انگشتر

ویکی شیعہ سے
فائل:انگشتر عقیق نقره.jpg
لال عقیق کے نگینے کی چاندی انگوٹھی

انگوٹھی یا خاتَم ایک گول نگینہ دار دھات ہے جسے عام طور پر انگلی میں زیور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ احادیث کے مطابق انگوٹھی پہننا پیغمبر خداؐ کی سنت ہے۔ فقہ میں انگوٹھی کے مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں۔ امام حسن عسکریؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا مومن کی پانچ نشانیوں میں سے ایک ہے۔ شیعہ روایات میں انگوٹھی کی خاص نوعیت، اس پر بنائے جانے والے خاص نقوش اور قیمتی پتھروں کی انگوٹھیاں استعمال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

احادیث میں منقول ہے کہ شیعہ اماموںؑ کی انگوٹھیوں پر "المُلْکُ لله" اور "حَسبی ‌الله" جیسے الفاظ منقوش ہوتے تھے۔ شیعہ حضرات بھی اپنی انگوٹھیوں پر "لااله الا الله"، "محمد رسول الله" اور "علی وَلیُ الله" جیسے جملے بھی کندہ کرتے ہیں۔

انگوٹھی خطوط پر مہر لگانے کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی۔ پیغمبر اکرمؐ اور شیعہ علماء نے بھی یہ طریقہ استعمال کیا ہے۔

مومن کی پانچ علامتیں

حضرت امام حسن عسکریؑ نے فرمایا:
عَلاَمَاتُ اَلْمُؤْمِنِ خَمْسٌ؛صَلاَةُ اَلْإِحْدَى وَ اَلْخَمْسِینَ وَ زِيَارَةُ اَلْأَرْبَعِینَ وَ اَلتَّخَتُّمُ بِالْیَمِینِ وَ تَعْفِیرُ اَلْجَبِینِ وَ اَلْجَهْرُ بِ‍بِسْمِ اَللّٰهِ اَلرَّحْمٰنِ اَلرَّحِیمِ۔

مآخذ، شیخ طوسی، تہذیب الاحکام (کتاب)، 1407ھ، ج6، ص52.

اہمیت و مقام

کتاب "فرہنگ فقہ اسلامی" میں انگوٹھی کی یوں تعریف کی گئی ہے: انگوٹھی انگلی میں پہننے والا ایسا دائرہ ہے جو عام طور پر دھات کا بنا ہوتا ہے، بعض انگوٹھیوں میں مختلف قسم کے نگینے لگے ہوتے ہیں جبکہ بعض میں ایسا نہیں ہوتا۔ انگوٹھی کو صرف انگلی میں پہنا جاتا ہے۔[1] بعض احادیث میں انگوٹھی پہننے کو سنت رسول خداؐ،[2] شیعوں کی نشانی[3]اور مومن کی نشانی[4] قرار دی گئی ہے.

کہتے ہیں کہ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا ایسی نشانی ہے جس سے شیعوں کی پہچان ہوتی ہے۔[5] مختلف فقہی موضوعات جیسے نماز،[6] حج[7] اور جہاد[8] وغیرہ میں انگوٹھی سے مخصوص فقہی احکام بیان ہوئے ہیں.

انگوٹھی اور سیرت ائمہؑ کے چند نمونے

شیعوں[9] اور اہل سنت[10] کے منابع حدیثی میں منقول ہے کہ امام علیؑ نے حالت رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی دے دی۔[11] تاریخ میں اس واقعہ کو "خاتم بخشی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. اسی طرح سید ابن طاووس(متوفیٰ:664ھ) کی کتاب اللہوف علی قتلی الطفوف کے نقل کے مطابق میدان کربلا میں حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی انگشت میں انگوٹھی تھی؛ لشکر عمر ابن سعد کے سپاہی بَجدَل بن سُلَیم کَلبی نے اس انگوٹھی کو غارت کرنے کے لیے امام حسینؑ کی انگشت مبارک ہی کاٹ ڈالی۔[12]

حضرت امام موسی کاظمؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق امامؑ سے کسی نے سوال کیا کہ امام علیؑ دائیں ہاتھ میں انگشتر کیوں پہنتے تھے؟ امام کاظمؑ نے جواب میں فرمایا: چونکہ حضرت محمدؐ کے بعد علیؑ ابن ابی طالب اصحاب یمین کے پیشوا و رہبر ہیں، اس لیے آپؑ دائین ہاتھ میں انگشتر پہنتے تھے۔[13]

