دفعی نزول
دَفْعی نُزول یا نُزولِ اِجْمالی سے مراد پورے قرآن مجید کا شب قدر کو ایک ہی دفعہ میں نازل ہونا ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ شب قدر کو بیت المعمور پر پورے قرآن کا نزول ہوا پھر آہستہ آہستہ اور تدریجا پیغمبر خداؐ پر نازل ہونا شروع ہوا۔ بہت سے مفسرین نے سورہ دخان کی تیسری آیت اور سورہ قدر کی پہلی آیت سے استناد کرتے ہوئے قرآن مجید کا نزول دفعی ثابت کیا ہے البتہ بعض دیگر مفسرین کا عقیدہ ہے کہ نزول قرآن کی صرف ایک ہی قسم ہے اور وہ اس کا تدریجی نزول ہے۔
معنی و مفہوم
اکثر مفسرین، قرآن کی بعض ان آیتوں سے جہاں کہا گیا ہے کہ: «ہم نے اس(قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا»؛ [1] «ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے»، [2] ان سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآن مجید پیغمبر اکرمؐ پر شب قدر کو ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا ہے۔ علوم قرآن کی اصطلاح میں اسے قسم کے نزول کو نزول دفعی یا اجمالی کہا جاتا ہے۔[3]
احادیث کی روشنی میں
شیخ صدوق پہلی شخصیت ہے جنہوں نے قرآن مجید کے دفعی نزول کو شیعہ عقائد کا حصہ قرار دیا ہے اور اس کی حکمت یوں بیان کی ہے کہ پیغمبر خداؐ پورے قرآن کے بارے میں اجمالی طور پر آگاہی رکھتے تھے۔[4] شیعہ کتب احادیث میں بھی آیا ہے کہ قرآن مجید قدر کی رات کو چوتھے آسمان پر نازل ہوا اور بیت المعمور میں قرار پایا، پھر 23سال کے عرصے میں پیغمبر خداؐ پر لفظی صورت میں تفصیلی طور پر نازل ہوا۔[5] اسی طرح اہل سنت کی کتب احادیث میں بھی آیا ہے کہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان اول پر نازل ہوا اور بیت العزہ نامی مقام پر قرار پایا۔[6]
دفعی نزول کی کیفیت
قرآن مجید کے دفعی نزول کی کیفیت کے بارے میں مختلف تفسیریں بیان ہوئی ہیں؛ فیض کاشانی کے عقیدے کے مطابق بیت المعمور سے مراد قلب پیغمبر خداؐ ہے۔[7] علامہ طباطبایی کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن اپنے وجود باطنی اور حقیقی کے لحاظ سے شب قدر میں نازل ہوا جبکہ اپنے وجود ظاہری اور تفصیلی کے لحاظ سے 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔[8] بعض دوسرے علما کا نظریہ یہ ہے کہ ایک سال کے دوران کی ضرورت کی مقدار میں آیات اسی سال کی شب قدر میں پیغمبر خداؐ پر نازل ہوتی تھیں۔[9]بعض دیگر علما کا کہنا ہے کہ پورا قرآن شب قدر میں نازل نہیں ہوا بلکہ قرآن کی اکثر آیتیں شب قدر میں نازل ہوئی ہیں۔[10] علما کا ایک گروہ سرے سے ہی قرآن مجید کے نزول دفعی کا انکار کرتا ہے۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ سورہ قدر کی آیت1 اور سورہ دخان کی آیت3؛[11] جو ظاہرا نزول دفعی پر دلالت کرتی ہے، قرآن مجید کے نزول تدریجی کے آغاز کی طرف اشارہ ہے۔[12]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ سوره قدر، آیه1.
- ↑ سوره دخان، آیه 3.
- ↑ انصاری، «نزول دفعی قرآن کریم» ص2226.
- ↑ کریمی و دیمه کارگراب، «استدلال روایی شیخ صدوق بر نزول قرآن»، ص24.
- ↑ کلینی، کافی، 1365ہجری شمسی، ج2، ص628، به نقل از ناصحیان و جلالیان، «بررسی دیدگاه آیتالله معرفت در نزول قرآن»، ص161.
- ↑ انصاری، «نزول دفعی قرآن کریم»، ص2226.
- ↑ فیض کاشانی، التفسیر الصافی، 1399ھ، ج1، ص57، به نقل از ناصحیان و جلالیان، «بررسی دیدگاه آیتالله معرفت در نزول قرآن»، ص170.
- ↑ معرفت، تاریخ قرآن، 1383ہجری شمسی، ص41.
- ↑ معرفت، تاریخ قرآن، 1383ہجری شمسی، ص41.
- ↑ معرفت، تاریخ قرآن، 1383ہجری شمسی، ص36-39.
- ↑ «ہم نے اس(قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا»۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، 1369ہجری شمسی، 191.
مآخذ
- انصاری، مسعود، «نزول دفعی قرآن کریم»، در مجموعه مقالات دانشنامه قرآن، تهران، نشر دوستان، 1377ہجری شمسی.
- رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تهران، موسسه انتشارات امیرکبیر، 1369ہجری شمسی.
- فیض کاشانی، محمد حسن، التفسیر الصافی، بیروت، نشر اعلمی، 1399ھ.
- کریمی و دیمه کارگراب، محمود و محسن، «استدلال روایی شیخ صدوق بر نزول قرآن»، در مجله علوم قرآن و حدیث، شماره 62، زمستان 1390ہجری شمسی.
- کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تهران، دارالکتب الاسلامیة، 1365ہجری شمسی.
- معرفت، محمد هادی، تاریخ قرآن، تهران، انتشارات سمت، 1383ہجری شمسی.
- ناصحیان و جلالیان، علی اصغر و علی، «بررسی دیدگاه آیتالله معرفت در نزول قرآن»، در مجله الهیات و حقوق، شماره26، زمستان 1386ہجری شمسی.