صارف:Mohsin/تختہ مشق

ویکی شیعہ سے

قرآن میں عدم تحریف تمام مسلمانوں اور مذاہب اسلامی کا متفقہ عقیدہ ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے ہاں موجود قرآن وہی قرآن ہے جو حضرت محمدؐ پر نازل ہوا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔

سب مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے ہاں موجودہ قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوا؛ لیکن اس میں کمی ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ علمائے اسلام کی ایک قلیل تعداد کا یہ کہنا ہے کہ قرآن میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ یہ گروہ اس سلسلے میں اہل سنت اور شیعہ حدیثی کتب میں موجود کچھ احادیث سے استناد کرتے ہیں؛ ان تمام باتوں کے باوجود وہابی افکار کے حامل لوگ کا کہنا ہے کہ شیعہ قرآن میں تحریف واقع ہونے کے قائل ہیں۔

اکثر شیعہ علما کے مابین مشہور نظریہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں کمی یا بیشی کے لحاظ سے کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے اور مسلمانوں کے ہاں موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو پیغمبر خداؐ پر نازل ہوا تھا۔ انہوں نے عدم تحریف قرآن کے اثبات کے لیے قرآن مجید کی آیت حفظ، حدیث ثقلین، ائمہ معصومینؑ سے منقول کچھ احادیث اور عقلی دلیل کے ذریعے استدلال کیا ہے۔ اسی طرح علمائے شیعہ نے اُن روایات کو سند اور دلالت کے لحاظ سے مورد نقد قرار دیا ہے جو اہل سنت اور شیعہ منابع حدیثی میں نقل ہوئی ہیں اور جن سے قرآن میں کچھ چیزوں کی کمی کا شائبہ ہوتا ہے۔ شیعہ علما کا نظریہ یہ ہے کہ ان روایات سے قرآن میں کمی واقع ہونا قطعا ثابت نہیں ہوتا۔

شیعہ مفسرین، مجتہدین اور قرآن کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین نے نظریہ تحریف قرآن کے رد میں فارسی، عربی اور دیگر زبانوں میں بکثرت کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: برہان روشن؛ البرہان علی عدم تحریف القرآن؛ البرہان علی عدم تحریف القرآن تألیف مرزا مہدی بروجردی اور صِیانۃُ القرآن مِنَ التحریف ہیں جس کے مولف محمد ہادی معرفت ہیں۔

تحریف کے معنی اور اس کی قسمیں

تحریف کا مطلب کسی لفظ یا کلام کی اصلی حالت میں بگاڑ پیدا کرنا اور اسے تبدیل کرنا ہے۔[1] اس کی کئی قسمیں بیان کی گئی ہیں[2] جن کی تفصیل یہ ہے:

لفظی تحریف

کسی کلام کے الفاظ میں تبدیلی کا نام لفظی تحریف ہے اور اس کی کئی قسمیں ہیں؛ ان میں میں سے کچھ مہم ترین قسمیں یہ ہیں:[3]

  • کلام میں کسی چیز کا اضافہ کیا جائے: قرآن کے بارے میں اس نوعیت کی تحریف کے معنی یہ ہیں کہ جو موجودہ قرآن مسلمانوں کے ہاں ہے ان میں سے کچھ حصہ اس قرآن کا حصہ نہیں ہے جو پیغمبر خداؐ پر نازل ہوا تھا۔[4]
  • کلام میں کمی کے لحاظ سے تحریف: اس کے معنی یہ ہونگے کہ موجودہ قرآن میں وہ تمام چیزیں موجود نہیں ہیں جو پیغمبر خداؐ پر نازل ہوئی تھیں بلکہ اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔[5]

تحریف بمعنی

تحریف بمعنی یا معنوی تحریف کا مطلب یہ ہے کہ تحریف کرنے والا صاحب کلام کے مد نظر معنی میں انحراف پیدا کر کے لفظ یا کلام کے معنی کو اس سمت لے جاتا ہے جس کی اس طرف خواہش ہوتی ہے۔[6] بالفاظ دیگر کلام کے ظاہری معنی میں رد و بدل کر کے اس کی من پسند تفسیر یا تاویل کی جاتی ہے۔[7]

تحریف کے دیگر معانی

آیات قرآنی کی ترتیب نزول کو تبدیل کر کے سوروں کی ترتیب کو تبدیل کرنا(تحریف موضعی)، کسی لفظ کا مترادف لفظ بنا ڈالنا(تحریف تبدیل کلمہ) اور قرآن مجید کی رائج قرائت سے ہٹ کر کسی اور قرائت سے قرآن کی تلاوت کرنا (قرائت میں تحریف) تحریف کی دیگر اقسام ہیں۔[8]