آیت‌ الله خامنه‌ای کی مہرِ انگشتر

خطوط پر مہر انگشتر کی سنت

خطوط پر انگوٹھی کی مہر لگانا اسلامی سنتوں میں شمار ہوتا ہے۔[14] کہتے ہیں کہ رسول خداؐ نے سنہ 6 صدی ہجری کے اواخر میں ایک انگشتر بنانے کا حکم دیا تاکہ دنیا کے گوشہ و کنار کے بڑے بڑے بادشاہوں کو لکھے جانے والے خطوط پر اس کے ذریعے سے مہر لگادی جائے۔[15] انگشتر سے خطوط کو مہمور کرنے کا عمل شیعہ علما کی سنت بھی رہا ہے۔[16] اسی لیے انگوٹھی کو «خاتَم» بھی کہتے ہیں.[17]

نوعیت اور نقش

شیعہ احادیث کی کتب میں انگوٹھی کی نوعیت، نگینے کی نوعیت اور اس پر بنائے جانے والے نقوش کے بارے میں احکام بیان ہوئے ہیں۔[18]

  • نوعیت: بعض روایات کے مطابق پیغمبر خداؐ کی انگوٹھی چاندی کی بنی ہوئی تھی۔[19] بعض روایات میں "احجار کریمہ"(قیمتی پتھر) جیسے عقیق،[20] فیروزه،[21] یاقوت، [22] اور زمرد[23] کے نگینے انگوٹھی میں رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اسی طرح وسایل‌ الشیعہ میں بعض روایات نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق پیغمبر خداؐ کی انگوٹھی کا نگینہ سیاہ اور مدوَّر(گول) تھا.[24]
  • نقش: انگشتر پر مختلف قسم کے نقش کندہ کرنے کے بارے میں ائمہؑ سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں۔[25] حضرت امام جعفر صادقؑ سے منقول روایت کا مضمون یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰؐ کی انگوٹھی پر جملہ «محمدٌ رسولُ الله»، امام علیؑ کی انگوٹھی پر جملہ «المُلْکُ لِلّه» اور امام محمد باقرؑ کی انگوٹھی پر جملہ «العِزةُ لله» کندہ تھا.[26] شیعوں کے ساتویں امام، امام موسی کاظمؑ کی انگوٹھی پر بھی جملہ «حَسْبِیَ اللهُ حَافِظِی» (میری حفاظت کے لیے اللہ ہی کافی ہے)،[27]‏ اور «الْمُلْكُ لِله وَحْدَهُ» (فرمانروائی صرف خدائے یکتا کے لیے مخصوص ہے)[28] کندہ تھا. ائمہؑ سے منقول احادیث میں انگوٹھیوں پر جملہ «محمدٌ نَبیُ الله» اور «علیٌ ولیُ الله» کندہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔[29] شیعہ معاشروں میں ان جملات کی کندہ شدہ انگوٹھیاں عام طور پائی جاتی ہے۔

چند شرعی احکام

فقہی کتب میں انگوٹھی کے بارے میں چند شرعی احکام بیان ہوئے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

  • طہارت: بعض فقہاء کے فتوا کے مطابق قضائے حاجت[30] کے دوران ایسی انگوٹھی پہننا مکروہ ہے جس پر اللہ کا نام یا قرآن کی کوئی آیت کندہ ہوں[31] شیعہ مجتہد محمد حسن نجفی نے اپنی فقہی کتاب جواہرالکلام میں لکھا ہے کہ ائمہؑ اور حضرت فاطمہ زہراء(س) کے اسامی بھی احترام کے لحاظ سے اللہ اور قرآن کی آیتوں کا حکم رکھتے ہیں۔[32]
  • وضو: چونکہ وضو میں اعضائے وضو کی ہر جگہ تک پانی پہنچنا ضروری ہے اس لیے وضو کے دوران مستحب ہے کہ انگوٹھی کو ہلا کر اس کی جگہ پانی پہنچایا جائے اور اگر ایسا کرنے کے باوجود بھی پانی نہ پہنچنے کا احتمال ہو تو ضروری ہے کہ انگوٹھی اتار دی جائے۔[33]
  • نماز: مجتہدین کے فتوا کے مطابق نماز کے دوران عقیق کی انگوٹھی پہننا مستحب ہے۔[34] البتہ مرد حضرات کے لیے نماز کے دوران سونے کی انگوٹھی پہننا حرام اور نماز کے باطل ہونے کا باعث ہے۔[35] اسی طرح مرد اور عورت دونوں کے لیے نماز کے دوران لوہے کی انگوٹھی پہننا مکروہ ہے۔[36] بعض فقہاء کے مطابق اگر غصبی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھ لی جائے تو نماز باطل ہوگی۔[37]
  • حج: بعض فقہاء نے مقدمات حج کی بحث میں کہا ہے کہ حج کے سفر پر نکلنے کے دوران زرد عقیق کے نگ کی انگوٹھی پہننا مستحب ہے۔[38] شیعہ مرجع تقلید سید ابوالقاسم خویی کی نظر میں احرام کی حالت میں بطور زینت انگوٹھی پہن لی جائے تو حرام ہے وگرنہ جائز ہے۔[39] اسی طرح امام خمینیؒ نے احتیاط واجب[یادداشت 1] کے مطابق فتوا دیا ہے کہ نجس انگوٹھی پہن کر حج کرنے سے حج باطل ہوجاتا ہے۔[40]
  • جہاد: جہاد میں انگوٹھی "سَلَب" میں شمار ہوتی ہے.[41]

