دلیل عقلی

ویکی شیعہ سے

دلیلِ عقلی استنباط احکام شرعی کے ادلہ اربعہ یعنی (قرآن، سنت اور اجماع) میں سے ایک الگ دلیل ہے۔ دلیل عقلی کے مقدمات عقلی مقدمات پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کا نتیجہ بھی عقلی ہوتا ہے۔ دلیل عقلی کی دو قسمیں ہیں؛ مستقلات علقیہ اور غیر مستقلات عقلیہ۔

شیعہ مجتہدین میں سے ابن جنید پہلے مجتہد ہیں جنہوں نے چوتھی صدی ہجری میں احکام شرعی کے استنباط میں دلیل عقلی کو استعمال کیا اور ابن ادریس حلی وہ پہلے فقیہ ہیں جنہوں نے استنباط احکام میں عقل کو صراحت کے ساتھ مستقل حیثیت دی اورباقی ادلہ کے ساتھ اس کا بھی شمار کیا۔

اخباری مسلک کے پیروکار شرعی احکام کے استنباط کے سلسلے میں دلیل عقلی کو نہیں مانتے اور اس کے مخالف ہیں۔

شیعہ علما کی اکثریت کا عقیدہ ہے کہ دلیل عقلی اصول دین کے معاملے میں معرفت اور شناخت کے حصول کا واحد ذریعہ ہے، لہذا اس میں کسی کی تقلید جائز نہیں۔

معنی و مفہوم

ایسی دلیل جس کے مقدمات عقلی ہوں اور اس کا نتیجہ بھی عقلی ہوں تواسے دلیل عقلی کہا جاتا ہے۔[1] نقل و شریعت کے ساتھ ساتھ «عقل» بھی انسان کے لیے شناخت و ادراک کا ایک ذریعہ ہے۔[2]

دلیل عقلی دو قسموں میں منقسم ہوتی ہے؛ پہلی قسم مستقلات عقلیہ اور دوسری قسم غیر مستقلات عقلیہ کہلاتی ہے۔[3]

  • مستقلات عقلیہ

احکام شرعی کے استنباط کی راہ میں مستعمل کسی دلیل کے دونوں مقدمات عقلی ہوں اور شرع سے مدد لیے بغیر حکم شرعی استنباط کیا جائے تو اس دلیل کو مستقلات عقلیہ کہتے ہیں۔ جیسے عدل و انصاف اور سچائی کی اچھائی کو عقل مستقل طور پر کشف کرتی ہے، اسی طرح ظلم کے برا اور قبیح ہونے کو عقل ادراک کرتی ہے۔[4]

  • غیر مستقلات عقلیہ

اگرکسی دلیل کے مقدمات میں سے ایک مقدمہ عقلی اور دوسرا مقدمہ شرعی ہو تو اسے غیر مستقلات عقلیہ کہتے ہیں۔ جیسے اگر ذی المقدمہ واجب ہو تو اس کے مقدمے کے واجب ہونے کو عقل حکم کرتی ہے۔[5] مستقلات عقلیہ میں عقلی مقدمہ کو غلبہ حاصل ہونے کی بنا پر دلیل عقلی سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ غیر مستقلات عقلیہ میں عقل مستقل طور پر نتیجہ مقدمات تک نہیں پہنچ سکتی بلکہ ایک شرعی مقدمے کی مدد سے نتیجہ اور حکم تک جاپہنچتی ہے لہذا اسے غیر مستقلات عقلیہ کہتے ہیں۔[6]

شیخ انصاری کے نظریے کے مطابق دلیل عقلی کی دو قسمیں ہیں:

  1. دلیل عقلی کی پہلی قسم وہ ہے جو استنباط حکم اور نتیجہ کے اخذ کرنے میں کسی شرعی خطاب پر موقوف نہیں، جیسے نیکوکاری کے سلسلے میں عقل کسی آیت قرآنی یا روایت سے مدد لیے بغیر اس کے حسن کو کشف کرتی ہے۔ اسی طرح عقل مستقل طور پر ظلم کے قبیح ہونے کو درک کرتی ہے۔[7]
  1. دلیل عقلی کی دوسری قسم وہ ہے جو استنباط احکام میں حکم شرعی پر موقوف ہوتی ہے۔ جیسے کسی واجب عمل کے مقدمہ کا واجب ہونا اور وجاب عمل کی ضد کا حرام ہونا۔[8]