تحریف قرآن کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

سید ابو القاسم خوئی (متوفی: 1992ء) کے مطابق یہ بات ضروریات دین میں سے ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ قرآن مجید میں تحریف بمعنای زیادت (و اضافہ) واقع نہیں ہوئی ہے یعنی اس میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔[9] قرآن میں کمی کے لحاظ سے تحریف یعنی قرآن سے بعض الفاظ اور جملات کو حذف کیے جانے کے بارے میں علمائے اسلام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے: زیادہ تر مسلمان علماء کا عقیدہ ہے کہ قرآن میں اس قسم کی تحریف بھی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اس کے برعکس، بہت قلیل تعداد میں علما کا خیال ہے کہ قرآن میں اس قسم کی تحریف ہوئی ہے۔[10] قرآن کی تحریف بمعنی (معنوی) کے بارے میں سید ابو القاسم خوئی نے اپنی کتاب "البیان فی تفسیر القرآن" میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے مابین اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس قسم کی تحریف ہوئی ہے اور بعض فاسد اور منحرف مکاتب نے قرآنی آیات کی اپنی من پسند تفسیر کرنے کے لیے اس میں تاویل اور ان کے معانی و مفاہیم کو تبدیل کیاہے۔[11] دینی اصطلاح میں اس قسم کی تحریف کو تفسیر بالرائے کہا جاتا ہے اور احادیث میں اس کی ممانعت کی گئی ہے۔[12] قرآن کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کے نزدیک تحریف کے دیگر معانی یہ ہیں: کسی لفظ کو اس کے مترادف لفظ سے تبدیل کرنا اور قرآن کے الفاظ کو رائج قرائتوں کے برعکس پڑھنا؛ ان کے مطابق قرآن میں اس قسم کی تحریف بھی واقع نہیں ہوئی ہے۔[13]

تحریف قرآن کےبارے میں شیعہ عقیدہ

شیعہ علما میں رائج اور مشہور نظریہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں نہ صرف کسی چیز کے اضافہ ہونے کے لحاظ سے تحریف نہیں ہوئی بلکہ کمی واقع ہونے کے لحاظ سے بھی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے۔ جو قرآن پیغمبر خداؐ پر نازل ہوا ہے وہی مسلمانوں کے درمیان اب بھی رائج ہے اس میں کسی قسم کی کوئی تغریف نہیں ہوئی ہے۔[14] شیخ صدوق نے اپنی کتاب الاعتقادات میں کہا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے یہ جو قرآن مسلمانوں کے اب موجود ہے وہی قرآن ہے جو پیغمبر خداؐ پر نازل ہوا تھا۔ اس میں نہ کسی چیز کا اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز کی کمی۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اصل قرآن اس سے بڑا ہے جو ابھی ہمارے درمیان موجود ہے، وہ لوگ سراسر جھوٹ بولتے ہیں۔[15]

شیخ طوسی نے تفسیر التبیان میں لکھا ہے کہ شیعہ امامیہ مذہب کے مطابق قرآن مجید میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی ہے اور یہ جو اہل سنت اور شیعہ روائی کتب میں کہا گیا ہے کہ قرآن میں کمی کے لحاظ سے تحریف ہوئی ہے، اس مطلب کی حامل روایات خبر واحد ہیں اور ان پر یقین نہیں کیا جاسکتا لہذا بہتر یہ ہے کہ ان سے ہاتھ اٹھایا جائے۔[16]

محمد جواد بلاغی نجفی (متوفی: ۱۳۵۲ھ) نے بھی اپنی کتاب آلاء الرحمن میں محقق کرکی سے اس طرح نقل کیا ہے: جو حضرات قرآن مجید میں کمی کے لحاظ سے تحریف کے قائل ہیں وہ ایسی احادیث سے استناد کرتے ہیں جو دلائل قرآنی، متواتر احادیث اور اجماع کے مخالف ہیں لہذا اگر ان کی تاویل ممکن نہیں تو ان سے مکمل طور پر ہاتھ اٹھانا چاہیے۔[17]

کاشف‌ الغطاء (متوفیٰ: ۱۲۲۸ھ) ان شیعہ علما میں سے ہیں جنہوں نے بطور صراحت قرآن مجید میں کمی کے لحاظ سے تحریف واقع ہونے کو رد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خود قرآن مجید کی صراحت اور ہر عصر کے علما کا اجماع اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک قلیل تعداد کی مخالفت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کاشف الغطاء مزید کہتے ہیں کہ اگرچہ بعض روایات کے ظہور سے بعض لوگ قرآن کی تحریف ثابت کرتے ہیں لیکن عدم تحریف قرآن کی بداہت ظہور روایات کو رد کر دیتی ہے۔[18]

