مرزا ابو القاسم قمی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | میزرا ابوالقاسم بن محمد حسن شفتی قمی |
لقب/کنیت | میرزائے قمی، صاحب قوانین، محقق قمی |
تاریخ ولادت | 1150 ھ |
آبائی شہر | بروجرد |
تاریخ وفات | 1231 ھ |
مدفن | قبرستان شیخان قم |
علمی معلومات | |
مادر علمی | اصفہان، قم، کربلا |
اساتذہ | آقا محمد باقر بہبہانی، سید حسین خوانساری |
شاگرد | شیخ اسد اللہ تستری، سید محسن اعرجی، سید عبداللہ شبر، سید محمد مھدی خوانساری، سید جواد عاملی، کرباسی، سید علی |
اجازہ اجتہاد از | آقا محمد باقر بھبھانی |
تالیفات | قوانین، جامع الشتات |
خدمات | |
سیاسی | بادشاہ وقت فتح علی شاہ قاجار سے خط و کتابت کے ذریعہ رابطہ اور اسے نصیحت کرنا |
سماجی | شہر قم میں نماز جمعہ و جماعت اقامہ کرنا |
میرزا ابو القاسم بن محمد حسن شفتی قمی (1150۔1231 ھ) میرزائے قمی کے نام سے معروف، بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں۔ میرزائے قمی بعض قاجار بادشاہوں کے معاصر تھے اور وہ انہیں عوام کے ساتھ مدارا اور ان کے مذہب کے ثبات کی نصیحت کرتے تھے۔ آپ کی دیگر فعالیت میں نماز جمعہ اور جماعت کے اقامہ کو شمار کیا جا سکتا ہے۔
ان کی مہم ترین تالیف قوانین نامی کتاب ہے اسی سبب سے انہیں صاحب قوانین کا لقب دیا گیا ہے۔ حجیت ظن مطلق، شئی واحد شخصی میں امر و نہی کا اجتماع، مجتہد کے فتاوی کے مطابق مقلدین کے لئے قضاوت کا جواز، آپ کے خاص فقہی آرا میں سے تھے۔
سوانح حیات
میرزائے قمی سنہ 1150 ھ میں شہر بروجرد سے 12 کیلو میٹر کے فاصلہ پر چابلق نامی علاقہ کے ایک قریہ درہ باغ میں پیدا ہوئے۔[1] چونکہ یہ گیلان کا علاقہ ہے اس لئے انہیں گیلانی یا جیلانی[2] اور چونکہ شفت میں ان کی ولادت ہوئی یے اس لئے انہیں شفتی کہا جاتا ہے۔[3]
سنہ 1231 ھ میں آپ نے شہر قم میں وفات پائی اور قبرستان شیخان میں دفن ہیں۔ آپ کے سنہ ولادت کو 1151ھ اور 1153ھ اور سنہ وفات کو 1233ھ میں بھی کہا گیا ہے۔[4]
آپ کے والد ایک فاضل و جامع کمالات عالم دین و عابد و زاہد تھے۔ جنہیں ملا حسن[5] یا آخوند ملا حسن کہا جاتا تھا۔[6] وہ فومن کے علاقہ شفت کے باشندہ تھے جنہوں نے جوانی میں اصفہان کے حوزہ علمیہ میں درس پڑھنے کے بعد چابلق کے علاقہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔[7] کأس السائلین نامی کتاب ان کی تالیف ہے۔[8]
داماد
- میرزا ابو طالب قمی؛ فقیہ، متکلم، محدث و ماہر علم اصول۔[9]
- ملا أسد اللّه بروجردی (متوفی 1270ھ)؛ میرزا کی بیٹی سے ان کے یہاں تین بیٹے ہوئے جنہیں محمدون ثلاث کہا جاتا تھا؛ میرزا فخر الدین محمد و جمال الدین محمد و نور الدین محمد۔ تینوں بھائیوں نے والد سے اجازه روایت و اجتہاد حاصل کیا تھا۔[10]
- مولی محمد خوانساری؛[11]
- ملا علی بروجردی؛[12]
- میرزا علی رضا طاهری قمی؛[13]
- شیخ علی بحرینی؛
