مندرجات کا رخ کریں

مسودہ:اسلام میں خواتین کے حقوق (کتاب)

ویکی شیعہ سے
اسلام میں خواتین کے حقوق
مشخصات
دوسرے اسامیاسلامی حقوق میں عورت کا مقام
مصنفمرتضی مطہری
سنہ تصنیف1966 و 1967ء
موضوعاسلام میں خواتین کے حقوق
زبانفارسی
تعداد جلد1
ترجمہانگریزی، عربی، فرانسیسی، روسی، ڈینش، پشتو اور اردو
طباعت اور اشاعت
مقام اشاعتتہران
سنہ اشاعت1974ء
طبعاول

کتاب اسلام میں خواتین کے حقوق، شہید مطہری کے بعض مقالات کا مجموعہ ہے جو انہوں نے اسلام میں عورت کے حقوق کے بارے میں تحریر کئے ہیں۔ سنہ 1966 اور 1967ء میں بعض لوگوں کی طرف سے ایران کے مدنی قوانین میں عائلی حقوق سے متعلق قوانین میں کچھ تبدیلیاں لانے کی تجاویز پیش کی گئیں جو مطہری کے نزدیک قرآن اور اسلام سے ہم آہنگ نہیں تھیں، ان تجاویز کے رد میں شہید مطہری نے ان مقالات کو مجلہ ’’زن روز‘‘ میں سلسلہ وار شائع کیا جو بعد ازاں 1974ء میں ’’اسلام میں خواتین کے حقوق‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں منظرِ عام پر آگئے۔ مصنف کا مقصد ان مقالات کے ذریعے مدنی قوانین میں موجود ان مادوں کا دفاع تھا جو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں۔

کتاب میں عورت سے متعلق مختلف مسائل پر بحث کی گئی ہے، جیسے: نکاح، عارضی نکاح (متعہ)، عورت کی سماجی خودمختاری، قرآن میں عورت کا مقام، عائلی حقوق کی فطری بنیادیں، مرد و عورت کے درمیان فرق، حق مہر و نفقہ، وراثت، طلاق کا حق، اور تعددِ زوجات وغیرہ۔

مصنف کے مطابق قرآن میں عورت کا تصور اُس کے فطری و طبیعی وجود کے مطابق ہے۔ وہ عورت کی فطرت اور قرآن کے بیان میں مطابقت کو اسلامی قوانین کی بالغ نظری اور جامع نگری قرار دیتے ہیں۔ اس کتاب کا انگریزی، عربی، فرانسیسی، روسی، ڈینش اور اردو زبان میں ترجمہ ہوا ہے، اردو زبان میں اس کا ترجمہ "اسلام میں خواتین کے حقوق" کے عنوان سے ہوا ہے۔

اہمیت اور تصنیف کے محرکات

کتاب اسلام میں خواتین کے حقوق، ایران کے اسلام شناس اور شیعہ مفکر مرتضیٰ مطہری (وفات 1979ء) کے 33 مقالوں کا مجموعہ ہے جو ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے سنہ 1966–1967ء کے دوران مجلہ ’’زن روز‘‘ میں ’’زن در حقوق اسلامی‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار شائع ہوئے ہیں۔[1] اس سلسلے کا پہلا مقالہ سنہ 1966ء کو مجلہ "زن روز" کے 88ویں شمارے میں شایع ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ مجلے کی پالیسی انقلاب اسلامی ایران سے پہلے مغربی اور سیکولر ثقافت کے فروغ پر مبنی تھی اور ایرانی خواتین کو مغربی طرز زندگی کی طرف مائل کرنا تھا۔[2]

مرتضیٰ مطہری کے بقول، ان کے یہ مضامین ابراہیم مہدوی زنجانی کی اُس 40 شقوں پر مشتمل قانونی مسودے کے رد میں لکھے گئے جن میں عائلی قوانین میں ایسی تبدیلیوں کی تجویز دی گئی تھی جو اسلام اور قرآن کے خلاف تھی۔[3] مطہری کے مطابق ان مقالات کا مقصد مدنی قوانین میں اسلام سے ہماہنگ قوانین کا دفاع تھا۔[4] یہ مقالات بعد میں کتابی صورت میں ’’نظامِ حقوقِ زن در اسلام‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔[5]

اس کتاب کا پہلا ایڈیشن شہید مطہری کے مقدمے[6] کے ساتھ ’’اسلام میں خواتین کے حقوق‘‘ کے نام سے شائع ہوا[7] اور سنہ 2023ء تک یہ کتاب 86 مرتبہ انتشارات صدرا سے مختلف زبانوں منجملہ انگریزی،[8] عربی،[9] فرانسیسی،[10] روسی،[11] ڈینش،[12] پشتو[13] اور اردو[14] میں شایع ہو چکی ہے۔