جہاد کی بحث میں "سَلَب" سے مراد مقتول کے اموال ہیں جو صرف قاتل کی ملکیت میں قرار پاتے ہیں۔ اس طرح کے اموال کو مالِ غنیمت کی طرح تقسیم نہیں کیا جاتا۔[42]

  • شادی بیاہ: محدث بَحرانی کے فتوا کے مطابق جس انگوٹھی پر اسمائے الہی یا قرآن کی آیت کندہ ہو اسے پہن کر مجامعت کرنا مکروہ ہے۔[43]
  • میراث: انگوٹھی کا شمار "حَبوَه"(میت کے بڑے بیٹے کو ملنے والی چیزیں) میں ہوتا ہے لہذا وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی میت کے بڑے بیٹے کو ملے گی۔[44]
  • سونے کی انگوٹھی: شیعہ فقہا کے نزدیک مرد حضرات کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے۔[45]

انگشتر سلیمان

روایات میں حضرت سلیمانؑ کی انگوٹھی کا ذکر ملتا ہے جو جناب سلیمانؑ کی طاقت اور قدرت کی علامت و نشانی ہے۔[46] یہی انگوٹھی شیعہ اماموں کو یکے بعد دیگرے منتقل ہوتی آئی ہے[47] اور امام مہدی (عج) اپنے ظہور کے وقت اسے اپنے دست مبارک میں پہنے ہونگے۔[48]

متعلقہ مضمون

نوٹ

  1. احتیاط واجب میں مرجع تقلید متعلقہ عمل کی حرمت یا وجوب کا فتویٰ نہیں دیتا، لیکن اس کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ کام حرام ہو تو کسی صورت انجام نہ پائے اور اگر واجب ہو تو کسی صورت چھوٹنے نہ پائے اس لئے ایسے مقام پر مجتہد احتیاط کو ضروری قرار دیتا ہے۔ (مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص453۔)

حوالہ جات

  1. مؤسسه دایرة المعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه فارسی، 1385ہجری شمسی، ج1، ص746.
  2. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص468.
  3. حر عاملی، هدایة الامه، 1412ھ، ج2، ص137.
  4. شیخ مفید، کتاب المزار، 1413ھ، ص53.
  5. زارعی، «انگشتری در اسلام»، ص15.
  6. عاملی، مفتاح الکرامه، 1419ھ، ج5، ص444.
  7. خویی، موسوعه الامام خویی، 1418ھ، ج28، ص452.
  8. طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج2، ص67.
  9. شیخ مفید، مسار الشیعه، 1414ھ، ص41.
  10. حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص209-239.
  11. حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص212.
  12. ابن‌طاوس، اللهوف، 1348ہجری شمسی، ص130.
  13. حر عاملی، هدایة الامه، 1412ھ، ج2، ص137.
  14. زارعی، «انگشتری در اسلام»، ص15.
  15. زارعی، «انگشتری در اسلام»، ص15.
  16. زارعی، «انگشتری در اسلام»، ص15.
  17. ملاحظہ کریں: دهخدا، لغت‌نامه، ذیل واژه «انگشتر».
  18. تفصیل کے لیے رجوع کیجیے: حر عاملی، وسایل الشیعه، 1409ھ، ج5، ص79 و 94 و 93 و ج1، ص331.
  19. طبرسی، مکارم الاخلاق، 1412ھ، ص85.
  20. حر عاملی، وسایل الشیعه، 1409ھ، ج5، ص88.
  21. حر عاملی، وسایل الشیعه، 1409ھ، ج5، ص94.
  22. حر عاملی، وسایل الشیعه، 1409ھ، ج5، ص92.
  23. حر عاملی، وسایل الشیعه، 1409ھ، ج5، ص93.
  24. حر عاملی، وسایل الشیعه، 1409ھ، ج5، ص79.
  25. ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسایل الشیعه، 1409ھ، ج5، ص 103-97 و ج1، ص331 و ج5، ص78 و ج5، ص79 و ج5، ص91 و ج5، ص94.
  26. حر عاملی، وسایل الشیعه، 1409ھ، ج5، ص99.
  27. طبرسی، مکارم الاخلاق، 1412ق، ص91.
  28. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج48، ص11.
  29. حر عاملی، وسایل الشیعه، 1409ھ، ج5، ص92.
  30. نجفی، جواهر الکلام، 1404ھ، ج2، ص12.
  31. بحرانی، الحدائق الناضره، 1405ھ، ج2، ص76.
  32. نجفی، جواهر الکلام، 1404ھ، ج2، ص72.
  33. نجفی، جواهر الکلام، 1404ھ، ج2، ص287.
  34. طباطبایی یزدی، العروه الوثقی(محشی)، 1419ھ، ج2، ص361.
  35. عاملی، مفتاح الکرامه، 1419ھ، ج5، ص444.
  36. نجفی، جواهر الکلام، 1404ھ، ج8، ص264.
  37. علامه حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج1، ص196.
  38. طباطبایی یزدی، العروه الوثقی(محشی)، 1419ھ، ج4، ص331.
  39. خویی، موسوعه الامام خویی، 1418ھ، ج28، ص452.
  40. خمینی، تحریر الوسیله، نشر دار العلم، ج1، ص 429-430.
  41. طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج2، ص67.
  42. طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج2، ص67.
  43. بحرانی، الحدائق الناضره، 1405ھ، ج23، ص138.
  44. سید مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص582.
  45. ملاحظہ کریں: نجفی، جواهر الکلام، 1404ھ، ج41، ص54.
  46. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج14، ص99.
  47. تفصیل کے لیے رجوع کیجیے: به صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ، ص208 و 198.
  48. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج26، ص 222.