شیعوں پر تحریف قرآن کا عقیدہ رکھنے کی نسبت

طبرسی (متوفیٰ: ۵۴۸ ھ) مجمع‌ البیان میں لکھتے ہیں کہ بعض شیعہ حضرات اور حَشْویہ کے ایک گروہ (اہل سنت کا ایسا فرقہ جو صرف ظواہر روایات کو عمل کا ملاک قرار دیتا ہے)، نے کچھ روایات نقل کی ہیں جن کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں کمی کے لحاظ سے تحریف واقع ہوئی ہے۔[19] قرآن مجید میں تحریف بہ نقیصہ کے قائلین نے شیعہ[20] اور اہل‌ سنت[21] منابع حدیثی میں کچھ روایات نقل کی ہیں۔[22] کہا جاتا ہے کہ اخباریوں کا ایک گروہ[23] انہی روایات کو بنیاد بنا کر قرآن میں تحریف واقع ہونے کا قائل ہوا ہے اور اس بات کو مشہور کرنے لگا کہ موجودہ قرآن میں وہ سب چیزیں موجود نہیں ہیں جو پیغمبر خداؐ پر نازل ہوئی تھیں۔[24] اسی وجہ سے بعض وہابیوں کو یہ شبہہ ہوا کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں۔[25]

سنہ 1292ھ میں مرزا حسین نوری کی کتاب "فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب" کی طباعت کے بعد اس الزام تراشی میں مزید شدت پیدا ہوئی[26] اور آج تک (15 ویں صدی ہجری) یہ کتاب ان منابع میں شمار ہوتی ہے جن سے استناد کرتے ہوئے شیعوں کی طرف تحریف قرآن کی نسبت دی جاتی ہے۔[27] بطور نمونہ وہابی فرقہ سے تعلق رکھنے والی پاکستانی مصنف احسان الہی ظہیر نے اپنی کتاب "الشیعہ و القرآن" میں کتاب فصل‌ الخطاب سے استناد کرتے ہوئے شیعوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں حتی کہ شیعوں کی طرف تحریف بہ اضافہ کی نسبت بھی دی ہے۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ تحریف قرآن کے سلسلے میں صرف مرزا حسین نوری تنہا نہیں بلکہ شیعوں کے دیگر علما بھی اس کے قائل ہیں مرزا نوری نے شیعوں کے عقیدہ تحریف سے پردہ اٹھایا ہے۔ بس باقی علما تقیہ کی بنیاد پر اس عقیدے کو چھپا کر رکھتے ہیں۔[28]

شیعہ علما کا جواب

شیعہ فقیہ اور شیخ عبد الکریم حائری یزدی کے شاگرد مرزا مہدی بروجردی (متوفیٰ: ۱۳۴۷شمسی) نے اپنی کتاب "برہان روشن؛ البرہان علی عدم تحریف القرآن" میں لکھا ہے کہ تحریف قرآن مجید کا شائبہ پانے والی اکثر روایات جن میں سے ۱۸۸روایات کو کتاب "فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب" میں نقل کیا گیا ہے انہیں احمد بن محمد سیاری کی کتاب سے نقل کی گئی ہیں۔[29] سید ابو القاسم خوئی کے مطابق علمائے رجال نے نقل روایت کے سلسلے میں سیاری کو کذّاب اور جھوٹا قرار دیا ہے اور تمام علمائے رجال اس کے فاسد العقیدہ ہونے پر اتفاق نظر رکھتے ہیں۔[30]

آقا بزرگ تہرانی (متوفیٰ: ۱۳۸۹ھ) اپنی کتاب الذریعہ میں لکھا ہے کہ کتاب فصل‌ الخطاب پر ابتدائے تالیف سے ہی شیعہ علما کا اعتراض رہا ہے؛[31] یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کی تالیف کے زمانے میں موجود شیعہ فقیہ محمد حسین کاشف‌ الغطاء نے اس کتاب کو مطالعہ کرنے کے بعد اس کی اشاعت کی حرمت کا فتوا جاری کیا[32] نیز بہت سی کتابیں مستقل طور پر کتاب فصل الخطاب کے رد میں تحریر کی گئیں[33] اور بہت سے علما نے تفسیر قرآن و دیگر موضوعات کے ضمن میں[34] اسی طرح قرآن کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین نے اس کتاب کے رد میں بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں۔

سید کمال حیدری نے اپنی کتاب "قرآن و مصونیت از تحریف" میں ۳۲ مشہور شیعہ مفسرین اور فقہاء کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے قرآن مجید میں تحریف واقع ہونے کا شائبہ پانے والی تمام چیزوں کو رد کیا ہے۔[35] "غالیان و اندیشہ تحریف قرآن" کے نام سے شائع شدہ ایک مقالے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تحریف قرآن کے سلسلے میں نقل شدہ روایات کے دو تہائی حصے کو غالیوں نے نقل کیا ہے۔[36]