- ملا محمد نراقی (متوفی 1297ھ)؛ مولف مشارق الاحکام۔ آپ ملا احمد نراقی مولف معراج السعاده کے فرزند ہیں۔ انہوں نے میرزای قمی اجازه اجتہاد حاصل کیا تھا۔[14]
وفات
میرزائے قمی نے سنہ 1231 ھ می وفات پائی اور قبرستان شیخان میں انہیں زکریا بن آدم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ شیخ عباس قمی کہتے ہیں کہ میں نے عالم رویا میں میرزا کو دیکھا۔ انہوں نے کہا: اہل قم کی شفاعت میرے ذمہ ہے۔[15]
تحصیل علم
میرزائے قمی نے فارسی و عربی ادبیات کی تعلیم درہ باغ میں اپنے والد سے حاصل کی اور اس کے بعد خوانسار کا رخ کیا جہاں انہوں نے سید حسین خوانساری کی شاگردی اختیار کی اور کئی سال تک ان کے محضر میں فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی اور خوانساری کی بہن سے شادی کرنے کے بعد وہ اٹھارہ سال کی عمر میں[16] عراق کے لئے روانہ ہو گئے جہاں انہوں نے کربلا میں آقا وحید بہبہانی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔[17]
اساتید و مشایخ
- حسین بن أبی القاسم حسینی خوانساری؛ خوانسار میں آپ کے استاد تھے اور آپ نے میرزا کو اجازہ روایت عطا کیا تھا۔[18]
- علامہ محمد باقر وحید بہبہانی؛ میرزا نے طویل مدت تک آپ سے استفادہ کیا اور آپ سے اجازہ اجتہاد حاصل کیا۔ میرزا ان سے خاص انسیت رکھتے تھے۔[19]
- شیخ محمد مهدی فتونی عاملی؛ میرزای قمی نے ان سے بھی اجازہ روایت حاصل کیا تھا۔[20]
- محمد باقر ہزار جریبی؛ میرزای قمی کو آپ نے بھی اجازہ روایت عطا کیا تھا۔[21]
- شیخ یوسف بن احمد آل عصفور بحرانی؛ میرزا کربلا میں آپ کے برجستہ شاگردوں میں سے تھے اور انہوں نے بھی میرزا کو بھی اجازہ روایت مرحمت فرمایا تھا۔[22]
غربت سے مرجعیت تک
درس کے بعد اپنے استاد آقا محمد باقر بہبہانی سے اجازہ و سند اجتہاد حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے وطن قرہ باغ لوٹ آئے اور اسی علاقہ کے ایک دیہات قلعہ بابو میں مشغول ہو گئے۔ وہاں سے وہ اصفہان کے مدرسہ کاسہ گران چلے گئے اور پھر وہاں سے انہوں نے شیراز کا رخ کیا، جہاں 2 یا 3 سال تک ان کا قیام رہا وہ زمانہ کریم خان زند کی تخت نشینی کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد وہ اصفہان لوٹ آئے اور پھر وہاں سے اپنے وطن قرہ باغ پلٹ آئے۔ بعض طلاب نے آپ کے فقہ و اصول کے دروس سے استفادہ کیا، آپ کی زندگی کی گزر بسر سخت تھی۔ اوپر سے حاسدین کے حسد شرایط کو مزید بدتر کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے رسالہ منجزات المریض کے آخر میں لکھا ہے کہ اس رسالہ کو مولف اس حال میں تحریر کیا کہ اس کے افکار نہایت آشفتہ اور آلام و مصائب کی کثرت تھی۔[23]
سفر کے دوران قم سے گذر ہوا تو اہل قم نے آپ سے قم میں قیام اور دینی تعلیمات سکھانے کی درخواست کی اور آپ نے ان کی دعوت قبول کر لی اور تدریس و تالیف میں مشغول ہو گئے۔ نماز جمعہ و جماعت قائم کی۔ عوام کثرت سے آپ کے پاس رجوع کرنے لگے یہاں تک کہ آپ کی شہرت پورے ایران میں ہو گئی اور آپ مرجع تقلید بن گئے۔[24]
