مخیریق

ویکی شیعہ سے
مخیریق
کوائف
لقبنضری، اسرائیلی، یہودی
محل زندگیمدینہ
نسب/قبیلہبنی‌نضیر یا بنی‌قینقاع یا بنی‌ثعلبة بن فطیون
شہادتسنہ 3ھ، علاقہ احد
کیفیت شہادتجنگ احد میں
مدفنمدینہ
دینی معلومات
اسلام لاناسنہ 3 ہجری
جنگوں میں شرکتجنگ احد
ہجرتایک یہودی بزرگ کی حیثیت سے جنگ احد میں شہادت
دیگر فعالیتیںحیطان سبعہ کا پہلا مالک


مُخَیْریق، پیغمبر اکرمؐ کے دور کا ایک یہودی عالم ہے جو جنگ اُحُد میں شہید ہوئے۔ انہوں نے اپنے قبیلے سے جنگ احد میں پیغمبر اکرمؐ کی مدد کرنے کا کہا لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی اور وہ اکیلے پیغمبر اکرمؐ کی مدد کو گئے۔

مخیریق، نے اپنی پوری جائیداد جن میں حیطان سبعہ (ساتوں باغ) شامل تھے کو پیغمبر اکرمؐ کے سپرد کیا۔ رسول اللہؐ نے ان باغات کو وقف کردیا یا صدقہ دے دیا۔ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد فاطمہ زہراؑ نے ابوبکر سے پیغمبر اکرمؐ کی باقی ماندہ جائیداد بشمول فدک اور ان باغات کا مطالبہ کیا لیکن خلیفہ نے دینے سے انکار کیا۔ لیکن بعد میں امام علیؑ اور عباس بن عبدالمطلب کی درخواست پر ان باغات کی سرپرستی عمر بن خطاب نے امام علیؑ کے سپرد کردیا۔

تاریخی شواہد کے مطابق، مخیریق اسلام لانے کے بعد دنیا سے چل بسے؛ لیکن ایک نقل کے مطابق وہ مسلمان نہیں مرا ہے۔ اس کی طرف سے رسول اللہؐ کی مدحت کو اس کے مسلمان ہونے کی نشانی قرار دی گئی ہے۔

حسب و نسب

مخیریق، یہودی بزرگ،[1] عالم دین[2] اور اہل‌کتاب کا اَحبار،[3] اور دانشمند سمجھا جاتا ہے۔[4] پیغمبر اکرمؐ انہیں بہترین یہودیوں‌ میں شمار کرتے تھے۔[5] چوتھی صدی ہجری کے شخصیت نگار، زِرِکْلی اور دیگر شخصیات نے مخیریق کو اصحاب رسول اللہؐ میں شمار کیا ہے۔[6] اور صحابہ کے سوانح حیات کی کتابوں میں‌ سے الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں ان کی سوانح حیات بھی ذکر ہوئی ہے۔[7]

مخیریق کو ایک مالدار شخص قرار دیا گیا ہے[8]جس کے پاس کثیر دولت[9] اور بہت سارے باغات تھے۔[10]

مخیریق کا تعلق بنی‌نَضیر،[11] بنی فِطْیَون،[12] یا بنی ثَعْلَبة بن فطیون قبیلے سے بتایا گیا ہے۔[13] بعض نے تو انہیں بنی قَینُقاع[14] کے سردار تک کہا ہے۔[15] ان کو نَضْری،[16] اسرائیلی[17] اور یہودی[18] سے یاد کیا گیا ہے۔