قرآن کے عدم تحریف پر دلائل

عدم تحریف قرآن کے قائلین نے اپنے مدعا کے اثبات کے لیے مندرجہ ذیل دلائل کو ذکر کیا ہے:

آیہ ذِکر

مفسرین کے مطابق اس آیت: (نَحنُ نَزَّلنا الذِّکْرَ و اِنّا لَهُ لَحافِظونَ) میں "ذکر" سے مراد قرآن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلامؐ پر نازل کیا ہے اور اس کو ہر قسم کی تحریفات(تحریف بہ زیادہ یا تحریف بہ نقیصہ) سے محفوظ رکھنے کی اللہ نے بذات خود ذمہ داری لی ہے۔[37]

روایات

بعض روایات صراحتاً آیا ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی ہے۔[38] حدیث ثقلین ان روایات میں سے ہے جس سے استناد کرتے ہوئے عدم تحریف قرآن ثابت کیا گیا ہے۔[39] پیغمبر خداؐ سے منقول اس حدیث[40] کی بنا کسی بھی زمانے میں تمسک بہ قرآن ممکن ہے جب کہ قرآن کی تحریف کا عقیدہ اس سے متمسک ہونے کو ناممکن بنا دیتا ہے اور اگر قرآن میں تحریف واقع ہوگئی ہو تو پیغمبر خداؐ پر یہ کہنا لازم ہی نہیں تھا کہ تم اس سے متمسک رہو۔[41] نیز بعض احادیث کے مطابق صحیح اور معتبر احادیث کو غیر صحیح سے الگ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن پر پیش کیا جائے[42] اور اگر قرآن میں تحریف واقع ہوگئی ہو تو اس پر احادیث کو پیش کرنے کا حکم دینا ضروری نہیں تھا۔[43]

شیخ صدوق نے اپنی کتاب "الاعتقادات" میں لکھا ہے کہ قرآنی سورتوں کی فضیلت، تلاوت قرآن کا ثواب اور ہر سورت کی قرائت کے ثواب کے بارے میں ائمہ معصومینؑ سے منقول روایات[44] نیز ختم قرآن کے ثواب کے بارے میں منقول روایات[45] سب کی سب عدم تحریف قرآن پر دلالت کرتی ہیں۔[46]

دلیل عقلی

مرزا مہدی بروجردی کے مطابق، رسول خداؐ نے اپنی بعثت کے بعد تین دعوے کیے: پہلا، آپؐ کو پوری بشریت کے لیے مبعوث بہ رسالت کیا گیا ہے۔ دوسرا، سابقہ تمام ادیان منسوخ ہوچکے ہیں اور صرف شریعت محمدی پر عمل کرنا ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ آنحضرتؐ خاتم النبیین ہیں لہذا آپؐ کے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا۔[47] مذکورہ مقدمات کے مطابق عقل یہ بتاتی ہے کہ قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولؐ پر قیامت تک کے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے نازل کیا ہے ہر قسم کی تحریف سے پاک ہونا چاہیے۔[48] بعض علما نے قاعدہ لطف سے استناد کرتے ہوئے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں بنی نوع انسان کی سعادت کے لیے خدا کی طرف سے انبیاء بھیجنا اور آسمانی کتابوں کا نزول قاعدہ لطف کی بنیاد پر ہے اور قرآن جو کہ اللہ تعالیٰ آخری کتاب ہے اوربنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی ہے ہر قسم کی تحریف سے دور ہونا چاہیے اور اگر اس میں اضافہ یا کمی کے لحاظ سے کوئی تحریف واقع ہو تو وہ لطف کے تقاضے کے خلاف ہے۔[49]

اہل سنت علما کی نظر میں شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہونے کی نفی

بعض اہل سنت علما بطور صراحت کہتے ہیں کہ شیعہ حضرات تحریف قرآن کے قائل نہیں ہیں۔[50] بطور نمونہ یہ کہ ابو الحسن اشعری (متوفیٰ: ۳۲۴ھ) نے اپنی کتاب "مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین" می لکھا ہے کہ قرآن میں تحریف بہ نقیصہ کے سلسلے میں شیعوں کا صرف ایک فرقہ قائل ہے، انہوں نے مزید لکھا ہے کہ جو شیعہ امامت کے قائل (امامیہ) ہیں کہ قرآن میں نہ کسی چیز کا اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔[51]