مقام علمی
فاضل قمی و محقق قمی[25] ان کے مشہور القاب میں سے ہیں جو علماء کے درمیان ان کے بلند مرتبہ کے حاکی ہیں۔ نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے علامہ وحید بہبہانی کے بعد ایک خاص اصولی مدرسہ کی تاسیس کی تھی۔[26]
علمی اعتبار سے وہ اس قدر قوی تھے کہ کربلا کے بزرگ فقیہ سید علی طباطبایی صاحب ریاض المسائل و ملا علی نوری جیسے حکیم علماء سے علمی مباحثہ و مکاتبہ کیا کرتے تھے۔[27]
علم رجال، علم کلام و حکمت و تاریخ و حدیث تبحر کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت ایک فقیہ کے طور پر تھی۔ ان کی کتاب قوانین الاصول علماء کے درمیان مقبولیت کی حامل تھی۔ تدریس و تحقیق کے علاوہ اس پر شروح و حواشی بھی لکھے گئے ہیں۔[28]
تنکابنی نے ان کا تعارف پرچم تحقیق، علامہ فہامہ، مقنن قوانین، سالک راہ صدق و یقین، یکتا عالم با عمل، اسوہ فقہائے راسخ، رئیس دنیا و دین، زاہد ترین انسان و اعلم فقہائے زمان کے عنوان سے کیا ہے۔[29] محمد حسین قمی نے بھی انہیں مخلوقات پر حجت خدا، شیخ اعظم، ہمارے معظم مولا و عالم با عمل قرار دیا ہے۔[30] شیخ عباس قمی مولف مفاتیح الجنان کہتے ہیں کہ میرزائے قمی رکن دین، رئیس العلماء، علمائے اسلام کے آقا و متبحر فقہاء کے بزرگ ہیں۔[31] سید محسن امین عاملی نے انہیں علامہ و رئیس برجستہ مذہب شمار کیا ہے۔[32]
فقہ و اصول میں حجیت ظن مطلق، شئی واحد شخصی میں امر و نہی کا اجتماع، مجتہد کے فتاوی کے مطابق مقلدین کے لئے قضاوت کا جواز، آپ کے خاص فقہی و اصولی نظریات میں سے تھے۔[33]
تالیفات
نقل ہوا ہے کہ آپ نے مخلتف علوم میں 1000 سے زائد رسالے تحریر کئے ہیں۔ جو حد درجہ دقت و متانت پر مشتمل ہیں۔[34] آپ کی بعض کتابیں ذیل میں ذکر کی جا رہی ہیں:[35]
- القوانین المحکمة فی الاصول (مشهور بہ قوانین)؛ اس کتاب کا موضوع اصول فقہ ہے اور یہ سالہا حوزہ علمیہ کے نصاب میں شامل رہی ہے اور اس پر لکھی گئیں بعض شرحیں و حواشی مندرجہ ذیل ہیں:
- حاشیہ شیخ اعظم شیعہ، مرتضی انصاری (متوفی 1281ھ) بر مبحث استصحاب قوانین
- حدیقة البساطین فی شرح القوانین؛ تالیف میرزا محمد علی بن شیخ احمد انصاری قراچہ داغی
- حقائق القوانین؛ تالیف حاج میرزا محمود بن علی اصغر طباطبائی تبریزی فاطمی (متوفی 1310ھ)
- تعلیقه سید محمد اصفهانی شہیر بہ شهشانی (متوفی 1278ھ)
- تعلیقة سید علی قزوینی (متوفی 1300ھ)
- تعلیقة ملا لطف الله مازندرانی (متوفی 1311ھ)
- تعلیقه سید محس امین جبل عاملی
- حاشیة یا شرح علی شرح المختصر؛
- شرح تهذیب الوصل علامہ وحید بہبہانی؛
- مناهج الاحکام فی الطهارة و الصلاة؛
- جامع الشتات؛ (فارسی)
- معین الخواص؛
- مرشد العوام؛
- رسالة فی الاصول الخمسة الاعتقادیة؛
- رسالة فی قاعدة التسامح فی ادلة السنن؛
- رسالة فی جواز القضاء والتحلیف بتقلید المجتهد؛