جنگ احد میں شرکت اور شہادت

تاریخی شواہد کے مطابق مخیریق نے جنگ احد میں شرکت کی۔[19] دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مورخ ابن ہشام کا کہنا ہے کہ مخیریق نے جنگ احد سے پہلے اپنی قوم سے پیغمبر اکرمؐ کی مدد کرنے کی درخواست کی۔ ان کے جواب میں قوم نے کہا کہ آج ہفتے کا دن ہے اور اس دن ہم کوئی کام نہیں کرتے ہیں۔ مخیریق نے جواب میں کہا کہ ہفتے کے دن کے احترام کی رعایت ان حالات میں لازمی نہیں ہے یہی کہہ کر خود پیغمبر اکرمؐ کی مدد کے لئے نکلے۔[20] [یادداشت 1]واقدی اور بَلاذُری جیسے مورخوں نے لکھا ہے کہ اس گفتگو میں مخیریق نے قسم کھا کر کہا کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہونے کو یہودی جانتے ہیں۔[21]

مخیریق جنگ احد میں شہید ہوئے۔[22] جبکہ سید بن طاووس کی کتاب الطرائف فی معرفة مذہب الطوائف کے ترجمے میں یہ بات آئی ہے کہ مخیریق اپنی طبیعی موت مرا ہے[23] جبکہ عربی نسخے میں یہ بات نہیں ملتی ہے۔

جائیداد کو پیغمبر اکرمؐ کے حوالے کرنا

مخیریق نے اپنی جائیداد پیغمبر اسلامؐ کو دینے کی وصیت کی۔[24] مآخذ کے مطابق مخیریق نے جنگ احد کی طرف جاتے ہوئے وصیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے مرنے کی صورت میں جائیداد پیغمبر اکرمؐ کو دیا جائے۔[25] البتہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ وصیت شہادت کے وقت کی تھی۔[26] بلاذری نے اَنساب الاَشراف میں لکھا ہے کہ مخیریق نے اپنی حیات میں ہی جائیداد پیغمبر اکرمؐ کو دیا تھا۔[27] یہی بات محمدتقی شوشتری (متوفی 1416ق) کی کتاب قاموس الرجال میں بھی نقل ہوئی ہے۔[28] بعض محققوں کا کہنا ہے کہ مخیریق نے اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے تمام مال کو پیغمبر اکرمؐ کے حوالے کیا۔[29]

پیغمبر اسلامؐ نے مخیریق کی جائیداد کو صدقہ دیا۔[30] صدقات رسول خداؐ کا ایک حصہ[31] یا زیادہ تر حصے[32] کو انہی صدقات میں سے شمار کیا گیا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے سارے صدقات مخیریق کے تھے۔[33] اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے مخیریق کی جائیداد کو وقف کر دیا۔[34] اسی لئے سب سے پہلا وقف انہیں اموال کو قرار دیا گیا ہے جو مخیریق کی طرف سے رسول اللہ نے[35] یا مخیریق ہی نے بلاواسطہ وقف کردیا تھا۔[36]

ساتوں باغ

سانچہ:اصلی مخیریق کی جائیداد میں سات باغ تھے جنہیں[یادداشت 2] مِیْثَب، صافیَہ، الدَّلال، حُسْنی، بُرْقُہ، اَعْواف اور مَشْرَبَۃ اُم‌ ابراہیم کا نام دیا گیا ہے۔[37] یہ باغ حوائط رسول اللہؐ سے پہچانے جاتے تھے[38] اور مدینہ کے بہترین خرما پر مشتمل تھے۔[39] تاریخ کے مطابق حضرت فاطمہؑ نے پیغمبر اسلامؐ کی وفات کے بعد ابوبکر سے ان باغات سمیت باغ فدک کا مطالبہ کیا لیکن خلیفہ نے دینے سے انکار کردیا۔[40] اسی بات پر حضرت فاطمہؑ غضبناک ہوئیں۔[41] امام علیؑ اور عباس بن عبدالمطلب نے ان اموال کو دوسرے خلیفہ سے ان کے دور میں مطالبہ کیا، انہوں نے فدک اور خیبر کے علاوہ باقی اموال اور ان باغات امام کے حوالے کیا۔[42] بعد میں یہ باغ حضرت فاطمہؑ کی اولاد کو ملے۔[43]