ہندوستانی اہل سنت عالم دین رحمت‌ الله دہلوی (متوفیٰ: ۱۳۰۸ھ)نے اپنی کتاب "اظہار الحق" میں لکھا ہے کہ اکثر شیعہ علما کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے صرف ایک چھوٹے سے گروہ کا کہنا ہے کہ قرآن میں تحریف بہ نقیصہ واقع ہوئی ہے لیکن ان کا یہ نظریہ اکثر شیعہ علما کے ہاں مردود ہے۔[52]

مصری مفسر قرآن اور عالم دین محمد عبد الله دَراز (متوفیٰ: ۱۳7۷ھ) نے اپنی کتاب "مدخلً الی القرآنِ الکریم" میں عدم تحریف قرآن مجید کے سلسلے میں شیخ صدوق کے نظریے کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو قرآن مسلمانوں میں رائج ہے اس میں کسی قسم کی کوئی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے۔[53] مصری عالم دین اور جامعۃ الازہر کے استاد محمد محمد المدنی (متوفیٰ: ۱۳۸۸ھ) نے "رسالۃ الاحکام" نامی ایک جریدے میں ایک مضمون کے ضمن میں لکھا ہے کہ شیعہ امامیہ اور اہل سنت کے محققین میں سے کوئی بھی تحریف قرآن کا عقیدہ نہیں رکھتا ہے۔[54]

کتابیات

"صیانۃ القرآن من التحریف" تالیف: محمد ہادی معرفت

"کتابشناسی عدم تحریف قرآن" 275 صفحات پر مشتمل ایک کتاب ہے جس میںقرآن مجید کے عدم تحریف کے مسئلے کی بابت 500 سے زائد قلمی آثار کی فہرست ترتیب دی گئی ہے۔اس کتاب کو کاظم استادی نے مرتب کیا اور سنہ 2013ء میں "سازمان حج و زیارت" پبلشرز کے توسط سے شائع کیا ہے۔[55] عدم تحریف قرآن کے بارے میں شیعہ علما کی طرف سے تالیف کیے گئے مہمترین قلمی آثار میں سے کچھ آثار مندجہ ذیل ہیں:

