توحید مفضل (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | مفضل بن عمر |
موضوع | خدا شناسی (علم کلام) |
زبان | عربی |
تعداد جلد | 1 |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | مکتبۃ الداوری قم (ایران) |
توحید مفضَّل، امام صادق علیہ السلام کی ایک طویل حدیث پر مشتمل کتاب ہے جسے آپ نے چار حصوں میں مفضل بن عمر جعفی کو تعلیم دیا۔ اس حدیث میں حکمت، خدا کی معرفت اور خلقت کے اسرار و رموز بیان ہوئے ہیں۔
مؤلف
مشہور ہے کہ یہ کتاب امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک بزرگ اور جانی پہچانی شخصیت مفضل بن عمر جعفی کو املا کروائی۔
اس میں کسی قسم کا اختلاف موجود نہیں کہ یہ کتاب امام جعفر صادق کی لکھی ہوئی نہیں ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ اسے امام نے اپنے صحابی کو املا کروایا یا اس صحابی کی اپنی تالیف ہے اور اسے امام جعفر صادق کی طرف منسوب کیا ہے۔ اکثر شیعہ علما مفضَّل بن عمر جُعْفی کو امام صادق (ع) اور امام کاظم(ع) کے خاص اصحاب میں سے شمار کرتے ہیں۔[1] ان میں سے کچھ علما نے اس کی تضعیف کرنے والے علما کے نظریے کو رد کرتے ہوئے اس کی تائید اور توثیق پر دلیل قائم کی ہے۔[2] اور کہا ہے کہ یہ کتاب امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسے املا کروائی ہے۔[3] بعض علما نے نیز تصریح کی ہے کہ اِہلیلَجہ، معرفت خدا میں امام صادق(ع) سے منسوب ایک اور کتاب ہے جسے امام نے خود اپنے دست مبارک سے لکھا اور اسے مفضل کے سپرد کیا لیکن توحید مفضّل امام نے انہیں املا کروائی ہے۔[4]
البتہ نجاشی،[5] نے اس کتاب کو مفضل کی طرف نسبت دی ہے اور اس کے قابل اعتبار نہ ہونے کا اشارہ کیا نیز کہا کہ بعض اسے خطّابی غالی شمار کرتے ہیں۔
متن کتاب
اگر مان لیا جائے کہ یہ کتاب امام صادق علیہ السلام کی املا شدہ حدیث پر مشتمل ہے تو بھی اس سوال کی گنجائش موجود ہے کہ اس وقت موجود اس کتاب کا متن وہی متن مفضل ہے یا نہیں؟
توحید مفضّل کا نام سید بن طاووس کی کتب کی فہرست میں آیا ہے۔[6] اس سے متعلق توضیحات کی بنا پر [7] ہمارے ہاتھوں میں موجود وہی کتاب موجود ہے نیز مذکور ہے کہ ابھی تک کسی عالم دین کی طرف سے اس میں کسی قسم کے تغیر و تبدل یا تحریف بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ابھی تک کسی نے اس بات کا دعوی ہی کیا ہے کہ موجودہ توحید مفضل وہی امام صادق سے روایت شدہ ہی ہے اور اس کتاب کے نقل اور ترجمے میں ان علما کی سیرت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس میں کسی قسم کی تحریف یا تغیر و تبدل کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔
سبب تالیف
مفضل بن عمر جعفی نے اس کی تالیف کے سبب کو یوں بیان کیا ہے:
- ایک دن میں عصر کے وقت مدینہ کی مسجد میں حضرت رسول خدا(ص) کی قبر اطہر کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور میں آںحضرت کے مقام و منزلت کے بارے میں غور و فکر میں مشغول تھا کہ اچانک ابن ابو العوجاء اور اس کے ساتھی وہاں آئے اور انہوں نے باہمی بات چیت شروع کی۔
- انہوں نے رسول گرامی کی ذات اقدس کو ایک ایسے زیرک فلسفی کے نام سے یاد کیا کہ جس نے اپنا نام دنیا میں باقی رکھا اور کہا کہ اس جہان کا کوئی خدا اور خالق نہیں بلکہ تمام چیزیں خود بخود وجود میں آئیں اور ازل سے ہیں اور اسی طرح باقی رہیں گے۔