استنباط احکام شرعی میں دلیل عقلی کا استعمال

دلیل عقلی ادلہ اربعہ میں سے ایک ہے اور دلیل شرعی کے بالمقابل ہے۔ ایسے قضایا کو دلیل عقلی سے تعبیر کرتے ہیں جنہیں عقل بطور قطع ادراک کرتی ہے اور شرعی احکام استنباط کرنے کی راہ میں واقع ہوتے ہیں؛ یعنی ان کی مدد سے ایک حکم شرعی کا استنباط ہوتا ہے۔ جیسے کسی واجب عمل کے مقدمے کے واجب ہونے کو عقل کشف کرتی ہے اور یہ حکم شرعی کے استنباط میں استعمال ہوتا ہے۔[9] بعض اوقات استنباط احکام کے ادلہ کو ادلہ لفظی اور ادلہ لبی میں تقسیم کرتے ہیں۔[10] دلیل لبّی کی دو قسمیں ہیں؛ دلیل عقلی اور سیرہ عقلاء تقسیم۔[11]

استنباط احکام میں بحث عقل کا تاریخی پس منظر

مجموعی طور پر احکام شرعی کے استنباط میں دلیل عقلی کے استعمال کے تاریخی پس منظر کو تین ادوارمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  • پہلا مرحلہ (چوتھی صدی ہجری سے چھٹی صدی ہجری تک کا دورانیہ)

پہلے مرحلے میں شرعی احکام کے استنباط کے سلسلے میں اصولی اور فقہی دلائل میں عقلی استدلال کا وہ دورانیہ ہے جس میں عقلی استدلال اور عقلی طریقوں کی طرف رجوع کیا جاتا رہا مگر اسے شرعی احکام کے ایک منبع کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔[12] اس دورانیہ میں ابن جنید پہلے شخص ہیں جنہوں نے عقل کو شرعی احکام کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔[13] شیخ مفید،[14]سید مرتضی[15] اور شیخ طوسی [16]اس مرحلے میں شرعی احکام کے استدلال میں عقلی استدلال کو بروئے کار لانے والے علما ہیں۔

  • دوسرا مرحلہ(چھٹی صدی ہجری سے تیرہویں صدی ہجری تک کا دورانیہ)

اس مرحلے میں عقلی استدلال کے سلسلے میں کوئی تحقیق و جستجو کیے بغیر اسے اخذ احکام میں استعمال کیا جاتا رہا اور اسے باقاعدہ ایک منبع حکم کی حیثیت بھی حاصل تھی۔[17]اس دورانیے میں ابن ادریس حلی پہلے فقیہ ہیں جنہوں نے احکا شرعی کے ادلہ کے ذیل میں عقل کو ایک مستقل دلیل کے طور پر متعارف کرایا؛[18]ابن ادریس اپنی کتاب "السرائر" میں لکھتے ہیں: «استنباط احکام کے حوالے سے جب بھی کتاب، سنت اور اجماع کی صورت میں کوئی دلیل دستیاب نہ ہو تو اس صورت میں محققین دلیل عقلی سے تمسک کرتےہیں اور اس بنیاد پر حکم شرعی اخذ کرتےہیں»[19]

  • تیسرامرحلہ (تیرہویں صدی ہجری سے اب تک)

وہ مرحلہ جس میں عقل کو حکم شرعی تک پہنچنے کا ایک باقاعدہ ذریعہ سمجھا گیا اور اس سلسلے میں تحقیق و جستجو بھی انجام دی جاتی رہی۔[20] اس مرحلے میں عقلی استدلال پر ایک خاص نظر ڈالی گئی اور ماضی کی نسبت اس کی تحقیق و توضیح اور تعریف پر زیادہ توجی دی گئی؛ اس کی مزید جہتیں واضح کرنے کے لیے کوششیں کی جانے لگیں۔[21]کہا جاتا ہے کہ اس مرحلے کا آغاز کرنے والے مرزا قمی تھے۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عقل کی دقیق انداز میں تعریف و تحلیل کا سلسلہ شروع کیا۔[22]