ابوبَصیر، امام باقرؑ‌ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ نے ان باغات کی سرپرستی کے لئے حضرت علیؑ، ان کے بعد امام حسنؑ اور امام حسینؑ نیز ان کے بعد ہر زمانے میں ان کی نسل کی سب سے بڑی اولاد کے نام وصیت کی تھی۔ اسی طرح کی روایت امام صادقؑ سے بھی نقل ہوئی ہے۔[44]

دین

تاریخ کے مطابق، مخیریق کو آسمانی کتابوں کا جو علم حاصل تھا اس کی وجہ سے رسول اللہؐ کو اچھی طرح جانتے تھے لیکن یہودیت سے محبت اس حقیقت کو اظہار کرنے میں رکاوٹ بنتی تھی۔[45] بعض کا کہنا ہے کہ آسمانی کتابوں کی بشارت کے مطابق رسول اللہ کی خاتمیت پر ایمان رکھتے تھے اور سب سے پہلا مسلمان بننا چاہتے تھے لیکن یہودی سرکردوں سے لڑائی کے خوف سے اس کام سے اجتناب کیا[46] یہاں تک کہ جنگ احد کے دن مسلمان ہوئے۔[47] ان کے اسلام قبول کرنے پر متعدد مآخذ میں تصریح ہوئی ہے۔[48] یہ بھی کہا گیا ہے کہ خود کے اسلام لانے کے بعد[49] اپنا قبیلہ بنی قینقاع سے بھی رسول اللہ پر ایمان لانے کی درخواست کی لیکن انہوں نے مخیریق کی بات نہ سنی۔[50]

ان ساری باتوں کے برخلاف ابن‌سعد (متوفی 230ھ) اپنی کتاب طبقات میں‌ لکھتے ہیں کہ مخیریق کبھی مسلمان نہیں ہوئے لیکن جنگ احد کے دن پیامبر اسلامؐ کی مدد کی۔[51] اسی لئے ان کی شہادت کے بعد ان کی میت پر نماز جنازہ نہیں‌ پڑھی گئی اور مسلمانوں کے قبرستان کے کسی کونے میں دفن ہوئے۔[52] اس بات کو واقدی کی طرف بھی نسبت دی گئی ہے۔[53] البتہ نویں صدی ہجری کے صحابہ نگار ابن‌حَجَر نے مخیریق کے مسلمان ہونے کی خبر کو بھی واقدی کی طرف نسبت دی ہے۔[54] اسی طرح کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ان کے بارے میں صرف ایک بہترین یہودی ہونے کا کہا ہے اس سے زیادہ نہ تو جنگ احد کے دوران اور نہ ہی جنگ کے بعد کچھ کہا ہے اور ان کی مغفرت کے لئے دعا بھی نہیں کی ہے۔[55] بعض کا کہنا ہے کہ رسول اللہ کی طرف سے پارسیوں میں سبقت لینے والےسلمان اور اہل حبشہ میں سبقت لینے والے بلال کے ساتھ مخیریق کو یہودیوں میں سبقت لینے والے کے عنوان سے توصیف کرنا[56] مخیریق کے مسلمان ہونے کی دلیل ہے۔[57]

نوٹ

  1. یہی مطالب مختصر فرق کے ساتھ مختلف تاریخی مآخذ میں ذکر ہوئے ہیں۔(ملاحظہ ہو، طبری، تاریخ طبری، 1967م، ج2، ص531؛ ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج4، ص36؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1999م، ج1، ص160-161، ج3، ص353.)
  2. ان باغات کی تفصیلات تاریخی مآخذ میں تھوڑے فرق کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ (ملاحظہ کریں: بلاذری، انساب الاشراف، 1996ء، ج1، ص518؛ ابن‌شبہ، تاریخ المدینہ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص173؛ ابن‌سید الناس، عیون الاثر، 1993ء، ج1، ص240) اور اس کا محل وقوع اور نام پر محققین نے تفصیل سے بحث کی ہے۔(صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص806-807؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص151-155)