- میں یہ سن کر اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا، میں نے انہیں کہا: اے دشمنان خدا! کیا کافر ہو گئے ہو؟! انہوں نے جواب دیا: اگر تم امام جعفر صادق کے اصحاب میں سے ہو تو وہ ایسے گفتگو نہیں کرتا ہے۔
- میں ان کے پاس سے اٹھ کر امام صادق(ع) کے پاس چلا گیا اور میں نے ان سے واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: کل صبح کاغذ اور قلم کے ساتھ آنا تا کہ میں تمہارے لئے اس جہان کی خلقت کے متعلق خدا کے اسرار بیان کروں۔ پس اگلے روز میں امام کی خدمت میں گیا۔ امام نے چار نشستوں میں میرے سامنے یہ حدیث بیان کی اور میں نے اسے تحریر کیا۔
تعارف
امام صادق (ع) نے کتاب کو چار دنوں میں صبح سے ظہر تک مفضل کو املا کروایا۔ آپ نے اس کتاب میں نہایت شگفتہ بیان کے ساتھ اس جہان کی خلقت اور خدا کے خالق اور حکیم کو ثابت کیا۔
شیعہ کی ابحاث اعتقادی میں توحید مفضل ارزشمند اور معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے۔ توحید مفضل کی علمائے تشیع کے نزدیک خاص اہمیت کے پیش نظر سید بن طاووس، نے اس کتاب کو سفر میں اپنے ہمراہ رکھنے اور اس میں غور و خوض کی تاکید اور توصیہ کیا ہے۔ [8]
مضامین
- امام صادق (ع) ابتدا میں جہان ہستی کے طریقۂ خلقت سے عدم واقفیت اور اسباب سے لا علمی کو وجود خدا کے انکار یا شک کا سبب قرار دیتے ہیں۔ پھر تخلیق جہان، انسان اور اس کے اعضائے بدن کی خلقت کو حواس پنجگانہ اور انسانی نظام ہضم کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور اس کے ذریعے خلق کرنے والے کی قدرت، حکمت اور علم پر استدلال کرتے ہیں۔
- امام(ع) دوسری نشست میں گھوڑے، ہاتھی، زرافہ، بندر، کتے، مرغ، چمگادڑ، بھڑ، شہد کی مکھی، ٹڈی، چیونٹی اور مچھلی جیسے حیوانات کی دنیا کی تخلیق میں موجود حیرت انگیز پہلؤوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
- تیسری نشست میں زمین و آسمان کے تعجب آور پہلو بیان کرتے ہیں جیسے آسمان کا رنگ، خورشید کا طلوع و غروب، سال کے موسم، آسمان میں سورج، چاند اور ستاروں کی تیز حرکت، سردی اور گرمی کی پیدائش، آواز کی ایجاد کی کیفیت۔
- چوتھی نشست موت و حیات کی حقیقت، خلقت انسان کی علت، اس جہان کی پہچان و معرفت کے طریقوں کا بیان اور جہان کے حقائق، حس و عقل کے درمیان فرق کے ساتھ مخصوص ہے۔
غیر مشہور حصہ
آقا بزرگ طہرانی نے الذریعہ[9] میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ توحید مفضل کا ملکوت اعلا کے احوال پر مشتمل حصہ سید ابن طاؤس کے زمانے میں مشہور نہیں تھا۔[10] بزرگ تہرانی کے معاصرین میں سے سید مرزا ابو القاسم ذہبی نے اسے پایا اور توحید مفضل کو اس غیر مشہور حصے سمیت اپنی کتاب تباشیر الحکمت میں ذکر کیا ہے۔
خطی نسخہ جات
توحید مفضل کے بہت سے خطی نسخے موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ خطی نسخے ایران کے شہر مشہد کے کتب خانۂ آستان قدس رضوی، تہران کے کتب خانۂ ملی اور قم کے کتب خانۂ آیت الله مرعشی نجفی میں موجود ہیں جبکہ کچھ اور نسخے عراق میں موجود ہیں۔[11]
ظاہری طور پر قدیمی ترین خطی نسخہ 1056 ھ سے متعلق ہے جو عبدالرزاق جیلانی کا لکھا ہوا ہے اور قم کے کتب خانۂ آیت الله گلپایگانی میں محفوظ ہے۔[12]
توحید مفضل پہلی مرتبہ 1287 ش میں ایران میں چھپی. اس کے بعد ابھی تک اس کا متن، ترجمے اور اس پر متعدد شرحیں مصر، عراق اور ایران سے چھپ چکی ہیں۔[13]