حکم کے استنباط میں عقلی دلیل کے مخالفین

اخباری مسلک کے پیروکار شرعی احکام کے استخراج میں عقلی دلیل کو بروئے کار لانے کے سخت مخالف ہیں۔[23] علمائے متاخرین کی فقہی کتب میں اخباری سے مراد شیعہ فقہا کا ایک ایسا گروہ ہے جو احکام شرعی کے استنباط میں صرف احادیث و روایات کو منبع و ماخذ مانتا ہے۔[24] گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم اور اخباری مکتب کے بانی محمد امین استرآبادی[25] اپنی کتاب "الفوائد المدنیۃ" میں لکھتے ہیں: "شرعی احکام کا استنباط کرنے کے لیے ائمہ معصومینؑ کی احادیث اور روایات کے علاوہ کوئی اور ماخذ موجود نہیں؛ ان روایات میں اسے قطعی قواعد موجود ہیں جو ہمیں عقلی خیالات سے بے نیاز کر سکتے ہیں۔"[26]

اصول دین میں دلیل عقلی کا مقام

عقلی دلیل کو اصول دین میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ چونکہ اصول دین؛ جیسے توحید اور نبوت میں تقلید نہیں کی جاسکتی ہے لہذا بعض علماء کی نظر میں ان امور کے بارے میں علمی یقین حاصل کرنا ہر انسان پر عقلی لحاظ واجب ہے۔[27]

مفسر اور شیعہ مرجع تقلید عبد اللہ جوادی آملی کے مطابق، عقل یا عقلی دلیل بعض دینی تعلیمات کے حصول میں "معیار" ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک شخص مستقل طور پر کچھ قواعد اور عقلی ادلہ سے مدد لیتے ہوئے دین سے مربوط کچھ چیزوں جیسے شریعت اور وحی وغیرہ کے ضروری ہونے کو ثابت کرتا ہے[28] اور کچھ دینی تعلیمات کے لیے یہ "چراغ" کی حیثیت رکھتی ہے؛ یعنی شریعت کے باطنی حقائق اور نتائج کے حصول کی راہ میں حجت ہے اور شریعت کے احکام کو کتاب و سنت سے درک و اخذ کرنے کے سلسلے میں اس سے تمسک کیا جاتا ہے[29] اور یہ کچھ دوسری تعلیمات کے لیے "کلید" اور کنجی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی اگرچہ انسان عقل اور عقلی استدلال کی مدد سے اصل شریعت کو ثابت کرتا ہے اور اسے چراغ قرار دے کر شریعت کے احکام اور قوانین الہی کو حاصل کرتا ہے، لیکن اس میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ احکام کے اسباب و علل اور ان کے اسرار اوردنیائے غیب سے متعلق اشیاء میں رسائی حاصل کرے۔[30]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مظفر، اصول الفقہ، 1370ہجری شمسی، ج1، ص189.
  2. ولایی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، 1387ہجری شمسی، ج1، ص223.
  3. مظفر، اصول الفقہ،1370ہجری شمسی، ج1، ص188.
  4. مظفر، اصول الفقہ، 1370ہجری شمسی، ج1، ص188.
  5. مظفر، اصول الفقہ، 1370ہجری شمسی، ج1، ص189.
  6. مظفر، اصول الفقہ، 1370ہجری شمسی، ج1، ص189.
  7. کلانتری، مطارح الانظار، 1425ھ، ج2، ص319.
  8. کلانتری، مطارح الانظار، 1425ھ، ج2، ص319.
  9. مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389ہجری شمسی، ج1، ص576.
  10. ولایی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ج1، ص189.
  11. صفری، «شریعت اسلامی و استدلال عقلی از منظر امامیہ»، ص194.
  12. قماشی، «بازشناسی جایگاہ عقل در فقہ شیعہ»، ص53.
  13. ولایی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، 1387ہجری شمسی، ج1، ص224؛مظاہری، میراحمدی، «بررسی نقش عقل در دوران اخباری‌گری»، ص117.
  14. مفید، مختصر التذکرہ، 1413ھ، ص28.
  15. سیدمرتضی، الذریعہ، ج1، ص383.
  16. شیخ طوسی، عدہ الاصول، ج2، ص759.
  17. قماشی، «بازشناسی جایگاہ عقل در فقہ شیعہ»، ص53.
  18. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1421ھ، ص325؛مظفر، اصول الفقہ، 1370ہجری شمسی، ج1، ص122.
  19. ابن ادریس، سرائر، 1410ھ، ج1، ص46.
  20. قماشی، «بازشناسی جایگاہ عقل در فقہ شیعہ»، ص53.
  21. قماشی، «بازشناسی جایگاہ عقل در فقہ شیعہ»، ص53.
  22. میرزای قمی، قوانین الاصول، 1378ھ، ج1، ص369.
  23. مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج20، ص169.
  24. مؤسسہ دائرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ہجری شمسی، ج1، ص327.
  25. مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج20، ص169.
  26. استرآبادی، فوائدالمدنیہ، 1426ھ، ج1، ص92.
  27. تفصیلات کے رجوع کیجیے: خویی، الاجتہاد و التقلید، ج1، ص411؛ حکیم، مستمسک العروہ، ج1، ص103؛ فاضل مقداد، شرح الباب الحادی عشر، 1427ھ، ص11.
  28. جوادی آملی، شریعت در آینہ معرفت، 1372ہجری شمسی، ص204.
  29. جوادی آملی، شریعت در آینہ معرفت، 1372ہجری شمسی، ص205.
  30. جوادی آملی، شریعت در آینہ معرفت، 1372ہجری شمسی، ص207.