- القوانین المحکمة فی الأصول؛
- رسایل المیرزا القمی؛
- غنایم الایام فی مسائل الحلال و الحرام؛
- حاشیہ بر قوانین الأصول؛
- رسالہ فارسی در اصول دین؛
- سوال و جواب در مسائل فقهی؛ 3 جلد
- دیوان شعر بہ عربی و فارسی؛ بالغ بر پنج هزار بیت
- رسالة فی عموم حرمة الربا لسائر عقود المفاوضات؛
- أرجوزة فی المعانی و البیان؛
- تراجم مشایخ الإجازة من الرواة؛
- رسالة فی الشروط الفاسدة فی البیع؛
- منظومہ ای در المعانی و البیان؛
- رسالة فی الرد علی الصوفیة و الغلاة؛
- رسالة فی الوقف؛
- رسالة فی الطلاق؛
- رسالة فی القضاء و الشهادات؛
- رسالة فی الفرائض و المواریث؛
- التسامح فی أدلة السنن؛
- حیل الربا؛
- حاشیة علی زبدة الأصول شیخ بہائی؛[36]
- رسالة فی الرد علی "هنری مارتن" کشیش مسیحی؛[37]
شاگردان
آپ کے شاگردوں کا تذکرہ مندرجہ ذیل سطور میں کیا جا رہا ہے:[38]
- شیخ اسد الله تستری (مولف کتاب المقابیس)، انہیں میرزا نے اجازہ روایت عطا کیا تھا۔[39]
- سید محسن اعرجی (مولف کتاب المحصول)، انہیں میرزا نے اجازہ روایت عطا کیا تھا۔[40]
- میرزا محمد ابراہیم کرباسی (مولف کتاب الاشارات)، انہیں میرزا نے اجازہ روایت عطا کیا تھا۔[41]
- سید عبد اللہ شبر (مولف کتاب مصابیح الانوار فی حل مشکلات الاخبار)
- سید مهدی موسوی خوانساری (مولف کتاب الرسالة المبسوطة فی احوال ابی بصیر)
- سید علی خوانساری (شارح منظومہ درہ بحر العلوم)، انہیں میرزا نے اجازہ روایت عطا کیا تھا۔[42]
- سید جواد عاملی (مولف کتاب مفتاح الکرامة)، انہیں میرزا نے اجازہ روایت عطا کیا تھا۔[43]
- آقا احمد کرمان شاہی (آیت اللہ وحید بہبہانی کے پوتے)، انہیں میرزا نے اجازہ روایت عطا کیا تھا۔[44]
- محمد علی بن محمد باقر هزار جریبی مولف مخزن الأسرار الفقهیة۔[45]
- شیخ محمد اسماعیل فدائی کزازی؛ میرزای قمی نے ان کے اجتہاد کی تصریح کی ہے۔[46]
اجتماعی و سماجی فعالیت
میرزائے قمی بعض قاجار سلاطین جیسے آقا محمد خان و فتح علی شاہ کے معاصر تھے اور فتح علی شاہ سے خط و کتابت کرتے تھے۔[47] انہی خطوط میں سے ایک میں انہوں نے سلطان کو عوام کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنے اور ایک دوسرے خط میں مذہب حقہ پر ثابت قدم رہنے اور صوفیت کی طرف مائل نہ ہونے کی نصیحت کی ہے۔[48] شاہ اس قدر آپ سے انس رکھتا تھا کہ وہ قم میں انہیں اپنے ہمراہ استحمام کی دعوت دیتا تھا۔ شاہ کو ان کے بیٹے کو اپنا داماد بنانے پر بھی اصرار تھا مگر میرزا نے اللہ سے چاہا کہ وہ ان کے بیٹے کو اس مہلکہ سے نجات دے۔ ان کے بیٹے کا جوانی میں انتقال ہوگیا۔[49] انہوں نے قم میں نماز جمعہ اور جماعت کے اقامہ کا اہتمام کیا۔[50] ان ہی کے زمانہ میں حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے گنبد کی طلاکاری اور مدرسہ فیضیہ کی باز ساز ہوئی۔[51]
حوالہ جات
- ↑ مقدمہ مصحح، جامع الشتات، ص۸.