ترجمہ فارسی
اس کا فارسی زبان میں پہلا ترجمہ قم میں مقیم شیخ فخرالدین ترکستانی نے 1065ھ میں کیا۔ اسی طرح علامہ مجلسی نے بھی اسے فارسی زبان میں ترجمہ اور شرح لکھی ہے جس کا تذکرہ بحارالانوار[14] میں بھی کیا ہے۔
دیگر علما نے بھی اس کا ترجمہ، شرح اور تحقیقیں لکھی ہیں۔ کچھ علما نے اس کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔[15]
حوالہ جات
- ↑ کلینی، ج۲، ص۹۲ ؛ شیخ مفید، ج۲، ص۲۰۸ ؛ شیخ طوسی، ج۱، ص۲۱۰ ؛ ابن شہر آشوب، ج۴، ص۲۱۹
- ↑ مامقانی، ج ۳، ص ۲۳۸ ـ ۲۴۲
- ↑ ابن طاووس، الامان، ج ۱، ص ۵۰ ؛ تستری، ج ۱۴، ص ۱۴۳
- ↑ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۴، ص ۴۸۲
- ↑ نجاشی، ج ۱، ص ۴۱۶
- ↑ کولبرگ، ج ۱، ص ۳۶۱ ـ ۳۶۲
- ↑ ابن طاووس، الامان، ج ۱، ص ۹۱
- ↑ ابن طاووس، الامان، ج ۱، ص ۹۱
- ↑ ج ۴، ص ۴۸۲ ـ ۴۸۳
- ↑ ابن طاووس، الامان، ج ۱، ص ۹۱
- ↑ حسینی اشکوری، ج ۱، ص ۱۴۴ ؛ فکرت، ج ۱، ص ۱۵۰
- ↑ عرب زاده، ج ۱، ص ۱۹۷
- ↑ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۴، ص۹۱، ۴۸۲ ـ ۴۸۳ ؛ آقا بزرگ طہرانی، مصنفات، ج ۲، ص ۱۶۷ ؛ فاضل، ج ۳، ص ۱۵۱۵
- ↑ مجلسی، ج ۳، ص ۵۷ ـ ۱۵۱
- ↑ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۴، ص۹۱ ؛ فکرت، ج ۱، ص ۱۵۰ ؛ حسینی اشکوری، ج ۱، ص ۱۳۱
منابع
- آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت، ۱۴۰۳ق.
- آقا بزرگ طہرانی، مصنفات شیعہ: ترجمہ و تلخیص الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، ج ۲، محمد آصف فکرت، مشہد، ۱۳۷۳ش.
- ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، چاپ ہاشم رسولی محلاتی، قم.
- ابن طاووس، الامان من اخطار الاسفار و الازمان، قم، ۱۴۰۹ق.
- ابن طاووس، کشف المحجۃ لثمرة المهجۃ، چاپ محمد حسون، قم، ۱۳۷۵ ش.
- انوار، عبدالله، فہرست نسخ خطی کتابخانہ ملی، تہران، ۱۳۴۳ـ ۱۳۵۸ش.
- تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، ملحقات، تہران، مکتبہ الصدر.
- حسینی اشکوری، احمد، فہرست نسخہ ہای خطی کتابخانہ عمومی حضرت آیة اللّه العظمی مرعشی نجفی مدّظلّہ العالی، قم، ۱۳۵۴ـ۱۳۷۶ش.
- شیخ طوسی، کتاب الغیبہ، تہران، ۱۳۹۸ق.
- شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللّه علی العباد، با ترجمہ و شرح هاشم رسولی محلاتی، تہران، ۱۳۴۶ش.
- عرب زاده، ابو الفضل، فہرست نسخہ ہای خطی کتابخانہ آیۃ اللّه العظمی گلپایگانی (قدس سره)، قم، ۱۳۷۸ش.
- فاضل، محمود، فہرست نسخہ های خطی کتابخانہ جامع گوہرشاد مشہد، مشہد، ۱۳۶۳ـ۱۳۶۷ش.
- فکرت، محمد آصف، فہرست الفبائی کتب خطی کتابخانہ مرکزی آستان قدس رضوی، مشہد، ۱۳۶۹ش.
- کولبرگ، اتان، کتابخانہ ابن طاووس و احوال و آثار او، ترجمہ علی قرائی و رسول جعفریان، قم، ۱۳۷۱ش.
- کلینی، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری، دار الکتب الاسلامیہ، تہران.
- مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال فی علم الرجال، چاپ سنگی، نجف، ۱۳۴۹ـ۱۳۵۲ق
- مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، موسسہ الوفاء، بیروت.
- مفضّل بن عمر، توحید مفضّل، ترجمہ محمد باقر مجلسی، چاپ باقر بیدہندی، تہران، ۱۳۷۹ش.
- نجاشی، احمد، فہرست اسماء مصنّفی الشیعہ المشتہر ب رجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق.
بیرونی روابط
- مآخذ مقالہ: دانشنامۂ جہان اسلام