[24]اسی طرح خطباء، ذاکرین، نوحہ خوان اور عزاداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ زنجیر زنی، برہنہ ہو کر سینہ زنی کرنے اور ایسے مطالب کا بیان جو لوگوں کے اذہان کو منحرف کرتے ہیں، نیز خرفات اور غلو والے مطالب کو بیان کرنے سے اجتناب کریں۔[25]

فعالیت‌های اجتماعی و سیاسی

کتاب تحریر العروۃ الوثقی

آیت‌الله کابلی مرجعیت سے پہلے سیاسی اور جہادی امور میں بھی مشغول رہے تھے۔ کوئٹہ میں مختصر سکونت کے دوران بعض افغانی مہاجرین کے ساتھ ملکر سازمان دفاع از حریم اسلامی کو تاسیس کیا اور اسی تنظیم کو قم میں اتحادیہ علما افغانستان کا نام دیا اور کچھ عرصہ بعد پاسداران جہاد اسلامی افغانستان میں شامل کردیا۔[26] محقق نے شیعہ مختلف گروہوں کو آپس میں ملانے کے لئے بہت کوشش کی اور بہت سارے گروہوں میں شریک ہوئے اور آخرکار یہ کوشش 1989ء میں بامیان میں حزب وحدت اسلامی افغانستان کی شکل میں سامنے آئی۔ محقق کابلی اس پارٹی کی شورای عالی نظارت کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے [27] طالبان کی حکومت کے زوال کے بعد آپ کئی مرتبہ افغانستان چلے گئے اور مختلف بیانات اور تقریروں میں شیعوں کو افغانستان صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں شرکت کی تاکید کی اور حکومتِ افغانستان کو بھی تبعیض اور کرپشن سے باز رہنے کی تاکید کی۔[28]

آثار

آیت‌الله محقق کی تالیفات فقہ، اصول، اخلاق، تربیت، احکام اور تکالیف کے عناوین پر موجود ہیں۔[29]مباحث الفقہیہ کے نام پر اب تک 5 جلدیں منتشر ہو چکی ہیں، الخمس، تحریر العروة و وظیفۃ القضات آپ کی فقہی آثار میں سے ہیں۔ منہاج الصلحاء، توضیح المسائل عربی میں اور کتاب مناسک حج، احکام حج کے بارے میں لکھی گئی ہیں۔[30]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. سایت دفتر آیت‌ الله محقق کابلی، «زندگی‌ نامہ»
  2. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌ نامہ»
  3. سایت دفتر آیت ‌الله محقق کابلی،«زندگی‌نامہ»
  4. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌ نامہ»
  5. سایت دفتر آیت‌ الله محقق کابلی، «زندگی‌ نامہ»
  6. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی، «زندگی‌ نامہ»
  7. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌ نامہ»
  8. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌ نامہ»
  9. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌ نامہ»
  10. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌ نامہ»
  11. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌ نامہ»
  12. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌نامہ»
  13. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌نامہ»
  14. ناصری، مشاهیر تشیع در افغانستان، ۱۳۹۰ش، ج۳، ص۱۸۷-۱۹۱.
  15. «قربان علی محقق کابلی»، پایگاه اندیشوران حوزه
  16. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌ نامہ»
  17. سایت دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«زندگی‌ نامہ»
  18. ناصری، مشاهیر تشیع در افغانستان، ۱۳۹۰ش، ج۳، ص۱۸۷-۱۹۱.
  19. خبرگزاری ابنا، «پیام تسلیت دبیرکل مجمع جهانی اهل بیت(ع) در پی درگذشت آیت الله محقق کابلی(ره)»
  20. خبرگزاری حوزه، «پیکر حضرت آیت‌الله محقق کابلی در قم تشییع و به خاک سپرده شد».
  21. ناصری، مشاهیر تشیع در افغانستان، ۱۳۹۰ش، ج۳، ص۱۸۷-۱۹۱.
  22. ناصری، مشاهیر تشیع در افغانستان، ۱۳۹۰ش، ج۳، ص۱۸۷-۱۹۱.
  23. بهمنی، جایگاه سیاسی و اجتماعی شیعیان در افغانستان، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۸-۱۳۷.
  24. سایت دفتر آیت ‌الله محقق،«پیام معظم لہ در رابطہ با اهمیت و مشکلات ازدواج جوانان»
  25. سایت دفتر آیت ‌الله محقق کابلی،«پیام حضرت آیت الله العظمی محقق کابلی (مد ظلہ) در آستانہ محرم الحرام ۱۴۳۲ق»
  26. ناصری، مشاهیر تشیع در افغانستان، ۱۳۹۰ش، ج۳، ص۱۸۷-۱۹۱.
  27. ناصری، مشاهیر تشیع در افغانستان، ۱۳۹۰ش، ج۳، ص۱۸۷-۱۹۱.
  28. بهمنی، جایگاه سیاسی و اجتماعی شیعیان در افغانستان، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۸-۱۳۷.
  29. سایٹ دفتر آیت‌اللہ محقق،«پیام معظم لہ در رابطہ با اہمیت و مشکلات ازدواج جوانان»
  30. سایٹ دفتر آیت‌الله محقق کابلی،«پیام حضرت آیت الله العظمی محقق کابلی (مد ظلہ) در آستانہ محرم الحرام ۱۴۳۲ق»

مآخذ

  • بہمنی قاجار، محمد علی؛ جایگاہ سیاسی و اجتماعی شیعیان در افغانستان، موسسہ مطالعات اندیشہ سازان نور، تہران، ۱۳۹۲ شمسی ہجری۔
  • ناصری، عبد المجید، مشاہیر تشیع در افغانستان، قم، انتشارات المصطفی، ۱۳۹۰ شمسی ہجری۔
  • سایت دفتر آیت‌اللہ محقق کابلی، «زندگی‌ نامہ»، بازدید: ۱۳۹۷/۱۲/۱۲ شمسی ہجری۔