مصنف

مرتضیٰ مطہری ایران کے ایک شیعہ اسلام شناس[15] اور نظریہ پرداز مفکر تھے۔ ان کا شمار انقلاب اسلامی ایران کے لئے زمینہ ہموار کرنے والے افراد میں ہوتا ہے۔[16] انہوں نے حوزہ علمیہ قم میں آیت اللہ بروجردی، امام خمینی اور علامہ طباطبائی جیسے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔[17] تدریس کے ساتھ ساتھ انہوں نے متعدد موضوعات پر کتابیں لکھیں ہیں۔[18] منجملہ ان میں مسئلہ حجاب، اخلاق جنسی، عورت اور عدالتی و سیاسی مسائل[19] وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔

مضامین اور ترتیب

شہید مطہری

’’عورت اور مرد دو ایسے ستارے ہیں جو مختلف مداروں میں گردش کرتے ہیں۔ دونوں کی خوش بختی اور در حقیقت معاشرے کی خوش بختی اسی میں ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے مدار میں اپنی حرکت جاری رکھے۔ ان دونوں کی آزادی اور ان کے درمیان مساوات اسی وقت مفید ہے جب دونوں اپنے مدار اور فطری راستے سے خارج نہ ہوں۔ جو چیز اس معاشرے میں ناراحتی اور نارضگی کا باعث ہے وہ صرف اور صرف فطری اور طبیعی تقاضوں کے خلاف قیام ہے نہ کوئی اور چیز!‘‘[20]

اسلام میں خواتین کے حقوق کے 11 ابواب ہیں: 1۔ شادی کی خواستگاری (منگنی) 2۔ ازدواجِ موقت (متعہ) 3۔ عورت کی سماجی خودمختاری 4۔ اسلام اور جدید طرزِ زندگی 5۔ قرآن میں عورت کا انسانی مقام 6۔ عائلی حقوق کے فطری اصول 7۔ مرد و عورت کے درمیان فطری فرق 8۔ حق مہر و نفقہ 9۔ مسئلہ وراثت 10۔ حقِ طلاق 11۔ تعددِ زوجات۔[21]

مطہری نے ان کے علاوہ حق حضانت، عدت، پردہ، عفت و حیا اور عورت کا گھر سے باہر کام کرنا جیسے مباحث کو بھی زیر بحث لایا ہے، لیکن یہ موضوعات ان مقالات یا ان کے علاوہ ان کی دوسری کتابوں میں نشر نہیں ہوئے، تاہم اس کتاب کی دوسری جلد میں ان مباحث کو شایع کرنے کا وعدہ دے چکے ہیں۔[22] ان کے مطابق وہ دو انتہا پسند نظریات کے درمیان معتدل راہ پیش کرتے ہیں: ایک طرف وہ قدامت پسند افراد جو عورت کو انسان تسلیم نہیں کرتے، اور دوسری طرف وہ جدیدیت پسند افراد جو مرد اور عورت کے درمیان مطلق مساوات کے قائل ہیں۔[23]

نظریات

مطہری کے نزدیک قرآن میں عورت کا تصور وہی ہے جو فطرت میں ہے۔ ان کے مطابق اسلام نے عورت کو اس کی فطرت اور خلقت کے عین مطابق پیش کیا ہے۔[24] اس کتاب میں عورت سے متعلق ان کے نظریات کے چند اہم پہلو یہ ہیں:

حقوق کا مساوی نہ ہونا عدالت اور فطرت کا تقاضا

مطہری کے مطابق مرد اور عورت کی ساخت میں موجود تفاوت اور اختلاف تخلیق کا شاہکار اور توحید کی نشانی ہے۔ دونوں کی جسمانی اور روحانی ساخت مختلف ہے اور یہی تخلیقی اختلاف ان دونوں کو ایک دوسرے میں جذب ہونے اور ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ذریعہ ہے۔ مرد کو فطرتاً ’’جہان‌گیر‘‘ اور عورت کو ’’مردگیر‘‘ تخلیق کی گئی ہے۔[25]

اسلام کے نزدیک دونوں انسان ہیں، دونوں کے انسانی حقوق برابر ہیں، مگر وہ ہر پہلو سے یکساں نہیں۔ دنیا ان دونوں کے لیے ایک جیسی نہیں، ان کی فطرت اور خلقت ایک جیسی نہیں ہے۔ اسی فرق کے باعث ان کے حقوق، ذمہ داریاں اور سزائیں بعض پہلوؤں کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ مغربی دنیا میں مرد اور عورت کے درمیان موجود فطری افتراق کو نظر انداز کرکے ان دونوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق اور ذمہ داریاں دینا چاہتے ہیں۔ اور یہی چیز اسلام اور مغربی دنیا کے قوانین میں موجود اہم اختلافی نکتہ ہے۔ مطہری کہتے ہیں کہ ہمارا دعوا یہ ہے کہ مرد اور عورت کی فطرت اور خلقت کا تقاضا ’’تشابہ‘‘ اور "مساوات" نہیں بلکہ ’’تناسب‘‘ اور "عدالت" ہے۔ مرد اور عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں کا ایک جیسا نہ ہونا در حقیقت خاندان اور معاشرے کی سعادت اور خوش بختی کا ضامن ہے۔[26]