مآخذ

  • ابن ادریس، حلی، السرائر، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ دوم، 1410ھ.
  • استرآبادی، محمدامین، الفوائدالمدنیہ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، چاپ دوم، 1426ھ.
  • جوادی آملی، عبداللہ، شریعت در آینہ معرفت، قم، مرکز نشر فرہنگی رجاء، چاپ اول، 1372ہجری شمسی.
  • حکیم، سیدمحسن، مستمسک العروہ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ چہارم، 1391ھ.
  • خویی، سیدابوالقاسم، الاجتہاد و التقلید، انتشارات نوظہور، 1411ھ.
  • سیدمرتضی، الذریعہ الی اصول الشریعہ، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ اول، 1376ہجری شمسی.
  • شیخ طوسی، العدہ فی الاصول، قم، انتشارات تیز ہوش، چاپ اول، 1417ھ.
  • شیخ مفید، مختصر التذکرہ باصول الفقہ، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ.
  • صفری، محسن، «شریعت اسلامی و استدلال عقلی از منظر امامیہ»، فصلنامہ حقوق، شمارہ 2، تابستان 1387ہجری شمسی.
  • فاضل مقداد، شرح الباب الحادی عشر، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، چاپ دوم، 1427ھ.
  • قماشی، سعید، «بازشناسی جایگاہ عقل در فقہ شیعہ»، مجلہ رواق اندیشہ، شمارہ 3، پاییز 1380ہجری شمسی.
  • کلانتری، میرزا ابوالقاسم، مطارح الانظار، قم، مجمع الفکر الإسلامی، چاپ اول، 1425ھ.
  • گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقہا، تہران، انتشارات سمت، چاپ سوم، 1379ہجری شمسی.
  • مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول، 1389ہجری شمسی.
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی.
  • مظاہری، رسول، مریم، میراحمدی، «بررسی نقش عقل در دوران اخباری‌گری»، فصلنامہ پژوہش‌ہای فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ بیست و نہم، پاییز 1391ہجری شمسی.
  • مظفر، محمدرضا، اصول الفقہ، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، چاپ چہارم، 1370ش.
  • میرزای قمی، قوانین الاصول، تہران، مکتبہ العلمیہ الاسلامیہ، چاپ دوم، 1378ھ.
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، 1387ہجری شمسی.
  • ولایی، عیسی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، تہران، نشر نی، چاپ ششم، 1387ہجری شمسی.