مآخذ

  • ابن‌طاوس، علی بن موسی، اللهوف، انتشارات جهان، تهران، 1348ہجری شمسی.
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضره فی احکام العتره الطاهره، تحقیق محمدتقی ایراوانی-سید عبدالرزاق مقرم، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1405ھ.
  • حاکم حسکانی، عبیدالله، شواهدالتنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، چاپ دوم، قم، مجمع احیاءالثقافة الاسلامیة، 1411ھ.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعه الی تحصیل مسائل الشریعه، تحقیق گروه پژوهش موسسه آل البیت علیهم السلام، قم، موسسه آل البیت علیهم السلام، چاپ اول، 1409ھ.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، هدایة الامه الی احکام الائمه- منتخب المسائل، تحقیق بخش حدیث در جامعه پژوهش‌های اسلامی، مشهد، مجمع البحوث الاسلامیه، چاپ اول، 1412ھ.
  • خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیله، قم، مؤسسه مطبوعات دارالعلم، چاپ اول، بی‌تا.
  • خویی، سید ابو القاسم، موسوعة الامام خویی، تحقیق پژوهشگران مؤسسه احیاء آثار آیت الله العظمی خویی، قم، مؤسسه احیاء آثار الامام الخوئی، چاپ اول، 1418ھ.
  • زارعی، محمد، «انگشتری در اسلام»، در مجله فرهنگ کوثر، شماره 32، سال 1378ہجری شمسی.
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار فی انفرادات الامامیه، تحقیق گروه پژوهش دفتر انتشارات اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم. چاپ اول، 1415ھ.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، کتاب المزار، تحقیق سید محمدباقر ابطحی، قم، کنگره جهانی هزاره شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، مسار الشیعه، بیروت، دار المفید، 1414ھ/1993ء.
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات الکبری، تعلیقه و مقدمه ميرزامحسن كوچه‌باغى، منشورات الاعلمی للمطبوعات، 1362ہجری شمسی/1404ھ.
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی فی ما تعم به البلوی(محشی)، تحقیق احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1419ھ.
  • طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، الشریف المرتضی، 1412ھ.
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقه الامامیه، تحقیق سید محمدتقی کشفی، تهران، المکتبه المرتضویه لاحیاء الآثار الجعفریه، چاپ سوم، 1387ھ.
  • عاملی، سید جواد بن محمد، مفتاح الکرامه فی شرح قواعد العلامه، تحقیق محمدباقر خالصی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته با جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1419ھ.
  • علامه حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیه علی مذهب الامامیه، تحقیق ابراهیم بهادری، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، چاپ اول، 1420ھ.
  • علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، مؤسسة الوفاء، 1403ھ.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، 1407ھ.
  • مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل‌بیت علیهم السلام، قم، مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی.
  • نجفی، محمدحسن، جواهر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ هفتم، 1404ھ.