حوالہ جات

  1. بلاذری، انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص285.
  2. ابن‌ہشام، السیرہ النبویہ، بی‌تا، ج1، ص518؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص325، 518؛ ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46.
  3. فراہیدی، العین، بی‌تا، ج3، ص218.
  4. ابن‌ہشام، السیرہ النبویہ، بی‌تا، ج1، ص514، 518؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص325، 518.
  5. ابن‌ہشام، السیرہ النبویہ، بی‌تا، ج1، ص518، ج2، ص89؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990م، ج1، ص389؛ طبری، تاریخ طبری، 1967م، ج2، ص 531.
  6. زرکلی، الاعلام، 1989م، ج7، ص194؛ صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص805.
  7. ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46-47.
  8. مقریزی، امتاع الاسماع، 1999م، ج3، ص353؛ ابن‌سید الناس، عیون الاثر، 1993م، ج1، ص240.
  9. ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج3، ص237؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص69.
  10. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص69.
  11. بلاذری، انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص285، 325، 518؛ ابن‌سید الناس، عیون الاثر، 1993م، ج1، ص240؛‌ صالحی شامی، سبل الہدی، 1993م، ج4، ص212.
  12. بلاذری، انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص325؛ ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1999م، ج14، ص370.
  13. ابن‌ہشام، السیرہ النبویہ، بی‌تا، ج1، ص514، ج2، ص88؛ طبری، تاریخ طبری، 1967م، ج2، ص 531؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، 1993م، ج2، ص205.
  14. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990م، ج1، ص389؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص285، 325، 518؛ ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46، 47.
  15. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص69.
  16. ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46؛ صالحی شامی، سبل الہدی، 1993م، ج4، ص212؛ زرکلی، الاعلام، 1989م، ج7، ص194.
  17. ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46؛ صالحی شامی، سبل الہدی، 1993م، ج4، ص212.
  18. ابن‌اثیر، الکامل، 1965م، ج2، ص162؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج5، ص241.
  19. ملاحظہ ہو، بلاذری، انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص285؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1999م، ج1، ص160-161، ج14، ص369.
  20. ابن‌ہشام، السیرہ النبویہ، بی‌تا، ج1، ص518، ج2، ص88-89.
  21. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص263؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص325.
  22. ابن‌ہشام، السیرہ النبویہ، بی‌تا، ج1، ص518، ج2، ص88؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990م، ج1، ص389؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص325؛ طبری، تاریخ طبری، 1967م، ج2، ص 531.
  23. ابن‌طاووس، الطرائف، ترجمہ داود الہامی، 1374شمسی، ص392.
  24. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990ء، ج1، ص388-389.
  25. ابن‌ہشام، السیرہ النبویہ، بی‌تا، ج1، ص518، ج2، ص89؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996ء، ج1، ص325؛ طبری، تاریخ طبری، 1967ء، ج2، ص 531.
  26. ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص47؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص151.
  27. بلاذری، انساب الاشراف، 1996ء، ج1، ص285.
  28. شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج10، ص22.
  29. صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص805.
  30. ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996ء، ج1، ص325؛ شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج10، ص22.
  31. مقریزی، امتاع الاسماع، 1999ء، ج1، ص191.
  32. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص263؛ ابن‌ہشام، السیرہ النبویہ، بی‌تا، ج1، ص518؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990ء، ج1، ص389.
  33. ابن‌شبہ، تاریخ المدینہ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص173؛ شرّاب، المعالم الاثیرہ فی السنہ و السیرہ، 1411ھ، ص156؛ صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص805.
  34. ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج4، ص37؛ صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص806.
  35. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990ء، ج1، ص388؛ صالحی شامی، سبل الہدی، 1993ء، ج8، ص407؛ خطیب عمری، الروضہ الفیحاء فی تواریخ النساء، 1420ھ، ص231.
  36. کردعلی، خطط الشام، 1403ھ، ج5، ص90.
  37. ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج5، ص241، 290-291.
  38. صالحی شامی، سبل الہدی، 1993ء، ج8، ص407؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990ء، ج1، ص389.
  39. کردعلی، خطط الشام، 1403ھ، ج5، ص90.
  40. خطیب عمری، الروضہ الفیحاء فی تواریخ النساء، 1420ھ، ص230-231؛ صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص807-808؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص155.
  41. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص155؛ صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص808.
  42. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص155.
  43. صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص807.
  44. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص49.
  45. ملاحظہ کریں: ابن‌ہشام، السیرہ النبویہ، بی‌تا، ج1، ص518؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1999م، ج3، ص353؛ صالحی شامی، سبل الہدی، 1993م، ج4، ص212.
  46. صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص805.
  47. ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج3، ص236، 237.
  48. ابن‌ہشام، السیرہ النبویہ، بی‌تا، ج1، ص514؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص266، 285، 518؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1999م، ج1، ص65-66، ج14، ص369.
  49. ابن‌سید الناس، عیون الاثر، 1993م، ج1، ص240؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج5، ص290؛ شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج10، ص22.
  50. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص69-70.
  51. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990م، ج1، ص389.
  52. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990م، ج1، ص389.
  53. صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص806؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006م، ج3، ص150-151.
  54. ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46.
  55. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990م، ج1، ص389.
  56. ابن‌شبہ، تاریخ المدینہ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص173؛ ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص47؛ شرّاب، المعالم الاثیرہ فی السنہ و السیرہ، 1411ھ، ص156.
  57. صبری پاشا، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص806.