میراث میں عورت کا حصہ کم ہونے کی علت

وراثت میں عورت کو مرد سے کم حصہ ملنے کے بارے میں مطہری اس بات کے قائل ہیں کہ یہاں صرف مادی پہلو مد نظر نہیں بلکہ یہاں اسلام نے مرد اور عورت کے نفسیاتی اور سماجی پہلوں کو بھی مد نظر رکھا ہے۔ تولید مثل اور بچوں کی پیدائش جیسے امور کی وجہ سے خواتین کو مردوں کی نسبت مال و دولت کسب کرنے کی فرصت کم ملتی ہے، اس بنا پر اسلام نے مرد پر نفقہ اور مہریہ جیسے امور کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے، ساتھ ساتھ مردوں سے مالی بوجھ اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے ارث میں اس کا حصہ عورت کے مقابلے میں دوگنا قرار دیا ہے تاکہ اس کے ذریعے ان دونوں کے درمیان توازن برقرار رہے۔[27]

تک‌ ہمسری (ایک زوجہ پر اکتفا کرنا) بہتر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے... البتہ جو مسئلہ قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ سماجی ضروریات، خصوصاً شادی کی خواہشمند عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہونے کے باعث، تک ہمسری کا مطلقا اور ہر صورت میں بہتر ہونا عملی طور پر خطرے کا شکار ہے۔ ایسی مطلق تک ہمسری جو تمام خاندانوں پر یکساں طور پر نافذ ہو سکے، محض ایک افسانہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب دو ہی راستے باقی رہ جاتے ہیں: یا تو تعددِ ازواج کو باضابطہ حیثیت دی جائے، یا عشق بازی اور ناجائز تعلقات کو رواج ملے۔ مغربی طرزِ زندگی کے مروجین مسئلے کو صحیح پیش کرنے اور اس کی حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دراصل جنسی بے راہ روی اور عشق بازی کے قائل ہیں؛ ان کے نزدیک شرعی اور قانونی زوجہ ایک بوجھ اور رکاوٹ ہے، اور وہ لذت کو ازدواجی قیود سے آزادی میں تلاش کرتے ہیں۔[28]

تعددِ زوجات (ایک سے زیادہ بیویاں)

مطہری تک ہمسری(ایک زوجہ پر اکتفا کرنا) کو شادی بیاہ کا سب سے طبیعی اور فطری طریقہ قرار دیتے ہیں۔[29] وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ تعدد زوجات اسلام کا ابتکاری مسئلہ نہیں بلکہ اسلام سے پہلے حتی ابتدائی اقوام میں بھی یہ مسئلہ موجود تھا،[30] کہتے ہیں کہ البتہ اسلام نے ایک خاتون کے ساتھ کئی مردوں کی شادی اور ازدواجی رابطہ برقرار کرنے کو سرے سے باطل قرار دیتا ہے، لیکن ایک مرد کا ایک سے زیادہ خواتین کے ساتھ ازدواجی رابطہ برقرار کرنے کو محدود شرائط کے ساتھ برقرا رکھا۔ التبہ اس میں بھی اسلام نے چار سے زیادہ خواتین کے ساتھ بیک وقت شادی کرنے کو جائز قرار نہیں دیا اور دوسری طرف سے زوجات کے درمیان عدالت برقرار کرنے اور مرد میں مالی اور جنسی[31] لحاظ سے توانائی رکھنے کی شرط رکھی ہے، اور اسے تمام مردوں کے لئے یکساں قرار نہیں دیا ہے۔[32]

مطہری شادی کے لئے تیار مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہونے کو مد نظر رکھتے ہوئے[33] تعدد زوجات کو خود خواتین کے حق میں مردوں کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر معاشرے میں صرف تک ہمسری جائز ہو تو خواتین کی ایک بڑی تعداد شادی کرنے اور خاندان تشکیل دینے کے حق سے محروم ہو جائیں گی، جبکہ یہ حق ہر انسان خواہ مرد ہو یا عورت کا بنیادی اور فطری حق ہے اور کسی صورت میں کسی کو اس حق سے محروم کرنا جائز نہیں ہے۔[34] مطہری کا مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد کے زیادہ ہونے کی تاکید اس لئے ہے کہ جنگ اور دیگر حوادث کی وجہ سے عورتوں کے مقابلے میں مرد حضرات کی شرح اموات زیادہ ہے اور دوسری طرف مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی استطاعت زیادہ ہوتی ہے۔[35]