  • کَشف الاِرتیاب عن تحریف الکتاب، تالیف: شیخ محمود تہرانی: کہا جاتا ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جسے "فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب" کی اشاعت کے بعد اس کے رد میں تحریر کی گئی۔[56] آقا بزرگ تہرانی کہتے ہیں کہ جب مؤلف "کتاب فصل‌ الخطاب" (مرزا حسین نوری) نے اس کتاب کو پایا اور اس کا مطالعہ کیا تو اس کے رد میں فارسی زبان میں ایک رسالہ لکھا اور سفارش کی کہ اسے بھی "کتاب فصل‌ الخطاب" کے ساتھ شائع کیا جائے۔[57] انہوں نے اس رسالے میں لکھا ہے کہ تحریف سے ان کی مراد یہ نہیں کہ موجودہ قرآن جسے زمان عثمان میں جمع کیا گیا ہے؛ میں کوئی کمی یا بیشی ہوئی ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ پر نازل شدہ وحی الہی میں سے کچھ مفقود ہوگیا ہے اور موجودہ قرآن میں نہیں ہے۔[58]
  • برہان روشن؛ البرہانُ علی عدمِ تحریفِ القرآن، تألیف میرزا مہدی بروجردی: مصنف نے اس کتاب میں رد تحریف قرآن مجید پر کچھ دلائل پیش کیے ہیں۔[59] انہوں نے جن روایات کو کتاب فصل‌ الخطاب میں قرآن میں کمی کے لحاظ سے تحریف واقع ہونے کو ثابت کرنے کے لیے بیان کیا ہے ان کی سند اور دلالت کو مورد نقد قرار دیا ہے۔[60] کتاب کے مولف نے 40 سے زائد مفسرین، فقہاء اور قرآنی محققین کے عدم تحریف قرآن پر مبنی نظریات کو بیان کیا ہے۔[61]
  • صیانۃ القرآن مِنَ التحریف، مولف: محمد ہادی معرفت: یہ کتاب 8 ابواب پر مشتمل ہے جس میں تعریف لغوی و اصطلاحی "تحریف"، دلایل عدم تحریف قرآن، عدم تحریف قرآن کے بارے میں شیعہ علما کے نظریات، بعض اہل سنت علما کی طرف سے شیعوں کے تحریف قرآن کے حوالے سے نفی، کتب عہدین میں تحریف، فرقہ حشویہ کے نزدیک تحریف، اخباریوں کی نظر میں تحریف اور فصل الخطاب کے نظریے کا رد جیسے مطالب بیان ہوئے ہیں۔[62] اس کتاب کو علی نصیری گیلانی نے فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور "سَمت پبلشرز" نے سنہ 2000ء میں "تحریف‌ ناپذیری قرآن" کے عنوان سے شائع کیا ہے۔[63]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. معین، فرهنگ معین، ذیل واژه «تحریف»۔
  2. ملاحظہ کیجیے: خویی، البرهان فی تفسیر القرآن، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، ص۱۹۷-۲۰۰؛ معرفت، صیانة القرآن من التحریف، ۱۴۲۸ھ، ص۱۹-۲۳۔
  3. رشیدرضا، تفسیر المنار، ج۵، ص۱۱۴۔
  4. خویی، البرهان فی تفسیر القرآن، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، ص۲۰۰۔
  5. خویی، البیان فی تفسیر القرآن، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، ص۲۰۰۔
  6. نصیری، «مقدمه»، بر تحریف ناپذیری قرآن، تألیف محمدهادی معرفت، ص۴۔
  7. معرفت، صیانة القرآن من التحریف، ۱۴۲۸ھ، ص۲۰؛ رشید رضا، تفسیر المنار، ۱۹۹۰ء، ج۵، ص۱۱۴۔
  8. معرفت، صیانة القرآن من التحریف، ۱۴۲۸ھ، ص۲۰-۲۱۔
  9. خویی، البرهان فی تفسیر القرآن، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، ص۲۰۰۔
  10. خویی، البیان فی تفسیر القرآن، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، ص۲۰۰۔
  11. خویی، البیان فی تفسیر القرآن، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، ص۱۹۷۔
  12. ملاحظہ کیجیے: ابن ابی الجمہور، عوالی اللئالی، ۱۴۰۳ھ، ج۴، ص۱۰۴؛ حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ھ، ج۲۷، ص۲۰۲-۲۰۳؛ معرفت، صیانة القرآن من التحریف، ۱۴۲۸ھ، ص۲۰۔
  13. ملاحظہ کیجیے: زرکشی، البرهان فی علوم القرآن، ۱۳۷۶ھ، ج۱، ص۲۵۶-۲۶۰؛ سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، ۱۳۹۴ھ، ج۱، ص۲۱۶-۲۱۷؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۱۸۶؛ معرفت، التمهید فی علوم القرآن، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۳۱۸۔
  14. خویی، البیان فی تفسیر القرآن، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، ص۲۰۰۔
  15. شیخ صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ھ، ص۸۴۔
  16. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، إحیاء التراث العربی، ج۱، ص۳۔
  17. بلاغی، آلاء الرحمن، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۲۶۔
  18. کاشف الغطاء، کشف الغطاء عن مبهمات شریعة الغراء، ۱۴۲۰ھ، ج۳، ص۴۵۳۔
  19. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۱۵ھ، ج۱، ص۳۰۔
  20. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۴۳۷ و ج۲، ص۶۳۳-۶۳۴؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ھ، ج۱، ص۲۹۳۔