- ↑ برقعی، راهنمای دانشوران در ضبط نامها، نسبها و نسبتها، ۱۳۸۴ش٬ ج۱، ص۱۷۳
- ↑ آزاد کشمیری، نجوم السماء، ۱۳۸۷ش٬ ج۱، ص۳۶۴
- ↑ مقدمہ مصحح، جامع الشتات، ص۹؛ الامین، اعیان الشیعة، ج۲، ص۴۱۲.
- ↑ آزاد کشمیری، نجوم السماء، ۱۳۸۷ش٬ ج۱، ص۳۳۳
- ↑ آقا بزرگ تهرانی، طبقات أعلام الشیعة، ۱۴۳۰ق٬ ج۹، ص۱۶
- ↑ مقدمہ مصحح، جامع الشتات، ص۸.
- ↑ آزاد کشمیری، نجوم السماء، ۱۳۸۷ش٬ ج۱، ص۳۳۴
- ↑ شریف رازی، گنجینہ دانشمندان، ۱۳۵۲ش٬ ج۱، ص۱۳۰
- ↑ امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۲۸۶.
- ↑ تهرانی٬ طبقات أعلام الشیعة، ۱۴۳۰ق٬ ج۱۲، ص۳۳۱
- ↑ تهرانی٬ الذریعة، ۱۴۰۳ق٬ ج۴، ص۵۸
- ↑ تهرانی، نقباء البشر، ۱۴۰۴ق٬ ج۱، ص۳۳۷.
- ↑ گلشن ابرار، جمعی از نویسندگان، ۱۳۸۴ش٬ ج۵، ص۱۹۲
- ↑ حسینی، مردان علم در میدان عمل، ۱۳۷۷ش٬ ج ۳، ص۳۶.
- ↑ قمی، غنائم الأیام، ج۱، ص۳۹
- ↑ مقدمہ مصحح، جامع الشتات، ص۹.
- ↑ ناصر الشریعہ٬ تاریخ قم، ۱۳۸۴ش٬ ص۲۹۳
- ↑ امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۴۱۲.
- ↑ امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۴۱۲.
- ↑ آشتیانی، بحر الفوائد فی شرح الفرائد، ۱۳۸۸ش٬ ج۸، ص۶۵۷
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرة فی أحکام العترة الطاهرة، المقدمة، ۱۴۰۵ق، ص۱۲.
- ↑ قمی، رسائل المیرزا القمی، ۱۴۲۷ق٬ ج۱، ص۸ -۱۰
- ↑ الامین، اعیان الشیعة، ج۲، ص۴۱۲.
- ↑ برقعی، راهنمای دانشوران در ضبط نامها، نسبها و نسبتها، ۱۳۸۴ش٬ ج۲، ص۲۳۶
- ↑ قانصوه، المقدمات و التنبیهات، ۱۴۱۸ق٬ ج۱، ص۲۵
- ↑ قمی٬ غنائم الأیام، ج۱، ص۴۰
- ↑ خوانساری، روضات الجنات فی أحوال العلماء و السادات، ۱۳۹۰ق٬ ج۴، ص۴۰۲
- ↑ تنکابنی٬ قصص العلماء، ۱۳۸۳ش٬ ص۲۲۴
- ↑ قمی، توضیح القوانین، ۱۳۰۳ق٬ ص۲
- ↑ قمی، الکنی و الألقاب، ۱۳۶۸ش٬ ج۱، ص۱۴۳
- ↑ امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۴۱۱.
- ↑ الامین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۴۱۱.
- ↑ آزاد کشمیری، نجوم السماء، ۱۳۸۷ش٬ ج۱، ص۳۶۴
- ↑ الحسینی السیدی، علی، مقدمہ «مناهج الاحکام»، ص۶.
- ↑ آشتیانی، بحر الفوائد فی شرح الفرائد، ۱۳۸۸ش٬ ج۸، ص۶۵۸ (موارد اخیر)
- ↑ سبحانی٬ موسوعة طبقات الفقهاء، ج۱۳، ص۵۲
- ↑ الحسینی السیدی، علی، مقدمہ «مناهج الاحکام»، ص۶.
- ↑ امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۲۳۸.
- ↑ صدر٬ تکملة أمل الآمل،۱۴۲۹ق٬ ج۴، ص۳۰۵
- ↑ امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۲۰۷.