حقِ طلاق مرد سے مختص کیوں؟

مطہری کے مطابق عورت کی محبت اور وابستگی مرد کی محبت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس بنا پر اگر مرد سرد ہو جائے اور عورت سے بے وفائی کا اظہار کرے تو ازدواجی رشتہ عملاً ختم ہو جاتا ہے، لیکن اگر عورت سرد ہو جائے اور مرد کے مقابلے میں بے وفائی کا اظہار کرے تو مرد اپنی محبت سے اُسے واپس لا سکتا ہے۔ اسی فطری ساخت کے پیشِ نظر اسلام نے طلاق کا حق مرد کو دیا گیا ہے،[36] مگر اس کا مطلب عورت پر ملکیت نہیں بلکہ ذمہ داری ہے۔[37]

اسلام اور زمانے کے تقاضے

کتاب کے ایک باب میں ’’اسلام و تجددِ زندگی‘‘ کے عنوان سے زمانے کے تقاضوں اور اسلامی قوانین میں سازگاری پر گفتگو کرتے ہوئے[38] مطہری وضاحت کرتے ہیں کہ اسلام کے قوانین جامد نہیں بلکہ انسانی فطرت کی غیر متغیر ضرورتوں کے لیے قوانینِ ثابت، اور متغیر ضرورتوں کے لیے لچکدار اصول رکھتا ہے۔ یہی اسلام کی عقلانیت اور جاودانگی کی دلیل ہے۔[39]

حوالہ جات

  1. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 2023ء، ص24-26۔
  2. «غروب زن عروسکی | پہلوی حکومت کی جدید ثقافتی پالیسیوں پر ایک مطالعہ»، آنلائن ہمشہری نیوز ایجنسی۔
  3. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 2023ء، ص24۔
  4. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 2023ء، ص25۔
  5. اسحاقی، استاد شہيد مرتضی مطہری کی سوانح حیات اور افکار، 2008ء، ص37
  6. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 2023ء، ص26۔
  7. «غروب زن عروسکی | نگاهی به سیاست‌های نوسازی فرهنگی رژیم پهلوی»، خبرگزاری همشهری آنلاین۔
  8. «اسلام میں خواتین کے حقوق WOMAN IN ISLAM (انگلیسی)»، مرکز بین‌المللی ترجمه و نشر المصطفی(ص)۔
  9. «کتاب اسلام میں خواتین کے حقوق کے عربی ترجمے کی رونمائی»، بین الاقوامی اسلامی ثقافت اور ارتباطات ویب سائٹ۔
  10. «کتاب اسلام میں خواتین کے حقوق (فرانسیسی زبان)»، کتاب قم ویب سائٹ۔
  11. « "کتاب اسلام میں خواتین کے حقوق" کا روسی زبان میں ترجمہ منتشر ہوا»، خبرگزاری مهر۔
  12. «اسلام میں خواتین کے حقوق (ڈینش زبان میں ترجمہ)»، وبگاه کتاب قم۔
  13. «كتاب "اسلامی میں خواتین کے حقوق" کا پشتو زبان میں ترجمہ افغانستان میں شایع ہوا»، تقریب نیوز ایجنسی۔
  14. ترجمہ کتاب "اسلام میں خواتین کے حقوق" کا اردو ترجمہ پاکستان، مرکز احیاء آثار برصغیر
  15. امام خمینی، صحیفہ امام، 2010ء، ج7، ص178۔
  16. اسحاقی، استاد شہيد مرتضی مطہری کی سوانح حیات اور افکار، 2008ء، ص48و49۔
  17. اسحاقی، استاد شہيد مرتضی مطہری کی سوانح حیات اور افکار، 2008ء، ص30و31۔
  18. اسحاقی، استاد شہيد مرتضی مطہری کی سوانح حیات اور افکار، 2008ء، ص31-33۔
  19. موضوعی آثار استاد شہید آیت‌اللہ مطہری»، ویب سائٹ صدرا مطبوعاتی ادارہ۔
  20. مرتضی مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، مترجم مرتضی حسین، ص 44۔
  21. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص3-10، 25۔
  22. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص26۔
  23. «شہید مطہری کے افکار میں خواتین کے مسائلے کا مطالعہ»، مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔
  24. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص23۔
  25. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص170۔
  26. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص124-126۔
  27. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص226-227۔
  28. مرتضی مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، مترجم مرتضی حسین، ص 415۔
  29. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص289۔
  30. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص294-296۔
  31. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص353-358۔
  32. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص294۔
  33. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص320-323۔
  34. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص317، 326-327۔
  35. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص323-326۔
  36. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص249-252۔
  37. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص270۔
  38. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص85۔
  39. مطہری، اسلام میں خواتین کے حقوق، 1402ش، ص104-112۔

مآخذ