مآخذ

  • ابن‌اثیر، علی بن ابی‌کرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1965ء۔
  • ابن‌حجر، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ، ج6، ص46.
  • ابن‌سعد، محمد بن منیع، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1990ء۔
  • ابن‌سید الناس، ابوالفتح محمد، عیون الاثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، تعلیق ابراہیم محمد رمضان، بیروت، دارالقلم، 1993ء۔
  • ابن‌شبہ، عمر بن شبہ نمیری، ‏تاریخ المدینة المنورہ، تحقیق فہیم محمد شلتوت، قم، دار الفکر، 1410ھ۔
  • ابن‌طاووس، علی بن موسی، الطرائف، ترجمہ داود الہامی، قم نوید اسلام‏، چاپ دوم، 1374ہجری شمسی۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النہایہ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک بن ہشام حمیری، السیرة النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، 1996ء۔
  • خطیب عمری، یاسین، الروضة الفیحاء فی تواریخ النساء، تحقیق حسام ریاض‏عبدالحکیم، بیروت، مؤسسة الکتب الثقافیہ، 1420ھ۔
  • ذہبی، شمس‌الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1993ء۔
  • زرکلی، خیرالدین، الاعلام قاموس تراجم لاشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989ء۔
  • سمہودی، علی بن احمد، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، تحقیق خالد عبدالغنی‏محفوظ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 2006ء۔
  • شرّاب، محمد محمدحسن، المعالم الأثیرة فی السنة و السیرہ، بیروت-دمشق‏، دار القلم-دار الشامیہ، 1411ھ۔
  • شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، موسسہ نشر اسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرة خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1993ء۔
  • صبری پاشا، ایوب، موسوعہ مرآة الحرمین الشریفین و جزیرة العرب‏، قاہرہ، دار الافاق العربیہ‏، 1424ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، تہران، اسلامیہ، چاپ سوم، 1390ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، چاپ ہشتم، 1967ء۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، قم، نشر ہجرت، چاپ دوم، بی‌تا.
  • کردعلی، محمد، خطط الشام، بیروت، مکتبہ النوری‏، چاپ سوم، 1403ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدة و المتاع، تحقیق محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1999ء۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسة الأعلمی، چاپ سوم، 1409ھ۔
  • یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، چاپ دوم، 1995ء۔