- ↑ امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۴۱۲.
- ↑ صدر٬ تکملة أمل الآمل،۱۴۲۹ق٬ ج۱، ص۸۲
- ↑ عقیقی، طبقات مفسران شیعہ، ۱۳۸۷ش٬ ص۷۲۲
- ↑ صدر٬ تکملة أمل الآمل،۱۴۲۹ق٬ ج۵، ص۲۳۹
- ↑ امین٬ مستدرکات أعیان الشیعة، ۱۴۰۸ق٬ ج۲، ص۲۹۹
- ↑ الحسینی السیدی، علی، مقدمہ مناهج الاحکام، ص۶.
- ↑ الحسینی السیدی، علی، مقدمہ مناهج الاحکام، ص۷.
- ↑ قمی، رسائل المیرزا القمی، ۱۴۲۷ق٬ ج۱، ص۱۱-۱۰
- ↑ الامین، اعیان الشیعة، ج۲، ص۴۱۲.
- ↑ ناصر الشریعہ٬ تاریخ قم، ۱۳۸۴ش٬ ص۸۳
مآخذ
- امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، حققہ و اخرجہ و استدرک علیہ حسن الامین، بیروت٬ دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ھ-۱۹۸۶ء
- قمی، ابو القاسم بن محمد حسن، جامع الشتات (فارسی)، تصحیح: مرتضی رضوی، تہران٬ کیہان، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
- قمی، ابو القاسم بن محمد حسن، مناہج الاحکام، قم٬ مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۲۰ھ
- آزاد کشمیری، محمد علی بن محمد صادق، نجوم السماء فی تراجم العلماء (گیارہ، بارہ اور تیرہویں صدی ہجری کے علما کے حالات زندگی)، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، شرکت چاپ و نشر بین الملل، چ۲، ۱۳۸۷ ہجری شمسی۔
- برقعی، علی اکبر، راہنمای دانشوران در ضبط نامہا، نسبہا و نسبتہا، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، دفتر انتشارات اسلامی، چ۱، ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
- ناصر الشریعہ، محمد حسن، تاریخ قم، تصحیح علی دوانی، تہران، رہنمون، چاپ اول، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
- روضات الجنات فی أحوال العلماء و السادات، خوانساری، محمد باقر بن زین العابدین، قم، دہاقانی (اسماعیلیان)، چ۱، ۱۳۹۰ہجری۔
- جمعی از نویسندگان، گلشن ابرار، قم٬ نور السجاد٬ ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
- حسینی، نعمت اللہ٬ مردان علم در میدان عمل، قم، مولف، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
- قانصوہ، محمود، المقدمات و التنبیہات فی شرح أصول الفقہ بیروت، چاپ اول، ۱۴۱۸ھ
- قمّی، ابو القاسم بن محمد حسن، رسائل المیرزا القمی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی- شعبہ خراسان، چ اول، ۱۴۲۷ھ
- آشتیانی، محمد حسن بن جعفر، بحر الفوائد فی شرح الفرائد، قم، چاپ اول، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
- بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی أحکام العترۃ الطاہرۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ، چ اول، ۱۴۰۵ھ
- صدر، حسن، تکملۃ أمل الآمل، بیروت، دار المؤرخ العربی، چ۱، ۱۴۲۹ھ
- امین، حسن، مستدرکات أعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، چ۱، ۱۴۰۸ھ
- عقیقی بخشایشی، عبد الرحیم، طبقات مفسران شیعہ، قم، دفتر نشر نوید اسلام، چ۴، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
- قمی، محمد حسین بن محمد، توضیح القوانین تہران، چاپ اول، ۱۳۰۳ھ
- قمی، عباس، الکنی و الألقاب، تہران، مکتبۃ الصدر، چ۵، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
- تنکابنی، محمد بن سلیمان، قصص العلماء، تہران، انتشارات علمی فرہنگی، چ اول، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
- شریف رازی، محمد، گنجینہ دانشمندان، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ۱۳۵۲ہجری شمسی۔
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، طبقات أعلام الشیعۃ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چ۱، ۱۴۳۰ھ
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دار الأضواء، چ۳، ۱۴۰۳ھ