  21. ملاحظہ کیجیے: احمد بن حنبل، مسند احمد، ۱۴۱۶ھ، ج ۳۵، ص۱۳۳-۱۳۴ و ۳۰۵ و ۵۰۱؛ ابن‌ ماجه، سنن ابن‌ ماجه، دار احیاء الکتب العربیة، ج۱، ص۶۲۵؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۱۴ھ، ج۶، ۵۵۹-۵۶۰۔
  22. حیدری، قرآن و مصونیت از تحریف، ۱۳۹۲شمسی، ص۵۶۔
  23. بلاغی، آلاء الرحمن، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۲۵-۲۶۔
  24. معرفت، صیانة القرآن من التحریف، ۱۴۲۸ھ، ص۱۷۱۔
  25. ملاحظہ کیجیے: «عقیدة الشیعة الإمامیة فی القرآن الكریم»، سایت مشروع الحصن.
  26. معرفت، صیانة القرآن من التحریف، ۱۴۲۸ھ، ۱۰۲؛ مؤدب، حدادیان، «بررسی دلالی روایات تحریف‌ نما در کتاب کافی»، ص۳۲۔
  27. ملاحظہ کیجیے: القفاری، اصول مذهب الشیعة الامامیة الاثنی عشریة (عرض و نقد)، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۲۱۴ و ۲۳۴۔
  28. ظهیر، الشیعه و القرآن، ادارة ترجمان السنة، ص۱۱۱۔
  29. بروجردی، برهان روشن؛ البرهان علی عدم تحریف القرآن، ۱۳۷۵ھ، ص۷۰۔
  30. خویی، البیان فی تفسیر القرآن، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، ص۲۲۶۔
  31. آقا بزرگ تهرانی، الذریعه الی تصانیف الشیعه، ۱۴۰۸ھ، ج۱۶، ص۲۳۱۔
  32. مؤدب، حدادیان، «بررسی دلالی روایات تحریف‌ نما در کتاب کافی»، ص۳۲۔
  33. ملاحظہ کیجیے:استادی، کتابشناسی عدم تحریف قرآن، ۱۳۹۲شمسی، ص۱۹-۲۰۔
  34. ملاحظہ کیجیے: بلاغی، آلاء الرحمن، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۲۵-۲۹؛ خویی، البیان فی تفسیر القرآن، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، ص۲۲۰-۲۵۹۔
  35. حیدری، قرآن و مصونیت از تحریف، ۱۳۹۲شمسی، ص۱۷-۲۲۔
  36. احمدی، ««غالیان و اندیشه تحریف قرآن»، ص۲۲۰۔
  37. ملاحظہ کیجیے: فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ھ، ج۱۹، ص۱۲۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۶۳شمسی، ج۱۲، ص۱۰۱؛ قرطبی، تفسیر القرطبی، دار إحیاء التراث العربی، ج۱، ص۸۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۱۵ھ، ج۶، ص۱۰۵؛ ابن‌عاشور، التحریر و التنویر، ۱۴۲۱ھ، ج۱۳، ص۱۷۔
  38. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۸۶-۲۸۷ و ج۲، ص۶۲۷۔
  39. ملاحظہ کیجیے: شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، إحیاء التراث العربی، ج۱، ص۳-۴؛ خویی، البیان فی تفسیر القرآن، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، ص۲۱۶۔
  40. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۹۴۔
  41. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، إحیاء التراث العربی، ج۱، ص۳-۴؛ حیدری، قرآن و مصونیت از تحریف، ۱۳۹۲شمسی، ص۴۴۔
  42. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۶۹۔
  43. معرفت، صیانة القرآن من التحریف، ۱۴۲۸ھ، ص۴۷-۴۸۔
  44. شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال‌، ۱۴۰۶ھ، ص۱۰۰ و ص۱۲۵-۱۲۹۔
  45. شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال‌، ۱۴۰۶ھ، ص۹۹-۱۰۴۔
  46. شیخ صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ھ، ص۸۴۔
  47. بروجردی، برهان روشن؛ البرهان علی عدم تحریف القرآن، ۱۳۷۵ھ، ص۱۲۔
  48. بروجردی، برهان روشن؛ البرهان علی عدم تحریف القرآن، ۱۳۷۵ھ، ص۱۳۔
  49. طاهری خرم‌ آبادی، عدم تحریف قرآن، ۱۳۸۵شمسی، ص۱۰۶۔
  50. معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، ۱۴۲۸ھ، ص۷۳۔
  51. اشعری، مقالات الاسلامیین، ۱۴۰۰ھ، ص۴۷۔
  52. دہلوی، اظهار الحق، ۱۴۱۳ھ، ص۳۵۴۔
  53. دراز، مدخل الی القرآن الکریم، ۱۴۰۴ھ، ص۳۹-۴۰۔
  54. المدنی، «رجة البعث فی کلیة الشریعة»، ص۳۸۱۔
  55. استادی، کتابشناسی عدم تحریف قرآن، ۱۳۹۲شمسی، ص۴۳۔
  56. آقا بزرگ تهرانی، الذریعه الی التصانیف الشیعه، ۱۴۰۸ھ، ج۱۶، ص۲۳۱۔
  57. آقا بزرگ تهرانی، الذریعه الی التصانیف الشیعه، ۱۴۰۸ھ، ج۱۶، ص۲۳۱۔
  58. آقابزرگ تهرانی، الذریعه الی التصانیف الشیعه، ۱۴۰۸ھ، ج۱۶، ص۲۳۱-۲۳۲۔
  59. بروجردی، برهان روشن؛ البرهان علی عدم تحریف القرآن، ۱۳۷۵ھ، ص۹-۱۲۔
  60. بروجردی، برهان روشن؛ البرهان علی عدم تحریف القرآن، ۱۳۷۵ھ، ص۵۳-۸۸۔
  61. ملاحظہ کیجیے: بروجردی، برهان روشن؛ البرهان علی عدم تحریف القرآن، ۱۳۷۵ھ، ص۱۰۶-۱۶۰۔
  62. معرفت، صیانة القرآن من التحریف، ۱۴۲۸ھ، ص۲۸۰۔
  63. معرفت، تحریف ناپذیری قرآن، ۱۳۷۹شمسی، ص۱۳-۱۴۔

مآخذ

  • قرآن
  • آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعه الی تصانیف الشیعه، قم، اسماعیلیان، ۱۴۰۸ق.
  • ابن ابی الجمهور، محمد بن زین‌العابدین، عوالی اللئالی، تحقیق مجتبی عراقی، بی‌جا، بی‌نا، ۱۴۰۳ق.
  • ابن‌عاشور، محمدطاهر، التحریر و التنویر، بیروت، مؤسسة التاریخ العربی، ۱۴۲۱ق.
  • ابن‌ماجه، أبو عبد الله محمد بن یزید، سنن ابن‌ماجه، بیروت، دار احیاء الکتب العربیة، بی‌تا.
  • احمد بن حنبل، أبو عبد الله أحمد بن محمد، مسند احمد،قاهره، دار الحدیث، ۱۴۱۶ق.
  • احمدی، محمدحسن، «غالیان و اندیشه تحریف قرآن»، نشریه علوم حدیث، شماره ۲، شهریور ۱۳۸۹ش.
  • استادی، کاظم، کتابشناسی عدم تحریف قرآن، تهران، سازمان حج و زیارت، بی‌تا.
  • اشعری، ابوالحسن، مقالات الاسلامیین، آلمان، فرانس شتاینر، ۱۴۰۰ق.
  • القفاری، ناصر بن عبدالله، اصول المذهب الشیعة الاثنی العشریة (عرض و نقد)، عربستان سعودی، دارالنشر، چاپ اول، ۱۴۱۴ق.
  • المدنی، محمد محمد، «رجة البعث فی کلیة الشریعة»، رسالة الاسلام، شماره ۴۴، ربیع الاول، ۱۳۷۹ق.
  • الهی ظهیر، احسان، الشیعه و القرآن، لاهور، ادارة ترجمان السنة، بی‌تا.
  • بروجردی، مهدی، برهان روشن؛ البرهان علی عدم تحریف القرآن، تهران، انتشارات بوذرجمهری، چاپ اول، ۱۳۷۵ق.
  • بلاغی، محمدجواد، آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن، قم، بنیاد بعثت، چاپ اول، ۱۴۲۰ق.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسه آل البیت، ۱۴۱۶ق.
  • حیدری، سیدکمال، قرآن و مصونیت از تحریف، تهران، نشر مشعر، ۱۳۹۲ش.
  • خویی، سید ابوالقاسم، البرهان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسة إحیاء آثار الامام الخوئی، بی‌تا.
  • دراز، محمد عبدالله، مدخل الی القرآن الکریم، کویت، دار القلم، ۱۴۰۴ق.
  • دهلوی، رحمت‌الله، اظهار الحق، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۴۱۳ق.
  • رشیدرضا، محمد، تفسیر المنار، مصر، الهیئة المصریة العامة للكتاب، ۱۹۹۰م.
  • زرکشی، ابو عبدالله، البرهان فی علوم القرآن، بیروت، دار إحیاء الكتب العربیة، ۱۳۷۶ق.
  • سیوطی، عبدالرحمن بن أبی بكر، الاتقان فی علوم القرآن، مصر، الهیئة المصریة العامة للكتاب، ۱۳۹۴ق.
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابوبکر، الدر المنثور، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال‌، قم، دار الشریف الرضی للنشر، چاپ دوم، ۱۴۰۶ق.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، إحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طاهری خرم‌آبادی، سیدحسن، عدم تحریف قرآن، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۵ش.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی التفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، ۱۳۶۳ش.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، ۱۴۱۵ق.
  • «عقیدة الشیعة الإمامیة فی القرآن الكریم»، سایت مشروع الحصن، تاریخ بازدید: ۲۰ اسفند ۱۴۰۲ش.
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تهران، المطبعة العلمیة، ۱۳۸۰ق.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
  • قرطبی، شمس الدین، تفسیر القرطبی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • کاشف الغطاء، جعفر، کشف الغطاء عن مبهمات شریعة الغراء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، ۱۴۲۰ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الكتب الإسلامیة، ۱۴۰۷ق.
  • مؤدب، سیدرضا و عبدالرضا حدادیان، «بررسی دلالی روایات تحریف‌نما در کتاب کافی»، حدیث‌پژوهی، شماره ۲، پاییز و زمستان ۱۳۸۸ش.
  • معرفت، محمدهادی، التمهید فی علوم القرآن، قم، مؤسسه فرهنگی انتشاراتی التمهید، ۱۴۲۸ق.
  • معرفت، محمدهادی، تحریف ناپذیری قرآن (صیانة القرآن من التحریف)، ترجمه علی نصیری، تهران، انتشارات سمت، ۱۳۷۹ش.
  • معرفت، محمدهادی، صیانة القرآن من التحریف، قم، مؤسسه فرهنگى انتشاراتى التمهيد، چاپ اول، ۱۴۲۸ق.
  • معین، محمد، فرهنگ معین، تهران، کتاب راه نو، ۱۳۸۱ش.
  • نصیری، علی، «مقدمه»، بر تحریف ناپذیری قرآن (ترجمه صیانة القرآن من التحریف)، تألیف محمدهادی معرفت، تهران، انتشارات سمت، ۱۳۷۹ش.